المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 11 من شـعبان 1442هـ | شمارہ نمبر: No: 1442 AH / 028 |
عیسوی تاریخ | بدھ, 24 مارچ 2021 م |
پریس ریلیز
مسلم دشمن سری لنکا کی حکومت نے 1000 سے زائد اسلامی اسکولوں کے خاتمے اور برقع پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کرکے اسلام کے خلاف اپنی مہم کو تیز کردیا
پہلے ہی میت کو لازمی جلانے کی کوویڈ پالیسی(COVID Policy) کے ذریعے سیکڑوں مسلمانوں کی لاشوں کے تقدس کو پامال کرنے کے بعد ، گوٹابھایا راجاپکسا کی سربراہی میں انتہا ئی قوم پرست، مسلم دشمن سری لنکا کی حکومت نے مسلمانوں کو مزیدپسماندہ اور بدنام کرنے کا نیاانداز اختیار کرتے ہوئے، ملک میں 1000 سے زائد مدرسوں کو بند کرنے اور مسلم خواتین پر برقع پہننے کی پابندی عائد کی اور برقع کو بے شرمی سے مذہبی انتہا پسندی کی علامت قرار دے دیا۔ یہ مدارس صرف قرآن ، عربی اور بنیادی اسلامی عقائد کی تعلیم دیتے ہیں، اور ان میں سے بہت سارے کئی دہائیوں سے جزیرے میں موجود ہیں، یہ قطعاً ملک کے لیے کسی نقصان یا خطرہ کا باعث نہیں۔ تاہم ، 13 مارچ کو، وزیر عوامی تحفظ، سارتھ ویرسیکرا نے اعلان کیا کہ یہ اسلامی اسکول اس وجہ سے بند کردیں گے کہ وہ قومی تعلیم کی پالیسی (national education policy)سے متصادم ہیں۔ جبکہ وزارت دفاع نے مذموم الزام کے ذریعے ان اسکولوں کے مسلم طلباء اور ان کے اساتذہ کو مثلِ شیطان (demonise) ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ مدارس علیحدگی پسندی اور بنیاد پرست (Islamic fundamentalist) نظریات کی تعلیم دیتے ہیں… لیکن ان بے بنیاد دعوؤں کے لئے ذرہ برابر ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ دریں اثناءحکومت نے مذہبی مقاصد کے لئے اپنے چہروں کو ڈھانپنے والی مسلمان خواتین پر پابندی کے نفاذ کو جواز بخشنے کے لئے "قومی سلامتی" کی جعلی دلیل کابے جا استعمال کیا، جبکہ بیک وقت پوری آبادی کو کوویڈ کی وبائی بیماری کی وجہ سے عمومی طور پر تمام افراد کو چہرے کے ماسک پہننے کا حکم دیا! یہ سب محض ایک ایسی حکومت کی جاری داستان ہے جو بااثر انتہا اور قوم پرست سنہالی بدھ راہبوں ، تاجروں اور ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کی خواہش مند ہے۔ یہ وہ ہیں جنہوں نےموجودہ حکومت کو اقتدار میں لانے کے لئے مالی معاونت کی اور ملک میں مسلم دشمن منافرت کی آگ بھڑکائی۔
مزید برآں ، حکومت کا ظالمانہ انسدادِ دہشتگردی قانون( (Prevention of Terror Law وسیع پیمانے پر اختیارات فراہم کرتا ہےتاکہ مذہبی انتہا پسندی" کی سیاسی محرکانہ (politically motivated)تعریف کے نرغے میں پھنسے مشتبہ افرادسے جارحانہ انداز میں نمٹ سکے۔ اس قانون کی رو سے حکومت مشتبہ افراد کو 2 سال تک حراست میں رکھ سکتی ہے، جسے حکومت انتہائی پر فریب اصطلاح ــ انتہاپسندی کا سدِباب ـ (deradicalization) قرار دیتی ہے۔
یہ بات واضح ہورہی ہے کہ حکومت کااصل ہدف یہ ہے کہ انتہا پسندی کی روک تھام کے قانون سازی کے آڑ میں اسلام کے خلاف قوانین بنائےجائیں۔ مثال کے طور پر، 10 مارچ کو ، سری لنکا کے عوامی وزیر دفاع نے اعلان کیا کہ حکومت عدم تشدد پر عمل پیرا اسلامی سیاسی جماعت حزب التحریر پر پابندی عائد کرے گی اور ان کے اہم ممبران کو گرفتار کرے گی ، جس پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ یہ ایک انتہا پسند تحریک ہے اور ملک کے لئے خطرہ ہےجبکہ یہ جماعت کبھی بھی تشددکے کسی ایک بھی واقعہ میں ملوث نہیں رہی ہے کیونکہ یہ اس کے تبدیلی لانے کے اسلامی طریق کار سے متصادم ہے۔
مزید یہ کہ، اس بات کا بھی خیال نہیں ہے کہ مسلمانوں کے خلاف یہ حالیہ اعلانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب سری لنکا کی حکومت وبائی امراض کے تباہ کن نتائج کے باعث بڑے معاشی بحران اور ساتھ ہی بدعنوانی کے شوگر اسکینڈل کا شکار ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے ملک کو 16 ارب روپےسے زیادہ محصولات میں نقصان ہوا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے خلاف یہ حالیہ خوف و حراس کی پالیسیاں ملک کے معاشی بحران اور سیاسی اشرافیہ کے دھوکے باز معاملات سے عوام کی توجہ دور کرنے کے لئے ایک آسان نسخہ اور توجہ مبذول کرنے والی کاوش(distraction smokescreen) کا کام کرتی ہیں۔ تاہم، یہ سیاسی چال کسی کو بھی بے وقوف نہیں بناسکتی سوائے ان لوگوں کو جن کو انتہا پسند قوم پرست بدھ ایجنڈوں نےاندھا کر دیا ہے!
مزید برآں ، راجاپکسا حکومت دیگر سیکولر اور کمیونسٹ استبدادی اور مسلم منافرت پسند حکومتوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے جیسا کہ ہندوستان ، چین اور فرانس میں ’انتہا پسندی‘ کا جواز استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو دہشت زدہ کرکے انہیں بنیادی اسلامی عقائد اور شعائر کو ترک کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ملک میں مصنوعی ’انتہا پسندی‘ کے خطرے کی سطح کو بڑھاوا دینا بھی ایک چال ہے جو سری لنکا کے سابق وزیر دفاع راجاپکسا کی ریاستی اداروں کی عسکریت کی پردہ پوشی کرتا ہے۔
قومی سلامتی کے ساتھ سیاست کھیلنے کی یہ خطرناک حکمت عملی؛ مذہبی منافرت کے بیج بونا اور اس کا ناجائز اِستِفادہ کرنا، گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانا، اور سیاسی مفاد کے لئے خوف اور تفرقہ کو بڑھانا کسی کے مفادات میں نہیں، سوائے اس حکمران طبقہ کے، جو ان اشتعال انگیز اور زہریلے ہتھکنڈوں کی پشت پر سوار ہوکراقتدار میں آئے ہیں۔ ہم سری لنکا کے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آزمائش کے اس وقت میں اپنے اسلامی عقائد پر ثابت قدم رہیں۔ اور ہم علماء اور ملک میں اثر و رسوخ کے حامل دیگر افراد سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس ناانصافی کے خلاف اور خیالی دشمنوں کی تخلیق اور دھمکیوں کے ذریعہ معاشرے کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنے کی کوشش پر آواز بلند کریں۔
اللہ ﷻ کا فرمان ہے:
﴿يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ﴾
"اللہ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی)" (ابراھیم:27)
ڈاکٹر نظرین نواز
ڈائیریکٹر شعبہ خواتین
مرکزی میڈیا آفس ، حزب التحریر
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.hizbuttahrir.today |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info |