السبت، 07 رجب 1447| 2025/12/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

 

تصاوير بنانے ، خاکہ نگاری و مصوری، اور ویڈیوگرافی میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کرنا

اسلام ابوخلیل اور رائد الھرش ابو معاذ کے لئے

(عربی سے ترجمہ)

سوال:

 

1- اسلام ابو خلیل کا سوال :

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، ہمارے معزز شیخ!اللہ سے دعا ہے کہ آپ خیر و عافیت سے رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کی کوششوں سے زمین پر اسلام کو سربلند کرے۔

 

میں ایک اہم سوال پیش کرنا چاہتا ہوں جودورِحاظر میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں پایا جاتا ہے۔ امید ہے کہ اگر آپ اسے اپنے آفیشل پیج پر شائع کر دیں تو یہ سب کے لیے نفع بخش ہوگا، ان شاء اللہ۔

 

آج کل بہت سے لوگ انسانوں یا جانوروں کی تصویر کشی کرنے کے لئے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس-AI) کا استعمال کرتے ہیں۔ کوئی شخص مخصوص معلومات اور کچھ شرائط AI کو مہیا کرتا ہے اور اس سے تصویر بنانے کو کہتا ہے، تو پھر یہ AI متحرک یا حقیقی جیسی تصاویر یا ویڈیو تیار کر دیتا ہے۔ کسی حقیقی شخص کی تصویر لے کر اس سے پوڈکاسٹ یا پروگرام بھی بنایا جا سکتا ہے، یا پھر ایسے شخص کی تصویر بھی تخلیق کی جا سکتی ہے جو حقیقت میں موجود ہی نہیں ہوتا۔

 

پہلا سوال :

 

تو سوال یہ ہے کہ کیا انسانوں یا جانوروں کی تصاویر بنانے کے لئے مصنوعی ذہانت کا استعمال اسلامی شریعت کے مطابق جائز ہے؟ اور کیا دعوتِ دین کے مقاصد کے لیے یا عمومی طور پر متحرک تصویرکشی کرنا (animations) یا ویڈیو بنانا جائز ہے؟

 

دوسرا سوال :

 

اگر مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے انسانوں کی تصاویر بنانا جائز ہے تو کیا ان تصاویر کا اسلامی ضوابط کے مطابق ہونا ضروری ہے؟ مثلاً کیا عورت کا حجاب میں ہونا لازم ہے یا نہیں؟

براہِ مہربانی وضاحت فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اجرِکریم عطا کرے۔

اسلام ابو خلیل، 25 نومبر 2025ء

2- رائد الھرش ابو معاذ کا سوال

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

 

آج کل مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہم کسی تحریری متن کو تصاویر میں تبدیل کر سکتے ہیں، اور کسی تصویر کی خصوصیات یا اس کی نوعیت بدل سکتے ہیں، یا اسے کارٹون یا متحرک تصویر (anime) میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ ہم تحریری متن کی بنیاد پر ویڈیوز بھی بنا سکتے ہیں۔

 

کیا کسی تصویر کو بدلنا، جیسے اسے کارٹون یا متحرک تصویر (anime) بنا لینا، ”ہاتھ سے خاکہ کشی“ شمار ہوتا ہے یا کچھ اور؟ یا پھر یہ ”خودکار تخلیق“سمجھی جائے گی جو الگورتھم اور خودکار نظام پر مبنی ہوتی ہے، نہ کہ براہِ راست انسانی عمل کے ذریعے؟

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

آپ دونوں کے سوالات ملتے جلتے ہیں اور ان کا جواب ذیل میں ہے :

 

اول : مصنوعی ذہانت کے پروگرام انسانیت کے لیے ایک وسیع اور کھلا دروازہ ہیں۔ مصنوعی ذہانت دراصل خالقِ کائنات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عظمت کی ایک نشانی ہے، جس نے فرمایا:

 

﴿عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ

 

”اس نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا“[سورۃ العلق: 5]۔

 

انسان اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ مشینوں، حسابات، الگورتھمز اور کمپیوٹر پروگرامز کو استعمال کرکے وہ کام کر لے جو خود اپنے طور پر کرنا اس کے لیے مشکل ہوتا۔ مصنوعی ذہانت علم اور اس کے عملی اطلاق دونوں میں ایک عظیم پیش رفت ہے۔ مصنوعی ذہانت  اس قابل ہے کہ یہ ذرائع، اسالیب، لوگوں کی طرزِ زندگی، مادی ترقی، نظم و اسلوب اور دیگر پہلوؤں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی پیدا کر سکے۔

 

دوئم  :

مصنوعی ذہانت کسی ایک شعبے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کے استعمالات بھی سائنس، علوم، اور عملی شعبوں کی طرح بے حد وسیع اور متنوع ہیں۔ مصنوعی ذہانت کو صحت، طب اور ہسپتالوں میں، سائنس اور ایجادات میں، تعلیم میں، فوجی میدان اور جنگ میں، مختلف فنون میں، اور بہت سے دیگر شعبوں میں مؤثر طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دیگر تمام علوم اور ایجادات کی طرح، مصنوعی ذہانت کا استعمال بھی انسانیت کے ہاتھ میں ہے، یہ خیر کے لئے بھی استعمال ہو سکتی ہے اور شر میں بھی۔ اسے انسانوں کی بھلائی اور فائدے کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ بڑے فائدے پہنچا سکتی ہے، اور اگر اسے برائی، کرپشن، ظلم، جبر اور لوگوں کے مال کے ناحق استعمال جیسے کاموں میں استعمال کیا جائے تو یہ شر اور ہلاکت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

 

سوئم :

جس سوال کا ہم جواب دینے جا رہے ہیں، وہ مصنوعی ذہانت کے ان پروگراموں کے استعمال سے متعلق ہے جو تصاویر بنانے، شبیہ بنانے، ویڈیوز بنانے، روبوٹکس وغیرہ جیسے شعبوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہم درج ذیل امور کا جائزہ لیں گے :

 

1- لغوی اعتبار سے تصویر (تصویر کشی کرنا) کا مطلب ہے کسی مخلوق کی ایسی شکل پیدا کرنا جو اس کی اصل شکل سے مشابہ ہو، یعنی اس کی مماثلت یا نمائندگی بنانا۔ وہ تصویر جتنی زیادہ اصل مخلوق سے ملتی جلتی ہو گی، اتنی ہی زیادہ وہ اس مخلوق کی مشابہت اور ہوبہونقل شمار ہوتی ہے۔ بالفاظِ دیگر، کسی چیز کی تصویر بنانااس کی مثل تیار کرنا ہے۔ مُصَوِّرین کی اصطلاح سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایسی مشابہہ تصویرکشی کرتے ہیں۔

 

لیکن کسی شے کی صرف نقل بنانا(بطور ایک نقل شدہ تصویرتیار کرنا)، جو کسی بھی ذریعے سے بنائی گئی ہو، تو یہ معاملہ لفظ تصویر(یعنی تصویر کشی) کے مفہوم میں داخل نہیں ہوتا۔ حرام کردہ تصویرکشی وہ ہے جو کسی ذی روح (جاندار) کی تصویر ہو۔ مصوری (تصویر کشی) کا اصل عمل یہ ہے کہ اس کی مثل ہاتھ سے، قلم سے، کیمرے سے یا کسی بھی آلے سے تیار کی جائے، خواہ زمین پر ہو یا فضا میں۔ یہ وہ نقل نہیں ہوتی ہے جو کسی شے کی اپنی اصل حقیقت (عکس) کو کسی بھی طریقے سے منتقل کر دیتی ہے۔

 

2- جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حرام کردہ مصوری (تصویر کشی) وہ ہوتی ہے جو کسی ذی روح کی ہو، تو اس کی دلیل درج ذیل شرعی نصوص ہیں:

 

ا- صحیح بخاری میں سعید بن ابی الحسنؒ سے روایت ہے کہ میں ابن عباسؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور کہا: ”اے ابو عباس! میری روزی روٹی میرے ہنر سے وابستہ ہے اور میں یہ تصویریں بناتا ہوں“۔ابن عباسؓ نے فرمایا: ”میں تمہیں صرف وہی بات بتاؤں گا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا: «مَنْ صَوَّرَ صُورَةً فَإِنَّ اللَّهَ مُعَذِّبُهُ حَتَّى يَنْفُخَ فِيهَا الرُّوحَ وَلَيْسَ بِنَافِخٍ فِيهَا أَبَداً»’جو کوئی تصویر بناتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عذاب دے گا یہاں تک کہ وہ اس میں روح پھونک دے، اور وہ کبھی بھی اس میں روح نہیں پھونک سکے گا‘ “۔ یہ سن کر وہ آدمی گہرا سانس لینے لگا اور اس کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ ابن عباسؓ نے اس سے فرمایا، ”کتنے افسوس کی بات ہے! اگر تم تصویر بنانے پر ہی مُصر ہو تو درختوں اور بےجان اشیاء کی تصاویر بنایا کرو“۔

 

ب۔صحیح بخاری میں روایت ہے جو عبید نے نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِنَّ الَّذِينَ يَصْنَعُونَ هَذِهِ الصُّوَرَ يُعَذَّبُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُقَالُ لَهُمْ أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ» ”بے شک جو لوگ یہ تصویریں بناتے ہیں انہیں قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، اور ان سے کہا جائے گا: جو تم نے بنایا ہے اسے زندہ کرو‘ “۔

 

ج-صحیح مسلم میں نافع نے القاسم بن محمد سے اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ایک قالین خریدا جس پر تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو آپ ﷺ دروازے پر ہی رک گئے اور اندر داخل نہیں ہوئے۔ میں نے محسوس کر لیا، یا مجھے محسوس کرایا گیا، کہ آپﷺ کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے۔ عائشہؓ نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ ﷺ! میں اللہ اور اس کے رسول سے توبہ کرتی ہوں۔ میں نے کون سی غلطی کی ہے؟“، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَا بَالُ هَذِهِ النُّمْرُقَةِ؟» ”یہ قالین کہاں سے آیا ہے؟“، عائشہؓ نے کہا، ”میں نے یہ آپ کے لیے خریدا تاکہ آپ اس پر بیٹھ کر آرام کریں“۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«إِنَّ أَصْحَابَ هَذِهِ الصُّوَرِ يُعَذَّبُونَ وَيُقَالُ لَهُمْ أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ» ”ان تصاویر کے بنانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا، جو تم نے بنایا ہے اسے زندہ کر کے دکھاؤ‘ “۔

 

د - بےجان اشیاء کی تصویر بنانے کا جائز ہونا واضح دلائل کے ساتھ ثابت ہے، جیسا کہ کتاب، اسلامی شخصیہ جلد دوم میں تصویرکے باب میں بیان ہوا ہے، [(على أن إباحة تصوير ما ليس فيه روح من شجر ونحوه قد جاءت صريحة في الأحاديث. ففي حديث أبي هريرة: «فَمُرْ بِرَأْسِ التِّمْثَالِ يُقْطَعْ فَيُصَيَّرَ كَهَيْئَةِ الشَّجَرَة» (أخرجه أحمد وكذلك أخرجه الترمذي وأبو داود).. وهذا يعني أن تمثال الشجر لا شيء فيه، وفي حديث ابن عباس (قال سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: «كُلُّ مُصَوِّرٍ فِي النَّارِ يَجْعَلُ لَهُ بِكُلِّ صُورَةٍ صَوَّرَهَا نَفْساً فَتُعَذِّبُهُ فِي جَهَنَّمَ، وقَالَ: فإِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلاً فَاصْنَعْ الشَّجَرَ وَمَا لَا نَفْسَ لَهُ» (أخرجه مسلم)] ”تاہم درختوں اور اسی طرح کی بے جان چیزوں کی تصویر بنانے کی اجازت احادیث میں صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ ابو ہریرہؓ سے مروی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”بت کے سر کو کاٹ کر اسے درخت کی شکل بنا دو“ (اسے احمد نے روایت کیا اور ترمذی اور ابوداؤد نے بھی روایت کیا ہے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ درخت جیسی بےجان شے کی نقل بنانا جائز ہے۔ ابن عباسؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ”تصویریں بنانے والے جہنم میں ہوں گے، اور ہر تصویر کے بدلے اس میں ایک جان ڈالی جائے گی جو اسے جہنم میں عذاب دے گی“۔اور آپ ﷺ نے استثناء دیتے ہوئے فرمایا: ”اگر تم تصویر بنانا ہی چاہتے ہو تو درخت اور بےجان اشیاء کی تصاویر بناؤ“ [رواہ مسلم]۔ [اختتام اقتباس]

 

ان تمام شرعی نصوص میں حرمت کا تعلق صرف ذی روح (جاندار مخلوقات) کی تصویر کشی سے ہے، اور یہ حرمت انہی کے ساتھ خاص ہے، عمومی معنوں میں نہیں، جیسا کہ ان نصوص میں بیان کیا گیا ہے، «حَتّى يَنْفُخَ فِيها الرُّوحَ » ”جب تک اس میں روح نہ پھونک دے“، «أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ» ”جو تم نے بنایا ہے اسے زندہ کر کے دکھاؤ“، اور ان میں درخت اور بےجان اشیاء کا استثناء ہے یعنی جو مصوری حرام ہے وہ کسی ذی روح کی تصویر کشی کرنا ہے۔ لہٰذا دیگر نصوص جو مطلق ہیں یا عام ہیں وہ اصول الفقہ کے مطابق اپنے خاص اور مقید کے اعتبار سے سمجھی جائیں گی، یعنی ان کا تعلق صرف ذی روح تصاویر سے ہے، جیسا کہ اس کی دلیل میں حدیث ہے، ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، «إِنَّ الَّذِينَ يَصْنَعُونَ هَذِهِ الصُّورَةَ يُعَذَّبُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے۔ اور ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، «كُلُّ مُصَوِّرٍ فِي النَّارِ» ہر تصویر بنانے والا جہنم میں ہے“۔

 

3- جہاں تک اس حقیقت کا تعلق ہے کہ تصویر (تصویر سازی) کی حقیقت ایک زندہ مخلوق کی مشابہت پیدا کرنا ہے، نہ کہ اس کی حقیقت کی ہوبہونقل  تیار کرنا، تو درج ذیل دلائل اس کے متعلق ہیں :

 

ا-عمدۃ القاري (شرح صحیح بخاری) میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے بارے میں ذکر ہے: (قَدِمَ رسولُ الله ﷺ مِنْ سَفَرٍ، وَقَدْ سَتَرْتُ بِقِرَامٍ لِي عَلَى سَهْوَةٍ لِي فِيهَا تَمَاثِيلُ، فَلَمَّا رَآهُ رسولُ الله ﷺ هَتَكَهُ، وَقَالَ: «أَشَدُّ النَّاسِ عَذَاباً يَوْمَ القِيَامَةِ الَّذِينَ يُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ…»)رسول اللہ ﷺ ایک سفر سے واپس آئے اور میں نے اپنے کمرے میں ایک جگہ پر پردہ لٹکا رکھا تھا جس پر تصویری شکلیں بنی ہوئی تھیں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو انہوں نے اسے پھاڑ ڈالا اور فرمایا،  قیامت کے دن سب سے سخت عذاب پانے والے وہ لوگ ہیں جو اللہ کی تخلیق کی مشابہت بناتے ہیں‘۔ اس حدیث میں اس بیان کہ، (هتكه)آپ ﷺ نے اسے پھاڑ دیا کا مطلب یہ ہے کہ اسے کاٹ کر ہٹا دیا۔اور اس بیان کہ (يُضَاهُونَ) ”وہ مشابہت پیدا کرتے ہیں کا مطلب یہ ہے کہ  وہ اللہ کی مخلوق کی صورت گری کرتے ہیں۔

 

ب- ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں اسی حدیث کے بارے میں بیان کیا ہے: «أَشَدُّ النَّاسِ عَذَاباً يَوْمَ القِيَامَةِ الَّذِينَ يُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّه» ”قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب پانے والے وہ لوگ ہیں جو اللہ کی تخلیق کی مشابہت بناتے ہیں۔ اللہ کی تخلیق کی مشابہت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یعنی جو وہ بناتے ہیں اس کے ذریعے اللہ کی تخلیق کردہ کی مثل بنانا۔ اور الزہریؒ کی روایت میں القاسمؒ کی سند سے مسلم میں بیان ہے کہ الَّذِينَ يُشَبِّهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ وہ جو اللہ کی تخلیق کی مشابہت کرتے ہیں

 

لہٰذا حرام کردہ تصویرکشی وہ ہے جو کسی ذی روح مخلوق کی تصویر بنائے اور اللہ کی تخلیق کی مثل شبیہ بنائے۔ یعنی حرام تصویر کشی وہ ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مخلوق کی مشابہہ بنائی جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے مشابہہ یا مثل ہو۔ جتنی زیادہ مشابہت اصل تخلیق سے ملتی جلتی ہو گی، تو تصویر اتنا ہی زیادہ مشابہہ ہوگی۔ اسی وجہ سے جو لوگ تخلیق کی مشابہہ بناتے ہیں انہیں دیگر احادیث میں مُصَوِّرون (تصویر بنانے والے) کہا گیا ہے۔

 

- ابن مسعودؓ سےروایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول ﷺ کو یہ کہتے ہوئےسنا، «إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَاباً يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمُصَوِّرُونَ»  ”قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب پانے والے لوگ تصویر کشی کرنے والے ہوں گے۔ (متفق علیہ)

 

- سنن النسائی - ...مسلم بن صبیح نے مسروق سے، انہوں نے عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،  «إِنَّ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ عَذَاباً يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمُصَوِّرُونَ»قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب پانے والے لوگ تصویر کشی کرنے والے ہوں گے“۔ اور احمد نے کہا،  «الْمُصَوِّرُینَ» تصویر بنانے والے“۔

 

- یہ بات حزب کے بانی اور امیر (رحمہ اللہ) کے 23 مارچ، 1969ء کے ایک سوال کے جواب میں مذکور ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، «يَا عائِشَةُ أَشَدُّ النَّاسِ عَذَاباً عِند اللَّهِ يَوْمَ القيامةِ الَّذينَ يُضاهُونَ بِخَلقِ اللَّهِ» اے عائشہ، قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کی تخلیق کی نقل کرتے ہیں، یعنی وہ لوگ جو تصویریں بناتے ہیں۔ [اقتباس ختم]

 

نقل (مضاهاة) یا مشابہت (التشبیہ) حرام ہونے کی علت (شرعی قیاسی دلیل) نہیں ہے۔ لہٰذا، درختوں اور دیگر بے جان اشیاء کی تصویر کشی جائز ہے، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ مضاهاة یا التشبیہ کرنا جاندار اشیاء کی تصویر کشی کی ممانعت کاوصف ہے۔ یہ تحقِیقُ الْمَنَاط (حقائق کا تعین) کے باب (زمرے) میں آتا ہے۔ اگر تصویر اللہ کی تخلیق سے مشابہت رکھتی ہے، تو وہ ممنوع ہے۔ تاہم، اگر تصویر خود اس تخلیق کی ہوبہونقل (کاپی شدہ صورت میں عکس) ہے، تب وہ ممنوع نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی تخلیق کی تصویر کشی (مصوری) ایک ایسا نقش یا شبیہ پیدا کرنا ہے جو اس سے مشابہت رکھتی ہو، نہ کہ اس کی ہوبہو نقل (کاپی شدہ صورت میں عکس)۔

 

حزب کے بانی اور امیر (رحمہ اللہ) نے کہا، اصل کی ہوبہونقل (عکس) لے لیناکسی شخص کی اس معنی میں تصویر کشی (مصوری) نہیں ہے کہ ان کی مشابہہ بنائی گئی ہو۔ بلکہ، نقل (کاپی شدہ صورت میں عکس) اس شخص یا شے کے عین اصل کی کاپی ہے، جسے کاپی کے طور پر پرنٹ کر دیا جا تا ہے۔ لہٰذا، تصویر کشی (مصوری) سے منع کرنے والی حدیث اس نقل (کاپی) پر لاگو نہیں ہوتی۔ یہ شرعی دلیل کی تلاش کے بجائے تحقِیقُ الْمَنَاط (حقائق کا تعین) کے زمرے میں آتا ہے۔ تحقِیقُ الْمَنَاط کا تقاضا ہے کہ اس چیز کی حقیقت کی جانچ کی جائے جس کے لیے شرعی حکم دیا جانا ہے... لہٰذا یہ اس امر کی تلاش ہے کہ حقیقت میں وہ کیا ہے، اور پھر اس پر متعلقہ حکم لاگو کیا جاتا ہے“۔ یہ تفصیل 23 مارچ، 1969ء کو ایک سوال کے جواب میں بیان کی گئی ہے۔

 

چہارم  :

 

درج بالا دلائل کی بنیاد پر، آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :

 

1- ہم نے اپنی کتاب اسلامی شخصیہ، جلد دوم میں خاکہ نگاری، مجسمہ سازی، اور تصویر سازی کے شرعی احکام بیان کئے ہیں، اور اس کے علاوہ کئی سوالات کے جوابات شائع کیے ہیں، جن میں 19 مارچ، 2017ء کے سوال کا جواب بھی شامل ہے، جس میں تفصیلات اور شرعی دلائل موجود ہیں۔ ہم نے واضح کیا کہ شرعی احکامات کے مطابق ہاتھ سے کسی بھی ذی روح کی مصوری کرنا اور مجسمہ سازی کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ انسانی کوشش کے ذریعے اصل تخلیق کے مشابہہ بنانا ہے، اور اس حکم میں بچوں کے کھلونے شامل نہیں ہیں۔ آپ اس جواب کو ملاحظہ کر سکتے ہیں جس میں دلائل تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔

 

2- کمپیوٹر کی ایجاد ہونے کے بعد کسی ذی روح کی خاکہ نگاری  اور تصویر سازی (مصوری) کرنا اب ڈرائنگ کے سافٹ ویئر اور ماؤس کے ذریعے بھی ممکن ہو گیا ہے۔ اور اس ایجاد نے خاکہ نگاری و تصویر سازی (مصوری) کے میدان میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے، کیونکہ اب تصویر ساز (مصور) سافٹ ویئر کی صلاحیتوں سے تصویریں اور ڈرائنگ تیار کر سکتے ہیں۔ بہرحال، انسانی کوشش کے ذریعے کی گئی ڈرائنگ اور تصویر سازی اب بھی اصل تخلیق کی مشابہت شمار ہوتی ہے، اور جتنا زیادہ مشابہت اصل تخلیق کے قریب ہوگی، اتنی زیادہ وہ اصل تخلیق کی مثل وشبیہ ہی ہوگی۔

 

3- جہاں تک نقل یعنی کسی شے کی کاپی شدہ تصویر کا تعلق ہے، تو یہ جائز ہے اور حرام نہیں، کیونکہ یہ اصل شے کی ہوبہو نقل ہے، مشابہت یا مثل نہیں ہے۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں :

 

ا- 23 مارچ، 1969ء کے سوال کے جواب سےاقتباس ہے کہ، جہاں تک فوٹوگرافی شدہ تصویر کا تعلق ہے، تو یہ ایک آئینے کی مانند ہوتا ہے۔ جس طرح آئینہ شے کی حقیقت کو منتقل کرتا ہے، ویسے ہی فوٹوگرافی کا کیمرہ بھی کرتا ہے۔ کیمرے کی پیدا کردہ تصویر نہ تو مصوری ہے، نہ مشابہت، اور نہ ہی کسی شخص کی تصویر سازی  ہے جس کا مقصد اس کی مشابہت پیدا کرنا ہو۔ بلکہ یہ تو کسی شخص یا شے کی اصل حقیقت کا ایک ہوبہونقل شدہ عکس ہوتا ہے۔ اس لئے مصوری سے ممانعت کی حدیث اس پر لاگو نہیں ہوتی۔ یہ معاملہ تحقیق المناط کے زمرے میں آتا ہے، نہ کہ شرعی دلیل تلاش کرنے کے لیے۔ ایسے معاملہ میں اس شے کی حقیقت کو جانچا جاتا ہے کہ جس پر حکم کا اطلاق ہونا ہو اور پھر اس پر حکم لاگو ہوتا ہے۔ اور کیمرے کی تصویرکے معاملہ میں شے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ہوبہوپرنٹ یا عکس ہوتا ہے، نہ کہ مصوری، خاکہ کشی یا مشابہت۔ اس لئے مصوری سے متعلق شرعی احکام اس پر لاگو نہیں ہوتے، اور یہ معاملہ اس کے علاوہ ہے۔ اور اس کے بجائے اس پر آئینہ کے عکس کی حقیقت لاگو ہوتی ہے، یا پھر یہ اشیاء کے جائز ہونے کے عمومی احکام کے زمرے میں آتا ہے[۔ لہٰذا فوٹوگرافی کے ذریعے تصاویر بنانا حرام نہیں ہے۔ [5 محرم الحرام، 1389ھ – بمطابق 23 مارچ، 1969ء]

 

ب- 22 جنوری، 1971ء کے سوال کے جواب سےاقتباس، مصوری (تصویر سازی) میں کندہ کاری، مجسمہ سازی، خاکہ نگاری، تراشیدہ ڈرائنگ اور وہ سب شامل ہوتے ہیں جو کوئی شخص تصویر کے لئے خود سے بناتا ہے، یعنی وہ سب کچھ محنت جو کوئی انسان کسی تصویر کو بنانے کے لئے خود کرے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مسلمان پر کسی بھی ذی روح کی تصویر بنانے کو حرام کیا ہے، چاہے وہ کاغذ پر، کپڑوں پر، دیواروں پر یا کسی اور جگہ پر ہو۔ اسی طرح، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مسلمان پر کسی بھی ذی روح کو کندہ کرنے کو حرام کیا ہے، چاہے وہ پتھر پر ہو، برتن پر ہو یا کسی بھی اور شے پر۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کندہ کاری، مجسمہ سازی یا نقش و نگار کے ذریعے کسی ذی روح کی مشابہت بنانا بھی حرام فرمایا ہے، چاہے وہ چمڑا پر ہو، دیوار پر ابھار کے ذریعے یا کندہ کی گئی ہویا کپڑوں پر رنگوں کے ذریعے بنائی گئی ہو یا کسی بھی اور طریقے سے ہو[۔ لہٰذا مسلمانوں کے لیے وہ سب کچھ ممنوع ہے جو لغوی لحاظ سے مصوری (تصویر سازی) میں آتا ہے، جیسے کہ مجسمہ سازی، رسم، کندہ کاری، ابھار دینا وغیرہ ۔تاہم جو چیز لغوی لحاظ سے مصوری (تصویر سازی) نہیں ہے، وہ حرام نہیں ہے۔ اس لئےفوٹوگرافی، سیٹلائٹ امیجز، اور دیگر نقل شدہ تصویریں لینے کی ممانعت نہیں ہے“۔ ] 22 جنوری، 1971ء[

 

4- جہاں تک آرٹیفیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت-(AI) کا استعمال کرتے ہوئے کسی ذی روح کی تصویر، ڈرائنگ یا ویڈیوز کی تیاری کرنے کا تعلق ہے، تو اس کا معاملہ ذیل میں ہے :

 

ا- ایک شخص مصنوعی ذہانت کے پروگرام میں تحریری ہدایات لکھ کر اس پروگرام کو کہتا ہے کہ اس ذی روح کی تصویر تیار کی جائے۔ مثال کے طور پر، وہ ہدایات دے سکتا ہے کہ ”صدر یا کسی اور کی کھیل کے لباس میں تصویر بنائیں“۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا پروگرام پھر ہدایات کے مطابق کھیل کے لباس میں صدر کی تصویر تیار کر دیتا ہے، چاہے وہ تصویری عکس ہو یا ڈرائنگ ہو، یا کچھ اور وغیرہ۔

 

یہی اصول مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ویڈیو بنانے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ کوئی شخص مصنوعی ذہانت کے پروگرام کو مخصوص ہدایات دے کر ویڈیو بنانے کا کہہ سکتا ہے، جیسے کسی خاص خطیب کی جمعہ کے خطبہ کی ویڈیو۔ اور پھر مصنوعی ذہانت کا پروگرام اپنے پاس موجود معلومات کے مطابق ویڈیو تیار کر دیتا ہے جس میں وہ خطیب جمعہ کی خطبہ دیتے ہوئے دکھائی دیتا ہے، اور اسی طرح کی دیگر ویڈیوز وغیرہ۔

 

ب- جیسا کہ ہم نے مذکورہ بالا شق  ”چہارم، نکات 1 اور 3“ میں ذکر کیا کہ، اگر تصویر اصل شے کی ہوبہونقل شدہ کاپی ہے، جیسے کسی مخصوص جگہ اور وقت کی فوٹوگراف ، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر تصویر تخلیق کی مشابہت کے طور پر بنائی گئی ہو، جیسے ہاتھ کی کھینچی گئی لکیروں سے تیار شدہ ہوں یا کمپیوٹر کے ذریعے تیار کی گئی تصویر، تو یہ جائز نہیں۔ کیونکہ اس پر مصوری (تصویر سازی) کی اصطلاح لاگو ہوتی ہے کیونکہ اس صورت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اصل تخلیق کی مشابہت پیدا کرنے کا عمل کیا گیا ہے، نہ کہ صرف اصل شے کی عکس بندی یا ہوبہونقل کے لیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ تصویر سازی اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی مشابہت پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر تصویر میں ایسی چیزیں شامل کی جائیں جو سچائی کے مطابق نہ ہوں، جیسے چہرے کی خصوصیات بدل دینا، کپڑوں کا انداز تبدیل کرنا، کسی شخص کو جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے دکھانا جبکہ وہ حقیقت میں وہاں موجود نہ ہو، یا کسی فوت شدہ شخص کی تصویر بنانا وغیرہ، یعنی تصویر میں دکھائی جانے والی جگہ اور وقت کے لحاظ سے اس شخص کی صحیح نمائندگی نہ کی گئی ہو، تو یہ حرام ہونے کے علاوہ ان شرعی نصوص کے تحت بھی آتا ہے جو فریب، جھوٹ، اور ضرر پہنچانے کی ممانعت کے حوالے سے ہیں، کیونکہ تصویر میں اصل حقائق کے خلاف تبدیلی کر دی گئی ہے۔

 

- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  «الْخَدِيعَةُ فِي النَّارِ وَمَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ» فریب جہنم کی طرف لے جاتا ہے، اور جو کوئی ایسا عمل کرے جو ہماری ہدایت کے مطابق نہ ہو، تو وہ رد کیا جائے گا۔ (رواہ بخاری)

- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، «لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ» نہ نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی نقصان اٹھاؤ (اسے احمد، ابن ماجہ، اور الحاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے)

 

- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، «وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ» بے شک، جھوٹ بدکاری کی طرف لے جاتا ہے، اور بدکاری جہنم (آگ) کی طرف لے جاتی ہے۔ اور مسلم کی روایت میں یہ ان الفاظ کے ساتھ ہے، «وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ» جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ بدکاری کی طرف لے جاتا ہے، اور بدکاری جہنم کی آگ کی طرف لے جاتی ہے۔

 

لہٰذا، کوئی بھی تصویر جو حقیقت کو بدل کر غلط انداز میں پیش کرتی ہو، جھوٹ اور فریب شمار ہوتی ہے، اور یہ ناجائز ہے۔اسی طرح مذکورہ بالا دلائل کی بنیاد پر کسی پاکباز شخص کو ضرر پہنچانا، یا تصویر کے ذریعے اس کی اصل حقیقت کو مسخ کرنا بھی ناجائز ہے۔ جو کوئی مصنوعی ذہانت کے پروگرام استعمال کر کے ایسی تصاویر تیار کرتا ہے، وہ گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے۔

 

یہ گناہ اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے اگر وہ تصاویر اور ویڈیوز ذیل  کے زمرے میں آتی ہوں :

 

*انبیاء علیہم السلام اور رسولوں کی تصاویر یا ویڈیوز بنانا اور ان کے لئے آوازیں شامل کرنا حرام ہے۔کیونکہ انبیاء علیہم السلام مقدس اور قابلِ احترام ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہر نبی کو نبوت کے لئے اور رسالت کے لیے خود منتخب کیا، اور یہ ایسا مقام ہے جو کسی اور انسان کو عطا نہیں کیا گیا۔ کسی نبی یا رسول کی تصویر یا ویڈیو بنانا جو کہ وحیٔ الہٰی کو پا چکے ہیں، تو ایسا کرنا رسالت کے پیغام پر ظلم، نبوت کی حرمت کی پامالی، اور الہامی پیغام کی حقیقی قدر کی بے حرمتی ہے۔ اور ایسا اقدام، رسالت کے پیغام اور رسول دونوں کے ساتھ قبیح ترین گناہ ہے۔

 

* ایسی تصاویر یا ویڈیوز بنانا جو کفر، بے حیائی، بہتان، یا دیگر ممنوع اعمال و اقوال کو فروغ دیتی ہوں، تو یہ بھی حرام ہے۔

 

یہی رائے مجھے اس معاملے میں شرعی اعتبار سے زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جاننے والا ہے، وہ حکمت والا ہے۔

 

آپ کا بھائی،

عطاء بن خليل أبو الرشتة

18 جمادى الآخر 1447هـ

بمطابق 09 دسمبر، 2025 عیسوی

Last modified onہفتہ, 27 دسمبر 2025 00:07

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک