Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

اسلامی عقیدہ نجات کی بنیاد ہے اور زندگی کے لیے رہنما ہے

 

(عربی سے ترجمہ)

 

لغت کے اعتبار سے عقیدہ وہ چیز ہے جو دل میں بندھ جائے، اور شرعی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے کہ انسان اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، قیامت کے دن، اور تقدیر کے خیر و شر ہونے پر ایمان رکھے۔ جیسا کہ صحیحین میں عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور سوالات کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

 

«أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ»

"(ایمان یہ ہے) کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، قیامت کے دن، اور تقدیر کے خیر و شر ہونے پر ایمان لاؤ۔"

 

عقیدہ، حقیقت سے مطابقت رکھنے والا ایسا قطعی یقین ہوتا ہے جو دلیل کی بنیاد پر حاصل ہو۔ اسلامی عقیدہ ایک عقلی عقیدہ ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ مندرجہ ذیل عقائد کے لیے اپنی عقل کو دلیل بنائے؛ ایک خالق کا وجود لازم ہے، اس خالق نے کائنات کو عدم سے تخلیق کیا ہے، وہ کسی طرح اپنی مخلوق سے مشابہ نہیں ہے، اور قرآن اللہ کا کلام ہے، اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر ایمان کے جو ارکان نقلی دلائل (یعنی نصوص) سے ثابت ہیں ان پر ایمان لائے اور اس معاملے عقل کا کام صرف اتنا ہے کہ ان قطعی دلائل کی روشنی میں ایمان کے ارکان کو قطعیت کے ساتھ تسلیم کر لے کیونکہ خود عقل کا ان کے لیے دلیل بننا درست نہیں ہے۔

 

اسلامی عقیدہ ایک سیاسی عقیدہ بھی ہے، یعنی یہ محض مذہبی یا الٰہیاتی عقیدہ نہیں ہے جس میں بندہ صرف اس بات پر ایمان رکھے کہ کائنات کا کوئی خالق ہے اور پھر اسے اپنی زندگی کے امور سے الگ رکھے، بلکہ یہ ایک سیاسی عقیدہ ہے جس سے ایسا نظام نکلتا ہے جو انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو چلاتا ہے اور اس کے مفادات کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اس سے شریعت کے احکام نکلتے ہیں جو انسان کے تمام تعلقات کو منظم کرتے ہیں چاہے وہ تعلقات انسان کے اپنے رب کے ساتھ ہوں، اپنے نفس کے ساتھ ہوں یا دیگر مخلوقات کے ساتھ تعلقات ہوں۔ ان تعلقات میں حاکمیت کا تعلق بھی شامل ہے، یعنی حاکم اور محکوم کا تعلق، جس کی اصل یہ ہے کہ کائنات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے یعنی اپنی مخلوق کا مالک ہونے، اس سے متعلق تصرف کرنے اور اس کے لیے تدبیر کرنے کا حق صرف اسی کے پاس ہے۔

 

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حاکمیت کے مسئلے کو منظم کرنا عقیدے کا لازمی جزو ہے، یعنی ایک مسلمان یہ ایمان رکھتا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہے۔ اسی سے "حاکمیت کے عقیدہ" کی اصطلاح پیدا ہوئی ہے۔

 

انسان کی عقلیہ (افکار) اور نفسیہ (میلانات) کو جڑ سے تبدیل کرنے کی بنیاد عقیدہ ہے، جو اسے ایک اسلامی شخصیت بناتا ہے۔ حاکمیت کا عقیدہ توحید کے کلمہ کی پہلی شرط ہے، یعنی "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کی پہلی حقیقی شرط حاکمیت کا عقیدہ ہے۔ اگر  حاکمیت کا عقیدہ نہ ہو تو کلمہ توحید کا حقیقی مفہوم ختم ہو جاتا ہے، اور اس کا اثر معمولی یا عارضی ہو جاتا ہے۔ اس لئے حاکمیت کا عقیدہ اسلامی زندگی میں عملی وجود رکھنے اور نافذ ہونے کا تقاضہ کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ اسلام اور کفر کے درمیان تصادم کی اصل بنیاد ہے۔

 

عقیدے کی تشریح کرنے والوں نے حاکمیت کے عقیدے کے دو پہلو بیان کیے ہیں۔ پہلا پہلو حاکمیتِ تخلیقی ہے، یعنی کائنات کی ایک ایک چیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہے اور تخلیق کرنے، اندازہ مقرر کرنے اور تقدیر لکھنے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے اور اس حقیقت کا انکار صرف ملحد ہی کرتا ہے۔ تاہم ہمارا موضوع دوسرا پہلو ہے یعنی قانون سازی کی خودمختاری، جو اہمیت کے لحاظ سے تیسرے معاملے میں آگے بیان ہوا ہے۔

 

یہ درست ہے کہ کفار مجموعی طور پر اسلام نہیں چاہتے، لیکن تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ ان میں سے کسی ایک میں کامیاب ہو جائیں تو اسلام اور مسلمانوں پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔

 

1- پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآنی نصوص سے ان کی تقدیس چھین لی جائے۔ مستشرقین نے اس مقصد کے لیے "The History of the Quran" کے نام سے ایک کتاب لکھی جسے مکمل ہونے میں تقریباً 80 سال لگے۔ اس کا مصنف مستشرقین کا شیطان لنڈکے تھا۔ یہ لوگ قرآن کو ایک انسان کے الفاظ کے طور پر دیکھتے ہیں، جو تنقید، تجزیہ، بحث، تحقیق اور غور و فکر کے لیے کھلا ہے۔ یہ لوگ مانتے ہیں کہ یہ نہ تو قابل قبول ہے اور نہ ہی مقدس۔ تاہم، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، کیونکہ مسلمان، حالات سے قطع نظر، اپنے مذہب کی تقدیس کرتے ہیں۔

 

2۔ دوسرا معاملہ سنت کی حقانیت پر ضرب لگانا اور بخاری، مسلم وغیرہ کی کتابوں پر حملہ کرنا ہے۔ وہ مسلمانوں کی اکثریت کے ساتھ اس میں کامیاب نہیں ہوئے، اور اگرچہ چند روشن خیال افراد متاثر ہوئے، لیکن وہ صحیح معنوں میں امتِ مسلمہ میں اپنا زہر نہیں ڈال سکے۔ اس لیے انہوں نے سنت کی حقانیت پر ضرب لگا کر بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا۔

 

3.تیسرا معاملہ عقیدہِ حاکمیت کے خلاف جنگ ہے اور اس میں وہ کامیاب ہوئے اور مسلمانوں پر تسلط حاصل کیا۔ ہم تفصیل سے بتائیں گے کہ وہ ذہن کو قریب لانے کے لیے کچھ معاملات میں کیسے کامیاب ہوئے۔

 

قرآن ہمیں حکم دیتا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو، لیکن وہ مسلمانوں کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ قرآن کفار کے ساتھ دوستی سے منع کرتا ہے، مگر آج مسلمان عالمی اداروں جیسے کہ سلامتی کونسل اور بین الاقوامی عدالت کی طرف مائل ہوتے ہیں، جو صرف کافروں کے مفادات کی خدمت کرتے ہیں، اور اس بات پہ زمینی حقائق خود سب سے بڑے گواہ اور ثبوت ہیں۔

 

قرآن جہاد کا حکم دیتا ہے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، مگر آج مسلمان اپنے وطن کے لیے لڑ رہے ہیں اور قرآن کی تعلیم ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾ "بیشک مون آپس میں بھائی بھائی ہیں" (سورة الحجرات - آیت 10) کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ قرآن صرف اسلامی نظام کو تسلیم کرتا ہے،  اس کے باوجود کفار مسلم ممالک میں جمہوریت، بادشاہت اور دیگر نظامِ حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں جو اسلامی نظریے سے متصادم ہیں، اور جو امت کی تقسیم کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

 

قرآن ہمیں حکم دیتا ہے کہ کمزور مسلمانوں کی مدد کرو چاہے وہ کہیں بھی ہوں، لیکن آج، غزہ مر رہا ہے جبکہ فوجیں سائکس-پیکو معاہدے کے وقت استعمار کی طرف سے کھینچی گئی سرحدوں کی حفاظت کر رہی ہیں۔ قرآن میں اللہ کی حاکمیت کے بارے میں ساٹھ سے زیادہ آیات موجود ہیں۔

 

لہٰذا، اگر حاکمیت کا عقیدہ نہ ہو تو دونوں گواہیاں (یعنی کلمۂ طیبہ: لا إله إلا الله محمد رسول الله) کا مطلب مکمل نہیں ہوتا، بلکہ ایمان حاصل کرنا اور اس پر سچا یقین رکھنا بھی اسی عقیدے کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾

"آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک ایمان والے نہیں بن سکتے جب تک کہ آپﷺ کو اپنے جھگڑوں میں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر آپﷺ کے فیصلے پر دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور مکمل طور پر سر جھکا دیں۔" (سورۃ النساء: آیت 65)۔

 

اس لیے اگر حاکمیت کا عقیدہ نہ ہو تو اسلام صرف چند عبادات کا مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے، جو صرف مسجدوں تک محدود ہوتا ہے۔ بلکہ ممکن ہے کہ اس عقیدے سے نہ جڑنے کی وجہ سے یہ عبادتیں بھی چھوڑ دی جائیں۔

 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«لَيُنْقَضَنَّ عُرَى الإِسْلَامِ عُرْوَةً عُرْوَةً، فَكُلَّمَا انْتَقَضَتْ عُرْوَةٌ تَشَبَّثَ النَّاسُ بِالَّتِي تَلِيهَا، وَأَوَّلُهُنَّ نَقْضًا الْحُكْمُ، وَآخِرُهُنَّ الصَّلاَةُ»

"اسلام کی گرہیں ایک ایک کر کے کھلتی جائیں گی، جب ایک گرہ کھلے گی تو لوگ اگلی گرہ کو پکڑ لیں گے، اور سب سے پہلی گرہ جو کھلے گی وہ حکمرانی ہو گی، اور سب سے آخری گرہ نماز ہو گی۔"

 

اسی لیے اسلام نے حکمرانی کو تمام فرائض کا تاج قرار دیا ہے۔ اگر یہ فریضہ چھوڑ دیا جائے تو باقی احکام بھی ایک ایک کر کے ختم ہوتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ آخر میں نماز بھی۔

 

اسی لیے جب ہم لوگوں کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ مختلف معیارات کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر شخص کا ایک الگ معیار ہوتا ہے۔ آپ ایک ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جس کا معیار صرف ذاتی مفاد ہوتا ہے — نہ اسے اپنے معاشرے کی پرواہ ہے، نہ اپنے ملک کی، اور نہ ہی اپنے دین کی۔ دین میں سے بھی وہ صرف وہی چیزیں اپناتا ہے جو اس کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں، جیسے نماز اور روزہ۔ پھر وہ زبان سے ایسے نعرے بھی لگا دیتا ہے جیسے: "مخلوق کو خالق پر چھوڑ دو" ایسا شخص — اور اس جیسے دوسرے لوگ — معاشرے میں ہوں یا نہ ہوں، کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ وہ صرف اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے بارے میں فرماتا ہے:

 

﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ﴾

"کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے، جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا؟" (سورۃ الجاثیة: آیت 23)

 

یعنی جو شخص صرف اپنی ذاتی مصلحت کے پیچھے چلتا ہے، وہ یقینی طور پر اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے، کیونکہ وہ اللہ کے دین کو اپنی مرضی سے چنتا ہے: جو چیز فائدے میں ہو اسے لے لیتا ہے، اور جو اس کے مفاد کے خلاف ہو، تو ایسا برتاؤ کرتا ہے جیسے کبھی سنی ہی نہ ہو!

 

دوسرا معیار یہ ہے کہ ایک انسان اپنے سردار، پیر، شیخ یا کسی بڑے کا اندھا پیروکار بن جائے۔ جو شخص ایسا کرتا ہے، وہ دراصل اپنے اس لیڈر یا رہنما کو — جو کہ ایک عام انسان ہی ہوتا ہے — اللہ کے سوا ایک رب بنا لیتا ہے۔ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میری گردن میں سونے کی صلیب تھی۔ میں نے آپﷺ کو یہ آیت پڑھتے سنا:

 

﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللَّهِ﴾

"انھوں نے اپنے عالموں اور اپنے راہبوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا" (سورۃ التوبة: آیت 31)

میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! یہ لوگ تو اپنے علما اور راہبوں کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

 

«أَجَلْ، وَلَكِنْ يُحِلُّونَ لَهُمْ مَا حَرَّمَ اللهُ فَيَسْتَحِلُّونَهُ، وَيُحَرِّمُونَ عَلَيْهِمْ مَا أَحَلَّ اللهُ فَيُحَرِّمُونَهُ، فَتِلْكَ عِبَادَتُهُمْ لَهُمْ»

"ہاں، لیکن جب وہ علماء اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو ان کے لیے حلال کر دیتے، تو یہ لوگ بھی انہیں حلال سمجھ لیتے، اور جب وہ حلال چیزوں کو حرام کر دیتے، تو یہ بھی حرام سمجھ لیتے، یہی ان کی عبادت تھی اُن کے لیے۔"

 

تیسرا معیار رکھنے والا شخص عقیدے والا انسان ہے، جو اپنی زندگی اللہ کے حکم کے مطابق گزارتا ہے۔ وہ دلیل کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، جہاں دلیل جائے وہیں جاتا ہے، اور اگر اسے کبھی ایسا لگے کہ اس کی ذاتی مصلحت اللہ کی دلیل کے خلاف ہے، تو وہ اپنی مصلحت کو چھوڑ دیتا ہے۔ ایسا انسان درحقیقت اللہ کو ہی اپنا حاکم مانتا ہے۔ وہ زندگی میں کسی اور کو حاکم نہیں مانتا، بلکہ اس کا حاکم صرف اللہ ہی ہوتا ہے۔

 

تحریر: استاد میاس المكردي – ولایہ یمن

 

Last modified onپیر, 04 اگست 2025 00:05

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.