بسم الله الرحمن الرحيم
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنْ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُوْلَئِكَ يَلْعَنُهُمْ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمْ اللاَّعِنُونَ(159) إِلاَّ الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُوْلَئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ(160) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُوْلَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ(161) خَالِدِينَ فِيهَا لاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمْ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ يُنظَرُونَ(162) وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (163)
"بے شک جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی صاف احکامات اور ہدایت کو چھپاتے ہیں اس کے بعد کہ ہم نے ان کو لوگوں کے لیے کتاب میں بیان کیا ہے یہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کر تے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔ مگر جن لوگوں نے توبہ کی اور اپنے آپ کو ٹھیک کیا اور حق کو بیان کیا تو ان کو میں معاف کرتا ہوں اور میں ہی معاف کرنے والا مہر بان ہوں۔ بے شک جو لوگ کافر ہوئے اور کافر ہی مرے انہی پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور سارے لوگوں کی۔ ہمیشہ رہیں گے اس لعنت میں، ان پر عذاب ہلکا نہیں ہو گا اور نہ ان کو کوئی مہلت دی جائے گی۔ اور معبود تم سب کا ایک ہی معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو بڑا مہر بان نہایت رحم والا ہے"(البقرۃ:163-159)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات میں یہ بیان کیا:
1۔ گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا تھا کہ جن کو کتاب دی گئی ہے وہ رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی پہچانتے جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ آپ ﷺ کی صفات ان کو معلوم ہیں اور آپ ﷺ کی تعریف بھی وہ جانتے ہیں اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ آپ ﷺ دوقبلوں کی طرف نماز پڑھیں گے، اس کے باوجود اس کو چھپایا جس کو وہ جانتے تھے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمْ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
"جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ تو اسے (محمد ﷺ) ایسا پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے، ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے"(البقرہ:146) ۔
اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات میں ان لوگوں کا انجام بیان کیا جو اللہ کی ان واضح آیات کو چھپاتے ہیں جن میں محمد ﷺ اور ہدایت کی آیات ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کے وجوب کو بیان کیا گیا ہے حالانکہ یہ اہل کتاب کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ یہ چھپانے والے اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں اور ان لوگوں کی لعنت کے جو چھپانے والوں پر لعنت کرتے ہیں جو کہ مومن اور ملائکہ ہیں۔
یہ اگر چہ اہل کتاب میں سے چھپانے والوں کے موضوع پر ہے مگر اس میں الفاظ عام ہیں، اس لیے یہ ہر اس شخص کے بارے میں ہے جو اللہ کی طرف سے دئیے گئے علم کو چھپاتا ہے اور یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ علم کو چھپا نا قرائن کے مطابق سخت حرام ہے، أُوْلَئِكَ يَلْعَنُهُمْ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمْ "جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں"، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ من كتم علما ألجمه الله بلجام من النار" جو علم کو چھپاتا ہے اس کو اللہ جہنم کا لگام ڈالیں گے" یہ جہنم میں ان لوگوں کے سخت ترین عذاب پر دلالت کرتا ہے۔
پھر اللہ نے ان میں سے صرف ان لوگوں کو مستثنیٰ قرار دیا جنہوں نے مندجہ ذیل تین امور انجام دئیے: اس چھپانے پر اللہ کے سامنے سچی توبہ کی اور اس چھپانے کی وجہ سے لوگوں کا کوئی حق ضائع ہو گیا ہو یا احکام شرعیہ میں کوئی گمراہی پیدا ہوئی ہو تواس کی اصلاح کریں، اور پھر جو کچھ چھپایا تھا اس کا اس کے موقع پر برملا اظہار کریں تب اللہ ان کی توبہ قبول کرے گے اور وہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔
2۔ اگلی آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کفار کے انجام کو بیان کر رہے ہیں جو کفر کی حالت میں ہی مرتے ہیں جن پر اللہ ملائکہ اور سارے لوگوں کی ابدی لعنت ہے۔
اس آیت میں لعنت کا موضوع وہی نہیں جو سابقہ آیات میں تھا کہ وہ دنیا میں تھا جہاں اللہ، ملائکہ اور مؤمنین ان پر لعنت کرتے ہیں۔ اس آیت میں آخرت میں ان پر لعنت کا ذکر ہے جہاں اللہ، ملائکہ اور سارے لوگ ان پرلعنت کریں گے، یعنی صرف مومن ہی نہیں بلکہ سارے لوگ حتی کہ کفار بھی ایک دوسرے پر لعنت کریں گے،
دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَعَنَتْ أُخْتَهَا
"جب بھی ایک قوم جہنم میں داخل ہو گی تو دوسری قوم اس پر لعنت کرے گی"(العراف:38)،
یوں پہلی آیت میں زندگی میں ان پر لعنت کا ذکر ہے او ر اس میں مرنے کے بعد ان پر لعنت کا ذکر ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کفر پر مرنے والے ان لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں ہوں گے اور ان پر دائمی لعنت ہوگی، ان کے عذاب میں کوئی نرمی نہیں ہو گی، ان کو معذرت کرنے کی بھی کوئی مہلت نہیں دی جائے گی بلکہ ان کی کوئی حجت قبول نہیں ہو گی نہ ہی کوئی مہلت ملے گی۔
3۔ سابقہ آیات میں یہ ذکر کرنے کے بعد کہ اہل کتاب محمد ﷺ کی نبوت کو چھپاتے ہیں حلانکہ ان پر نازل ہونے والی کتابوں میں آپ ﷺ کا ذکر ہے اور وہ آپ ﷺ کو ایسے ہی پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ ان کے خلاف نبی ﷺ کی نبوت کے ثبوت پر حجت تمام کی اور اگلی آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ بیان کیا کہ وہی تن تنہا معبود اور عبودیت اور الوہیت کا مستحق ہے۔
وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ
"اور معبود تم سب کا ایک ہی معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو بڑا مہر بان نہایت رحم والا ہے"۔
'واو' عطف کے لیے ہے اور جملہ إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ پرمعطوفہ ہے یعنی ایک قصے کو دوسرے قصے پر عطف کیا گیا ہےاور عطف میں مشترک یہ ہے کہ پہلے جملے میں نبی ﷺ کی نبوت کا اثبات ہے او دوسرے میں اللہ کی وحدانیت کا۔
معنی یہ ہیں کہ تمہارا بحق معبود وہ ہے جو عبادت کا مستحق ہے اور وہی الوہیت میں تن تنہا ہے یوں اس آیت میں الہ کا تکرا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی دوصفات بیان کرنے کے لیے ہے:
٭عبادت کا استحقاق جس کے لیے الہ کی ضمیر کو إِلَهُكُمْ کہہ کرمخاطبین کی طرف کیا گیا ہے۔
٭ الوہیت کی وحدت کو إِلَهٌ وَاحِدٌ اور لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ سے ذکر کیا گیا ہے جو کہ اللہ کی وحدانیت کی تاکید او ر تقریر ہے یعنی لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ کہنے کے بعد وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ کہا جس سے اس وہم کا ازالہ ہو گیا کہ تمہارے الہ کے علاوہ بھی کوئی الہ ہو سکتا ہے۔ آیت سے یہ معلوم ہوا کہ تمہارا الہ جو کہ عبادت کا مستحق ہے وہی واحد الہ ہے اس کے علاوہ کوئی الہ نہیں اور وہی تمہارا اور سارے جہانوں کا رب ہے اور وہی الوہیت میں تن تنہا ہے، وہی رحمن اور رحیم ہے جو کہ اپنی رحمت سے دنیا میں مومنوں اور کافروں پر رحم کرتے ہیں اور آخرت میں اپنی رحمت مومنوں کے لیے خاص کی ہوئی ہے۔ الرَّحْمَنُ فعلان کے وزن پر رحم وہ ہے جس کی رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے، یہ غضبناک کی طرح ہے یعنی غضب نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔
الرَّحِيمُ باکثرت رحمت والا مگر رحمن میں وہ مبالغہ ہے جو رحیم میں نہیں کیونکہ رحیم رحم میں ایک یا زیادہ ہے اور رحمن میں الف اور نون دوزیادہ ہیں اور الفاظ میں زیادتی معنی میں زیادتی پر دلالت کرتا ہے۔
Latest from
- امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...