المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 29 من رمــضان المبارك 1446هـ | شمارہ نمبر: 102 / 1446 |
عیسوی تاریخ | ہفتہ, 29 مارچ 2025 م |
پریس ریلیز
اہل غزہ کی مدد کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے، صرف بعض پر نہیں۔
(ترجمہ)
افغانستان کے عربی ٹیلی ویژن نے 24/03/2025 کو ایک تقریر نشر کی جسے بھائی مولوی عبد الحق حماد نے "افغانستان کی جانب سے عرب حکمرانوں اور قائدین کے نام ایک پیغام" کے عنوان سے پڑھا۔ اس پیغام میں انہوں نے اہل غزہ کے متعلق بزدلانہ رویہ اپنانے اور اہل غزہ کے خلاف یہودی ریاست کے ساتھ صف بندی کرنے پر ان حکمرانوں کی ملامت کی۔ انہوں نے کہا: "اے اپنے دین پر دوسروں کی دنیا کو ترجیح دینے، اللہ اور اپنے دشمن کی پیروی کرنے، اور بچوں کے قاتلوں اور زمین غصب کرنے والوں کے ساتھ امن کے سراب کے پیچھے بھاگنے والے عرب حکمرانو، اپنے بارے میں اللہ سے ڈرو، اپنی امت کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اپنے دین کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ہوش کے ناخن لو، اور اگر تم عقل رکھتے ہو تو جہاد کی طرف لوٹ آؤ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ مال جو تم اللہ کے دشمن کو دیتے ہو وہ غزہ پر بمباری کا ایندھن بن جاتا ہے؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تمہارا تیل صیہونی ٹینکوں کی رگوں میں خون بن گیا ہے؟ اے عرب حکمرانو، دو ارب مسلمان تمہاری خاموشی کی بدولت تم سے ناراض ہیں، اور اللہ نہ کرے لیکن یہ تم پر اللہ کے غضب کی علامت ہے! تمہیں امت کے لیے رہنما ہونا چاہیے تھا، لیکن تمہارے دور میں امت نے بے مثال ذلت دیکھی ہے! کیا اہل غزہ، ان کی عورتیں اور بچے، تمہارے لیے صیہونیوں سے زیادہ خطرناک ہیں کہ تم اپنے بھائیوں پر اپنے دشمن کو ترجیح دیتے ہو؟! غزہ لہولہان ہے اور تم دروازے بند کر رہے ہو اور مَردوں کو مدد کرنے سے روک رہے ہو! اگر تم اس ظالم کو روکنے سے عاجز ہو تو سرحدیں کھول دو اور آزاد لوگوں کو اپنا فرض ادا کرنے دو! کیا تم غزہ کی عورتوں اور بچوں کی چیخیں نہیں سنتے؟ کیا تم نہیں مانتے کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اللہ اس سب کو سن رہا ہے اور ریکارڈ کر رہا ہے اور تم سے قیامت کے دن اس کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ تو تم جاگتے کیوں نہیں ہو اور اپنے بھائیوں کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ مجرم دن بدن اپنی وحشت میں اضافہ کر رہا ہے اور ہر جگہ ایک پاگل کتے کی طرح بھونک رہا ہے اور تمہاری قیادت کو چیلنج کر رہا ہے؟ تو اے امت کے قائدین، تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟!"
اس پیغام پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ: اے ہمارے بھائی عبد الحق، آپ یقیناً جانتے ہوں گے - جیسا کہ اب ہر مسلمان جانتا ہے - کہ یہ حکمران وہ "رُوَیْبِضَات" ہیں جن کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شریف میں فرمایا ہے:
«سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ؛ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ، وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ، وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ»
"لوگوں پر فریب کے سال آئیں گے؛ جن میں جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی اور سچے کو جھٹلایا جائے گا، خائن کو امانت دار سمجھا جائے گا اور امانت دار کو خائن قرار دیا جائے گا، اور رُوَیْبِضَة بات کرے گا" پوچھا گیا: رُوَیْبِضَة کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: «الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ» "وہ نا اہل آدمی جو عوام کے معاملے میں بولے" (اسے احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)۔
پس یہ حکمران کفر کے ساتھ حکومت کرتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی رکھتے ہیں. یہ مغرب کے ایجنٹ ہیں، اور ان کا واحد مقصد اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور کافر استعمار اور یہودی وجود کے مفادات کی خدمت کرنا ہے۔ لہٰذا، ان کو پکارنا اور ان سے مدد طلب کرنا راکھ میں پھونک مارنے کے مترادف ہے، سوائے اس کے کہ اگر مقصد ان کو امت کے سامنے مزید رسوا کرنا ہو تاکہ انہیں ہٹایا جا سکے، اور ہم رب کے حضور معذرت پیش کر سکیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول میں آیا ہے:
﴿وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْماً اللهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَاباً شَدِيداً قَالُواْ مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾
"اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنھیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے، یا انھیں عذاب دینے والا ہے، وہ بھی بہت سخت عذاب؟ انھوں نے کہا تمھارے رب کے سامنے عذر پیش کرنے کے لیے اور اس لیے کہ شاید وہ ڈر جائیں" (سورۃ الاعراف: آیت 164)
یہ بابرکت سرزمین فلسطین ایک خراجی زمین ہے، اس کا حق ملکیت پوری امت مسلمہ کو حاصل ہے، اور یہ صرف اہل فلسطین کی ملکیت نہیں ہے۔ تو پھر یہ صرف بزدل، ایجنٹ اور غدار رہنماؤں کی ذمہ داری کیسے ہو سکتی ہے؟! یہ امتِ مسلمہ میں موجود عربوں اور غیر عربوں سب کا مسئلہ ہے، اور قریب یا دور والے کسی کو بھی اس میں امت سے اختلاف کرنے کا حق نہیں۔ جس طرح حرمین شریفین، مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات، آل سعود کے حکمرانوں کی ذاتی ملکیت نہیں ہیں، بلکہ پوری امت کی ملکیت ہیں، اسی طرح بابرکت مسجد اقصیٰ بھی پوری امت کی ملکیت ہے، اور کسی فرد یا گروہ کو اس کی ملکیت یا سرپرستی کا دعویٰ کرنے کا حق نہیں ہے۔ پس یہ روئے زمین پر موجود ہر مسلمان کے کندھوں پر ایک امانت ہے
اے بھائی عبدالحق، اہل غزہ کے لیے آپ کا پیغام اور آپ کا یہ قول کہ: "جان لو کہ تم تنہا نہیں ہو، اور افغانستان میں تمہارے بھائی تمہارے ساتھ ایک جسم کی مانند متحد ہیں، نہ ہم نے تمہیں بھلایا ہے اور نہ ہی تم ہماری دعاؤں سے غائب ہو۔ تم نے کوئی سفر نہیں کیا، کوئی وادی عبور نہیں کی، اور نہ ہی کسی مورچے میں پناہ لی، مگر یہ کہ ہم اپنے دلوں، اپنی جانوں اور اپنی زبانوں سے تمہارے ساتھ تھے۔ ہمیں مجبوری نے روکے رکھا اور سرحدوں نے قید کر دیا، لیکن ہماری دعا رات کی تاریکی میں تیر کی طرح ہے۔"
تو کیا اپنے بھائیوں کے درد پر افسوس کرنے اور ان کے لیے دعا کرنے کے ذریعے آپ اپنے ان بھائیوں کی مدد کر سکتے ہو جن پر یہودی طیارے بم برسا رہے ہیں؟! اس شخص کو آپ کے افسوس اور آپ کے آنسوؤں کا کیا فائدہ جو ملبے تلے مر رہا ہے؟! اور آپ میں اور ان لاکھوں لوگوں میں کیا فرق ہے جو مغربی دارالحکومتوں میں یہودی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج کے لیے نکلے، اور انہوں نے صرف لوگوں کی مصیبت پر افسوس اور مذمت کرنے پر اکتفا کیا؟! ضروریات پوری کرنے کے لیے صرف دعا پر اکتفا کرنا، اور غزہ میں ہمارے بھائیوں کی عملی مدد نہ کرنا، توکل نہیں بلکہ بے عملی ہے، جب کہ اللہ نے فتح کے اسباب اختیار کرنے کو واجب قرار دیا ہے، اور آپ کو شعبي کا یہ قول معلوم ہے کہ "اپنی دعا کے ساتھ کچھ دوا بھی کرو"۔
اے بھائی عبدالحق، آپ کا یہ قول کہ: "ہمیں مجبوری نے روکے رکھا اور سرحدوں نے قید کر دیا"، تو کیا آپ کا یہ عذر رب العالمین کے ہاں مقبول ہوگا جب آپ سے آپ کے ان بھائیوں کی مدد میں پیچھے رہنے کے بارے میں پوچھا جائے گا جن کے بارے میں سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾
"اگر وہ دین میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر مدد دینا واجب ہے" (سورۃ الانفال: آیت 72)؟
کیا واقعی سرحدیں آپ کو اپنے لوگوں کی مدد کرنے سے روک رہی ہیں؟ تو پھر ان سرحدوں نے ان تمام مجاہدین کو کیوں نہ روکا جو کئی دہائیوں قبل آپ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں، سوویتوں اور امریکیوں، کے خلاف آپ کی مدد کے لیے آئے تھے؟ اور کیا آپ ان عرب مجاہدین کو بھول گئے ہو، جن میں فلسطین کے بہت سے لوگ بھی شامل تھے، جنہوں نے آپ کے دشمن کے خلاف آپ کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر جہاد کیا تھا یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو دشمن پر فتح عطا کی؟ یقیناً یہ سرحدیں ان مجاہدین کو آپ کی طرف آنے سے نہیں روک سکیں جب ان کی جہاد کی نیت سچی تھی، اور اسی طرح آپ کا معاملہ ہے، اگر غزہ میں اپنے لوگوں کی مدد کے لیے افغانستان میں آپ کی نیت سچی ہو تو یہ سرحدیں آپ کے لیے رکاوٹ نہیں بنیں گی، پس اللہ سے ڈرو، اور اپنے بھائیوں کے ساتھ سچائی اختیار کرو، اور ان کی مدد کرو جیسا کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے اور جیسا کہ انہوں نے پہلے آپ کی مدد کی تھی۔
اور آخر میں، اے بھائی عبدالحق، آپ کے لیے زیادہ بہتر یہ تھا کہ آپ اپنے پیغام کا رخ عرب حکمرانوں کی طرف کرنے کی بجائے افغانستان میں طالبان کے مجاہدین کی طرف کرتے، کیونکہ ان "رُوَیْبِضَات" نے تو اپنا فیصلہ کر لیا ہے اور امت اور اہلِ غزہ کے دشمنوں کے ساتھ صف بندی کر لی ہے، لیکن جہاں تک افغانستان میں مجاہدین کا تعلق ہے، تو اللہ نے انہیں اقتدار عطا کیا ہے، اور وہ صاحبِ اختیار بن چکے ہیں، ان کے پاس ایک ریاست اور وسائل موجود ہیں، لہٰذا وہ مقدس سرزمین فلسطین میں اپنے کمزور بھائیوں کی مدد کرنے کے زیادہ اہل اور حقدار ہیں، اور اللہ کے ہاں ان کے لیے کوئی عذر نہیں، اور ان سے عرب حکمرانوں کی بے عملی جیسے بہانے قبول نہیں کیے جائیں گے، وہ حکمران جنہوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کے سامان کو ترجیح دی ہوئی ہے۔ پس طالبان کو فلسطین میں دستے اور جنگجو بھیجنے کی دعوت دو، اور اپنے بھائیوں کی مدد ہتھیاروں اور مَردوں سے کرو، اور سیسی یا عبداللہ یا دیگر "رُوَیْبِضَات" کی طرف سے سرحدیں کھولنے کی اجازت کا انتظار نہ کرو، بلکہ اللہ الحاکم العدل کی معیت کو یاد کرتے ہوئے ان سرحدوں کو پار کر جاؤ ۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُواْ فِي سَبِيلِ اللهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ * إِلاَّ تَنفِرُواْ يُعَذِّبْكُمْ عَذَاباً أَلِيماً وَيَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ وَلاَ تَضُرُّوهُ شَيْئاً وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾
"اے ایمان والو، تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین پر بوجھ بن کر گِر پڑتے ہو؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا ہے؟ دنیا کی زندگی کا ساز و سامان تو آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا ہے۔ اگر تم نہ نکلو گے تو وہ تمہیں دردناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور تم اس کا کچھ بھی نقصان نہیں کر سکو گے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے" (سورۃ التوبة: 39-38)
حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.hizbuttahrir.today |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) hizbuttahrir.today |