المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 20 من محرم 1443هـ | شمارہ نمبر: 1443 AH / 003 |
عیسوی تاریخ | ہفتہ, 28 اگست 2021 م |
پریس ریلیز
افغانستان کی خواتین کا روشن مستقبل صرف اور صرف خلافت کے نظام میں ہی حقیقت بنے گا
افغانستان پر طالبان کے دوبارہ اقتدار کی بحالی کے بعد سے مغربی حکومتیں، مردو خواتین کی برابری کی بات کرنے والوں، اور سیکولر میڈیا کی جانب سے اس حوالے سے الزامات لگانے اور خوف کا ماحول پید ا کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے کہ اسلامی شریعت کے نفاذ کے بعد ملک میں خواتین کا کیا مستقبل ہوگا۔ اسلامی حکومت کے متعلق جھوٹ اور پروپیگنڈہ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، اور یہ الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ ایک ایسی ریاست بننے جارہی ہے جہاں خواتین کے خلاف تشدد عام ہوگا، لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوں گے، اورخواتین کو کام کرنے اور معاشرے میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حق سے محروم کردیا جائے گا۔ شریعت کے تحت خواتین پر ہونے والے ظلم کے حوالے سے نام نہاد الزامات، گھڑے گئے سفید جھوٹ اور اس جیسی مغربی سیکولر روایت کے جواب میں ہم مندرجہ ذیل نکات پر روشنی ڈالتے ہیں:
- یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ مغربی حکومتوں اور سیکولر میڈیا کے مختلف شعبوں کو افغانستان، اور دنیا بھر میں مسلم خواتین اور لڑکیوں کی فلاح و بہبود اور حقوق کے حوالے سے کوئی حقیقی تشویش اور پریشانی نہیں ہے۔اُن کی یہ پریشانی اس وقت کہاں تھی جب ہزاروں افغان خواتین اور لڑکیوں کو قتل کیا گیا، جب ہزاروں لاکھوں بھوک اور بیماریوں سے موت کا شکار ہو رہی تھیں، جب انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا جارہا تھا، اور جنگ کے نتیجے میں ہونے والی بیوہ خواتین کو اُس سرزمین پر روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کام کرنے پر مجبور کردیا گیا جہاں کی معیشت، بنیادی ڈھانچہ (انفراسٹرکچر)، تعلیم اور صحت کی سہولیات مغرب کی دو دہائیوں سے جاری استعماری جنگ اور کرپشن کی وجہ سے تباہ ہوچکی تھی؟! اور اُس وقت یہ تشویش اور پریشانی کہاں تھی جب مغربی حکومتیں شمالی اتحاد کی حمایت کررہیں تھیں جو کہ ایسے جگجووں پر مشتمل ہے جو خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے بدنام ہے؟ اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے یہ تشویش اور پریشانی اُس وقت کہاں تھی جبسیکولر ریاستوں ، فرانس، بلجیم، ڈنمارک اور نیدرلینڈ میں حجاب اور نقاب کو بنیاد بنا کر مسلم لڑکیوں کو تعلیم کے حق سے محروم کیا جارہا تھا؛ یا جب مغرب کی حمایت یافتہ حکومتوں جیسا کہ کرغیزستان، ازبکستان اور بنگلادیشمسلم خواتین پر مقدمے بنائے جا رہے تھے، انہیں قید کیا جارہا تھا اور ان پر تشدد کیاجارہا تھا کیونکہ وہ اپنے حکمرانوں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کررہیں تھیں اور اسلام کا مطالبہ کررہیں تھیں؟ مسلم خواتین مغربی سیکولر حکومتوں اور میڈیا کے تاریخی ریکارڈ سے بخوبی واقف ہیں جنہوں نے خواتین کے حقوق کارڈ کا استحصال کرتے ہوئے استعماری طاقتوں کی مداخلتوں کو جائز قرار دیا اور مسلم سرزمین میں سیکولر لبرل اقدار کو پھیلایا تاکہ خطے کی سیاست اور معاشیات پر مغربی تسلط کو برقرار رکھا جاسکے اور حکمرانی کے خالص اسلامی نمونے (ماڈل) کی واپسی کو روکا جاسکے۔
- یہ تصورکہ مغربی تسلط اور اس کے سیکولر نظام کے زیر سایہ افغانستان خواتین کے حوالے سے کامیابی کی ایک عظیمکارنامہ ہے ، اور یہ کہ اب خواتین اور لڑکیاں اپنے نام نہاد 'مشکل سے لیے گئے' حقوق کھو جانے کے خطرے سے دوچار ہیں، ایک بکواس اور مضحکہ خیز بات ہے! 2011 میں تھامسن رائٹرز فانڈیشن کے تحت چلنے والی نیوز سروس ، ٹرست لاء، نے ایک سروے کیا جس میں دنیا بھر کے دو سو سے زائد افراد کا انٹرویو کیا گیا جو صنفی ماہرین (جنڈر ایکسپرٹ) مانے جاتے ہیں۔ ان ماہرین نے تشدد کے واقعات کی بھر مار، صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی، اور انتہائی غربت کی وجہ سے خواتین کے لیےافغانستان کو دنیا کا سب سے خطرناک ترین ملک قرار دیا ۔ واشنگٹن کےجارج ٹاون انسٹیٹیوٹ فار وومن، پیس اینڈ سیکیورٹی ، اور اوسلو میں موجود پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے مرتب کیے گئے 2019کے انڈیکس کے مطابق خواتین کی فلاح و بہبود کے حوالے سے افغانستان کا شمار سب سے آخری درجے سے بس ایک درجے ہی اوپر ہے۔ 2017 میں جاری کیے گئے افغان حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق 50 فیصد سے زائد حاملہ خواتین کو بنیادی صحت کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ 2019 میں جاری ہونے والی یونیسف کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ملین بچے اسکول نہیں جاسکتے جن میں سے 60 فیصد لڑکیاں ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے بتایا کہ ملک میں دو تہائی لڑکیاں اب بھی اسکول نہیں جاتیں اور 40 فیصد سے زائد اسکولوں کے پاس کوئی عمارت ہی نہیں ہے۔ اور مغرب کے 20 سال کے قبضے کے بعد بھی ملک میں 80 فیصد خواتین غیر خواندہ (ان پڑھ) ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں 90 فیصد تک خواتین غیر خواندہ ہیں(یونیسف)۔ ایک سیکولر قیادت اور نظام کے تحت عورتوں پر ہونے والے ظلم کو ختم کرنے کاجھوٹ اور دھوکہ ، افغانستان ، عراق اور دیگر علاقوں میں بری طرح سے بے نقاب ہوچکا ہے جو کہ مغربی مداخلتوں کا شکار ہیں ۔
- مغربی حکومتوں کا کردار کسی صورت بھی مثالی نہیں ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے دنیا کو سبق پرھائیں ۔ ان مغربی ممالک میں تو کرپٹ اور ناقص سرمایہ دارانہ ، سیکولر اور لبرل اقدار اور نظام کی وجہ سے خواتین جنسی ہراسگی، استحصال، انسانی تجارت، غربت اور ناانصافیوں کا شکار ہیں جس نے خواتین کے مقام و مرتبے کو کم ترکردیا ہے، نفع کے لیے ان کی نسوانیت کو ابھارا اور بیچا جاتا ہے، اور مرد کا یہ ذہن بنادیا گیا ہے کہوہ جس طرح کا سلوک چاہیں خواتین سے کرسکتے ہیں۔ امریکا میں ہر روز گھریلو تشدد کے واقعات میں تین خواتین قتل ہوجاتی ہیں(بیورو آف جسٹس)،ہر پانچ میں سے ایک خاتون اپنی زندگی کے کسی نے کسی مرحلے کے دوران جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے(سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن)۔ یورپی یونین میں ایک تہائی خواتین نے پندرہ سال کی عمر میں تشدد کا سامنا کیا ہوتا ہے(یورپین یونین ایجنسی فار فنڈامینٹل رائٹس)۔آسٹریلیا میں ہر تین گھنٹے میں ایک خاتون کو گھریلو تشدد کی نتیجے میں ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے(آسٹریلین انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ ویلفیر)۔اور ایگلنڈاینڈ ویلز میں ہر سال 85 ہزار خواتین عصمت دری کا شکار ہوتی ہیں یا ان کی عصمت دری کی کوشش کی جاتی ہے(آفس آف نیشنل سٹیٹیسٹک)۔
- یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ افغانستان کی خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد شریعت کے نظام کے نفاذ کے حوالے سے خوفزدہ ہے اور وہ اپنے ملک کے لیے ایک سیکولر مستقبل کی خواہش رکھتی ہیں ، یہ درحقیقت مغربی نواستعماری انجینئرڈ فرضی بکواس ہے۔ یہ دنیا کے متعلق مستشرقیت پر مبنی نقطہ نظر کا ایک تسلسل ہے اور ایک گمراہ عقیدہ ہے کہ مسلم سرزمین کی مسلمان آبادی اسلام کو چھوڑ کر سیکولر لبرل زندگی اپنانا چاہتی ہے ، اور مغربی سیکولر جمہوریت کو جبر سے آزادی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہے- وہ جبر جس کو عالمی سطح پر مسلمان سمجھتے ہیں کہ یہ بنیادی طور پر اسلام کی حکمرانی یا شریعت کے نفاذ کی وجہ سے نہیں بلکہ درحقیقت مغرب کی جانب سے لگائے گئے اور مغربی حمایت یافتہ سیکولر اور دیگر انسانی ساختہ حکومتوں اور نظاموں کی وجہ سے ہے۔افغانستان اور پوری مسلم دنیا کی مسلم خواتین اپنے اسلامی عقائد ، طریقوں اور قوانین سے مضبوط وابستگی رکھتی ہیں جیسا کہ وہ صدیوں سے رکھتی چلی آئی ہیں۔پیو ریسرچ آرگنائزیشن کی 2017 کی رپورٹ' 39 ممالک میں مسلمان مرد وخواتین' کے مطابق افغانستان کے 99 فیصد مسلمانوں نے شریعت کو اپنے ملک کا سرکاری قانون بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔ دیگر مسلم علاقوں میں جن میں پاکستان، بنگلادیش، عراق، انڈونیشیا، فلسطین اور اردن شامل ہیں، عوام کی بھاری اکثریت اسلامی شریعت کی بنیاد پر حکمرانی کی حمایت کرتے ہیں۔ ایسا ہونا قابل توقع ہے کیونکہ مسلمان جانتے ہیں کہ صرف اور صرف کائنات کا مالک، اللہ سبحانہ و تعالیٰ، ہی یہ بات جانتے ہیں کہ ایک معاشرے اور ریاست کے امور کو کس طرح بہترین طریقے سے منظم کیا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں تمام مرد و خواتین کے حقوق کا تحفظ بغیر کسی اختلاف اور انصاف کی بنیاد پر ہو۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ "بھلا جس نے پیدا کیا وہ بےخبر ہے؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے۔"(الملک:14)۔
- یہ ایک مشہور و معروف حقیقت ہے کہ اسلام نے خواتین کی حیثیت اور وقار کو بلند کرنے اور انہیں تشدد ، اعتراض اور استحصال سے بچانے میں دنیا کی رہنمائی کی ہے تاکہ عورتوں کے خلاف کسی بھی قسم کے نقصان کو ایک سنگین جرم کے طور پر درجہ بند کیا جائے جو سخت سزا کا مستحق ہے۔ اس کے علاوہ ، اسلام پہلے دنسے عورتوں کے سیاسی ، تعلیمی ، معاشی اور عدالتی حقوق کا علمبردار تھا ، جبکہ مغرب نے صدیوں تک یہ تسلیم نہیں کیا تھا کہ عورتوں میں مردوں ہی طرح ایک روح ہوتی ہے اور وہ بھیمردوں کی طرح عقلمند اور قابل قدر ہوتی ہیں۔اسلام پہلے دن سے خواتین کو حکمران منتخب کرنے ، عوام کا منتخب نمائندہ بننے اور بغیر کسی خوف کے حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کا حق فراہم کرتا ہے جبکہ مغرب میں خواتین کو یہ حقوق حاصل کرنے کے لیے کئی صدیوں تک جدو جہد کرنی پڑی۔ اسلام خواتین کی علم اور زندگی کے تمام شعبوں میں مہارت حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور اسی وجہ سے اسلام کے دورِ حکمرانی میں اسلامی علوم، سائنس اور طب کے میدانوں میںہزاروں خواتین اساتذہ اور ماہرین پیدا ہوئیں۔اسلام نے خواتین کو یہ اعزاز بھی دیا ہے کہ انہیں ضروریات زندگی ہمیشہ ان کے شوہر ، مرد رشتہ داروں یا ریاست کی طرف سے مہیا کیں جائیں ، جبکہ انہیں باعزت روزگار ، کاروبار قائم کرنے اور ان کی دولت اور قانونی امور کو آزادانہ طور پر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ اپنے کسی حق کے حصول کے لیے عدالتی مدد لینے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔تاہم ، اسلام کی جانب سے دی جانے والی بے مثال حیثیت ، مراعات اور حقوق جو عورتوں کو ملتے ہیں وہ ایسی ریاست کے تحت عمل میں نہیں آئیں گی جو صرف نام سے اسلامی ہو ، یا جو اسلام کو جزوی طور پر نافذ کرتی ہو جبکہ کفریہ قوانین کے ساتھ اسلام کے قوانین کو نافذ کرے اور ان لوگوں کے ساتھحکومت میں شراکتداری کرے جو سیکولر نظریات کے حامل ہو ں ۔ بلکہ نبوت کے نقش قدم پر مبنی خلافت، جو صرف اسلامی نظامِ شریعت کو مکمل طور پر نفاذ کرے گی ،افغانستان اور مسلم سرزمین کی خواتین کے لیے ایک روشن ، محفوظ اور خوشحال مستقبل کی تعمیر کرے گی، ان کے لیے ان کے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دیے ہوئے حقوق کا تحفظ کرے گی ، جیسا کہ اس نے صدیوں تک کیا ، جس کا ثبوت ریاستِ خلافت کے قانون کی کتابیں اور عدالتی ریکارڈ ہے۔
لہٰذا ہم طالبان میں اپنے بھائیوں اور افغانستان میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلمات سے سبق لیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نظام یعنی نظامِ خلافت میں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قوانین کے مکمل عمل نفاذ اور ان پر درآمد کے ذریعے ہی سےاس دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى * وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى﴾
"تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔ اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے"(طہ: 124-123)
ڈاکٹر نظرین نواز
ڈائریکٹر شعبہ خواتین
مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر
#Afghanistan | #أفغانستان | #Afganistan |
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.hizbuttahrir.today |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info |