Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

تفسیر سورۃ البقرۃ آیت نمبر (281)

جلیل قدر فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب"التیسیر فی اصول التفسیر" سے اقتباس

 

 

سود (ربا) کے بارے میں ایک اہم نوٹ:

 

سورۃ البقرہ میں سود (ربا) کے موضوع پر آیات نازل ہونے کے بعد، اس اہم موضوع پر غور کرنا ضروری ہے۔ میں اللہ کی توفیق سے کہتا ہوں:

 

1- ربا کی لغوی تعریف:

 

لغوی طور پر، ربا کا مطلب مطلق اضافہ یا بڑھوتری ہے۔ کہا جاتا ہے: "رَبا الشيء يَربو" یعنی "کوئی چیز بڑھی یا اضافہ ہوا"۔ یہ بات اُس حدیث سے بھی واضح ہوتی ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے:

فَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرَ مِنْهَا

"اللہ کی قسم! ہم کوئی لقمہ نہ اٹھاتے مگر یہ کہ اس کے نیچے والا حصہ اس سے زیادہ بڑھ جاتا"(مسلم:3833

یہ اس کھانے کے بارے میں تھا جس پر رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا فرمائی تھی۔

 

عربوں میں ربا (سود) کی عام صورت یہ تھی کہ جب قرض کی مدت پوری ہو جاتی، تو وہ مقروض سے کہتے: "کیا تم قرض ادا کرو گے یا اس میں اضافہ کرو گے؟" اگر مقروض رقم ادا نہ کر سکتا، تو قرض دہندہ اس کی مدت بڑھانے کے بدلے اصل رقم میں اضافہ کر دیتا۔ اس طرح اگلی مدت کے لیے جو رقم واجب الادا ہوتی، وہ اصل قرض اور اضافی بڑھوتری پر مشتمل ہوتی۔ پس، ادائیگی میں تاخیر کے سبب قرض میں کسی بھی طرح کا اضافہ عربوں میں ربا شمار ہوتا، اور وہ اسے اپنے درمیان جائز سمجھتے تھے۔

 

2- ربا کی شرعی تعریف:

 

شریعتِ اسلامی میں، ربا کو ایک مخصوص اور متعین حقیقت کے طور پر دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:

 

پہلی قسم: ربا النسیئہ (ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے سود)

 

یہ وہ سود ہے جو قرض کی مدت میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، جسے "نسیئہ" (تاخیر) کہا جاتا ہے۔ یہی وہ سود تھا جو عربوں میں رائج تھا، یعنی قرض کی مقررہ مدت پوری ہونے پر مقروض سے کہا جاتا: "یا ادا کرو، یا رقم میں اضافہ کرو"۔ چنانچہ، وہ قرض کی اصل رقم میں اضافہ کر دیتے اور ادائیگی کی مدت بڑھا دی جاتی۔ اسلام نے اس لغوی تعریف کو برقرار رکھتے ہوئے اسے سود قرار دیا اور اس میں ایک اور شرعی پہلو شامل کیا، جو یہ ہے: "کسی مخصوص چیز کو اسی قسم کی یا کسی اور قسم کی چیز کے بدلے میں بیچنا، لیکن فوری طور پر ہاتھوں ہاتھ معاملہ طے نہ کرنا، بلکہ کسی بعد کی مدت تک مؤخر کر دینا، چاہے قیمت برابر ہو، کم ہو یا زیادہ"۔

 

اس طرح شرعی لحاظ سے ربا النسیئہ کی دو صورتیں ہیں:

 

1.   قرض کی ادائیگی میں تاخیر کے بدلے میں رقم میں اضافہ کرنا۔

 

2.   وہ چھ اشیاء جن میں سود کا حکم لاگو ہوتا ہے، ان میں سے کسی ایک کو اسی کی جنس یا کسی اور جنس کے بدلے بیچنا، لیکن معاملہ ہاتھوں ہاتھ طے نہ کرنا، بلکہ کسی بعد کی تاریخ پر مؤخر کر دینا شامل ہے۔

 

دوسری قسم: ربا الفضل (اضافے کا سود)

 

یہ وہ سود ہے جو مقدار میں فرق کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، تاخیر کی وجہ سے نہیں۔ جب کوئی شخص ان مخصوص اشیاء میں سے کسی ایک کو اسی کی جنس کے بدلے میں بیچتا ہے، لیکن مقدار برابر نہیں ہوتی، تو یہ ربا الفضل کہلاتا ہے، چاہے معاملہ ہاتھوں ہاتھ ہی کیوں نہ ہو۔

 

وہ چھ اشیاء جن پر سود کا حکم لاگو ہوتا ہے، یہ ہیں: سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک۔ اس کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کی وہ صحیح احادیث ہیں جو خرید و فروخت اور قرض کے معاملات سے متعلق وارد ہوئی ہیں۔

 

3- سود (ربا) اور لین دین سے متعلق احادیث:

 

حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، يَدًا بِيَدٍ، فَمَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ فَقَدْ أَرْبَى، الْآخِذُ وَالْمُعْطِي فِيهِ سَوَاءٌ "سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، اور نمک نمک کے بدلے، برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ تبادلہ ہونا چاہیے۔ جو کوئی بھی زیادہ لے یا زیادہ دینے کا مطالبہ کرے، وہ سود میں مبتلا ہو گیا۔ لینے والا اور دینے والا دونوں اس میں برابر کے گناہ گار ہیں"۔ (مسلم: 1588)

 

حضرت عبادہ بن صامت (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ تِبْرُهَا وَعَيْنُهَا، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ تِبْرُهَا وَعَيْنُهَا، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ مُدِّي بِمُدِّي، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ مُدِّي بِمُدِّي، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ مُدِّي بِمُدِّي، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مُدِّي بِمُدِّي، فَمَنْ زَادَ أَوِ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَى، وَلَا بَأْسَ بِبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْفِضَّةِ وَالْفِضَّةُ أَكْثَرُهُمَا يَدًا بِيَدٍ، وَأَمَّا نَسِيئَةً فَلَا، وَلَا بَأْسَ بِبَيْعِ الْبُرِّ بِالشَّعِيرِ وَالشَّعِيرُ أَكْثَرُهُمَا يَدًا بِيَدٍ وَأَمَّا نَسِيئَةً فَلَا "سونا سونے کے بدلے، چاہے خام ہو یا ڈھلا ہوا، چاندی چاندی کے بدلے، چاہے خام ہو یا ڈھلی ہوئی، گندم گندم کے بدلے، ناپ برابر ہو، جو جو کے بدلے، ناپ برابر ہو، کھجور کھجور کے بدلے، ناپ برابر ہو، اور نمک نمک کے بدلے، ناپ برابر ہو۔ جو کوئی بھی زیادہ لے یا زیادہ دینے کا مطالبہ کرے، وہ سود میں مبتلا ہو گیا۔ سونے کو چاندی کے بدلے بیچنے میں کوئی حرج نہیں، اگر ایک دوسرے سے زیادہ ہو، لیکن یہ ہاتھوں ہاتھ ہو، ادھار جائز نہیں۔ اسی طرح، گندم کو جو کے بدلے بیچنے میں کوئی حرج نہیں، اگر ایک دوسرے سے زیادہ ہو، لیکن یہ ہاتھوں ہاتھ ہو، ادھار جائز نہیں۔" (ابو داود: 2907)

 

حدیث میں دی گئی تعریفیں:

 

l   مدی (Mudi): حجم ناپنے کا ایک پیمانہ۔

 

l   تبر (Tibr): سونے یا چاندی کے وہ ٹکڑے جو ابھی سکے (دینار یا درہم) نہ بنے ہوں۔

 

l   عین (Ayn): سونے یا چاندی کے وہ سکے جو ڈھالے جا چکے ہوں۔

 

جملہ ''تبرها وعينها سواء'’ کا مطلب ہے: "چاہے وہ خام حالت میں ہو یا سکے کی شکل میں، دونوں کو برابر سمجھا جائے گا"۔

 

الدارقطني نے حضرت علیؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الدينار بالدينار والدرهم بالدرهم لا فضل بينهما، من كانت له حاجة بورق فليصرفها بذهب وإن كانت له حاجة بذهب فليصرفها بورق هاء بهاء "دینار دینار کے بدلے، درہم درہم کے بدلے، ان کے درمیان کوئی فضیلت (اضافہ) نہیں۔ اگر کسی کو چاندی (درہم) کی ضرورت ہو تو وہ اسے سونے (دینار) کے بدلے میں تبدیل کر لے، اور اگر کسی کو سونے کی ضرورت ہو تو وہ اسے چاندی کے بدلے میں تبدیل کر لے—اور یہ تبادلہ فوری اور ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہیے"۔ (الدارقطنی:25/3)

 

حدیث سے حاصل ہونے والے عملی اصول:

 

اگر کوئی شخص کسی خاص قسم کی کھجور کو پسند کرتا ہے، تو وہ پہلے اپنی کھجور کسی اور چیز کے بدلے فروخت کر سکتا ہے اور پھر حاصل شدہ رقم سے اپنی پسندیدہ کھجور خرید سکتا ہے۔

 

لیکن اگر کھجور کا تبادلہ کھجور کے بدلے میں ہو، تو مقدار میں برابری اور ہاتھوں ہاتھ لین دین ضروری ہے۔

 

صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضرت بلالؓ اعلیٰ درجے کی کھجوریں لے کر آئے۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا: "یہ کہاں سے لائے ہو؟" بلالؓ نے جواب دیا: "ہمارے پاس کم درجے کی کھجوریں تھیں، تو میں نے دو پیمانے ان کھجوروں کے ایک پیمانے اعلیٰ کھجوروں کے بدلے میں دیے تاکہ نبی ﷺ کے کھانے کے لیے اچھی کھجور ملے"۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: أوه، عين الربا لا تفعل، ولكن إذا أردت أن تشتري التمر فبعه ببيع آخر ثم اشتر به " اوہ! یہ تو خالص سود (ربا) ہے، ایسا مت کرو۔ اگر تمہیں اچھی کھجور خریدنی ہو تو پہلے اپنی کھجور کو کسی اور چیز کے بدلے فروخت کرو اور پھر اس رقم سے بہتر کھجور خرید لو"۔(بخاری:2145، مسلم: 2985)

 

ایک اور روایت میں نبی ﷺ نے فرمایا: هذا الربا فردوه، ثم بيعوا تمرنا واشتروا لنا من هذا "یہ سود (ربا) ہے، اسے واپس کرو، پھر ہماری کھجور فروخت کرو اور اس کی قیمت سے بہتر کھجور خرید لو"۔(مسلم: 2986)

 

یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ ربا (سود) پر مبنی لین دین صرف فاسد نہیں بلکہ کالعدم (باطل) ہے۔ پورے معاملے (Transaction) کو ختم کرنا ضروری ہے، اور دونوں فریقوں کو وہ چیزیں واپس کرنی ہوں گی جو انہوں نے ایک دوسرے سے لی تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت بلالؓ کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ صرف اضافی مقدار واپس کریں، بلکہ پورے سودے کو ختم کرنے، خریدی گئی کھجوریں واپس کرنے اور بیچی گئی کھجوریں واپس لینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد، آپ ﷺ نے یہ مشورہ دیا کہ کم درجے کی کھجوروں کو پہلے درہم یا دینار کے بدلے فروخت کیا جائے اور پھر اس رقم سے اعلیٰ درجے کی کھجور خریدی جائے۔

 

نبی کریم ﷺ کا جملہ "أوه" ناپسندیدگی یا تکلیف کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضرت بلالؓ کا یہ عمل سخت مذمت کے لائق تھا۔

 

چھ خاص اشیاء: سونا، چاندی، گیہوں، جو، کھجور اور نمک—ان کا لین دین ہاتھوں ہاتھ اور ایک ہی مجلس میں ہونا لازم ہے۔

 

اگر ان اشیاء کا آپس میں تبادلہ ہو (مثلاً سونا سونے سے، گیہوں گیہوں سے)، تو مقدار برابر ہونا ضروری ہے، ورنہ یہ ربا الفضل کہلائے گا۔

 

مثال کے طور پر، بعض سونے کی دکانوں میں سونے کے بدلے سونا یا چاندی کے بدلے چاندی غیر مساوی وزن میں لینا—جیسے ایک انگوٹھی کے بدلے ایک کڑا دینا—یہ ربا الفضل میں آتا ہے، کیونکہ معیار کے فرق کی وجہ سے مقدار میں کمی بیشی کی جاتی ہے۔ البتہ، اگر سونے کے بدلے چاندی، یا کسی دوسری کرنسی کا تبادلہ ہو، تو چاہے برابر مقدار میں ہو یا نہ ہو، یہ جائز ہے، بشرطیکہ لین دین ہاتھوں ہاتھ اور اسی مجلس میں مکمل ہو۔ تاخیر سے ادائیگی کسی بھی صورت میں جائز نہیں، چاہے لین دین ہم جنس اشیاء میں ہو یا مختلف اشیاء میں، کیونکہ یہ ربا النسیئہ میں شمار ہوگا۔

 

چھ اشیاء کے بارے میں وضاحت:

 

یہ چھ اشیاء—سونا، چاندی، گیہوں، جو، کھجور اور نمک—حدیث میں صراحت کے ساتھ ذکر کی گئی ہیں اور یہ مقررہ (ثابت شدہ) اقسام ہیں، جنہیں "أسماء جامدة" کہا جاتا ہے۔ ان کے احکام قیاس پر مبنی نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی علت ہے۔ لہٰذا، ان کے احکام کو کسی اور اشیاء تک نہیں بڑھایا جا سکتا۔

 

 

چھ اشیاء میں تاخیر سے تبادلے کی ممانعت سے استثنا (ادھار فروخت یا سَلَم کا معاملہ):

 

اللہ سبحانہ و تعالی نے چھ مخصوص اشیاء—سونا، چاندی، گیہوں، جو، کھجور اور نمک—کے تاخیر سے ادائیگی والے سودے کی ممانعت سے ایک استثنا رکھا ہے۔  یہ استثنا سلم (مستقبل کی فروخت) نامی مخصوص قسم کی خرید و فروخت پر لاگو ہوتا ہے، جس میں ادائیگی پہلے نقد (چاہے وہ نقدی، سونا، چاندی یا کوئی اور حاضر شے ہو) کر دی جاتی ہے، جبکہ مال بعد میں فراہم کیا جاتا ہے۔ اسے بیع السلف (ایڈوانس سیل) بھی کہا جاتا ہے۔

 

اس طرح کا معاملہ جائز ہے، اور اس میں نہ فوری تبادلہ ضروری ہے، نہ ہی تاخیر ربا شمار ہوتی ہے۔ یہ حکم اس وقت بھی لاگو ہوتا ہے جب ادائیگی اور موخر کی گئی شے ان چھ مخصوص اشیاء میں سے ہوں، جیسے سونے میں ادائیگی اور گیہوں یا جو کی تاخیر سے فراہمی۔ اس جواز کی واضح شرعی نصوص سے تائید ہوتی ہے۔

 

سلم کے جواز کے دلائل:

 

الف- قرآن سے دلیل:

 

اللہ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فرماتے ہیں﴿ :يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ﴾اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت کے لیے قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو"  [سورۃ البقرہ: 282

 

سلم بھی قرض کی ایک قسم ہے، کیونکہ ایک فریق پیشگی ادائیگی وصول کرتا ہے، جبکہ دوسرا فریق بعد میں متعین شے فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ تفسیر کی کتابوں میں اس آیت کو سلم کے جواز پر بھی محمول کیا گیا ہے۔

 

ب- سنت سے دلیل (حدیث):

 

1. حضرت ابن عباسؓ کی حدیث:

 

صحیح بخاری میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ پھلوں کے سلم کے معاملات ایک، دو یا تین سال کے لیے کرتے تھے۔ تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: من أسلف فليسلف في كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم "جو کوئی سلم کا معاملہ کرے تو وہ مقررہ پیمانے، مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے ساتھ کرے" [صحیح بخاری:2085

 

2. حضرت عبداللہ بن أبي أوفىؓ کی حدیث:

 

صحیح بخاری میں محمد بن المجلد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن شداد اور ابو بردہ نے مجھے عبداللہ بن أبي أوفىؓ کے پاس بھیجا تاکہ ان سے دریافت کریں کہ کیا نبی کریم ﷺ کے زمانے میں صحابہ کرام سلم کا معاملہ کرتے تھے؟ عبداللہ بن أبي أوفىؓ نے جواب دیا: كنا نسلف نبيط أهل الشام في الحنطة والشعير والزيت في كيل معلوم إلى أجل معلوم "ہم اہل شام کے نبطیوں کے ساتھ گیہوں، جو اور تیل کے سلم کے معاملات کیا کرتے تھے، ایک مقررہ پیمائش اور مقررہ مدت کے ساتھ"۔

 

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس وقت فروخت کنندگان کے پاس وہ اجناس موجود ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے فرمایا: ما كنا نسألهم عن ذلك "ہم ان سے اس بارے میں نہیں پوچھتے تھے"۔(بخاری: 2088)

 

اسی طرح عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے بھی یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: كان أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم يسلفون على عهد النبي صلى الله عليه و سلم ولم نسألهم ألهم حرث أم لا "نبی کریم ﷺ کے زمانے میں صحابہ کرام سلم کا معاملہ کیا کرتے تھے، اور ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ ان کے پاس کھیتیاں تھیں یا نہیں"۔

 

لہٰذا، سلم کا معاملہ درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

 

-       مال کی قسم، معیار اور مقدار واضح طور پر متعین ہونی چاہیے۔

 

-       پیمائش یا وزن طے شدہ ہونا چاہیے۔

 

-       ڈیلیوری کی مدت واضح طور پر متعین ہونی چاہیے۔

 

-       ادائیگی مکمل اور مقدم ہونی چاہیے، یعنی عقد کے وقت پوری رقم ادا کر دی جائے۔

 

ان شرعی اور معاہداتی ضوابط کے اندر رہتے ہوئے سلم کے معاملات جائز ہیں۔

 

ربا کی اقسام میں تاخیر سے لین دین کی ممانعت سے مستثنیٰ صورتیں:

 

1. سلم کا معاہدہ:
سلم، جو کہ پیشگی خرید و فروخت کا ایک طریقہ ہے، ربا (سود) سے متعلق اشیاء میں تاخیر سے ادائیگی کی ممانعت سے مستثنیٰ ہے۔ اسی طرح، یہ اس پابندی سے بھی آزاد ہے جو کسی ایسی چیز کی فروخت پر ہوتی ہے جو فروخت کے وقت بیچنے والے کی ملکیت میں نہ ہو، کیونکہ سلم معاہدے میں فروخت کنندہ کے پاس مال موجود نہیں ہوتا، بلکہ وہ اسے بعد میں فراہم کرتا ہے۔

 

2. عُرَایا کی فروخت:

 

ایک اور استثنیٰ عُرَایا کی بیع ہے، جس میں ایسا شخص جو خود کھجور کے درختوں کا مالک نہیں ہوتا، درخت پر موجود پھلوں کو ان کھجوروں کے بدلے خرید سکتا ہے جو اس کے پاس پہلے سے موجود ہوں۔ یہاں اگرچہ دونوں چیزیں ایک ہی قسم سے تعلق رکھتی ہیں، جیسے تازہ کھجوریں، نیم خشک کھجوریں یا مکمل خشک کھجوریں، اور درخت پر لگے پھل اور دی جانے والی کھجوروں کے وزن یا مقدار میں فرق ہوتا ہے، پھر بھی یہ معاملہ جائز ہے۔

 

یہ استثنا نبی کریم ﷺ کی حدیث پر مبنی ہے: رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم ببيع العرايا "رسول اللہ ﷺ نے عُرَایا کی بیع کی اجازت دی"۔ (البخاري: 2041، مسلم: 2841)

 

عُرَایا ایک مخصوص کھجور کے درخت کو کہا جاتا ہے جو عام اصولوں سے مستثنیٰ ہوتا ہے، اور اس کے پھل ذاتی استعمال کے لیے خریدے جاتے ہیں۔

 

قرض میں ربا:

 

ربا (سود) کا اطلاق صرف ان چھ مخصوص رباوی اشیاء پر نہیں ہوتا، بلکہ ہر قسم کے قرض پر ہوتا ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کے فرمان پر مبنی ہے: كلّ قرض جر نفعاً فهو ربا  "ہر وہ قرض جو کسی نفع کا سبب بنے، وہ ربا ہے"۔ (السنن الكبرى للنسائي: 5/350)

 

یہاں "قرض" کا لفظ عام اور غیر مشروط ہے، جو ہر چیز اور ہر حالت پر لاگو ہوتا ہے۔

 

امام بخاری نے اپنی کتاب التاریخ میں حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إذا أقرض فلا يأخذ هدية "جب قرض دو تو کوئی تحفہ مت لو"۔(البيهقي: 5/350)

 

لہٰذا، اگر قرض کی واپسی پر کوئی اضافی فائدہ یا اضافہ لیا جائے، تو یہ ربا شمار ہوگا۔

 

البتہ، اگر قرض لینے والا اپنی طرف سے قرض کی واپسی بہتر کرے، بغیر کسی شرط کے، تو یہ جائز ہے اور ربا میں شامل نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر:

 

l   پرانے سونے کے سکے کو اسی وزن کے نئے سکے سے واپس کرنا۔

 

l   قرض لیا ہوا اونٹ بہتر معیار کے اونٹ سے واپس کرنا، بشرطیکہ یہ بہتری پہلے سے طے نہ ہو۔

 

یہ نبی کریم ﷺ کے عمل سے بھی ثابت ہے۔ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ کسی سے اونٹ قرض لیا، اور جب صدقے کے اونٹ آئے تو آپ ﷺ نے اس شخص کو ایک بہتر اونٹ واپس کیا اور فرمایا: أجودكم أجودكم قضاء "تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو سب سے بہتر طریقے سے قرض واپس کرے"۔( البيهقي: 5/350)

 

اسی وجہ سے ربا دو بنیادی صورتوں میں واقع ہوتا ہے:

 

1. خرید و فروخت: ان چھ رباوی اشیاء (سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک) کے تبادلے میں۔

 

2. قرض: کسی بھی قسم کی اشیاء یا سامان پر، جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی۔

 

ربا (سود) کی شدید ممانعت:

 

ربا کو اسلام میں سختی سے حرام قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن کی درج ذیل آیات سے واضح ہوتا ہے:

 

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴾ "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود میں سے باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو" (سورۃ البقرہ: 278

 

اللہ (سبحانہ و تعالیٰ) نے مزید فرمایا: ﴿ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴾ "اور اگر تم (سود چھوڑنے پر) عمل نہ کرو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارا اصل سرمایہ تمہارا ہی ہے۔ نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا" (سورۃ البقرہ: 279

 

یہ آیات ربا میں ملوث ہونے کو اللہ (سبحانہ و تعالیٰ) اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ کے مترادف قرار دیتی ہیں۔

 

سنت میں ربا کے خلاف سخت وعیدیں:

 

1. حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کی حدیث:
مسلم شریف میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اجتنبوا السبع الموبقات، وفيها: آكل الربا
"سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو، اور ان میں سے ایک سود کھانا ہے"
۔(مسلم: 129)

 

2. حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کی حدیث:
ابو داؤد میں روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:
لعن رسول الله صلى الله عليه و سلم آكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهده "رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، سود دینے والے، اس کے لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی"۔(أبو داوود: 2895)

 

3. حضرت عبداللہ بن حنظلہ (رضی اللہ عنہ) کی حدیث:
دارقطنی میں حضرت عبداللہ بن حنظلہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے، جو "فرشتوں کے غسل دیے جانے والے" کے لقب سے مشہور ہیں، کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لدرهم ربا أشد عند الله تعالى من ست وثلاثين زنية في الخطيئة "اللہ کے نزدیک ایک درہم سود کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سنگین گناہ ہے"۔ (تفسير القرطبي: 3/364)

 

4. حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کی حدیث:
حاکم میں روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الربا ثلاثة وسبعون باباً، أيسرها أن ينكح الرجل أمه، وإن أربى الربا عرض الرجل المسلم "ربا کے تہتر (73) دروازے ہیں، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے، اور سب سے بدترین ربا ایک مسلمان کی عزت پر حملہ کرنا ہے"۔ (المستدرك: 2/37)

 

یہ وہ کون سا جرم ہے جس کے مرتکب کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ کرنے والا قرار دیا گیا ہے؟ یہ وہ کون سا گناہ ہے جو چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سنگین ہے یا ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے نکاح کر لے؟

 

یہ ربا (سود) ہے، ایک ایسا نظام جو معاشروں کو تباہ کرتا ہے، لالچ کو بھڑکاتا ہے، دوسروں کا استحصال کرتا ہے، اور لوگوں کے وسائل کو اس حد تک نچوڑ لیتا ہے کہ انہیں غلام بنا دیتا ہے۔ تاریخی اور موجودہ دور میں، ربا ہمیشہ انسانی غلامی سے جُڑا رہا ہے۔ سود خور اکثر دولت کے پیچھے اندھا دھند دوڑتے ہیں، اخلاقی اور انسانی اقدار کی پرواہ کیے بغیر، چاہے ان کے طریقے قوموں کی بربادی، افراد کے استحصال، اور وسیع پیمانے پر فساد کا باعث ہی کیوں نہ بنیں۔

 

اسلام سے پہلے سود خور مالدار لوگ سودی قرضوں کے ذریعے لوگوں کو غلام بناتے تھے۔ جب کوئی شخص قرض ادا نہ کر پاتا، تو قرض کی میعاد بڑھانے کے ساتھ اس پر سود بھی بڑھا دیا جاتا، یہاں تک کہ مقروض مکمل طور پر مفلس ہو جاتا۔ پھر آخری "حل" یہی بچتا تھا کہ مقروض خود کو بیچ کر اپنا قرض چکائے، یوں وہ باقاعدہ غلام بن جاتا، جسے خریدا اور بیچا جاتا، اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا۔

 

یہی طریقہ مالدار سرمایہ داروں نے اپنے غلاموں کی تعداد بڑھانے اور مختلف علاقوں پر غلبہ پانے کے لیے اپنایا۔ یہ ان بہت سے غیر اخلاقی طریقوں میں سے ایک تھا جنہیں دولت مند طبقہ دوسروں کے استحصال کے لیے استعمال کرتا تھا۔

 

لہٰذا، ربا محض ایک معاشی سرگرمی نہیں بلکہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو غلامی، استحصال اور تسلط (حکمرانی) کا ذریعہ بنتا ہے۔

 

جدید دور میں ربا (سود):

 

صدیوں کی ترقی کے باوجود، ربا کی استحصالی (استفادہ کرنے والی) فطرت آج بھی برقرار ہے۔ آج کے دور میں، ربا لوگوں کو غلام بنانے اور ان پر تسلط قائم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، اگرچہ اس کے طریقے زیادہ جدید اور متنوع ہو گئے ہیں۔

 

آج کے دور میں، ربا ایک باقاعدہ نظام کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ بینک، مالیاتی ادارے اور سودی مالیاتی نظام پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں، یہاں تک کہ شاید ہی کوئی اہم خطہ ایسا ہو جہاں سود پر مبنی کوئی بینک یا مالیاتی ادارہ موجود نہ ہو۔

 

یہی حقیقت رسول اللہ ﷺ کی اس پیش گوئی کی تصدیق کرتی ہے: يأتي على الناس زمان يأكلون الربا، فمن لم يأكله أصابه من غباره "لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا جب وہ سب کے سب ربا کھائیں گے، اور جو اس سے بچنے کی کوشش کرے گا، وہ بھی اس کے غبار سے متاثر ہوگا"  (سنن النسائی، حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی گئی)۔

 

سرمایہ دارانہ مغرب نے دنیا کے بیشتر حصے کو، اگر مکمل طور پر نہیں تو بڑی حد تک، اپنے مرکزی بینکوں کے جال میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ گرفت یا تو براہِ راست ان کے سرکاری بینکوں کے ذریعے کی جاتی ہے یا بالواسطہ طور پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے ذریعے۔ ان سودی نظاموں نے کئی ممالک کے مرکزی اور تجارتی بینکوں کی معیشت کو مکمل طور پر ربا پر استوار کر دیا ہے۔

 

ان ممالک میں اثر و رسوخ رکھنے والے افراد ایسی پالیسیاں بناتے ہیں جو انہیں سرمایہ دارانہ ممالک کے قرضوں کا محتاج بنا دیتی ہیں، اور یوں معاشی زوال کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر شروع ہو جاتا ہے۔ ان قرضوں پر مرکب سود (Compound Interest) مسلسل بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سود کی مقدار اصل قرض سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس موقع پر مغربی طاقتیں اور ان کے مقامی ایجنٹ اس ملک کو شکار بنا لیتے ہیں اور اس کے وسائل کو اس بے رحمی سے لوٹتے ہیں کہ وہ ایک ذبح کیے گئے جانور کی مانند تڑپتا رہ جاتا ہے۔

 

جب کوئی ملک اس جال میں پھنس جاتا ہے، تو آئی ایم ایف "معاشی اصلاحات" کے بہانے آ جاتا ہے۔ اس کے نام نہاد حل عام طور پر یہ ہوتے ہیں:

 

l   عوام پر ٹیکسوں اور فیسوں کا بوجھ ڈالنا۔

 

l   مہنگائی بڑھا کر زندگی گزارنا مزید مشکل بنانا۔

 

یہ تمام مشکلات صرف اس لیے مسلط کی جاتی ہیں تاکہ مقروض ملک ایک "معاشی تعمیل سرٹیفکیٹ (economic compliance certificate)" حاصل کر سکے، جو اسے اپنے اصل قرضوں کی واپسی کو مؤخر کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن اس کے بدلے میں نئے قرضے لینے پڑتے ہیں، جو ہر بار مزید سود (ربا) کے ساتھ آتے ہیں۔

 

آئی ایم ایف کی ظالمانہ پالیسیوں کی یہ پابندی محض قرضوں کی ادائیگی کی مدت کو طول دینے کا ایک طریقہ ہے، جبکہ ملک کو مزید قرضوں اور بڑھتے ہوئے سود میں جکڑ دیا جاتا ہے۔

 

یہ مکار ربا پر مبنی نظام درحقیقت اقوام اور عوام کو غلام بنانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے، لیکن اسے "معاشی اصلاحات" جیسے دلکش نام دیے جاتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں یہ ایک ایسا حربہ ہے جو معیشت کو تیزی سے تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ "سود" (فائدہ) کا نام ربا سے بدل کر معتدل بنا دیا گیا تاکہ اس کی سنگینی کم محسوس ہو۔

 

سرمایہ دارانہ ممالک، ان کے بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں لالچ اور دھمکیوں کا استعمال کر کے دیگر ممالک کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ اپنے قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والا سرمایہ مغربی بینکوں میں جمع کروائیں۔ اس طرح، ان سرمایہ دارانہ ممالک کی معیشت دوسرے ممالک کی دولت پر چلتی ہے اور مسلسل ترقی کرتی رہتی ہے۔

 

جب کوئی ملک اس استحصالی نظام سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کے اثاثے منجمد کر دیے جاتے ہیں، اور انہی طاقتوں کے ذریعے اس کی اپنی دولت کو اس کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں کئی ممالک کے ساتھ یہی سلوک کیا جا چکا ہے، جو اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔

 

اگرچہ یہاں توجہ ممالک پر ہے، لیکن افراد پر ربا کے تباہ کن اثرات بھی اسی قدر سنگین ہیں:

 

l   جو لوگ سودی قرضے لیتے ہیں، وہ ایک نہ ختم ہونے والے قرض کے جال میں پھنس جاتے ہیں، جہاں اصل رقم وہی رہتی ہے، لیکن سود مسلسل بڑھتا جاتا ہے۔

 

l   قرض اور اس کے سود کی ادائیگی کا بوجھ خاص طور پر ان لوگوں پر بہت بھاری ہوتا ہے جو مالی طور پر مستحکم نہیں ہوتے—اور یہی زیادہ تر قرض لینے والے ہوتے ہیں۔

 

l   اس کے نتیجے میں سنگین حالات پیدا ہو سکتے ہیں، جیسے قید کی نوبت آنا یا مستقل مالی بدحالی میں مبتلا ہو جانا۔

 

ربا کے براہِ راست نتائج:

 

1.   قوموں کو قرضوں اور بڑھتے ہوئے سود کے بوجھ تلے کچل دینا۔

 

2.   ان ممالک کے اثاثے منجمد کر دینا جو اس نظام سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

3.   افراد کو سودی قرضوں کے جال میں پھنسا کر غربت اور مایوسی کے چکر میں ڈال دینا۔

 

سود پر مبنی نظام محض ایک مالیاتی ذریعہ نہیں بلکہ استحصال اور غلبے کا ایک ہتھیار ہے، جس کا مقصد طاقتور سرمایہ دار ممالک کو کمزور قوموں پر مسلط رکھنا ہے۔

 

یہ سود کے براہ راست اثرات ہیں، جو ممالک پر قرضوں اور سود کے بوجھ کی صورت میں پڑتے ہیں، اور اس کے علاوہ وہ پیسہ جو ان ممالک نے مغربی بینکوں میں جمع کیا ہوتا ہے، اس کے منجمد ہونے کی صورت میں ان ممالک پر اس کا اثر پڑتا ہے

 

سود پر مبنی نظام کے بالواسطہ اثرات بھی تباہ کن ہیں۔ بینک اپنے منافع کی ہوس میں کسی بھی طریقے، یہاں تک کہ غیر اخلاقی اور ناجائز ذرائع، کو اختیار کرتے ہیں تاکہ خود بھی زیادہ منافع بنائیں اور اپنے جمع کنندگان کو سود ادا کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ مغرب اور اس کے پیروکاروں میں کرپٹ صنعتوں اور غیر اخلاقی رویوں کا فروغ عام ہو چکا ہے۔

 

اس نظام کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ یہ دولت مند افراد کو سستی اور انحصار کی حالت میں ڈال دیتا ہے۔ وہ اپنی دولت کو معاشرے کے فائدے کے لیے کسی مفید کاروبار میں لگانے کے بجائے صرف بینک میں جمع رکھ کر اس پر ملنے والے سود پر گزارا کرتے ہیں، حالانکہ اگر وہ اپنی دولت کو جائز اور حلال طریقوں میں لگائیں تو خود بھی بہتر کمائی کر سکتے ہیں اور معاشرے کو بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔

 

اگرچہ ہم نے سرمایہ دارانہ سودی نظام کے قیام کے پس پردہ تمام مذموم مقاصد پر تفصیل سے بات نہیں کی، لیکن یہ بات واضح ہے کہ:

 

l   یہ مسلم ممالک میں گہرائی تک سرایت کر چکا ہے۔

 

l   اسے چالاک اور استحصالی قوتیں کنٹرول کر رہی ہیں، جن میں کافر یہودی اور سرمایہ دارانہ اشرافیہ شامل ہیں۔

 

l   اس کی پالیسیاں، جیسے کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمت عملیاں، انتہائی چالاکی سے اس طرح ترتیب دی گئی ہیں کہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ ہر وہ قوم جو ان کے مالیاتی جال میں پھنس جائے، استحصال اور غلامی کا شکار ہو جاتی ہے۔

 

یہ مختصر خلاصہ سودی نظام کے سنگین خطرات کو اجاگر کرتا ہے اور اس بات کی جھلک پیش کرتا ہے کہ اسلام میں اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ کیوں قرار دیا گیا ہے۔ اس نظام کی سماجی تباہ کاریاں بدکاری جیسے سنگین گناہ سے بھی زیادہ ہولناک ہیں، باوجود اس کے کہ بدکاری انتہائی غیر اخلاقی فعل ہے۔

 

جب تک معیشتوں پر سودی نظام کا تسلط برقرار رہے گا، قومیں کبھی حقیقی اقتصادی خوشحالی یا استحکام حاصل نہیں کر سکیں گی۔

 

کچھ لوگ سودی نظام کے دفاع میں درج ذیل نکات پیش کرتے ہیں:

 

1.   مالدار افراد کو اپنے اضافی سرمایے کو محفوظ رکھنے اور اس پر سود کمانے کے لیے بینکوں کی ضرورت ہوتی ہے:
اگر بینک نہ ہوں تو ان کی دولت بیکار پڑی رہے گی، کسی پیداواری سرگرمی میں استعمال نہیں ہو سکے گی اور ضائع ہونے کا خدشہ رہے گا۔

 

2.   غریب یا مقروض افراد فوری ضروریات پوری کرنے کے لیے سود پر مبنی قرضوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں:
ان کے مطابق، یہ قرضے لوگوں کو درج ذیل سہولتیں فراہم کرتے ہیں:

 

 فوری قرضوں کی ادائیگی اور بدلے میں بینک کو سود پر موخر ادائیگی

 

 ہنگامی مالی ضروریات کو پورا کرنا

 

 قسطوں میں ادائیگی کے ذریعے اپنے مالی معاملات کو سنبھالنا

 

اس طرح کے دلائل اکثر سودی نظام کے جواز کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔

 

معاشی چیلنجوں کا اسلامی حل:

 

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ سودی نظام کے بغیر ان مسائل کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟

 

اسلام ان چیلنجوں کا ایک جامع حل فراہم کرتا ہے، جو افراد کے معاشی سکون اور دولت کے منصفانہ استعمال کو یقینی بناتا ہے، بغیر کسی استحصال یا سماجی بگاڑ کے۔ یہ ایک ایسا نظام پیش کرتا ہے جسے ہر چیز کا علم رکھنے والے، کامل حکمت والے خالق نے وضع کیا ہے، جو اپنی مخلوق کے فائدے اور دنیا و آخرت میں ان کی حقیقی خوشحالی کو یقینی بناتا ہے۔

 

اسلامی معیشت کے نمایاں خدوخال:

 

l   اسلام دولت کو تعمیری اور پیداواری طریقوں میں استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے، جیسے حلال سرمایہ کاری اور تجارت۔

 

l   اسلام معاشرے کے ضرورت مند طبقے کی مدد کے لیے بغیر سود کے قرضے (قرض حسن)، زکوٰۃ اور صدقات جیسے مؤثر نظام فراہم کرتا ہے۔

 

l   اسلام، سود جیسے استحصالی طریقوں سے بچتے ہوئے دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتا ہے۔

 

اسلامی معیشتی نظام تمام افراد کی فلاح و بہبود کا تحفظ کرتا ہے اور عدل، استحکام اور خوشحالی کا ماحول فراہم کرتا ہے، جو سود کے تباہ کن اثرات سے پاک ہوتا ہے۔

 

دولت، غربت اور معاشی انصاف کے مسائل کا اسلامی حل:

 

1. دولت کو روک کر رکھنے (Hoarding) کی ممانعت:

 

اسلام غیر ضروری طور پر دولت کو روک کر رکھنے کو سختی سے منع کرتا ہے۔ اس کے بجائے، اسلام دولت کو تعمیری اور پیداواری کاموں میں لگانے کا حکم دیتا ہے، جیسے صنعتی، زرعی اور تجارتی منصوبے۔ ان سرگرمیوں کے نتیجے میں دولت کا گردش میں آنا اور اس کا فعال استعمال یقینی بنتا ہے، جو درج ذیل طبقات کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے:

 

l   سرمایہ دار کو منافع حاصل ہوتا ہے۔

 

l   مزدور کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں۔

 

l   ضرورت مندوں کو زکوٰۃ اور دیگر فلاحی ذرائع سے مدد ملتی ہے۔

 

l   پورے معاشرے کو ان منصوبوں کے ذریعے پیدا ہونے والی اشیاء اور خدمات سے فائدہ پہنچتا ہے۔

 

دولت کو روک کر رکھنا اور اسے ایسے پیداواری منصوبوں میں نہ لگانا اسلام میں حرام ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴾ "اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو" (سورۃ التوبہ: 34

 

یہ آیت بنیادی طور پر دولت مند افراد کو مخاطب کرتی ہے اور ان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو واضح کرتی ہے۔

 

اسلام میں غریبوں اور محتاجوں کے لیے انتظامات:

 

بلاسود قرضوں (قرض حسنہ) کی ترغیب:
اسلام ضرورت مندوں کو بلاسود قرض دینے کی ترغیب دیتا ہے اور اس کا اجر صدقے سے بھی زیادہ قرار دیتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قرض مرتين يعدل صدقة مرة "قرض دینا دو بار، ایک بار صدقہ دینے کے برابر ہے" (البزار نے ابن مسعود سے روایت کی ہے)۔

 

1. تنگدست مقروض کے لیے نرمی اور مہلت:
اگر کوئی مقروض سخت تنگدستی کا شکار ہو تو اسلام اسے مہلت دینے اور اس کے ساتھ نرمی برتنے کا حکم دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ ﴾ "اور اگر مقروض تنگدست ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینا چاہیے"  (سورۃ البقرہ: 280) اسی طرح صدقے کی صورت میں قرض معاف کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے چاہے وہ مکمل طور پر یا جزوی طور پر معاف کیا جائے ﴿ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾ اور اگر تم (قرض) معاف کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم سمجھو" (سورۃ البقرہ: 280

 

2. زکوٰۃ سے قرض کی ادائیگی:
اسلام نے زکوٰۃ کا ایک حصہ مقروض افراد کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ... وَالْغَارِمِينَ ﴾ "زکوٰۃ تو صرف فقیروں، مسکینوں... اور مقروضوں کے لیے ہے..." (سورۃ التوبہ: 60

 

3. روزگار کی ترغیب اور محنت کا وجوب:
اسلام نے رزقِ حلال کے حصول کی ترغیب دی ہے اور کام کرنے کو لازم قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ ﴾ "وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم و سازگار بنایا، پس اس کے راستوں میں چلو اور اللہ کا رزق کھاؤ، اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے" (سورۃ الملک: 15

 

4. نبی کریم ﷺ نے فرمایا: إن من الذنوب ما لا يكفرها إلا الهموم في طلب الرزق "کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کا کفارہ صرف روزی کمانے کی فکر و مشقت سے ہی ہوتا ہے۔" ( المبسوط للسرخسي: 30/258،)

 

خلاصہ: اسلام ایک جامع نظام فراہم کرتا ہے جو معاشی انصاف کو یقینی بناتا اور غربت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرتا ہے، جیسے کہ:

 

l     دولت کے متحرک اور مثبت استعمال کی حوصلہ افزائی۔

 

l     ضرورت مندوں کو بلاسود قرض فراہم کرنا۔

 

l     مقروض کے لیے نرمی اور مہلت دینا۔

 

l     زکوٰۃ سے قرضوں کی ادائیگی کا انتظام۔

 

l     محنت اور جائز روزگار کو فروغ دینا تاکہ خود انحصاری اور عزتِ نفس برقرار رہے۔

 

یہ الٰہی نظام، جو حکمت و دانائی پر مبنی ہے، معاشرتی خوشحالی اور توازن کو یقینی بناتا ہے اور افراد کو استحصال اور مالی بحران سے محفوظ رکھتا ہے۔

 

معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں ریاست کا کردار:

 

1. تمام شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا:
ریاست پر لازم ہے کہ وہ اپنے زیر سایہ ہر فرد کی بنیادی ضروریات یعنی خوراک، لباس اور رہائش کو پورا کرے۔ یہ کام درج ذیل طریقوں سے انجام دیا جاتا ہے:

 

l     فرد کی اپنی کمائی سے۔

 

l     وہ افراد جو اس کے نان و نفقہ کے شرعی طور پر ذمہ دار ہیں (جیسے خاندان کے افراد)۔

 

l     اگر یہ دونوں ذرائع ناکافی ہوں تو ریاست بیت المال سے اس کی ضروریات پوری کرتی ہے۔

 

l     نبی کریم ﷺ نے فرمایا:  والسلطان ولي من لا ولي له "حاکم ہر اس شخص کا سرپرست ہے جس کا کوئی سرپرست نہ ہو۔" (أحمد: 6/47، 165، الموطأ: 1053)

 

2. عوامی ملکیت کے وسائل کا انتظام:

 

l   ریاست ان قدرتی وسائل کی نگرانی کرتی ہے جو عوامی ملکیت میں آتے ہیں، جیسے:

 

 زیرِ زمین معدنیات، جیسے سونا، لوہا، تانبا، پوٹاش اور فاسفیٹ۔

 

 لیکویڈ یا گیس کی شکل میں موجود وسائل، جیسے تیل اور قدرتی گیس۔

 

l   ان وسائل اور ان کی آمدنی کو تمام مسلمانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

 

3. ریاستی ملکیت کے وسائل کا انتظام:

 

l   خمس، جزیہ، غنیمت اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی ریاست کی تحویل میں ہوتی ہے۔

 

l   ان آمدنیوں کو مالداروں کے بجائے غریبوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ﴾ "تاکہ (یہ دولت) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتی رہے" (سورۃ الحشر: 7)۔

 

4. بلاسود قرضے اور مالی مدد فراہم کرنا:

 

l   ریاست تاجروں کو بلاسود قرضے اور کاشتکاروں کو گرانٹ فراہم کرتی ہے، جیسا کہ خلافتِ راشدہ کے دور میں کیا جاتا تھا، تاکہ وہ ایک باعزت اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔

 

5. ضرورت کے وقت ٹیکس عائد کرنا:

 

l   اگر بیت المال میں مطلوبہ فنڈز نہ ہوں، تو ریاست ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے، جہاد کے اخراجات اور دیگر اسلامی فرائض ادا کرنے کے لیے مالداروں پر ٹیکس عائد کر سکتی ہے۔

 

اسلام کا ہمہ گیر معاشی نظام:

 

1. دولت کے مالک:

 

l   مالدار افراد کو اپنی دولت ذخیرہ کرنے (hoarding) سے منع کیا گیا ہے، بلکہ ان پر لازم ہے کہ وہ اسے ایسے منصوبوں میں لگائیں جو معاشرے کو فائدہ پہنچائیں، روزگار کے مواقع پیدا کریں اور معیشت کو ترقی دیں۔

 

l   زکوٰۃ کے ذریعے دولت غریبوں اور دیگر مستحقین میں تقسیم ہوتی ہے۔

 

2. غریب افراد:

 

l   ان کی بنیادی ضروریات کو درج ذیل ذرائع سے پورا کیا جاتا ہے:

 

 خود ان کی محنت اور کام کے ذریعے۔

 

 ان کے سرپرستوں یا خاندان کے افراد کی مالی معاونت کے ذریعے۔

 

 اگر یہ ذرائع ناکافی ہوں تو ریاست بیت المال سے ان کی کفالت کرتی ہے۔

 

3. مقروض افراد:

 

l   ان کو قرض کی ادائیگی کے لیے مہلت دی جاتی ہے، یا ان کا قرض جزوی یا مکمل طور پر معاف کر دیا جاتا ہے۔

 

l   اگر ضرورت ہو تو ان کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے زکوٰۃ کے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔

 

4. تاجر اور کاروباری افراد:

 

l   انہیں ریاست کی طرف سے بغیر سود کے قرضے یا گرانٹ دی جاتی ہے تاکہ وہ کاروبار قائم کریں اور معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

 

5. عوامی وسائل:

 

l   قدرتی وسائل جیسے معدنیات، تیل، گیس وغیرہ کو منصفانہ طور پر عوام میں تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ سب کو ان کا فائدہ پہنچے۔

 

6. ریاستی آمدنی:

 

l   ریاست کی ملکیت میں آنے والے وسائل کی آمدنی کو غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ دولت صرف چند امیروں کے ہاتھوں میں نہ سمٹ جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ﴾ "تاکہ (یہ دولت) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتی رہے۔" (سورۃ الحشر: 7)

 

7. لازمی ٹیکسیشن:

 

l   جب ضروری ہو تو ریاست مالداروں پر ٹیکس عائد کر سکتی ہے تاکہ معاشرتی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔

 

کیا اس کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ  اگر سود اور سود خور موجود نہ ہوں، جو امیروں کے پیسے سود پر لگاتے ہیں اور غریبوں کو سود پر قرض دیتے ہیں تو پھر غریبوں کی ضروریات کیسے پوری کی جائیں گی یا امیروں کے پیسوں کا کیا کیا جائے گا۔

 

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے موجودہ دور میں بیسویں صدی کے دوران جو نظام رائج ہیں، وہ انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں، یعنی سرمایہ داری اور سوشلسٹ نظام، جو بدترین، بے شمار عیبوں اور بدنامی کے حامل ہیں۔

 

سیکولر معاشی نظاموں کا اسلامی معیشت سے تقابل:

 

1. سرمایہ داریت (Capitalism):

 

l   غیر محدود نجی ملکیت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جس کے نتیجے میں غیر اخلاقی ذرائع سے دولت جمع ہوتی ہے۔

 

l   اس کا نظام سود (ربا) پر مبنی ہے، جو کارپوریشنز اور مالیاتی اداروں کی بالادستی کے ذریعے ایک استحصالی معیشت تشکیل دیتا ہے، جس میں قومیں اور افراد معاشی غلامی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

 

2. اشتراکیت (Socialism):

 

l   نجی ملکیت کو ختم کر کے دولت کو ریاست کے کنٹرول میں دے دیتا ہے، جس سے کارپوریشنز کی بجائے حکمران طبقہ اور پارٹی قائدین استحصال کرنے لگتے ہیں۔

 

l   اس کا نتیجہ بدعنوانی، ظلم اور ایک ناکام معاشی ڈھانچے کی صورت میں نکلتا ہے۔

 

اسلام سرمایہ دارانہ استحصال اور اشتراکی جبر سے ہٹ کر ایک متوازن اور منصفانہ نظام مہیا کرتا ہے جسے رب العالمین نے وضع کیا ہے،اور جس نے تمام معاملات کو ان کے اصل مقام پر واپس رکھا ہے اور انہیں وہ جگہ دی جہاں انہیں ہونا چاہیے  … کیونکہ صرف خالق ہی جانتا ہے کہ اس کی مخلوقات کے لیے کیا بہتر ہے:

 

1. نجی ملکیت:

 

l   نجی ملکیت کی اجازت اور ترغیب دی جاتی ہے، مگر یہ شریعت کے اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے۔

 

2. عوامی ملکیت:

 

l   وہ وسائل جو تمام شہریوں کے لیے فائدہ مند ہوں، اجتماعی ملکیت میں رکھے جاتے ہیں تاکہ سب کو ان سے مستفید ہونے کا حق حاصل ہو۔

 

3. ریاستی ملکیت:

 

l   مخصوص ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

 

یہ، الحکیم اور الخبیر، اللہ کی طرف سے دیا گیا عادلانہ معاشی نظام دولت کو جائز طریقوں میں استعمال کرنے کو یقینی بناتا ہے، تاکہ معاشرہ خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو اور کوئی ایک دوسرے پر غالب نہ آئے یا اپنی حد سے تجاوز نہ کرے۔

 

l   اس سے اللہ کی طرف سے وائد کردہ فرض پورا ہوتا ہے

 

l   زکوٰۃ اور اہل و عیال کی کفالت جیسے فرائض پورے ہوتے ہیں۔

 

l   فرضی ادائیگیوں کے علاوہ خیرات و عطیات کی بھی ترغیب دی حاتی ہے۔

 

l   بدعنوانی اور استحصال کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴾ "اور جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے، اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور دنیا میں سے اپنا حصہ نہ بھول، اور احسان کر جس طرح اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے، اور زمین میں فساد مت پھیلا، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا" (سورۃ القصص: 77

 

اسلامی معاشی نظام انسانیت کے لیے حقیقی خوشحالی کا ذریعہ بنتا ہے، جو دنیا کو ایک پرامن اور خوشگوار سفر میں تبدیل کر دیتا ہے، جو آخرت کی ابدی نعمتوں کی طرف لے جاتا ہے۔
یہاں نہ لالچ ہے، نہ سود، نہ استحصال—بلکہ صرف جائز، پاکیزہ اور وافر رزق ہے، جو امن و سکون کے ساتھ رب العالمین کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔یہ نظام  اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر مبنی ہے، نہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ پر، اور نہ ہی جرم اور بے حیائی پر۔

 

یہی سچ ہے، اورسچ کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ گمراہی ہے اور تمام تعریفیں اللہ، رب العالمین ہی کے لیے ہیں۔

 

Last modified onپیر, 07 اپریل 2025 18:07

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.