بسم الله الرحمن الرحيم
تقریر - 3
[فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقَى]
"پھر جب میری جانب سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا"
شيخ سعيد رضوان – ولاية أردن
الحمد للہ رب العالمین۔ وہ جو جابروں کو ہلاک کرتا ہے، جو متکبر ظالموں کو ذلیل کرتا ہے ، اور مؤمنوں کو عزت و استحکام عطا کرتا ہے اس وقت تک جب تک کہ وہ اللہ ﷻ کی شریعت اور اس کے رسول ﷺ کی ہدایت پر قائم رہتے ہیں،:
سو سال قبل ، کافر استعمار نے مسلمانوں پر اس وقت سب سے بڑی فتح حاصل کی جب انہوں نے خلافت کو مسمار کردیا۔ یہ ان کے لیے ممکن نہ تھا اگر عرب اور ترک بدمعاش گروہوں نے غداری نہ کی ہوتی۔
سقوط خلافت کے ساتھ ہی ، مسلم علاقے استعماریت کا نشانہ بن گئے، اور ان سو سالوں کے دوران مسلمانوں کو شدید جنگوں ، قتلِ عام، نسل کشی کا نشانہ بنا گیا، ان کےشہروں اور دیہاتوں کو تباہ کیا گیا،انہیں بے گھر کیا گیا اور ان کی دولت کو لوٹا گیا، یعنی ان پر اخلاقیات سے عاری سفاک جنگیں مسلط کی گئیں۔
ان پر زبردست فکری جنگ مسلط کی گئی تا کہ انہیں ان کے دین سے جدا کردیا جائے اور دین کے احیاء اور خلافت کی واپسی کو روکا جائے۔
خلافت کے انہدام سےاللہ کی شریعت معطل ہو گئی، مسلمان علاقوں کو کمزور حصوں میں تقسیم کردیا گیا، اور امت کے دل میں ایک زہر آلود خنجر نے اس کے اتحاد اور احیاء کو روک دیا۔ مسلمانوں کے ممالک اسلام اور اس کے عوام خلاف جنگ میں کافر استعمار کے غلیظ آلہ کار بن گئے۔
خلافت کی عدم موجودگی میں، امت نے امام کو کھو دیا، وہ ڈھال جواُن کی حفاظت کرتی تھی اور جس کے پیچھے سےوہ لڑتے تھے، خلافت کی عدم موجودگی نےدوسری قوموں اور کمینے لوگوں کو یہ حوصلہ فراہم کیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف حملے کریں،اور مسلمانوں نے ذلت اور بے عزتی کے گھونٹ پیے، اور ان کی ہر چیز پامال کی گی۔
اگر یہ اللہ سبحانہ وتعالی کی رحمت نہ ہوتی اور مسلمانوں کا مضبوط وگہرا عقیدہ نہ ہوتا تو امت مسلمہ تباہ و برباد ہوجاتی اور صرف تاریخ کاحصہ بن کر رہ جاتی۔
امت اپنے عقیدہ ، جو کہ اس کی زندگی کا راز اور قوت کا سرچشمہ ہے، کے ذریعہ سے اپنے دشمنوں کا مقابلہ کررہی ہے،اور یہ جلد ہی ایک بہترین قوم بن کر لوٹ آئے گی جسے بنی نوع انسان کے لیےلایا گیا ہے، جب تک کہ وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہتی ہے اور خلافت کو بحال کرتی ہے، اور یہ عنقریب ہو گا إن شاء الله ۔
اے مسلمانوں:
خلافت کی واپسی ایک عقیدہ کا مسئلہ ہے جس کے ذریعہ اسلام کو عزت ملے گی اور اللہ کا دین تمام ادیان پر غالب ہوگا۔ خلافت کے ذریعہ اللہ ہی لوگوں کو متحد کرے گا، شریعت کی بالادستی ہوگی ، اور سارے عالم کے لئے ہدایت اور رحمت کے پیغام کے طور پر اسلام کی دعوت دی جائے گی۔ خلافت کے ذریعہ ، خون ، عزت اور دولت محفوظ ہوگی، مقدس مقامات کفار کی غلاظت سے پاک ہوں گے، اور عوام الناس، مسلمان اور غیر مسلم، اس کے سائے تلے ایک پرامن اور مطمئن زندگی گزاریں گے۔
اے مسلمانوں:
حکمت والی شریعت نے ایک قاعدہ وضع کیا ہے جو ناکام نہیں ہوتا، اور وہ یہ ہےکہ: اگر لوگ اللہ پر ایمان و یقین رکھیں اور اس سبحانہ و تعالیٰ کی دی ہوئی شریعت کے مطابق حکمرانی کریں تو وہ امن و سلامتی میں رہیں گے ، اور بھلائی اور بابرکت رزق ان کو نصیب ہو گا۔ لیکن اگر وہ اللہ کی شریعت سے دستبردار ہوجائیں اور اپنی خواہشات کے مطابق حکومت کریں تو اللہ سبحانہ وتعالی انہیں عذاب میں مبتلا کردے گا اور انہیں شرمناک اور دشوار گزار زندگی کا مزہ چکھا دے گا، اور زبردست ظالموں کو ان پر مسلط کردے گا اور انہیں مصائب کا مزہ چکھا دے گا۔ ان کو تباہی کی طرف لے جائے گا، اور ان کے اس گناہ کی جو سزا ان کے لئے اللہ کے پاس ہے وہ زیادہ شرمناک اور ندامت والی ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾
اور اگر (ان) بستیوں کے باشندے ایمان لے آتے اور تقوٰی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے (حق کو) جھٹلایا، سو ہم نے انہیں ان اَعمالِ (بد) کے باعث جو وہ انجام دیتے تھے (عذاب کی) گرفت میں لے لیا، (الأعراف: 96)
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
﴿فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقَى * وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى﴾
"پھر جب میری جانب سےتمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا اور جو میرے ذِکر(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے" (طه: 123،124)
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّاراً * يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَاراً * وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَاراً﴾
"میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔ تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔"(نوح، 12-10)
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم﴾
"اور اگر وہ لوگ تورات اور انجیل اور جو کچھ (مزید) ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا تھا (نافذ اور) قائم کردیتے تو (انہیں مالی وسائل کی اس قدر وسعت عطا ہوجاتی کہ) وہ اپنے اوپر سے (بھی) اور اپنے پاؤں کے نیچے سے (بھی) کھاتے (مگر رزق ختم نہ ہوتا)" (المائدہ: 66)
ہمارے پیارے نبیﷺ نے فرمایا:
«إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ»
"اگر تم کسی کو ادھار پر کچھ بیچو اس شرط پر کہ تم اسے کم قیمت پر واپس خریدو (العینع ربع) ، مویشیوں کی دموں کو تھام لو ، زراعت پر راضی ہوجاوُ اور جہادکو ترک کردو تو اللہ تم پر ذلت غالب کردے گا اور اسے تب تک نہیں ہٹائے گا جب تک کہ تم اپنے دین پر واپس نہ آجاوُ۔"
اے مسلمانوں:
خلافت کی واپسی، جس کے ذریعہ سے لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں جو کائنات، انسان اور زندگی کا خالق ہے، یہ اسلام کے عقیدہ کا بنیادی مسلہ ہے،صرف یہی وہ واحد نظام ہے جو اللہ کی حاکمیت کو مجسم حیثیت دیتا ہےاور انسانیت کی حاکمیت کو ختم کرتا ہے ، اور شریعت کے احکام کو واجب العمل ہونے کا درجہ دیتا ہے، لہذا یہ قوانین لاگوہو جاتے ہیں، اس طرح حاکمیت اعلی صرف اللہ سبحانہ وتعالی کی ہوجاتی ہے، اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً﴾
"پس آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں" )النساء: 65(۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾
" اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں" (المائدہ: 44)۔
ان باتوں کی روشنی میں، یہ ثابت شدہ شرعی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے خلیفہ کے ہاتھ بیعت کرکے خلافت کا قیام، جو اللہ سبحانہ و تعالٰی کے قانون کے تحت حکمرانی کرے اور جہاد کا علم بلند کرے، سب سے بڑا فرض ہے، بلکہ تمام فرائض کا تاج ہے۔
مزید شواہد اور وضاحت دینے کے لیے ہم کچھ شرعی دلائل کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں:
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ﴾
"اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں" (النساء: 59)
شارع کسی ایسے شخص کی اطاعت واجب نہیں کرتاجو موجود نہ ہے، لہذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ خلیفہ کو تعنیات کریں کہ جس کی لازمی اطاعت کی جائے۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيماً﴾
"بیشک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں میں اس (حق) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے، اور آپ (کبھی) بددیانت لوگوں کی طرف داری میں بحث کرنے والے نہ بنیں" (النساء: 105)۔
لہٰذا شریعت کے ذریعہ حکمرانی کرنا خلیفہ کے وجود کو واجب قرار دیتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَن خَلَعَ يَداً مِن طَاعَةٍ، لَقِيَ اللَّهَ يَومَ القِيَامَةِ لا حُجَّةَ له، وَمَن مَاتَ وَليسَ في عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً» "جو امام کی اطاعت سے دستبردار ہوجائے تو وہ بغیر عذر کے اللہ سے ملاقات کرے گا، اور جو بیعت کا طوق گردن پر لیے بغیر مرجائے تو وہ جاہلیت کے دور کی موت ہے"۔
اس حدیث کے مطابق مسلمان کی گردن پر بیعت کے طوق کی موجودگی واجب ہے ، بصورت دیگر ان کی موت ایام جاہلیت کے دور کی موت کے مثل ہے اور اس لئے ایک خلیفہ کا تقرر ضروری ہے، جس کی موجودگی میں بیعت کا طوق گردن پر لازمی آتا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
«كانَتْ بَنُو إسْرائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأنْبِياءُ، كُلَّما هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وإنَّه لا نَبِيَّ بَعْدِي، وسَيَكونُ خُلَفاءُ فَيَكْثُرُونَ» قالوا: فَما تَأْمُرُنا؟ قالَ: «فُوا ببَيْعَةِ الأوَّلِ فالأوَّلِ، أعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ، فإنَّ اللَّهَ سائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعاهُمْ»
"بنو اسرائیل کی راہنمائی انبیاءُ کرتےتھے، جب بھی کوئی ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی آجاتا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ، خلفاءُ ہوں گے اور ان کی تعداد بہت ہوگی ، انہوں (صحابہؓ) نے کہا: تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان کو بیعت دو ، ایک کے بعد ایک کو، ان (یعنی خلفاءُ) کےحقوق کو پورا کرو ، کیونکہ اللہ تعالی ان سےرعایاپرانکی حکومت کے بارے میں پوچھیں گے۔"
اور یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے وضاحت ہے کہ ان کے بعد صرف خلیفہ ہوں گے جن کو لازماً بیعت اطاعت دی جانی چاہئے اور اسے پورا کرنا ہوگا۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
«إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُم»
جب تین افراد سفر میں ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو اپنا امیر مقرر کرلیں۔"
ایک خلیفہ کو مسلمانوں کے لئے امیر بنانا جو ان سب کی دیکھ بھال کرے ، اور اللہ سبحانہ و تعالٰی کے قانون کے ذریعہ ان پر حکمرانی کرے، سفر میں امیر کی تقرری سے زیادہ اہم اور بڑا فرض ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: «إِذَا بُويِعَ لِخَلِيفَتَيْنِ فَاقْتُلُوا الْآخَرَ مِنْهُمَا» "اگر دو خلفاء کو بیعت دی جائے، تو پھر بعد والے (جس کو بیعت دی گئ) کو قتل کر ڈالو۔"
اس سے ظاہر ہوتا ہے:
اولاَ: امت کا اتحاد واجب ہے، اتحاد کو برقرار رکھنے کے خاطر شارع نے دوسرے خلیفہ کے قتل کی اجازت دی ہے جس کا خون محفوظ ہے۔
دوئم: خلیفہ صرف وہی ہے جسے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کے ذریعہ حکمرانی کرنے کے لئے بیعت دی جائے ۔
سوئم: شارع کا یہ حکم کہ دوسرے خلیفہ کو قتل کردیا جائے جس کو بیعت دی گئی ہو اور اس کے نتیجے میں اس کی حامیوں کو بھی قتل کردیا جائے جنہوں نے اسے بیعت دی، یہ خلیفہ کے وجود کو اور خلافت کے اتحاد کو واجب قرار دیتاہے۔
جہاں تک اجماعِ صحابہؓ سے ملنے والے دلائل کا تعلق ہے تو یہ عمر بن الخطابؓ کا حکم ہے کہ شوریٰ کے چھ افراد کو خلیفہ کی بیعت کے لئے تین راتوں کی مہلت دی جائے، اور تین (رات) کے بعد اعتراض کرنے والوں کو قتل کردیا جائے، اور یہ بات صحابہ کرامؓ نے بھی سنی ، اور انہوں نے خلیفہ کے بغیر تین رات سے زیادہ رہنے کی ممانعت کا اعتراف کیا۔
- مزید یہ فقہی اصول: "جو کچھ بھی واجب کی ادائگی کے لئے ضروری ہووہ بھی واجب ہے"۔ لہٰذا خلیفہ تعینات کرنا ایک واجب فرض بن جاتا ہے ، جس کے بغیر شرعی احکام نافذ نہیں ہوسکتے۔
- ہم خلیفہ الفاروقؓ کے اس قول پر بات ختم کرتے ہیں کہ: " جماعت کے بغیر اسلام نہیں، اور قیادت کے بغیر کوئی جماعت نہیں اور اطاعت کے بغیر کوئی قیادت نہیں۔ جس کو بھی لوگوں کی طرف سے شرعی بنیاد پر قیادت دی جائے ، وہ اس کے اپنے لئے اور لوگوں کے لئے حیات ہے ، اور جس کو بھی لوگوں کی طرف سے غیر شرعی بنیاد پر قیادت دی جائے، وہ اس کے اپنے لیے اور لوگوں کے لیے تباہی ہوگی"
اے مسلمانو:
استعماری کافر اور ان کے ایجنٹوں نے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادی ہے کہ مسلمان کمزور ہیں اور ان کی مادی طاقت خلافت کے قیام اور اس کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے، اور یہ کہ ان کے بٹے ہوئے ممالک حکمرانوں اور لوگوں کی بدعنوانی کا شکار ہونے کی وجہ سے خلافت کے قیام سے قاصر ہیں۔ یہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہے تاکہ ان میں کمزوری اور مایوسی پھیلائی جائے اور انہیں اس عظیم ذمہ داری سے باز رکھا جائے۔ اس سازش نے انھیں اللہ سبحانہ وتعالی کے الفاظ بھلا دیے:
﴿كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾
" کئی مرتبہ اﷲ کے حکم سے تھوڑی سی جماعت (خاصی) بڑی جماعت پر غالب آجاتی ہے، اور ﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے" ۔ [البقرہ: 249]۔
اور اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے: ﴿وَكَانَ حَقّاً عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ "… اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں" [الروم: 47]۔
اور اس سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ﴾
“بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان لانے والوں کی دنیوی زندگی میں (بھی) مدد کرتے ہیں اور اس دن (بھی کریں گے) جب گواہ کھڑے ہوں گے،”[غافر : 51].
ان سے اللہ کا استخلاف (جانشینی اقتدار) کا وعدہ بھلا دیا، اللہ کا ارشاد ہے:﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً﴾
“اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لئے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے (غلبہ و اقتدار کے ذریعہ) مضبوط و مستحکم فرما دے گا اور وہ ضرور ان کے پچھلے خوف کو ان کے لئے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے [النور: 55].
انہوں نے انہیں اپنے نبی ﷺ کی بشارت کو فراموش کرا دیا، کہ جابرانہ حکمرانی ، جبر و استبداد کی حکمرانی ، قتل و غارت گری ، لوہے اور آتش کی حکمرانی کے بعد خلافت راشدہ ہوگی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
«ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ. ثُمَّ سَكَتَ»
"پھر جب تک اللہ چاہے گا ایک ظالمانہ دور ہوگا ، پھروہ جب چاہے گا اسے ختم کردے گا۔پھر نبوت کے منہج پر خلافت قائم ہوگی" اور پھر آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔"
در حقیقت ، مادی تیاری مَطلوب ہے اور یہ تیاری ہماری پوری قابلیت کے ساتھ ہونی چاہیے، لیکن سب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ فتح صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَا النَّصْرُ إِلا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ﴾
“اور فتح اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمت والا ہے“ [الا عمران: 126]۔
اور یہ مادی طاقت فتح حاصل نہیں کرسکے گی اگر مادے کا مالک اور خالق ہمارا ساتھ چھوڑ دے۔ اللہ کی رضا حاصل کرنا اولین ترجیح ہے ، پھر ہماری اہلیت کے مطابق تیاریاں ہیں۔ اور تم اے مسلمانوں! اس کے اہل ہو، جب تک تم اللہ کی رسی اور اس کی خوشنودی پر قائم رہو۔ تم اقوام عالم میں سب سے زیادہ معزز ہو، تم امت وسط ہو ، بہترین قوم جو انسانیت کے لیے بھیجی گئی۔ لہذا ، اللہ سبحانہ وتعالی پر بھروسہ کرو اور اپنے دین کی تائید کرو اور خلافت کو نبوت کے منہج پر قائم کرو ، اللہ تمھاری حمایت کرے گا اور تمھاری قدموں کو ثابت قدم رکھے گا ، اور اللہ سبحانہ وتعالی تمھارے ساتھ ہے اور تمھارے اعمال کے اجر کو محفوظ رکھے گا۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد المرسلين سيدنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين وعلى من سار على دربه واهتدى بهديه إلى يوم الدين.
شيخ سعيد رضوان – ولاية أردن
Latest from
- امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...