المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 20 من ربيع الثاني 1446هـ | شمارہ نمبر: 1446 AH / 041 |
عیسوی تاریخ | بدھ, 23 اکتوبر 2024 م |
پریس ریلیز
گرتے ہوئے فرسودہ نظام کی باقیات محض ستر پوشی ہے
جنہیں مغربی تہذیب سمجھتی ہے کہ یہ اس کا ننگ چھپائے ہوئے ہے!
)ترجمہ)
فلسطینی علاقوں میں ہیومن رائٹس پر اقوامِ متحدہ کی خصوصی نامہ نگار،فرانسسکا البانیس (Francesca Albanese) کی جانب سے انکشافات سے مغرب کی جانب سے اپنے ہر اس نظریہ اور اقدار سے کنارہ کشی کرنے کا اعتراف، جن کے وہ بلند وبانگ دعوے کیا کرتے تھے، اور مغرب کے خود اپنے نظریات کی خلاف ورزیاں کھل کر سامنے آ گئیں، جب فرانسسکا البانیس نے بیان کیا کہ، ””اسرائیل' غزہ میں ایک ہولناک نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے اور مغربی ممالک کی مکمل حمایت کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کو ذبح کرتا چلا جا رہا ہے“۔ البانیس نے 21 اکتوبر 2024ء کو الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں وضاحت کی کہ ”نسل کشی ایک گھناؤنا ترین جرم ہے جسے ہمیں دہلا کر رکھ دینا چاہئے۔ گزشتہ مہینوں کے دوران، میں نے سینکڑوں انٹرویوز میں یہ بات دہرائی ہے کہ 'اسرائیل' کی طرف سے ارتکاب کی جانے والی نسل کشی ہولناک ترین اور شدید بھیانک ہے، اور مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آخر یہ اب تک کیسے جاری ہے“۔ اس بات کی تصدیق کرنے سے پہلے، کہ آیا غزہ میں جو کچھ برپا ہو رہا ہے اس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والے عالمی نظام کے خاتمے کی تصدیق کر دی ہے، اقوام متحدہ کے اہلکار نے سوال کیا کہ ”آخر اس جہنم کو روکنے کے لئے کیا کرنا پڑے گا؟“۔ البانیس نے مزید کہا، ”عالمی نظام اپنا حقیقی چہرہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ استعماری مغربی ممالک کا ہی ایک گروپ ہے جو 'اسرائیل' کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں؛ اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ (یہودی وجود) اپنا دفاع کر رہا ہے، لیکن قطعاً ایسا نہیں ہے۔ 'اسرائیل' اب فلسطینیوں کو ذبح کرتا جا رہا ہے۔ آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ غزہ میں بچے گلیوں میں قتل کئے جا رہے ہیں اور خیموں میں موجود لوگوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے“۔ البانیس نے اپنے بیان کا اختتام اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کیا کہ غزہ میں جو کچھ برپا ہو رہا ہے وہ ”اس علاقے کو کنٹرول کرنے کے منصوبہ کے ساتھ فقط ایک نسل کشی ہے، اور یہ بات خود 'اسرائیلی' بھی کہتے آئے ہیں“۔
اس تناظر میں 19 اکتوبر 2024ء کو اقوام متحدہ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں ”مختلف ممالک بالخصوص شمالی امریکہ اور یورپ میں فلسطینیوں کے احتجاج، تقاریر اور مظاہروں پر پابندی“ کا ذکر ہے۔ مغربی جمہوریتوں، یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی اور بیلجئم پر خصوصاً غزہ کی پٹی پر جنگ کے آغاز میں ہی اقوام متحدہ میں یہ الزام لگایا گیا کہ وہ فلسطینی کاز کے لیے مظاہرہ کرنے کے حق کو ”سختی سے“ دبا رہے ہیں۔ اپریل کے آخر میں نیویارک میں، کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین کے حامی درجنوں کارکنان کو بے دخل کرنے کے لئے فسادات کو روکنے والی پولیس کی مداخلت کا حوالہ دیتے ہوئے اس رپورٹ میں ”متعدد ممالک میں احتجاج اور اختلاف رائے کو سختی سے دبائے جانے“ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ جہاں تک یورپی ممالک کا تعلق ہے، تو اس رپورٹ میں خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ ”جرمنی میں، ردعمل سب سے سخت تھا، جس نے 7 سے 21 اکتوبر 2023ء تک فلسطینی عوام کی حمایت میں ہونے والے تمام مظاہروں پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی، اور اس طرح کے کئی احتجاجات پر پہلے سے ہی پابندی لگا دی تھی“۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے، ”(ان حکومتوں کے) ردعمل ظالمانہ ہیں، جو کہ غیر منصفانہ طور پر فلسطینی کاز کی حمایت کرنے کو یہود دشمنی یا دہشت گردی کی حمایت کے مساوی قرار دیتے ہیں، اور یہ کہ یہ مؤقف امتیازی سلوک پر مبنی ہیں کیونکہ 'اسرائیل' کی حمایت میں ہونے والے کسی بھی مظاہرے کو کسی خاص پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا“۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ”12 اکتوبر 2023ء کو حکومت ِفرانس نے امن عامہ میں ممکنہ طور پر خلل ڈالنے کی وجہ سے فلسطین کی حمایت میں نکلنے والی تمام ریلیوں پر مکمل پابندی کا اعلان کر دیا تھا، لیکن فرانس کی اعلیٰ ترین انتظامی عدالت، Conseil d'État نے اس بنیاد پر اس پابندی کو مسترد کر دیا تھا کہ اس طرح کے فیصلے مقامی حکام کو ہر معاملے کو الگ الگ بنیاد پر دیکھ کر کرنے چاہئیں“، اور رپورٹ میں مزید ذکر کیا گیا کہ بیلجئم اور کینیڈا نے بھی اسی طرح کا مؤقف اپنایا ہے۔
مغربی دنیا کے لیڈر، امریکہ کی ”آزادیٔ اظہار“ کی وہ اقدار کہ جس کے لئے امریکہ نے سمندروں کے پار سے جنگیں چھیڑ رکھی ہیں، ان اقدار پر عدم یقین ہونے کی ایک مثال یہ ہے کہ امریکی پولیس نے 15 اکتوبر 2024ء کو نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے باہر سے 200 سے زائد فلسطینی حامی مظاہرین کو گرفتار کر لیا، جنہوں نے غزہ پر 'اسرائیل' کی جنگ کے لئے امریکی حمایت کے خاتمے کا مطالبہ کرنے کے لئے دھرنا دیا ہوا تھا۔ ان مظاہرین نے مین ہٹن میں وال اسٹریٹ کے قریب واقع اسٹاک ایکسچینج کی مشہور عمارت کے سامنے ”غزہ کو زندہ رہنے دو“ اور ”نسل کشی کی فنڈنگ بند کرو“ جیسے خالصتاً انسانی ہمدردی کے نعرے لگائے تھے۔ جبکہ اس کے برعکس، اسی مقام پر 'اسرائیل' کے حامی مظاہرین کی بھی ایک محدود تعداد موجود تھی، جنہوں نے 'اسرائیلی' جھنڈے اٹھا رکھے تھے، لیکن ان پر پولیس کی جانب سے کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی۔
یہ تمام ثبوت مغربی کیمپ کے وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنان نے ہی دیے ہیں۔ یہ ثبوت مغربی تہذیب اور اس پر مبنی ممالک بالخصوص مغربی دنیا کے سرکردہ ممالک امریکہ، فرانس اور جرمنی کے حوالے سے دیکھے جانے والے اور سنے جانے والے، دونوں طرح کے ثبوت ہیں۔ یہ ثبوت اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس گرتے ہوئے فرسودہ نظام کی باقیات محض ستر پوشی ہے جنہیں مغربی تہذیب سمجھتی ہے کہ یہ اس کا ننگ چھپائے ہوئے ہے۔ مغرب کی صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ وہ ان لوگوں کو انسانوں اور پتھروں تک کو مار ڈالنے کے لئے ہر طرح کے مہلک ترین اسلحہ سے مدد فراہم کرنے سے بھی مطمئن نہیں ہے، وہ لوگ کہ جن پر اللہ تعالیٰ غضبناک ہے۔ لیکن اس کے برعکس مغربی ممالک ہر اس شخص کو دبا رہے ہیں جو اس وحشیانہ فعل کی مذمت کرتا ہے۔ تو یہ ہے وہ آخری کیل جو کہ مغربی تہذیب کے تابوت میں ٹھونک دیا گیا ہے۔ اور اب جو کام امتِ مسلمہ سمیت دنیا کے لوگوں کے لئے باقی رہ گیا ہے وہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی اس تعفن زدہ لاش کو دفن کر دیا جائے، تاکہ انسانیت اس تہذیب اور اس کے کرتا دھرتا ٹھیکیداروں کے شر سے نجات پا سکے۔
مغربی عفریت کو دفن کرنے اور اسے آخری ضرب لگانے کا کام کسی اور کا نہیں بلکہ امت اسلامیہ کا فرض ہے۔ صرف امت کے پاس ہی وہ تہذیبی متبادل موجود ہے جو اپنی بھرپور قابلیت کے ساتھ انسانیت کو ان انسانی اقدار کے ساتھ ترقی کی جانب لے جا سکتا ہے جو انسانیت کے خالق، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام لوگوں کے لیے معین کی ہیں۔ امت پر لازم ہے کہ وہ ایسا سیاسی وجود قائم کرے جو الہامی اسلامی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہو اور جو اللہ کی مدد سے باطل کو ختم کر دے گا اور حق کے ساتھ ہی فتح حاصل کرے گا۔ لہٰذا امت کے تمام مخلص افراد کو چاہیے کہ وہ اسلامی دنیا کی افواج سے مطالبہ کریں کہ وہ مسلمانوں کے ممالک میں موجود مغرب کے آلۂ کاروں کو کاٹ ڈالیں، اور موجودہ حکومتوں کو ختم کرنے کے لیے نبوت کے نقش قدم پر ریاستِ خلافت کے قیام کے لیے کام کریں، امت کا اختیار بحال کر کے ایک خلیفہ کا انتخاب کریں جو اللہ کے نازل کردہ تمام احکام کے مطابق حکومت کرے گا، تاکہ حق غالب آجائے اور باطل مٹ جائے، خواہ کفار کو یہ سب ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«وَإِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَعَدَلَ فَإِنَّ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرًا وَإِنْ قَالَ بِغَيْرِهِ فَإِنَّ عَلَيْهِ مِنْهُ»
”امام (خلیفہ)کی مثال ڈھال جیسی ہے کہ اس کے پیچھے رہ کر ہی (یعنی اس کے ساتھ ہو کر) جنگ کی جاتی ہے۔ اور اسی کے ذریعہ ( دشمن کے حملہ سے (بچا جاتا ہے، پس اگر وہ (خلیفہ) تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دے اور انصاف کرے، تو اسے اس کا اجر ملے گا، لیکن اگر وہ بے انصافی کرے گا تو اس کا وبال اُس پر ہو گا“۔ (بخاری و مسلم)
حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.hizbuttahrir.today |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info |