الإثنين، 03 صَفر 1447| 2025/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

میڈیا ریاستوں کا ایک ستون ہے

(ترجمہ)

الواعی میگزین، شمارہ نمبر 467

انتالیسواں سال

ذوالحج  1446ھ

بمطابق جون 2025ء

تحریر : أبو سليم الحسن – فلسطين

میڈیا نے ہمیشہ عوامی شعور کو تشکیل دینے اور اسے ریاست کی مرضی کے مطابق ڈھالنے میں واضح کردار ادا کیا ہے۔ رائے عامہ کو خصوصی مسائل کے گرد گھمائے رکھنے یا ان مسائل کو اجاگر کرنے یا ان کے خلاف مؤقف بنانے میں میڈیا خاصا اہم رہا ہے۔ زمانۂ جاہلیت کے عرب معاشرے میں فنِ شعر وشاعری نے میڈیا کی ایک طاقتور شکل اور خاصی شہرت کا کردار ادا کیا تھا۔ نامور ممتاز شعراء اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے اعلیٰ سماجی مقام رکھتے تھے، بعض حلقات میں ان شعراء کی بڑی مانگ ہوتی تھی اور بعض دوسرے ان سے رعب کھاتے تھے۔

مثال کے طور پر، ایک شاعر نے کہا: كم خامل سما به إلى العلا، بيت مديح من بليغ ذلق ”کتنے ہی سست اور نکمے لوگوں کو ایک فصیح و بلیغ شاعر کے قصیدۂ مدح نے اعلیٰ بلندیوں تک پہنچا دیا“ مثل بني الأنف ومثل هرم، وكالذي  يعرف  بالمحلق ”جیسے کہ آلِ انف اور اہرام والے، اور وہ جو المحلّق کے نام سے مشہور ہیں“ وكم وكم حط الهجا من ماجد، ذي رتبة قعساً وقدرٍ سمق ”اور کتنے ہی باوقار، عالی مرتبت لوگ، جو کہ معدوم کر دئیے اور ان کا مقام گرا دیا گیا“ مثل الرَّبيع وبني العجلان، مع بني نمير جَمَرَات الحَدَق ”جیسے کہ الربیع، آلِ عجلان، اور بنو نمیر، جو نگاہوں میں صرف راکھ کی مانند ہو کر رہ گئے“

یہ اشعار اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ کس طرح فصیح و بلیغ مدح ایک کم حیثیت شخص کو بلند مقام تک پہنچا سکتی ہے، جیسے کہ بنو الانف اور المحلّق کی مثالیں۔ اور کس طرح ہزیمت گوئی کسی باعزت و باوقار شخص کو رسوا کر سکتی ہے، جیسے کہ الربیع اور بنو عجلان۔ اور اس سے عرب ثقافت میں شاعری کا بے پناہ اثر و رسوخ ظاہر ہوتا ہے، جو کسی کی شہرت کو آسمان تک پہنچا بھی سکتی ہے اور خاک میں بھی ملا سکتی ہے۔

عرب قبائلی نسبت کو بہت فخریہ اور باعثِ تعظیم سمجھتے تھے، اور ان میں بہت کم لوگ ہی ایسے ہوتے تھے جو اپنے نسب پر فخر نہ کرتے، جب تک کہ ان کے نسب سے کوئی شرمندگی یا ذلت وابستہ نہ ہوتی، جیسا کہ بنو الأنف النّاقہ کے ساتھ ہوا۔ تاہم، یہاں تک کہ وہ قبیلہ بھی اس وقت بلند مرتبہ پا گیا جب ایک شاعر نے ان کی تعریف میں ایک قصیدہ لکھا، اور اس طرح ان کا مقام اور عزت بحال ہو گئی۔ قصیدہ کے الفاظ یہ تھے: قوم هم الأنف والأذناب غيرهم، ومن يسوي بأنف الناقة الذنبَ ”وہ ہیں الانف (یعنی ناک والے)، جبکہ دوسرے صرف دُم ہیں اور کوئی کیسے ایک اونٹنی کی ناک کا موازنہ اس کی دُم سے کر سکتا ہے؟‘‘

یہ شعر اس قبیلے کی مدح میں ہے جسے پہلے مذاق کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح، جریر نے بنو نمیر کی ہزیمت کرتے ہوئے ایک قطعہ لکھا، حالانکہ بعض لوگ اس قبیلے سے نسبت پر فخر کرتے تھے، مگر جریر نے کہا: فغض الطرف إنك من نمير، فلا كعباً بلغت ولا كلاباً ”اپنی نظریں نیچی رکھو، کیونکہ تم بنو نمیر سے ہو — نہ تم قبیلہ کعب سے بہتر ہو، اور نہ ہی اُن کے کتوں سے!‘‘

اسلام آنے سے قبل، عرب سرداروں کے اپنے شاعر ہوا کرتے تھے جو اپنی شاعری کے ذریعے ان کے کارناموں، طاقت اور اقتدار کو شان و شوکت کے ساتھ بیان کرتے، اور ان کے دشمنوں کو ہزیمت گوئی کے ذریعے کمتر، کمزور اور حقیر ثابت کرتے۔ ان کی شاعری لوگوں میں پھیل جاتی، اور جو کہ سرداروں کی عین منشاء بھی یہی ہوتی تھی۔ اس کے صلے میں بادشاہ اور سردار ان شاعروں کی بڑی عزت کرتے، اور شاعروں کے ایسے کاموں کے مطابق انہیں انعام و اکرام سے نوازتے تھے۔

حسان بن ثابتؓ کا شمار ایسے ہی شاعروں میں سے تھا۔ وہ (اسلام سے پہلے) غسانی بادشاہوں کے دربار میں آیا جایا کرتے، اپنی شاعری کے ذریعے ان کو فائدہ پہنچاتے اور بدلے میں ان کے مال و دولت سے خود بھی مستفید ہوتے۔ تاہم، جب اسلام آیا، تو حسان بن ثابتؓ نے اپنی شاعری کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں وقف کر دیا۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے اسلام کا دفاع کرتے، اس کے رسالت کے پیغام کو پھیلانے اور اسلام کے دشمنوں کی ہجو کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، «اهجوا قريشاً، فإنه أشد عليهم من رشق بالنبل» ”قریش کی ہجو کرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے‘‘۔ پھر آپ ﷺ نے ایک شخص کو ابن رواحہ کے پاس بھیجا اور فرمایا، «اهْجُهُمْ» ”ان کی ہجو کرو‘‘۔ اس نے ہجو کی لیکن آپ ﷺ اس سے مطمئن نہ ہوئے۔ پھر کعب بن مالک کے پاس بھیجا لیکن اس سے بھی آپ ﷺ مطمئن نہ ہوئے۔ پھر حسان بن ثابت کے پاس بھیجا۔ جب حسان آئے تو انہوں نے کہا کہ ”آپ پر وہ وقت آ گیا کہ آپ نے اس شیر کو بلا بھیجا جو اپنی دم سے مارتا ہے! ‘‘ (یعنی اپنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدان فصاحت اور شعر گوئی کے شیر ہیں)۔ پھر انہوں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو حرکت دینے لگے اور عرض کیا کہ ”قسم اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں کافروں کو اپنی زبان سے اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑے کو چیر پھاڑ ڈالتے ہیں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، «لا تعجل فإن أبا بكر أعلم قريش بأنسابها، وإن لي فيهم نسباً حتى يلخص لك نسبي»، ”جلدی مت کرو! کیونکہ ابوبکر ؓ قریش کے نسب کو بخوبی جانتے ہیں اور میرا نسب بھی قریش ہی ہیں، تو انہیں میرا نسب تم پر واضح کر لینے دو‘‘۔ پھر حسان، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، پھر اس کے بعد لوٹے اور عرض کیا کہ ”یا رسول اللہ! انہوں (ابوبکرؓ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب مجھ سے بیان کر دیا ہے، قسم اس ذات پاک کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش میں سے ایسا نکال لوں گا جیسے آٹے میں سے بال کو نکال لیا جاتا ہے‘‘۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسان سے فرماتے تھے کہ «إن روح القدس لا زال يؤيدك ما نافحت عن الله ورسوله»، ”روح القدس ہمیشہ تیری مدد کرتے رہیں گے جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کا دفاع کرتا رہے گا‘‘۔ اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ «هجاهم حسان فشفى واشتفى». ”حسان نے قریش کی ہجو کی اور مومنوں کے دلوں کو تشفی  اور اطمینان دیا‘‘۔ (صحیح مسلم)

رسول اللہ ﷺ نے بعض کفار کے قتل کا حکم دیا، جو (اسلام اور مسلمانوں کے خلاف) اشعار کہتے تھے، کیونکہ ان کا کلام لوگوں پر گہرا اثر ڈالتا تھا۔ ان میں کعب بن اشرف بھی شامل تھا، اور مکہ کی دو گانے والی عورتیں بھی، جنہیں رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔

ہم آج ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ٹیکنالوجی بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور کے آغاز میں میڈیا بنیادی طور پر سرکاری اداروں تک محدود تھا، جہاں ہر ملک کے اپنے ریڈیو اسٹیشنز، ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات تھے، چاہے وہ مکمل طور پر سرکاری ہوں یا نیم سرکاری۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلے، اور نام نہاد ”آزاد میڈیا‘‘ کی ضرورت محسوس کی گئی، جسے بہرحال اکثر ریاستوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی تھی۔ پھر سوشل میڈیا کا عروج ہوا، میڈیا کی ایک ایسی طاقتور شکل جو کسی ضابطے کی پابند نہیں، مگر بسا اوقات اس میں بھی دانستہ طور پر گڑبڑ کی جاتی ہے۔

اب ریاستیں میڈیا کے اس وسیع اور پیچیدہ منظر نامے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے چیلنج کا سامنا کر رہی ہیں۔ مسلم دنیا میں زیادہ تر ممالک نے ایک جیسا طریقہ کار اپنایا ہے۔ وہ حکومتی میڈیا کو سیٹلائٹ چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی شدید مقابلہ بازی کے باوجود زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ سرکاری میڈیا اس مقابلے میں شدید کمزور ہو چکا ہے، یا کمزور نظر آتا ہے۔ ماضی کا ایک دور ایسا بھی تھا جب یہ سرکاری میڈیا عملی طور پر عوام کے لئے میڈیا کا واحد ذریعہ ہوا کرتا تھا، اور اسی وجہ سے یہ مضبوط ہوتا تھا۔ ناظرین، سامعین اور قارئین کے لئےسرکاری میڈیا ہی ایک  واحد، یا تقریباً واحد ذریعہ ہوا کرتا تھا۔

آج، اگرچہ یہ ریاستیں اپنے سرکاری میڈیا اداروں کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، لیکن وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ ان ذرائع کا عوام پر اثر و رسوخ ایک مخصوص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور وہ حد بھی خاصی کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ اقتدار بخوبی جانتے ہیں کہ مقابلہ نہایت سخت ہے، اور سرکاری میڈیا جمود، بیوروکریسی کی پیچیدگیوں، مالی و انتظامی بدعنوانی، اور ان ملکوں کے حکمرانوں پر عوام کے اعتماد میں مسلسل کمی جیسے مسائل کا شکار ہے۔

اگلا مرحلہ نام نہاد ”آزاد میڈیا اداروں‘‘ کا قیام تھا، جنہیں نئے قوانین کے ذریعے محدود حد تک میڈیا کی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی۔ ان میں سیاسی حلقوں سے وابستہ شخصیات اور دیگر افراد شامل تھے۔ یہ میڈیا ادارے خفیہ طور پر ریاست سے جڑے ہوئے تھے، کہ جسے عوام دیکھ نہ سکیں، جبکہ انہیں اپنے میڈیا کام میں ایک خاص حد تک آزادی دی گئی تھی۔ یہ آزادی اتنی تھی کہ عوام کی نظروں میں یہ سرکاری میڈیا سے بالکل مختلف نظر آتے تھے۔

چنانچہ، اگر کوئی میڈیا ادارہ خبروں سے متعلق ہو، تو اس کی خبروں میں صدر اور حکومت کی سرگرمیوں پر وہ توجہ نہیں دی جاتی جو سرکاری میڈیا میں دکھائی جاتی ہے۔ اس کے پروگرام نسبتاً زیادہ بےباک ہوتے ہیں، ان میں مختلف رجحانات سے تعلق رکھنے والے مہمان شامل کیے جاتے ہیں، اور اس کے رپورٹر زیادہ پیشہ ور اور معلومات کے ذرائع تک زیادہ رسائی رکھنے والے ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ ادارہ تفریح یا انٹرٹینمنٹ کے لئے ہو، تو اس کے پروگرام اخلاقی حدود سے زیادہ آزاد (بلکہ بعض اوقات ان حدود سے باہر) ہوتے ہیں، خواہ وہ ٹاک شوز ہوں، ان میں بلائے گئے افراد، یا وہ ڈرامے، گانے، فلمیں اور اشتہارات ہوں جو یہ ادارے نشر کرتے ہیں۔ اگر یہ کوئی مذہبی نوعیت کا میڈیا ادارہ ہو تو یہ مذہب کی ایک قدامت پسندانہ تصویر پیش کرے گا، خواہ وہ اپنے میزبانوں، مواد، مہمانوں یا پہلے سے تیار شدہ مواد کے ذریعے ہو جو وہ نشر کرتا ہے، چاہے وہ مواد دستاویزی پروگرام ہو، بیانیہ ہو یا تفریحی نوعیت کا ہو۔

ان میڈیا اداروں کی نوعیت یا انداز خواہ کچھ بھی ہو، ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ادارے کے بعض افراد کو اس حد تک مشہور کر دیا جائے کہ وہ اپنے چینل سے بھی آگے پہچانے جائیں۔ چاہے کسی علاقائی یا عالمی چینلز میں بطور مہمان شرکت ہو، یا سیمینارز اور میڈیا فیسٹیولز میں ان کی شرکت، اور بہتر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ان مواقع پر بطور مقرر شریک ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان افراد کو مقامی عوام میں زیادہ قبولیت اور مقبولیت حاصل ہو جاتی ہے۔

میڈیا ادارہ کسی بھی نوعیت یا انداز کا ہو، اس کے کارکنان وہی لوگ ہوتے ہیں جو ملک کے حکومتی نظام سے بنیادی طور پر مطمئن ہوتے ہیں، اگرچہ ان میں سے بعض افراد بظاہر حکمرانوں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ تاہم، ان سب کی سوچ اسی نظام کے دائرے میں محدود رہتی ہے، اور وہ اس کے باہر سوچنے کو تیار نہیں ہوتے۔ لہٰذا یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ کچھ ریاستی ادارے ان تمام میڈیا اداروں سے قریبی رابطے میں رہتے ہیں، تاکہ ان کی نشریات کو ریاست کی مجموعی پالیسی اور سمت کے مطابق ڈھالا جا سکے۔

اگر ان ریاستوں میں سے کوئی ایک ریاست بھی اس میڈیا شعبے کو علاقائی سطح پر کام کرنے میں کامیاب ہو جائے، جہاں اس کے سامعین و ناظرین ملکی سرحدوں سے تجاوز کر کے پورے خطے تک پھیل جائیں، تو یہ ریاست ایک اہم کامیابی حاصل کر لیتی ہے جو علاقائی سطح پر تسلیم کی جاتی ہے۔ اور اس کامیابی کی بدولت وہ ریاست اپنے مغربی آقاؤں کے سامنے خطے میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیتی ہے۔

اب جو چیز باقی رہ جاتی ہے، وہ سوشل میڈیا کا کردار ہے جو ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے اور سب کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا نے بڑے پیمانے پر عوام کی دلچسپی حاصل کر لی ہے، اور نتیجتاً ہر وہ ریاستی ادارہ جو لوگوں پر اثرانداز ہونا چاہتا ہے، اپنی توجہ اس پر مرکوز کر چکا ہے، چاہے وہ پلیٹ فارمز ہوں، انفلوئنسرز، یوٹیوبرز، میڈیا پیجز ہوں یا دیگر ذرائع تشکیل دے کر ہوں۔ ان اداروں میں ان ممالک کی حکومتیں بھی شامل ہیں جو ان پر حکمرانی کرتی ہیں۔ یہ ریاستیں اب صرف سوشل میڈیا کو براہِ راست اثر انداز ہونے کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال نہیں کر رہیں، بلکہ انہوں نے اپنی رسائی دیگر فعال پلیٹ فارمز سے رابطہ قائم کرنے تک وسیع کر لی ہے، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ عوام کے لئےتیار کردہ کوئی بھی مواد، عوامی شعور کو تشکیل دینے کی حکومت کی عمومی پالیسی سے ہٹ کر نہ ہو۔

تاہم، سوشل میڈیا میں بعض سکیورٹی کی خامیاں موجود ہیں جن پر ریاستوں کے لئے قابو پانا مشکل ہوتا ہے، اور یہ خامیاں دو بڑے شعبوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں:

پہلا شعبہ ان گروہوں سے متعلق ہے جو نہ تو حکومت کے حامی ہیں، اور نہ ہی روایتی مخالفین بلکہ وہ گروہ ہیں جو خود  حکومت کی موجودگی کو مسترد کرتے ہیں اور اسے گرانے کے لئے سرگرم ہوتے ہیں۔ یہ حکومتیں ان گروہوں کے تیار کردہ عوامی مواد پر قابو پانے سے قاصر رہتی ہیں، کیونکہ ان کا مقصد وہ اجتماعی شعور توڑنا ہوتا ہے جو ریاست تشکیل دے رہی ہوتی ہے، اور اس کی جگہ عوامی آگہی کے لئے ایک نئے فکری رخ کی بنیاد رکھنا ہوتا ہے۔ چنانچہ، حکومتوں کی جانب سے ان پلیٹ فارمز کے اثر کو روکنے کی سب سے نمایاں کوشش یہ رہی ہے کہ ان کی ویب سائٹس کو بلاک کر دیا جائے، لیکن بہرحال حکومتوں کا دائرہ اثر محدود ہی رہا ہے۔

دوسرا شعبہ افراد کے ذاتی صفحات اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق ہے۔ ان پلیٹ فارمز پر لوگ اپنی رائے، خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں، اور ان میں ایسے افراد بھی شامل ہوتے ہیں جو ان گروہوں کی پیروی کرتے ہیں جو موجودہ حکومتوں کی قانونی حیثیت کو مسترد کرتے ہیں۔ اب عوام الناس اپنے ذاتی صفحات پر خود بھی پہلے سے کہیں زیادہ جرأت کے ساتھ بات کرتے اور لکھتے ہیں۔ اور یہ چیز ان حکومتوں کے لئے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ چنانچہ ان حکومتوں نے سکیورٹی کے نقطۂ نظر سے ایسے اقدامات کیے ہیں جن کا مقصد عوام کو خوف میں مبتلا کرنا ہے، تاکہ وہ میڈیا میں اس اظہارِ رائے کے خلا کو کسی حد تک بند کر سکیں۔ ان اقدامات میں سائبر کرائم کے قوانین نافذ کرنا، سکیورٹی اداروں کی جانب سے نگرانی کرنا، اور دیگر تادیبی سخت کاروائیاں شامل ہیں۔

ان تمام اقدامات کے ذریعے، اور میڈیا اداروں اور بااثر سوشل میڈیا پیجز کے ساتھ اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے، ہمارے ممالک کی حکومتوں نے ایک مربوط میڈیا نظام تشکیل دے دیا ہے۔ اس میڈیا نظام کا مقصد یہ ہے کہ عوامی آگہی کی سمت کو اپنے قابو میں رکھا جائے، عوام کے جذبات و احساسات کو ایسے رخ پر ڈالا جائے جو بحرانوں کے وقت حکومت کے لئےخطرہ نہ بنے، ایک مخصوص ثقافتی شناخت پیدا کی جائے جو حکومتی ترجیحات و مفادات سے ہم آہنگ ہو، اور ہر اُس ثقافت یا نظریے سے نبردآزما ہوا جائے جو ان کے نظام کے لئے خطرہ یا متبادل بن سکتا ہو۔

اس میڈیا نظام کے اثرات غزہ کی جنگ، ”آپریشن طوفان الاقصیٰ‘‘ کے دوران واضح طور پر سامنے آئے، جب میڈیا ادارے دو نمایاں کیمپس میں تقسیم ہو گئے:

پہلا کیمپ اپنی رپورٹنگ میں غزہ کی مزاحمت کی کارروائیوں کی حمایت کرتا تھا، یا کم از کم اپنی کوریج میں اس کی طرف جھکاؤ ظاہر کیا، جبکہ دوسرا کیمپ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مخالف نکتۂ نظر اپنائے ہوئے تھا۔ عوام نے دوسرے کیمپ کو مسترد کرتے ہوئے پہلے کیمپ کی طرف رجوع کیا، چاہے وہ میڈیا ادارے مقامی ہوں یا علاقائی۔ تاہم، ان دونوں میڈیا کیمپس، خاص طور پر پہلے کیمپ (جو مزاحمت کے حق میں تھا)، نے بظاہری مخصوص امور پر کام کیا:

یہ میڈیا غزہ کے مجاہدین کی عسکری جدوجہد کو ایک ایسی طاقتور قوت کے طور پر پیش کر رہا تھا، جو یہودیوں کی فوجی طاقت کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور جسے محض ایسے امدادی حلقوں کی ضرورت تھی جو دشمن کو الجھائے رکھیں، لیکن خود براہِ راست جنگ میں نہ الجھیں۔ البتہ یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود تھا کہ یہودیوں نے غزہ پر جنگ کے دوران اپنی پوری فوجی طاقت جھونک دی، اور امریکہ، یورپ اور علاقائی و غیر علاقائی حکومتوں سے بھی مدد حاصل کی جنہوں نے یہود کو اسلحہ، رسد، اور بعض اوقات افرادی قوت تک  بھی فراہم کی۔

اس طرح میڈیا نے لوگوں کے دلوں میں یہ توقع بٹھا دی کہ غزہ کے لوگ ایک فیصلہ کن فتح حاصل کر لیں گے، اور یہودی فوج کو میدانِ جنگ میں بری طرح شکست دے دیں گے۔ لیکن جب جنگ طول پکڑ گئی، اور قتل و غارت اور تباہی بڑھتی گئی، تو لوگوں کے دلوں میں مایوسی آنے لگی۔

پھر لوگوں کے ذہنوں اور جذبات کو اس طرف موڑا گیا کہ وہ یہ سمجھیں کہ غزہ کو صرف انسانی ہمدردی کی ضرورت ہے، نہ کہ فوجی مدد کی۔ اس کے نتیجے میں عوام کی توجہ صرف تباہ شدہ عمارتوں، خیموں، بے گھر لوگوں، فاقہ کشی اور سڑکوں پر پڑے شہداء کے جسموں پر مرکوز ہو گئی۔ لوگوں پر اس کا جذباتی اثر بہت گہرا ہوا، کیونکہ ان کی ہمدردی حقیقی تھی۔ میڈیا نے بڑی مہارت سے ان جذبات کو انسانی امداد کے مطالبوں کی طرف موڑ دیا،  ایسی امداد جو صرف ان ہی مجرموں کی اجازت سے ہی غزہ تک پہنچ سکتی تھی، جو  کہ خود اس نسل کشی کے ذمہ دار ہیں۔

عوام الناس کی سوچ کو اس طرف بھی موڑا گیا کہ وہ غزہ کے لئےصرف دعا کریں، بجائے اس کے کہ کوئی ایسی مدد بھیجی جائے جو واقعی یہودیوں اور ان کے اتحادیوں کے ظلم کا سدِباب کر سکے، یعنی کہ افواج۔ یوں، ان میڈیا اداروں نے غزہ کے مسئلہ کی اصل جڑ کو حل کرنے کی بجائے عوام کو صرف مسئلے کی ظاہری علامات کا علاج کرنے کی طرف لگا دیا۔

ان میڈیا اداروں نے لوگوں کی توجہ اس مطالبے سے ہٹا دی کہ فلسطین کے عوام کی مدد کے لئے افواج کو متحرک کیا جائے، حالانکہ فلسطین کا مسئلہ اپنی بنیاد سے ہی ایک عسکری مسئلہ ہے۔ ایسے حالات میں سب سے زیادہ مناسب اور ضروری یہی تھا کہ اس کام میں ماہر افراد، یعنی خطے کی افواج، آگے بڑھ کر مداخلت کرتے۔ لیکن یہ وہ راستہ نہیں تھا جسے ان میڈیا اداروں کے اصل کرتا دھرتا، اور نہ ہی ان کی پشت پناہی کرتی ہوئی یہ حکومتیں اختیار کرنا چاہتی تھیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس لائحۂ عمل کی بات پر ہی سخت پابندی تھی، حالانکہ جنگ کے آغاز میں یہی مطالبہ عوام میں بہت مقبول تھا۔

سوشل میڈیا کے وہ صفحات، جنہیں ایسے افراد اور گروہ چلاتے تھے جو ان حکومتوں کی موجودگی سے غیر مطمئن تھے، انہوں نے غزہ کی جنگ میں فوجی مداخلت کے مطالبے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم  ان حکومتوں نے اپنے سخت کنٹرول شدہ میڈیا نظام کی مدد سے عوام کو اس آپشن (یعنی افواج کی مداخلت) سے موڑنے میں کامیابی حاصل کر لی۔

ان میڈیا اداروں نے اس بات میں بھی کردار ادا کیا کہ لوگوں کی امیدیں ان سیاسی حلوں سے وابستہ ہو جائیں، جو مختلف طاقتیں پیش کر رہی تھیں، اور ان وفود سے جو خطے میں آتے جاتے رہے، اس امید پر کہ شاید وہ غزہ کے دکھ درد کا خاتمہ کر دیں اور کچھ ریلیف ہی فراہم کر دیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خطے کے کچھ ظالم اور جابر حکمرانوں کو اہمیت اور مقام دیا جانے لگا۔ لوگ یہ حقیقت بھول گئے کہ جو شخص خود ظالم ہو اور آپ کے خلاف آپ کے دشمن کی مدد کر رہا ہو، وہ کبھی حقیقی ریلیف نہیں دے سکتا۔ اصل ریلیف تو صرف اس وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق بحرانوں کا حل تلاش کیا جائے۔

تمام تر عرصۂ جنگ کے دوران لوگ اللہ تعالیٰ سے دعائیں  کرتے رہے، لیکن ظالم حکمرانوں اور ان کے میڈیا نے عوام کو اس بات پر قائل کر لیا کہ وہ انتظار کریں اور مدد اور ریلیف قطر، مصر، امریکہ، اور ان جیسے دوسرے ممالک کے سیاسی وفود  کے ذریعے سے ہی آئے گی۔

غزہ کی جنگ کے دوران عوام کا میڈیا پر انحصار بالکل واضح تھا، اور سوشل میڈیا سے ان کی وابستگی بھی بہت گہری رہی، خاص طور پر اُن پلیٹ فارمز سے جو براہِ راست مناظر اور تازہ ترین خبریں فوری طور پر دکھا رہے تھے۔ اس دوران سرکاری میڈیا اداروں کی کمزوری سب پر عیاں ہو گئی۔

یہ ان تمام لوگوں کے لیے ایک نہایت قیمتی سبق ہے جو اس خطے میں تبدیلی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ عوام پر میڈیا کے طاقتور اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ اور اللہ کے حکم سے آنے والی آئندہ اسلامی ریاست میں سرکاری میڈیا ادارے کو مکمل آزادی دی جانی چاہیے، تاکہ وہ ایک نئی قیادت کے تحت کام کرے، جس کے افراد سیاسی شعور رکھنے والے اور میڈیا کے ماہر ہوں۔ اس ادارے کی ازسرِنو تنظیم ضروری ہے، تاکہ یہ ادارہ اسلام کی دعوت کو نافذ کرنے اور پھیلانے کے بڑے مقصد کی خدمت کر سکے۔

اسی طرح، وہ تمام میڈیا ادارے جو نئی قائم شدہ اسلامی ریاست کے تحت کام کریں گے، انہیں بھی اسلامی نظام کے مطابق منظم کیا جانا چاہیے۔ ان اداروں کو ریاست کی عوامی پالیسیوں، میڈیا کے ضوابط، اور اس اجتماعی عوامی رویہ کے بارے میں آگاہ کیا جانا ضروری ہے، جو کہ سوسائٹی کی طرف سے پیش کیا جانا مقصود ہو۔ اور اس کے ساتھ ہی، ان اداروں پر جو مسلسل نگرانی کی جاتی ہے، اسے ختم کیا جانا چاہیے، اور میڈیا اور ریاستی اداروں ، خاص طور پر سکیورٹی اداروں کے درمیان براہِ راست روابط سے اجتناب برتنا چاہیے۔ البتہ، یہ لازم ہے کہ ان تمام اداروں میں شریعت کے قوانین کی مکمل پاسداری کی جائے، اور اسلامی ریاست کی عمومی پالیسی سے گہری وابستگی کی یقین دہانی کی جائے۔

بیشک مشرقِ وسطیٰ کا خطہ شدید اضطراب کا شکار ہے۔ ہم اللہ عزوجل سے دعا کرتے ہیں کہ یہ اضطراب عظیم اسلامی ریاست یعنی خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے حل ہو، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس  ریاست کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کی مدد فرمائے۔ کیونکہ نظام ہائے حیات کا ہر پہلو ازسرنو ترتیب چاہتا ہے اور اس میں میڈیا بھی شامل ہے۔

Last modified onاتوار, 27 جولائی 2025 17:47

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک