السبت، 25 ذو الحجة 1446| 2025/06/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

دنیا اور امریکہ کو مسلمانوں کے خون اور دھماکہ خیز ڈرموں سے شہریوں کے قتل کی کوئی فکر نہیں

پریس ریلیز
اگست 2012 سے سفاک بشارالاسد کی حکومت نے پہلی مرتبہ دھماکہ خیز ڈرموں کا استعمال شروع کیا اور اب تک شام کے معصوم شہریوں پر ان ڈرموں کی بارش کی جارہی ہے جو ان پرتباہی و بربادی لاڈالتی ہیں۔ یہ بیرل دوسرے بموں اور میزائلوں کے مقابلے میں کم قیمت ہوتے ہیں اور حکومتی افواج ان کو دہشت انگیز اسلحے کے طور پراستعمال کرتی ہیں کیونکہ ان کوفضا سے ہیلی کاپٹر کے ذریعےآسانی سے پھینکا جاسکتا ہے اورپھر چشم زدن میں شہریوں پر بلا امتیاز موت چھا جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شام میں اب تک 6000 بیرل بم استعمال کئے گئے ہیں جس کے باعث 20 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔
ایسا لگتا ہے کہ قرارداد نمبر 2139 جس کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے سلامتی کونسل نے 22 فروری 2014 کومنظور کیا تھا جو اس قسم کے اسلحے پر پابندی عائد کرتی ہے ،کے نفاذ کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس کااستعمال برابر جاری رہے گا۔ بشار حکومت کی شام کے مسلمانوں کا خون بہانے کی پیاس بڑھ گئی ہے اور ان ڈرموں کا بہت زیادہ استعمال کررہی ہے اور اب اس کا دائرہ نئے علاقوں تک وسیع کردیا گیا ہے۔ چنانچہ صرف حلب میں ہیومن رائٹس واچ نے 650 حملوں کے اعداد وشمار شائع کئے جن میں ان ڈرموں کواستعمال کیا گیا۔ یہ حملے قرارداد کی منظوری اور 14 جولائی 2014 تک کے عرصے میں کئے گئے۔ اس کے باوجود امریکہ اور مغربی ریاستوں نے جنگی جرائم کے ارتکاب پر مشتمل ان رپورٹوں کے حوالے سے بہت محتاط ردعمل دیا اور اس دوران اس کے ایجنٹوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی منظم اور سنگدلانہ کارروائیوں پرمعمولی سی دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور ان کا وطیرہ یہی رہے گا۔ اسی قابلِ اعتراض خاموشی نے عراق کے اندر فرقہ وارانہ حکومتی نظام کی حوصلہ افزائی کی تاکہ عراق میں بھی شام کی مثال دہرائی جائے۔ چنانچہ عراق کے مختلف علاقوں، فلوجہ سے لے کر کرمہ، تکریت اور بیجی سے لے کرموصل تک میں بڑے پیمانے پر ان دھماکہ خیز ڈرموں کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔
یہ امریکہ اور یورپین قائدین کی کھلی منافقت ہے جو شام اور عراق میں ان کے ایجنٹوں کے طرف سے مسلمانوں کے اجتماعی قتل پر خاموشی کی صورت میں ہمیں نظرآتی ہے .....جبکہ غزہ پر بدترین انتقامی حملوں کے دوران یہودی ریاست کو ان کا لامحدودتعاون حاصل رہاہے،ان یہودی حملوں نے انسانوں اور درختوں اور پتھروں تک کو بھسم کر چھوڑا۔ یہ سب کچھ بغیر کسی شک و شبہ کے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانیت کی خیرخواہی اور انسانی زندگی کے احترام کے دعوے مکمل طور پر جھوٹے، کھوکھلے اور گمراہ کن دعوے ہیں جو زمینی حقائق سے کسی طرح میل نہیں کھاتے ۔ مجموعی طور پر ان ممالک کو مسلمانوں کے حقوق اور ان کے خون کے ا حترام کی کوئی پرواہ نہیں ۔ وہ بعض اوقات مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں مگر عین اسی وقت وہ اپنے ایجنٹوں اور دوستوں کے جرائم پر چپ سادھ لے لیتے ہیں جب اپنا مفاد پیش نظر ہو.....اس بنا پر موت کے یہ ڈھانچے جو دنیائے اسلام کے اندر بوئے گئے ہیں صرف مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے اوران کی قوت کو منتشر کرنے اور ان کے علاقوں کو مختلف ٹکڑوں اور باہمی خون خرابےکے میدانوں میں تقسیم کرنے کے لئے ہیں تاکہ ان کے ذخائر کو لوٹنے اور ان کے توانائی کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو اور اس سے بھی زیادہ اہم بات ان کے نزدیک یہ ہے کہ نبوت کے نقش قدم پر دوسری ریاستِ خلافت کے قیام کو روکا یا مؤخر کیا جائے.....وہ ریاستِ خلافت جو ان کے جھوٹ اور فریب کاریوں کو بے نقاب کرے گی، ان کی زبانوں کو لگام دے گی اور ان کے ان جھوٹے دعوؤں کی قلعی کھول کے رکھ دے گی کہ ہم حق، بھلائی، عدل وانصاف اور انسانی احترام کے محافظ ہیں جبکہ دنیا ان کے مظالم اور فساد انگیزیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ مگر ان کی یہ ساری کوششیں ناکام ہوں گی۔ جہاں تک ہم حزب التحریر کی بات ہے تو ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ اب دنیا کی قیادت اور زمام ِ کاراپنے ہاتھ میں لینے کے بہت زیادہ قریب ہے یہ امر اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں، حق تعالیٰ کاارشاد ہے:
﴿يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ ط وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ * هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴾
"وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا ،خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے،خواہ مشرکوں کو ناگوار ہی ہو " (الصف :8-9)

Read more...

مھنا الجبیل کے مقالے کا جواب کیا یہ ممکن ہے کہ امت کی وحدت کو حاصل کرنے کے لئے جمہوریت خلافت کا متبادل ہو سکتی ہے؟

پریس ریلیز
الجزیرہ ویب سائیٹ نے 23 اگست 2014 کو المعرفۃ سیکشن میں استاد مھنا الجبیل کا مقالہ شائع کیا جس کا عنوان تھا : "وحدت ،خلافت اور جمہوریت"۔ اس مقالے کو لکھنے والے نے ان مسلمان نوجوانوں کو قدامت پسند کے نام سے مخاطب کیا جو جمہوریت کو قبول کرنے سے گھبراتے ہیں یا اسلامی وحدت کے حصول کے لیے اس کا تجربہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ یہ وحدت بلاشبہ کتاب اللہ اور سنت متواتر کے مطابق فرض ہے۔
لکھنے والے نے یہ سوچ عام کرنے کی کوشش کی ہے کہ "جمہوری دستوری نظام کو سمجھنے بڑی تشنگی پائی جاتی ہے جبکہ یہ دستوری نظام ہی مختلف ادیان اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو قومی دستوری حق کی ضمانت دیتا ہے"۔ وہ مزید کہتا ہے کہ "وہ ممالک جو جمہوریت کے زیر سایہ ہیں دوسرے غیر جمہوری ممالک کے بنسبت اسلامی وحدت کے مفہوم اور پیمانے سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں"۔
اس پر زور دینے کے بعد کہ جمہوریت ہی وحدت کے حصول کا زیادہ قابل عمل طریقہ ہے، لکھنے والے نے اشاروں اور کنایوں میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اصطلاحی خلافت کے مفہوم کا شرع میں کوئی وجود نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ خلافت ایک تاریخی نام ہے جس کو وراثت میں حکمرانی پانے والوں کے لیے استعمال کیا گیا جو اس کے مستحق نہیں تھے۔ پھر اس نے خلافت کا یہ تصور دیا کہ چند علاقائی ممالک کی فیڈریشن بنا کر اس اتحاد کے سربراہ کو خلیفہ قرار دیا جائے!
لکھنے والےنے آخر میں اس کا یہ خلاصہ کیا ہے کہ شرع اور مسلمانوں کی تاریخ میں خلافت کی اصطلاح فکری پیچیدگی ،ظاہری فہم اور پھر دور حاضر کی سیاست میں اس کے نتائج ایسے نہیں جو بعض نوجوان سمجھتے ہیں،اس لیے کسی بھی مسلم قوم کے لیے وطن کو سیاسی اور اجتماعی قوت بنا نے اور آزادی کی خاطر قانونی مزاحمت کے لیے اس سیاسی ڈھانچے کو مسترد کر نے کا یہ کوئی معقول بہانہ نہیں ہے جو جمہوریت میں بن چکا ہے چنانچہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے ملکوں کے درمیان وحدت کے حصول کے لیے جمہوری منصوبے پر ہی کاربند رہیں۔۔۔
اس مضمون میں جو کچھ کہا گیا ہے اس پر ہم یہ تبصرہ کریں گے:"جمہوری ریاست" کی اصطلاح گھڑ نے اور اس کو رواج دینے اور کسی ریاست کو جمہوری قرار دینے کے لئے مغرب نے تین من گھڑت،خیالی اور ناکام پیمانوں پر اعتماد کیا (Constitutional definition، Substantive measure، Procedural)۔ یہ تین اپنے تیئں خود تضادات کا مجموعہ اور عملاً خیالی ہیں !۔۔۔چنانچہ جمیکا جیسے ملک کسی حد تک جمہوری ملک قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ یسے انتخابات کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو جمہوریت پسندوں کو پسند آئے حالانکہ جمیکا اپنے شہریوں سے زیادتی کرتا رہتا ہے جو کہ خود مغرب کےمطابق "جمہوری آزادیوں" کے خلاف ہے۔اسی طرح انہوں نے عراق جیسے ملک کو جمہوریت میں بے مثال قرار دیا حالانکہ حال ہی میں المالکی کی حکومت جرائم میں صدام حکومت کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ! ۔۔۔ جنوری 2011 کے انقلاب کے بعد مصر کے انتخابات جن کے نتیجے میں مرسی حکومت بنی تھی اور جن کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ انتخابات شفاف تھے پھر فوج کی جانب سے سب کچھ الٹ دیا گیا اور مرسی کو برطرف کر دیا گیا اور یہ جمہوریت کے چیمپئن امریکہ کی آشیر باد سے کیا گیا!
ان زمینی حقائق اور جمہوری ماڈل کے مکمل ناکام ہو نے کے بعد ہم اس لکھنے والے کے ہدف کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ ایک ایسے خیالی، تضادات سے بھر پو اور ناقابل عمل نظام پر اعتماد اور اسے اختیار کرنے کی دعوت اور امت کے عقیدے سے پھوٹنے والے نظام خلافت جس کی جڑیں تاریخ میں گہری ہیں جو تقریباً چودہ صدیوں تک نافذ رہا ، کو ترک کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا لکھنے والا یہ نہیں سمجھتا کہ ایک ایسے ناکام اور خیالی نظام سے چمٹے رہنا جو ناقابل عمل ہے ایسا ہی ہے جیسا کہ ایسی رسی سے لٹکنا جو ہوا میں معلق ہو اور کیا یہ ایک خیالی چیز کے پیچھے بھاگنا نہیں۔۔۔؟
اس کے بعد مقالے میں جو یہ کہا گیا ہے کہ جمہوریت لوگوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے مثالی نمونہ ہے حالانکہ زمینی حقائق اس کے بر عکس ہیں اور جمہوری ممالک کی صورت حال اس کے خلاف ہے۔ فرانس کو ہی لیں جہاں مسلمانوں عورتوں کے سکارف اوڑھنےپر پابندی ہے، سوئٹزر لینڈ میں مناروں پر پابندی لگائی گئی ہے، امریکی ڈرون جو افغانستان، پاکستان، یمن اور صومالیہ میں مسلمانوں کا خون بہارہے ہیں ۔۔۔بلکہ وہ صر ف مسلمان ہونے کی وجہ سے بغیر کسی منصفانہ عدالتی فیصلے کے خود اپنے مسلمان شہریوں کو قتل کرتے ہیں، امریکی خفیہ ایجنسیوں کو پیشگی قتل کی اجازت کا قانون جس کی اوباما نے بھی توثیق کردی ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے ۔۔۔ پھر جمہوری مغرب کی جانب سے سب سے بڑا جرم جس کو (اسرائیل ) کہا جاتا ہے کی سرپرستی، ابوغریب کی شرمناکیاں، گونتاناموبے کی رسوائیاں اور اس کے ساتھ ویتنام میں امریکہ کی روسیاہی، پھر دیکھیں دوسری عالمی جنگ میں جو کچھ ہوا ۔۔۔آخر میں ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ جمہوریت نے انسانیت کو شر، قتل و غارت گری اور کرپشن کے سوا کیا دیا؟
خلافت ایک شرعی حقیقت ہے اور یہ شرعی وحدت بھی ہے ، کتاب اور سنت کے نصوص اس کے ذکر سے بھرے ہیں، اس کے قواعد کو بیان کرتے ہیں۔ خلافت کی فرضیت کے بارے میں امت یا آئمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا﴾ "کسی مؤمن مرد اور مؤمن عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کریں تو ان کو اس میں کوئی اختیار ہو اور جس نے اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کی تو کھلی گمراہی میں مبتلا ہو گیا " (الاحزاب:36)۔
خلافت صرف بیعت کے ذریعے خلیفہ کا انتخاب نہیں بلکہ یہ خلافت ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں معاشرتی نظام، اقتصادی نظام، حکمرانی کا نظام، عدالتی نظام، تعلیمی نظام، سزاوں کا نظام اور دیگر نظام ہائے حیات پائے جاتے ہیں۔ یہ نظام اس اسلامی ریاست میں صدیوں تک موجود تھے جو اسلام کو نافذ کرتی تھی، اسی لیے وہ ریاست دنیا کے لیے ایک آئیڈیالوجیکل ریاست تھی جس نے نور اور عدل کے علم کو بلند کیا، جس نے امت ، اس کے عقیدے اور اس کے مقدسات کی حفاظت کی ضمانت دی ۔۔۔
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاك إِلَّا رَحْمَة لِلْعَالَمِينَ﴾ "اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے" (الانبیاء:107)

ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

Read more...

بہن زولفیا امانوف کے خلاف عدالتی کاروائیوں کے مضمرات (قَدْ بَدَتْ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ) "بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ( عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ " (آل عمران:118)

22 اگست کوجمہوریہ کرغستان کے شہر اوش میں ضلعی عدالت میں بہن زولفیا امانوف کا مقدمہ اختتام کو پہنچا۔ اس سے پہلے کویا توف ایلار، میرزا بائیکوف بولات، عبدالداییف الماس پر مشتمل عدالتی بنچ نے جج کوجامکولاف رمضان کی طرف سےیکم جون 2014 کو لگائے گئے الزامات سے بہن کو بری قرار دیا تھا جس میں بہن کے بارے میں 50 ہزار سوم جرمانہ اور ایک سال جیل کی سزا کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ ماہرین اور تحقیق کاروں کی عدم حاضری کی بنا پر عدالتی کاروائی بار بار ملتوی ہونے کے باعث تاخیر کا شکار بنی رہی اور 13 مئی سے اس حوالے سے میٹنگ کو آٹھ دفعہ ملتوی کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ ہماری بہن زولفیا اور اس کے خاندان کا مذاق اُڑارہے ہیں۔
گزشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جرنل ریمکولافا ایم نے ہماری بہن زولفیا پر انتہا پسندانہ سرگرمیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے جج سے مطالبہ کیاتھا کہ اسے مجرم قرار دیا جائے اور 5 سال جیل کی سزا دی جائے ۔
ہم پوچھتے ہیں کہ بہن زولفیا پر یہ الزامات اور سزائیں ججز اورایوان عدالت کے اراکین کی جانب سے ذاتی اقدامات کی بنیاد پر عائد کیے جارہے ہیں؟ یا یہ سب کچھ ازبکستان کی اس مجرم حکومت کے احکامات کی پیروی میں کیا جارہا ہے جس نے زولفیا کے والد امانوف حمید اللہ شہید کو اغواء کیا تھا اور ان کومسلسل 14 سال تک قیدخانوں میں تشدد کا نشانہ بنائے رکھااور جب انہیں پتہ چلا کہ امانوف کے ارادے مضبوط ہیں جنہیں توڑا نہیں جاسکتا تو ان کو درندگی سے قتل کرڈالا؟ یا پھر یہ کاروائیاں کرغستان کے اندر تشکیل پانے والی اس نئی حکومت کی طرف سے عمل میں لائی جارہی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ لڑنے میں اپنے پڑوسیوں کی پیروی کرتی ہے؟ یہ وہ حکومت ہے جس نے انتہائی بے شرمی سے اپنے عوام کی آزادی سلب کرلی ہے، وہ حکومت جو لوگوں کے اندر شراب نوشی اور گھٹیا طرزِ زندگی کو رواج دے رہی ہے، وہ حکومت جس نے اپنی قوم کو روٹی کے ٹکڑوں کو حاصل کرنے کے لئے دور دراز کے ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبو ر کیاہے، اور یہ وہ حکومت ہے جو بے چاری عورتوں پر ظلم ڈھاکر ان کو جیلوں میں قید کردیتی ہے اور ان کے شوہروں کو قتل اور بچوں کو یتیم بنادیتی ہے ۔
ہم آپ لوگوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ تم کس بنیاد پر ہماری بہن زولفیا پر یہ الزامات تھوپ رہے ہو جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ڈرتی ہے ؟ اور کس وجہ سے تم ہماری ان پاکباز اور متقی بہنوں کو جیلوں میں قید کرتے ہو ؟ تم نہیں جانتے کہ مسلمان خواتین کا پیچھا کرنا اور کوئی بھی ایسا عمل جو ان کی ایذا رسانی کا باعث بنے حرام ہے حرام ہے؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے قرآن کریم میں مؤمنین اور مؤمن عورتوں کو ایذا پہنچانے پر سخت تنبیہ کی ہے اور فرمایا ہے ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا "اور جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو اُن کے کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں، اُنہوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے " (الاحزاب:58
)۔
اور اے ججوں اور اٹارنی جنرلو اور تجھے بھی اے اتامبایوف ! ہم اللہ تعالیٰ کے اس قول سے خبردار کرتے ہیں وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا "اور جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو اُن کے کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں، اُنہوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے " (الاحزاب:58
)۔
ہماری بہادر بہن زولفیا اپنا حق مانگتی ہے کہ اس کے والد کی لاش اس کے سپرد کی جائے اور اس کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔ یہ حق اس کو اللہ عز وجل اس کے خالق نے دیا ہے کہ خون کا بدلہ خون سے لیا جائے اور اس کے اس موقف کا مکمل احترام ہونا چاہئے تھا ۔
ہم تم سے پوچھتے ہیں! تم اپنی ذمہ داریاں کیوں نبھاہ نہیں رہے ہو اور ان مجرموں کو بے نقاب کیوں نہیں کرتے ہو جنہوں نے ہمارے بھائی امانوف حمید اللہ کے ساتھ خیانت کی اور اس کے اغواء کی اجازت دی؟ اور اسی وقت تم نے امانوف حمید اللہ کی رہائی کامطالبہ کیوں نہیں کیا؟ جبکہ تب بھی تم جج اور اٹارنی جرنل کے عہدوں پرفائز تھے ؟ یہی تمہاری ذمہ داری تھی! تم کس طرح ایک کمزور اور بے بس مسلمان کی عزت پر دست درازی پر خاموشی کواختیار کرتے ہو؟ اس کی حمایت کے لئے تم لوگ حرکت میں کیوں نہیں آئے ؟ بے شک مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی ایذا رسانی پر خاموشی عظیم ظلم ہے اور اس کی وجہ سے آدمی گناہ کے اندھیر وں میں غرق ہو جاتا ہے۔
آخر میں ہم حزب التحریر والے اس بات پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں کہ اللہ کی نصرت اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دوبارہ قیام نزدیک ہے .....وہ خلافت جو حق اور عدل کی روشنی سے چمکتی ہوگی .....تب اپنی عدالت میں ہر اس ظالم کو کھڑا کر دے گی جس نے اس امت کے لوگوں پر دست درازی کی ہوگی تاکہ اسے اپنے کئے کی سزا مل جائے .....اللہ کے لئے یہ کوئی مشکل امرنہیں۔
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾
"اوراس روز مومن خوش ہوجائیں گے، اللہ کی مدد سے، وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب اور مہربان ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کاوعدہ فرمایاہے، وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں فرماتا، لیکن اکثر لوگ (اللہ کے تصرفات کو) نہیں جانتے " (الروم:4-5)

ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر



Read more...

"صرف غزہ ہی نہیں بلکہ پورا فلسطین مسلم افواج کو پکار رہا ہے " کے عنوان سے منعقد کی گئی عالمی میڈیا کانفرنس کا اختتامی بیان جسے حزب التحریر نے 19شوال 1435ھ بمطابق 15 اگست 2014 م کو بیروت - لبنان میں منعقد کیاتھا

حزب التحریر کی یہ کانفرنس "صرف غزہ ہی نہیں بلکہ پورا فلسطین مسلم افواج کو پکار رہا ہے " کے عنوان سے منعقد ہوئی ۔ مصر، اُردن اور ترکی سے تشریف لانے والے حزب التحریر کے میڈیا نمائندگان نے اپنی تقریروں میں اس بات پر زور دیا کہ فلسطین کے حوالے سے امت کی یہ ذمہ داری ہے کہ غزہ بلکہ پورے فلسطین کی آزادی کے لئے افواج کو روانہ کیا جائے۔ انہوں نے فوجیوں اور فوج کے افسران کے رشتہ داروں اور اہل خانہ کو پکارتے ہوئے کہا کہ وہ فوج میں اپنے رشتہ داروں کو اہل غزہ کی مدد اور الاقصیٰ کی آزادی کے لئے تیار کریں اورانہیں امت کے حوالے سے اپنی عسکری ذمہ دار یوں کو نبھانے کا احساس دلائیں، اور یہ کہ وہ امت پر مسلّط حکمرانوں کے بے رحمانہ احکامات ماننے سے انکار کریں.....لبنان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے صدر نے بھی اپنی تقریر میں فلسطین سے متعلق مذاکرات اور معاہدوں اور ان کے اندر موجود سازشوں پر روشنی ڈالی۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ فلسطین کے مسئلے کو یہ قرار دینا کہ یہ "فلسطینی مسئلہ " ہے دراصل بددیانتی ہے یا پھر اس مسئلے کو ناکامی سے دوچار کرنے کی کوشش ہے۔
غزہ سے ریکارڈشدہ ایک تقریر حاضرین کو سنائی گئی جو فلسطین میں حزب التحریر کے میڈیا آفس نے تیار کی تھی اور اس کی پریزنٹیشن بھی آفس کی طرف سے دی گئی ،جس میں غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں، تباہی کو بیان کیا گیا جس کی منصوبہ سازی یہودی وجود کی طرف سے کی گئی تھی ۔ انہوں نے بہادرلوگوں اور افواج سے پکار پکار کر یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس مبارک سرزمین کی نصرت وآزادی کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں ۔ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کی طرف سے بھی ریکارڈ شدہ تقریر نشر کی گئی جس میں بتا یا گیا کہ سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے پیرو کار تمام لوگوں سے جدا ایک امت ہے، ان کی جنگ ایک ہے اور ان کا امن بھی ایک ہے اور شام کے لوگ غزہ والوں کے درد میں برابر کے شریک ہیں.....
اسی طرح مرکزی میڈیا آفس کے ڈائریکٹر نے بھی اپنی تقریر میں پڑوسی مسلم ممالک کی افسوسناک صورتحال پر زور دیا، جن کا طرز عمل ہی یہودی ریاست کے تکبر اور غزہ میں مسلمانوں پر ظلم وستم میں اضافے کا جواز بنا ...... اور یہ کہ یہودی مبارک سرزمین کے غاصب ہونے کے علاوہ ایک بد دیانت قوم ہے.... انہوں نے مسلم افواج اور بالخصوص پڑوسی مسلم ممالک کی افواج کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا:
ہم یہ جانتے ہیں کہ آسمان سے فرشتے نازل ہوکر ہمارے لئے خلافت قائم نہیں کریں گے اورنہ ہی ہماری افواج کی قیادت کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ تب ہی ہماری مدد کے لئے فرشتوں کو بھیجے گا جب ہم سنجیدگی، صدق واخلاص کے ساتھ دنیا میں اسلامی زندگی کے از سر نو آغاز اور خلافت قائم کرنے کے لئے عمل کریں گے، ہماری افواج یہود کے ساتھ قتال اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دین کی نصرت کے لئے حرکت میں آئیں گی، تب غالب اور طاقتور اللہ فرشتوں کو نازل کردے گا جن کے ذریعے ہماری مدد فرمائی جائے گی گا اور ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ وہ ہمارے نائب بن کر ہماری طرف سے لڑیں گے ۔ قرآن کی آیات اس پر شاہد عدل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ) "ہاں ! بلکہ اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو اور وہ لوگ اپنے اسی ریلے میں اچانک تم تک پہنچ جائیں تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کرنے بھیج دے گا جنہوں نے اپنی پہچان نمایاں کی ہوئی ہوگی" (آل عمران:125)۔
پھر سوال وجواب کا ایک سیشن ہوا جس میں صحافیوں اور میڈیا کے لوگوں کی طرف سے مختلف سوالا ت کئے گئے،جن کا نہایت شفافیت اور گہرائی کے ساتھ جوابات دئے گئے۔
آخر میں بطور خلاصہ کے مندرجہ ذیل تین نکات پر زور دیا گیا جن کو اس کانفرنس نے سفارشات بلکہ ذمہ داریوں کا نام دیا، جن کے لئے اُمت پر کام کرنا واجب ہے۔
1۔مسلم علاقوں کی آزادی، لوگو ں کی حفاظت اور دشمنوں کے ناپاک ہاتھوں کو کاٹنے کے لئے مسلم افواج کا متحرک ہونا فرض ہے۔ اگر افواج حرکت میں نہیں آتیں تو اُمت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افواج کو ان پر مسلط حکمرانوں کے طوق کو گلے سے اتار پھینکنے کے لئے اُکسائے کیونکہ فوج اور اہل قوت ہی ہیں جو ان حکمرانوں کو کرسئ اقتدار پر بٹھاتے اور ان کے اقتدار کی بقاء کا باعث ہیں اور یہ افواج ہی ہیں جو ان کی رکھوالی کرتی ہیں ۔اس لئے اگر افواج اللہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کریں تو ان حکمرانوں کا زوال اور ان کی تبدیلی ممکن امر ہے جو ان شاء اللہ بالکل بھی مشکل نہیں۔
2۔ تمام وقتی حل اورمسلمانوں کے عزائم کو ناکام بنانے کی تمام کوششوں کو مسترد کرتے ہیں ۔ مثلاً غزہ میں بین الاقوامی فوج یا عالمی مبصرین کی تعیناتی اور فلسطین کی دو ریاستی حل جیسے حتمی قراردادیں یا ان جیسی دیگر سازشیں.....کیونکہ اہل غزہ نے مقامی طور پر تیار کئے گئے اسلحے کے ذریعے وہ کارنامے انجام دئے جن سے دنیا والوں کے دل دہل جاتے ہیں اور یہودی ریاست میں بھونچال آگیا .....تو آپ اندازہ کریں کہ جب پوری مسلم دنیا کی افواج حرکت کریں گی تو کیا غضب ڈھائیں گی۔
3۔ ذلت و خواری اور بے بسی کی دلدل میں پھنسی ہوئی اس اُمت کو حقیقی آزادی صرف ریاست خلافت راشدہ علی منہاج النبوۃ کے دوبارہ قیام کے ذریعے حاصل ہوگی جو اللہ کی شریعت پر فیصلہ کرنے والے ایک خلیفہ کی بیعت سے وجود پاتی ہے تاکہ اُمت کی بہترین حفاظت وتربیت اوردیکھ بھال کرسکے ۔ وہ خلیفہ جو مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ کردے گا اور صرف غزہ ہی نہیں بلکہ پورے فلسطین اور تمام مسلم سرزمینوں کو کفار کے قبضہ سے آزاد کرائے گا.....وہ ریاست خلافت جو امت مسلمہ کو اس کی عزت و شرف اور قو ت وطاقت کو واپس لوٹا دے گا اور ایک دفعہ پھر امت عالمی حالات کو نیا رخ دینے کے لئے دنیا کی قیادت کرے گی اور انسانیت کو اس کی خیر وبھلائی کے راستے پر گامزن کردے گی ۔
تو حزب التحریر آپ کو اسی کی دعوت دیتی ہے.....

عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

Read more...

پریس ریلیز حزب التحریر "غزہ .....بلکہ پورا فلسطین اس وقت مسلم افواج کو پکار رہا ہے" کے عنوان سے عالمی میڈیا کانفرنس منعقد کررہی ہے

حزب التحریرکا مرکزی میڈیا آفس غزہ اور پورے مقبوضہ فلسطین کی آزادی کے لئےعالمی میڈیا کانفرنس منعقد کررہا ہے،جس میں فلسطین کو پنجہ یہود سے آزادی کے لئے اُس طریقہ کار کو واضح کیا جائے گا جسے شرع نے واجب کیا ہے۔اس کانفرنس کا عنوان ہے:
"غزہ .....بلکہ پورا فلسطین اس وقت مسلم افواج کو پکار رہا ہے"
کانفرنس لبنان - بیروت میں 19 شوال 1435 ہجری بمطابق 15 اگست 2014 کو بعد ازنمازِ جمعہ 2 بجے منعقد ہورہی ہے۔

کانفرنس میں حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس اور مصر،اردن اورلبنان میں حزب کے میڈیا دفاتر کے نمائندے شرکت کررہے ہیں۔ کانفرنس میں حزب التحریر ترکی کے میڈیا آفس کےنمائندے بھی شرکت کررہے ہیں جبکہ سیکورٹی صورتحال کے پیش ِ نظر حزب التحریر فلسطین اور شام کے میڈیا آفس کے نمائندوں کی ذاتی طور پر شرکت مشکل ہےاس لئےان کی طرف سے ریکارڈ نگ ہی سنائی جائیں گی۔
کانفرنس میں غزہ وفلسطین میں جاری صورتحال کی حقیقت اور اہم مسائل پر روشنی ڈالنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی اور فلسطین کے اصل مسئلے ،اس کےاسباب اور کا میاب حل کو پیش کیا جائے گا۔ نیز مسلمانوں کی اس حوالے سے کیا ذمہ داری بنتی ہے،اس کو واضح کیا جائےگا۔ اس کے علاوہ مذاکرات اور فلسطین سے متعلق معاہدات اور عرب ممالک کی افواج کا کردار اور ان کی حقیقی صلاحیت جیسے اہم موضوعات کو زیر بحث لایا جائے گا.....آخر میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے حزب التحریر کے موقف پر زور دیا جائے گا اس لئے کہ حزب التحریر امت کا وہ قائد ہے جو ان سے جھوٹ نہیں بولتا جبکہ اس دور میں سیاست جھوٹ، دھوکہ اور گمراہی کا عنوان اختیار کرچکی ہے۔
یہ کانفرنس اس مہم کے ضمن میں ہی منعقد کی جارہی ہے ،جسے اہل غزہ پر تازہ ترین جارحیت کے آغاز کے فوراً بعد حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی طرف سےاہل غزہ کی حمایت میں شروع کی گئی تھی۔ اس مہم کا عنوان ہے: "اے مسلم افواج!اہل فلسطین کی نصرت پر لبیک کہو"۔
http://www.hizbuttahrir.today/info/index.php/contents/entry_38124
اس اعلان کے ساتھ ساتھ ٹویٹر پر بھی ہیش ٹیگ کے ذریعے ایک عالمی مہم شروع کی گئی ہے۔

#MuslimArmies4Gaza

کانفرنس کے احوال اور کاروائیوں کا جائزہ لینے کے لئےمیڈیا سے وابستہ تمام لوگوں کے لئے عام دعوت ہے اور وہ ذاتی طور پر کوریج کے لئے شرکت کرسکتے ہیں یا پھر حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی لائیو ٹی وی نشریات کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں۔

عثمان بخاش
ڈائریکٹر مرکزی میڈیاآفس حزب التحریر

Read more...

پریس ریلیز اوباما کا مردہ ضمیر!

جمعہ یکم اگست 2014 کو ایک پریس کانفرنس میں امریکی صدر اوبامہ نے کہا کہ "ہم وضاحت کے ساتھ اعلان کر چکے ہیں کہ غزہ میں جنگ میں پھنسے ہوئے معصوم شہری ہمارے ضمیر سےاوجھل نہ ہوں ۔۔۔ہمیں ان کے بچاؤ کے لیے مزید کچھ کرنا چاہیے "۔
زمینی حقائق اور امریکہ کے جرائم جو کہ ان گنت اور لامحدود ہیں اوبامہ کے ضمیر اور اس کے مگر مچھ کے آنسووں کے برعکس ہیں:
۔ سب سے پہلے تو خود اس کے بیان کے مطابق شہری "جو جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں"!!! اس نے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ یہود کی جنگی مشینری نے ہی غزہ میں چھتوں کو ان کے اندر رہنے والوں پر گرادیا اور اپنی بری ،بحری اور فضائی حملے میں اس نے امریکی اسلحہ استعمال کیا ہے۔
۔ جو چیز اس کے جھوٹ کو مزید بے نقاب کرتی ہے وہ یہ کہ اوبامہ نے جنگی جرائم کے مرتکب نیتن یاہو کی جانب سے پہلے سے موجود امریکی اسلحہ "جنگ میں پھنسے ہوئے شہریوں" پر استعمال کر کے مزید طلب کرنے پر فوراًاسلحہ سپلائی کرنے کی حامی بھر لی ، کیا یہ شہریوں کو بچانے کا طریقہ ہے!؟
۔اوبامہ کا جرائم سے بھر پور عہد اس کے جھوٹ اور جرائم کو بے نقاب کر تا ہے۔ اس کی فوج نے اس کے عہدہ صدارت کے دورات 350 ڈرون حملے کیے جو اس کے پیش رو بش کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں جس نے 50 ڈرون حملے کیے تھے۔ یہ بات مصدقہ اور مشہور ہے کہ ان حملوں میں 80 فیصد شہری مرے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد 2009 کی ابتداء میں اس نے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ "وہ اپنے پیش رو بش جونیئر کی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے طریقہ کار کو مسترد کر تا ہے کیونکہ وہ "غلط راستے " پر گامزن تھا، جو کہ "ہمارے تحفظ اور اقدار " کے خلاف تھیں۔ اس نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کو امریکی اقدار سے ہم آہنگ کیا جائے گالیکن اس نےعملاً یہ ثابت کر دیا کہ امریکی پالیسی مجرمانہ اور جارحانہ ہے اور امریکی صدور اپنے جمہوری تہذیب یافتہ امریکی عوام کی حمائت سے جو کے مجسمہ آزادی کے رکھوالے ہیں اور جو اب نیویارک کے ساحل میں دفن ہو چکی ہے، ایک دوسرے سے اس بات میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون زیادہ بڑا مجرم ہے ۔
۔ باوجویکہ کہ وہ یہودی فوجی جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کو قیدی بنا یا گیا ہے "پھر کہا گیا کہ اس کو قتل کردیا گیا" یہ فوجی حیفا کے ساحل پر چہل قدمی نہیں کررہا تھا بلکہ غزہ کی سرزمین پر شہریوں کو قتل کر نے کے مشن پر تھا لیکن اوبامہ نے انتہائی بے شر می سے بہادر اہل غزہ کو مزید قتل وغارت کی دھمکی دی اگر انھوں نے غیر مشروط طور پر اپنے قاتل کو رہا نہ کیا!! اس واقعے نے اس کے جھوٹ اور مگرمچھ کے آنسوؤں کی حقیقت کو کھول دیا جس کا وہ لوگوں کو یقین دلانا چاہتا تھا۔ اس نے غزہ کے لوگوں پر یہودی فوجیوں کواس طرح مکمل کھلی چھٹی دینے کے لیے دباؤ ڈالا جس طرح عراق،پاکستان،افغانستان ،یمن اور صومالیہ میں اس کے فوجیوں اور موت کے دستوں کو قتل وغارت کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے!!
آخر میں ہم یہ کہتے ہیں کہ اوبامہ ہو یا نیتن یاہو امت مسلمہ سے ان کی عداوت پر ہمیں کوئی شک شبہ نہیں کیونکہ وہ دن رات مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں،لیکن ہم دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ پوچھتے ہیں کہ : مسلمانوں کے اہل قوت آخر کب اسلام اور اہل اسلام کی نصرت اور مدد کے لیے اور ان کے دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے،خلافت کے قیام کے لیے وہ حزب التحریر کو کب نصرہ دیں گے تاکہ وہ ڈھال واپس آئے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : «إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ»؟ "صرف خلیفہ ہی ڈھال ہے جس کی قیادت میں جنگ لڑی جاتی ہے اور اسی کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے"۔ اے اللہ! محمدﷺ کی امت کو وہ خلیفہ عنایت کر دے جو تیری شریعت کے ذریعے حکمرانی کرے اور صرف حملہ آوروں کا ہی نہیں، اس کی خواہش رکھنے والوں کا بھی سر کچل دے۔ تو اس کا اہل اور اس پر قادر ہے۔
عثمان بخاش
حزب التحریر کا مرکزی میڈیاآفس

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک