المكتب الإعــلامي
فلسطين
ہجری تاریخ | 5 من رمــضان المبارك 1446هـ | شمارہ نمبر: BN/S 1446 / 29 |
عیسوی تاریخ | بدھ, 05 مارچ 2025 م |
پریس ریلیز
قاہرہ میں ہونے والی سازش پر مبنی کانفرنس،
ریاض میں ہونے والی غداری کی کانفرنس کا تسلسل
(ترجمہ)
یہودی وجود کے رہنماؤں اور اس کے مجرموں کی جانب سے قتل، جنگ اور نسل کشی دوبارہ شروع کرنے کی دھمکیوں کے درمیان، ذلیل لوگوں کا ایک گروہ اہل فلسطین کے خلاف سازش کرنے کے لیے، قاہرہ میں، ایک ایسی کانفرنس میں اکٹھا ہو رہا ہے، جسے انہوں نے "فلسطین" کانفرنس کا نام دیا ہے، اور جواز یہ پیش کیا ہے کہ وہ ٹرمپ منصوبے کا متبادل پیش کر رہے ہیں اور جبری نقل مکانی کو مسترد کر رہے ہیں۔ گویا یہ ذلیل پیروکار نئے حالات کو تشکیل دے رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ دُم چھلے کے سوا کچھ نہیں ہیں جنہیں امریکہ نے اپنے جرائم کی باقیات کو سنبھالنے کا کام سونپا ہے۔
ذلیل لوگوں کا وہ گروہ جو اس سے قبل غداری کی دو کانفرنسوں میں اکٹھا ہوا تھا، جب غزہ اپنے خون میں نہا رہا تھا اور بھوک سے مر رہا تھا، اس کے بچوں کی باقیات جگہ جگہ بھری پڑی تھیں، اور ان کی چیخیں ہر طرف گونج رہی تھیں، وہی گروہ آج پھر سازش کی کانفرنس میں اکٹھا ہو رہا ہے۔ وہ اہل فلسطین کی فلاح و بہبود کا بہانہ کرتے ہوئے، تعمیر نو کے لیے اور جبری نقل مکانی کی روک تھام کے لیے ایک مجوزہ منصوبہ پیش کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں، جبکہ وہ یہودیوں کی اجازت کے بغیر وہاں ایک روٹی یا ایک گھونٹ پانی بھی داخل نہیں کروا سکتے۔ مزید یہ کہ یہ وہی گروہ ہے جس نے غزہ کے محاصرے میں حصہ لیا، عزہ کے دشمن کو ضروری اشیاء مہیا کیں، اور اسے زندگی کی ڈور تھمائی۔
جہاں تک اس سازش کی کانفرنس کا تعلق ہے، تو مجوزہ منصوبہ اس مغرور مجرم ٹرمپ کو فیصلہ ساز بناتا ہے اور مقدس سرزمین اور اس کے باشندوں کی تقدیر سے متعلق تمام معاملات میں اس کے اختیار پر زور دیتا ہے۔ بدترین چیز یعنی جبری نقل مکانی، کا خوف پیدا کر کے بدتر چیز پیش کرنے کی حکمتِ عملی کے تحت وہ اپنا منصوبہ پیش کر رہے ہیں جو امریکی پالیسیوں پر مشتمل ہے اور اس میں وہ سب کچھ شامل ہے جسے ٹرمپ نافذ اور حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اسے اپنے علاقائی ایجنٹوں کی زبان سے اور تعمیر نو کے لبادے میں اور جبری نقل مکانی کے خطرے کو دور کرنے کے لبادے میں پیش کرنا چاہتا ہے، اور اس میں وہ اہداف بھی شامل ہیں جو یہودی وجود حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ درحقیقت، مجوزہ منصوبے کے کچھ نکات بعینہٖ وہی ہیں جو نیتن یاہو، جنگ کے آغاز میں، غزہ میں سیکورٹی کی صورتحال کو سنبھالنے میں عرب افواج کی ذمہ داری اور شرکت کے حوالے سے پیش کر رہا تھا۔
بلاشبہ، اس ذلیل گروہ نے اپنی تجویز میں یہودی وجود کی سلامتی کو ہی اصل مقصد اور سنگ بنیاد بنایا ہے، اور ان کے منصوبے محض تفصیلات ہیں۔ یہ اس بات سے واضح ہے کہ وہ امن برقرار رکھنے کے بہانے بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کی تجویز پیش کر رہے ہیں، تاکہ وہ یہودی قبضے کے ساتھ ایک اور قبضے کا اضافہ کر سکیں۔ یہ اس بات سے بھی واضح ہے کہ وہ اپنی نگرانی میں تیار کی جانے والی افواج کی تجویز پیش کر رہے ہیں، تاکہ اس کے بعد اس غزہ کی پٹی کو فلسطینی اتھارٹی میں موجود سیکورٹی کوآرڈینیشن کے علمبرداروں کے حوالے کیا جا سکے، جو یہودی وجود کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سب سے زیادہ بے چین اور اس کی خدمت کرنے کے لیے سب سے زیادہ اہل ہیں۔ اس کے برعکس، وہ اہل فلسطین، ان کے مجاہدین اور ان کے ہتھیاروں کو مسئلے کی جڑ قرار دیتے ہیں، اور اللہ کی راہ میں ان کے جہاد کو دہشت گردی گردانتے ہیں اور یہودیوں کی جانب سے وکالت کرتے ہوئے انہیں غیر مسلح کرنے، ان کے جہاد کو ختم کرنے، ان کی طاقت کو توڑنے، اور انہیں رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے یا زبردستی گھسیٹنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ سب تعمیر نو اور دو ریاستی حل کے بارے میں گھٹیا باتوں کی آڑ میں کیا جا رہا ہے۔ کیا تعمیر نو ان مغضوب اور مفسد لوگوں کی سنگینوں کے سائے میں ہو گی؟ کیا ان کے کسی عہد و پیمان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے جبکہ وہ اسے ہر روز توڑتے ہیں؟ پھر، کیا دو ریاستی حل کے لیے، تمام تر غداری اور دستبرداری کے باوجود، اس وجود کی جانب سے زمینوں پر قبضے، زمینوں کے الحاق اور بستیوں کی توسیع کے بعد کوئی جگہ باقی رہ گئی ہے؟ کیا اس حل کو کمزور کر کے، اس حل کے پیچھے بھاگنے والوں کے منہ پر یہودی وجود نے تھپڑ نہیں مارا؟
اے مسلمانو! یہ سازشی حکمران اب مخاطب ہونے کے لائق نہیں رہے اور نہ ہی پکارے جانے کے اہل ہیں۔ وہ بہت پہلے سے دشمن کے خیمے میں صف آراء ہو چکے ہیں۔ لیکن خطاب اور سوال تم سے ہے: تم کب تک ان کی غداری اور سازش پر خاموش رہو گے؟ تم کب تک اپنے بھائیوں کو مقدس سرزمین میں ایسے ایجنٹوں کے ہاتھوں پریشان حال چھوڑے رہو گے جو ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور ایسے دشمنوں کے ہاتھوں میں چھوڑے رہو گے جو انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا اہل فلسطین کے مجاہدین، جنہیں یہ غدار حکومتیں، ختم کرنے اور ان کی طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، واقعی مسئلہ ہیں؟ کیا ہمارا دشمن وہ مجرم وجود نہیں ہے جو خون بہاتا ہے اور زمین میں فساد پھیلاتا ہے؟ کیا وہ جنگ کیے جانے اور اس کے وجود کو مٹا دیے جانے کا سب سے زیادہ حقدار نہیں ہے؟
بلاشبہ، فلسطین کے صابر لوگ، جن کی استقامت نے شکست کو ناممکن بنا دیا ہے اور جن کے معاملے نے ختم ہونے سے انکار کر دیا ہے، اللہ کے حکم سے، ذلیل حکمرانوں اور ان کے آقاؤں کے حلق میں کانٹے کی طرح پیوست رہیں گے۔ وہ امت کے عزیز ترین سرحدوں میں سے ایک پر، اس کے دور دراز علاقوں میں، اس کے نبی ﷺ کے معراج کی سرزمین اور اس کی مقدس سرزمین پر پہرہ دیتے رہیں گے، یہاں تک کہ امت، اس کی افواج اور اس کے لشکر ان ذلیل حکمرانوں کے گروہ، اور ایجنٹ حکمرانوں کو اپنے راستے سے ہٹا کر اور انہیں ختم کر کے، آزادی کے لیے مدد لے کر ان تک پہنچ نہ جائیں۔
﴿وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئاً إِنَّ اللهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ﴾
"اور اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو ان کا مکر تمہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ یقیناً اللہ ان کے کاموں کو گھیرے ہوئے ہے" (سورۃ آل عمران: آیت 120)
فلسطین کی مقدس سرزمین پر حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير فلسطين |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: www.pal-tahrir.info |
E-Mail: info@pal-tahrir.info |