بسم الله الرحمن الرحيم
تفسیر سورۃ البقرۃ (282)
جلیل القدر عالم دین اور فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابوالرشتہ کی کتاب ”التیسیر فی اصول التفسیر“ سے اقتباس
(عربی سے ترجمہ)
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلاَ يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلْ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلاَ يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنْ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى وَلاَ يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلاَ تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلاَّ تَرْتَابُوا إِلاَّ أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلاَّ تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلاَ يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلاَ شَهِيدٌ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمْ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾
”اے ایمان والو! جب تم آپس میں کسی مقررہ مدت کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور چاہیے کہ کوئی لکھنے والا تمہارے درمیان عدل کے ساتھ لکھے۔ لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اللہ نے اسے سکھایا ہے، پس وہ لکھے، اور وہ شخص املا کروائے جس پر قرض ہے، اور وہ اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے، اور کچھ بھی اس میں سے نہ گھٹائے۔ اگر وہ شخص جس پر قرض ہے بے عقل ہو یا کمزور ہو یا وہ خود لکھوا نہ سکتا ہو، تو اس کا ولی عدل کے ساتھ املا کروائے۔ اور اپنے میں سے دو گواہوں کو گواہ بنا لو۔ پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنائی جائیں، اُن میں سے جو تم گواہوں کے طور پر پسند کرو، تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ اور جب گواہوں کو بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں۔ قرض چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی مدت مقرر تک اسے لکھنے میں سستی نہ کرو۔ یہ طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف پر مبنی ہے، اور گواہی کو درست رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے، اور اس سے شک و شبہ پیدا نہیں ہوگا۔ ہاں اگر معاملہ فوری تجارتی لین دین کا ہو جسے تم آپس میں ہاتھوں ہاتھ کرتے ہو، تو اس کو نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں، مگر جب بھی تم خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو۔ اور نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ ہی گواہ کو۔ اور اگر تم ایسا کرو تو یہ تمہاری نافرمانی ہوگی۔ اللہ سے ڈرو، اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے‘‘ (البقرۃ :282)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جب اپنے راستے میں خرچ کرنے کا ذکر فرمایا تو یہ واضح کیا کہ اس میں نہ کوئی نقص ہو، نہ دل کی تنگی ہو، نہ ریاکاری، اور وہ مال پاک اور حلال ہو، نہ کہ ناپاک یا ناجائز۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی کہ اس راہ میں خرچ صرف خالص نیت اور اللہ کی رضا کے لئے ہونا چاہیے، خواہ وہ رات کو دیا جائے یا دن میں، پوشیدہ ہو یا اعلانیہ، اور اس کا اجر عظیم ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے سود (رِبا) کا ذکر فرمایا، اس کے قبیح گناہ کو بیان کیا، اور اسے شدید انداز میں حرام قرار دیا، اور فرمایا کہ سود لینے والوں کو صرف اصل رقم ملنی چاہیے، نہ کہ وہ دوسروں پر ظلم کریں اور نہ ہی وہ خود خسارے میں ڈالے جائیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرض کی ادائیگی میں تاخیر کا ذکر فرمایا، اور اس بات کو سراہا کہ اگر کوئی قرض دار کو کچھ یا سارا قرض معاف کر دے تو یہ صدقہ کے مترادف ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرض کے لین دین کے احکام بیان فرمائے، خواہ آدمی مقیم ہو یا سفر پر۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ جب وہ آپس میں قرض کا معاملہ کریں تو اسے لکھ لیا کریں، اور دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کو اس پر گواہ بنا لیا کریں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے اور اپنے حق کی حفاظت کے لئے ہے۔ اللہ نے اس عمل کو ہر قرض کے معاملے میں ترغیب دی ہے، خواہ وہ قرض کم ہو یا زیادہ، جب تک کہ اس میں مدت مقرر ہو، اور اگر معاملہ نقدی کا ہو، یعنی ہاتھوں ہاتھ ہو، تو اس پر کوئی سختی نہیں۔
اسی طرح، اللہ تعالیٰ نے گواہوں اور لکھنے والوں کو کسی بھی طرح نقصان پہنچانے کو حرام قرار دیا ہے، خواہ وہ دباؤ ڈال کر ہو یا حقائق کو بدلنے پر مجبور کر کے۔ اللہ نے حکم دیا ہے کہ شریعت کے مطابق عمل کیا جائے اور اس یقین کے ساتھ کہ اللہ ہر چھپی اور ظاہر بات کو جانتا ہے، اور وہ علیم و خبیر ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اللَّهُ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ﴾
”اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، نہ زمین میں اور نہ ہی آسمان میں‘‘ [آل عمران: 5]۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے علم سے کوئی چیز اوجھل نہیں، وہ پوشیدہ اور ظاہر ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے، ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ایمان والوں کو خاص طور پر خطاب ہے، یعنی وہ لوگ جو اللہ کی اطاعت کرتے ہیں، ان کے لئے یہ ہدایت نازل کی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ﴾
”جب تم کسی مقررہ مدت کے لئے قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو‘‘۔
یہ قرض کی صورتوں سے متعلق ہے، اور قرض ہر ایسے معاملے کو شامل کرتا ہے جس میں معاملہ یک طرفہ فوری ہو اور دوسری طرف مؤخر ہو۔ جیسے مالی قرض دینا، جیسے کہ آپ کسی شخص کو رقم دیں کہ وہ آپ کو بعد میں لوٹا دے گا، یا ایسا سودا جس میں سامان فوری دے دیا جائے لیکن قیمت مؤخر کی گئی ہو، یا قیمت فوری دے دی جائے اور سامان مؤخر ہو، تو یہ سب معاملات "دَیْن" (قرض) کے دائرے میں آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُؕ﴾
”جب تم ایک مقررہ مدت تک قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو“۔
یہ آیت مبارکہ لفظ "وَلْيَكْتُبْ" میں ضمیر کی طرف رجوع کرنے کے فائدے کو نمایاں کرتی ہے۔ اگر آیت میں ﴿إِذَا تَدَايَنْتُمْ﴾ کے الفاظ نہ ہوتے، اور صرف یہ کہا گیا ہوتا کہ ”اگر تم ایک معیّن مدت تک قرض کا معاملہ کرو“، تو اس صورت میں ”وَلْيَكْتُبْ“ کی جگہ، ”فَاُكْتُبُوا الدَّيْن“ کہا جاتا، جو کہ اس آیت کے فصیح اور بلیغ اسلوب کا نعم البدل نہ ہوتا۔ فصاحت و بلاغت کی باریکیوں کو سمجھنے والے اس فرق کو خوب محسوس کرتے ہیں۔
اللہ پاک نے فرمایا، "إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى" یعنی: ”ایک معیّن مدت کے لئے“۔
امام بخاریؒ نے ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: أشهَدُ أنَّ السَّلفَ المضمونَ إلى أجلٍ مُسمًّى قد أحلَّهُ اللَّهُ في كتابِهِ وأذِنَ فيهِ، ثمَّ قرأَ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ﴾ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ مقررہ مدت کے ساتھ مؤخر قرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جائز قرار دیا گیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے“۔ اس کے بعد انہوں نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ ”اے ایمان والو! جب تم آپس میں کسی مقررہ مدت کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو“۔ "سَلَف" اور "سَلَم" ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، یعنی مؤخر کرنا۔
امام ابن جریرؒ نے ابن عباسؓ سے نقل کیا کہ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُمْ بِدَيْنٍ﴾”اے ایمان والو! جب تم آپس میں قرض کا لین دین کرو“، اس آیت کے بارے میں انہوں نے فرمایا: نزلت في السلم في كيل معلوم إلى أجل معلوم، ”یہ آیت ایک ایسے قرض کے بارے میں نازل ہوئی جس میں مقدار بھی معلوم ہو اور مدت بھی معلوم ہو“۔
اگرچہ یہ آیت "سَلَم" (یعنی ادھار خرید و فروخت) کے بارے میں نازل ہوئی، لیکن یہ امر اس بات کو نہیں روکتا کہ اسے دیگر تمام اقسام کے قرضوں پر بھی لاگو کیا جائے۔ کیونکہ آیت میں "دَين" کا لفظ عام استعمال ہوا ہے، البتہ اس کی قید ایک معیّن مدت کے ساتھ آئی ہے۔ لہٰذا، ہر قسم کے قرض کو (چاہے وہ 'سلم' کی بیع سے پیدا ہو یا کسی اور صورت سے) اللہ تعالیٰ نے لکھنے کا حکم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد، ﴿وَلْيَكْتُبْ﴾ ”اور اسے لکھ لیا کرو“، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرض لکھوانے کا حکم (امر) ہے کیونکہ تحریر کرنا درست دستاویزی عمل کو یقینی بنانے کا ذریعہ ہے۔ یہ حکم دراصل ایک طلب (درخواست) کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے وجوب، استحباب یا اباحت کے بارے میں فقہاء کی مختلف آراء ہیں۔ کچھ علماء کا خیال ہے کہ یہ حکم صرف رہنمائی اور مصلحت پر مبنی ہے، یعنی قرض کو محفوظ کرنے اور اختلافات سے بچنے کے لئے لکھنا بہتر ہے۔
چونکہ اصل میں یہ حکم ایک درخواست کی صورت میں ہے، اور اس کا قرینہ ہی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ یہ حکم واجب ہے، مستحب ہے یا مباح، تو آیت پر غور و تدبر کرنے سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
الف- ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں جو اس لکھنے کو طلب جازم قرار دے، جیسے اسے لکھنے میں ناکامی پر سزا۔ نہ ہی کسی شرعی اصول کی بنیاد پہ کوئی حتمی ثبوت موجود ہے۔ لہٰذا قرض کو لکھنا واجب نہیں ہے۔
ب۔ البتہ کچھ ایسے قرائن ضرور موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ قرض کو لکھ لینا، نہ لکھنے سے بہتر ہے :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ﴾
”اور چاہیے کہ کوئی لکھنے والا تمہارے درمیان عدل کے ساتھ لکھے۔ اور ایسے لکھے جیسا کہ اللہ نے اسے سکھایا ہے“ (البقرۃ :282)۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا﴾
”پس وہ لکھے، اور وہ شخص املا کروائے جس پر قرض ہے، اور وہ اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے، اور کچھ بھی اس میں سے نہ گھٹائے“ (البقرۃ :282)۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا﴾
”قرض چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی مدت مقرر تک اسے لکھنے میں سستی نہ کرو“ (البقرۃ :282)۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ﴾
”یہ طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف پر مبنی ہے“ (البقرۃ :282)۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا﴾
”اور گواہی کو درست رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے، اور اس سے شک و شبہ پیدا نہیں ہوگا“ (البقرۃ :282)
یہ تمام آیات اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ قرض کو لکھ لینا، نہ لکھنے سے بہتر ہے۔
البتہ ان میں سے بعض دلائل دنیاوی فوائد کی طرف اشارہ کرتے ہیں، مثلاً:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا﴾
”اور گواہی کو درست رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے، اور اس سے شک و شبہ پیدا نہیں ہوگا“ (البقرۃ :282)
یہ اس لئے ہے کہ حقوق کے بارے میں جھگڑوں سے بچا جا سکے، اور گواہی کو مضبوطی سے قائم رکھا جا سکے، نیز گواہوں کے لئے شہادت دینا بھی آسان ہو جائے۔
اگر صرف یہی ایک قرینہ موجود ہوتا، تو اس سے صرف اباحت (یعنی جائز ہونے) پر دلیل لی جا سکتی تھی۔ لیکن بعض دیگر قرائن یہ بتاتے ہیں کہ قرض کو لکھنا مستحب یعنی باعثِ اجر عمل ہے، جیسے کہ، آیت میں ہے،
﴿ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ﴾
”یہ طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف پر مبنی ہے“ (البقرۃ :282)۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرض کو لکھنے کا حکم مستحب یعنی باعثِ اجر عمل ہے۔ لہٰذا، اس آیت مبارکہ کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ:
ایمان والوں کے لئے یہ مستحب اور باعثِ اجر عمل ہے کہ وہ اپنے درمیان ہونے والے مؤخر قرض کے لین دین کو، جس کی ادائیگی ایک معیّن وقت پر ہو، تحریری صورت میں محفوظ کریں۔
جہاں تک ان قرضوں کا تعلق ہے جن کی ادائیگی کے لئے کوئی معیّن مدت مقرر نہ کی گئی ہو، تو ان کو لکھنا مستحب نہیں بلکہ صرف جائز ہے، اور اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں:
پہلی وجہ: قرآن مجید کی آیت میں قرض کو لکھنے کی جو ترغیب دی گئی ہے، وہ مقررہ مدت والے قرض کے ساتھ مشروط ہے۔ یہ شرط ایک واضح معنی رکھتی ہے، جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرض لکھنے کا حکم صرف ان صورتوں میں ہے جن میں ادائیگی کا وقت طے شدہ ہو۔
دوسری وجہ: اگلی آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،
﴿فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ﴾
”اور اگر تم میں ایک کو دوسرے پر اطمینان ہو تو وہ جسے اس نے امین سمجھا تھا اپنی امانت ادا کرے“ (البقرۃ :283)،
یعنی جب قرض دہندہ اور قرض دار ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوں، تو اس صورت میں قرض کو لکھنے کا جو حکم گزشتہ آیت میں تفصیل سے آیا تھا، اس سے استثناء دیا گیا ہے۔ لہٰذا، اس معاملے کو فریقین کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ چاہیں تو لکھیں، اور چاہیں تو نہ لکھیں۔
جب کوئی شخص کسی سے قرض لیتا ہے یا دیتا ہے لیکن ادائیگی کا وقت طے نہیں کیا جاتا، اور یوں کہا جاتا ہے: ”جب چاہو واپس کر دینا“، تو یہ معاملہ بھی اللہ تعالیٰ کے اسی فرمان کے تحت آتا ہے:
﴿فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا﴾
”اور اگر تم میں ایک کو دوسرے پر اعتماد ہو تب ضروری نہیں ہے“ (البقرۃ:283)۔
کیونکہ اس میں مقروض کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جب چاہے قرض واپس کر دے، بشرطیکہ دونوں کے درمیان اعتماد موجود ہو۔
چنانچہ آیتِ مبارکہ سے درج ذیل امور واضح ہوتے ہیں:
الف۔ جس قرض میں ادائیگی کی مدت مقرر ہو، اسے لکھنے کا شرعی حکم مستحب (یعنی باعثِ اجر) کا ہے۔
ب۔ جہاں قرض دینے اور لینے والے ایک دوسرے پر اعتماد رکھتے ہوں، وہاں قرض کو لکھنے کا حکم مباح کا ہے؛ یعنی چاہیں تو لکھیں، اور اگر نہ چاہیں تو نہ لکھیں۔
اسی حکم میں وہ قرض بھی شامل ہے جس میں ادائیگی کی کوئی معیّن مدت مقرر نہ کی گئی ہو، کیونکہ اس صورت میں بھی فریقین کے درمیان اعتماد پایا جاتا ہے۔
یہ آیت قرض کی ادائیگی کے وقت کو متعین کرنے کے حکم کو بیان نہیں کرتی، کیونکہ یہ مسئلہ ہر قسم کے قرض کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کا حکم ہر صورت کے مخصوص نصوص کی روشنی میں ہی متعین کیا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر، بیعِ سلم میں، مدّت کو متعین کرنا اور اسے واضح طور پر طے کرنا معاملے کے شرعاََ درست ہونے کی شرط ہے۔ مدّت اس انداز سے معلوم اور واضح ہونی چاہیے کہ اس میں کوئی ابہام باقی نہ رہے؛ مثلاً قیمت فوری ادا کر دی جائے اور کہا جائے کہ سامان، جیسے گندم، فلاں مقررہ تاریخ کو مہیا کیا جائے گا، اور یہ مدّت اس طرح بیان کی جائے کہ کسی قسم کی غیر یقینی کیفیت باقی نہ رہے۔
یہ قاعدہ اس حدیثِ مبارکہ پر مبنی ہے جو رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا اور جسے امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ، دونوں نے ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو لوگ دو یا تین سال کے لئے کھجوروں کا قرض لیا کرتے تھے۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ أَسْلَفَ فِي تَمْرٍ فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ»
”جو شخص کسی کو کھجور کا قرض دے، وہ معلوم ماپ (پیمائش)، معلوم وزن، اور معلوم مدت کے ساتھ قرض دے“ (بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی)۔
نبی کریم ﷺ نے اس طرح کی بیع سلم کے درست ہونے کے لئے ان تین باتوں یعنی مقدار، وزن اور مدّت کا واضح ہونا شرط قرار دیا۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَلْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ۪﴾
”اور چاہیے کہ کوئی لکھنے والا تمہارے درمیان عدل کے ساتھ لکھے“۔
یہاں "بِا" یا تو ﴿وَلْيَكْتُبْ﴾ ”اور چاہئے کہ لکھے“ سے متعلق ہے یا ﴿كَاتِبٌ﴾ ”لکھنے والے“ سے متعلق ہے۔
اگر یہ "بِا" اول الذکر سے متعلق ہو، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ 'تحریر منصفانہ ہونی چاہیے، اگرچہ لکھنے والا عادل نہ بھی ہو' مثلاً وہ مسلمان نہ ہو لیکن لکھنے میں مہارت رکھتا ہو اور قابلِ اعتماد ہو، تو بھی تحریر کرنے کا حکم پورا ہو جائے گا۔
اگر "بِا" لکھنے والے سے متعلق ہو، تو مطلب ہوگا: ”ایک منصف لکھنے والا تمہارے درمیان لکھے“، یعنی لکھنے والا ایسا ہو جو عادل ہو، جس کا مطلب ہے کہ وہ ایسا مسلمان ہو جو اعلانیہ فاسد نہ ہو، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ڈرتا ہو، اپنی تحریر میں امانت دار ہو، اور اپنے کام میں ماہر اور واقف ہو۔
دوسری تشریح درج ذیل دلیل کی بنیاد پر زیادہ راجح ہے:
﴿ وَلاَ يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ﴾
”لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اللہ نے اسے لکھنا سکھایا ہے“ (البقرۃ؛ 2:282)،
یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ لکھنے والا مسلمان اور عادل ہونا چاہیے۔
لہٰذا، اس کا مطلب یہ ہو گا، ”ایک عادل لکھنے والا تمہارے درمیان لکھے، جو مسلمان ہو، اعلانیہ فاسد نہ ہو، جو لکھنے والے کام کا ماہر اور قابلِ اعتماد ہو“۔
جہاں تک آیت میں ﴿بَيْنَكُمْ﴾ ”تمہارے درمیان“ کا ذکر ہے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لکھنے والا دونوں فریقین کی رضامندی سے ہو، اور غیر جانبدار ہو۔ لکھنے والا خود فریقین میں سے نہ ہو، یا کسی ایک فریق سے طرفداری نہ ہو یا یہ کہ دوسرے فریق سے تعصب نہ رکھتا ہو۔ اس لئے لازم ہے کہ ﴿بَيْنَكُمْ﴾ ”تمہارے درمیان“ لکھنے والا مکمل طور پر غیر جانبدار ہو۔
جہاں تک آیت میں ﴿وَلاَ يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ﴾ ”لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اللہ نے اسے سکھایا ہے“ تو لکھنے والے کو تحریر کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہئے، اور یہاں انکار کا حکم ناپسندیدگی کے طور پر ہے کیونکہ انکار کی ممانعت کے ساتھ کوئی قرینہ جازم منسلک نہیں ہے، یعنی یہ ممنوع (غیر جازم) نہیں بلکہ ناپسندیدہ (مکروہ) ہے۔
جہاں تک آیت میں ﴿كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ﴾ ”جیسے اللہ نے اسے لکھنا سکھایا ہے“، اس کا مطلب ہے کہ کاتب کو لکھنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے جس نے اسے لکھنا سکھایا۔ اس لئے کاتب کو چاہیے کہ وہ اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے دوسروں کی مدد کرے اور جب ضرورت ہو ان کے لئے لکھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کاتب ایک عادل مسلمان ہونا چاہیے جو اللہ کی اس نعمت کو پہچانتا ہو کہ اس نے اسے لکھنا سکھایا اور اسی لئے مدیون اور مودِیّن، دونوں کو چاہیے کہ وہ آپس میں ایک عادل کاتب کا انتخاب کریں جو کہ ان کے درمیان لکھے۔
اور جہاں تک آیت میں اس کا تعلق ہے کہ﴿فَلْيَكْتُبْ﴾ ”پس وہ لکھے“، تو یہ تحریر کرنے کا حکم ایک سفارش کے طور پر ہے، جیسا کہ ﴿وَلْيَكْتُبْ﴾ ”اور وہ لکھے“ میں آیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے کاتب کو لکھنا سکھایا جب وہ لکھنا نہ جانتا تھا، تاکہ وہ دوسروں کی مدد کرے جب ضرورت پیش آئے۔
جہاں تک آیت میں اس کا تعلق ہے کہ﴿وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ﴾”اور وہ شخص املا کروائے جس پر قرض ہے، اور وہ اللہ سے ڈرے“، تو یہ بھی مندوب ہے کیونکہ تحریر کرنا درست دستاویزی عمل کو یقینی بنانے کا ذریعہ ہے۔
اور یہ بھی ہے کہ﴿وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ﴾ ”اور وہ شخص املا کروائے جس پر قرض ہے، اور وہ اللہ سے ڈرے“، اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور پرہیزگاری کی یاد دہانی اس سفارش کو تقویت دیتی ہے تاکہ کاتب اپنی تحریر میں دیانتداری اور درستگی برتے۔ جیسا کہ ارشاد ہے، ﴿وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلاَ يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا﴾ ”اور وہ اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے، اور کچھ بھی اس میں سے نہ گھٹائے“۔
جہاں تک آیت میں اس کا تعلق ہے کہ ﴿وَلْيُمْلِلِ﴾ ”اور وہ املا کروائے“، تو یہاں مراد تحریر کے لئے مدیون کی طرف سے کاتب کواس قرض کو لکھنےکا بیان کرنا ہے، یعنی مدیون ہی اپنی ذمہ داری کو کاتب کو بیان کرے۔ کیونکہ مدیون کا قرض کا اعتراف مودِیّن کے دعوے سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، اس لئے مدیون ہی کاتب کو قرض کی تفصیلات بتاتا ہے۔
اور آیت میں ﴿وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ﴾ ”اور وہ اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے“تو اس کا مطلب ہے کہ یہ کاتب کو اللہ تعالیٰ کا خوف کرنے اور دیانتداری سے لکھنے کی نصیحت ہے۔
اور آیت میں ذکر ہے کہ ﴿وَلاَ يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا﴾ ”اور کچھ بھی اس میں سے نہ گھٹائے“، کاتب کو حق کی کوئی بات چھپانی نہیں چاہیے، اور لفظ ﴿شَيْئًا﴾ ”کچھ بھی“ کا ذکر ہے، اور اس کا مسترد کیا جانا واجب الادا حق کے کسی بھی حصے میں ناقص لکھائی کی عدم موجودگی کی دلیل کی وجہ سے ہے، خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو۔
اور آیت میں ذکر ہے کہ ﴿فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا﴾ ”پھر اگر وہ جس پر حق (قرض) ہے، وہ بے عقل ہے“، یہ بات مقروض کے لکھوانے کے عمل کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر مدیون (قرضدار) ﴿سَفِيهًا﴾ ”نااہل“ ہے۔ مدیون ہی وہ شخص ہوتا ہے جو قرض کی تفصیلات لکھنے والے کو فراہم کرتا ہے، تاکہ دستاویز میں مکمل وضاحت اور شفافیت یقینی بنائی جا سکے۔ اگر مدین ہی ان پڑھ ہو یا علم و فہم سے محروم ہو، تو اس کے الفاظ اُس وقت تک درست طور پر تحریر میں نہیں آ سکتے جب تک اُسے مناسب رہنمائی فراہم نہ کی جائے۔ یہ آیت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ معاملہ قرض کا ہے اور فریقین، بالخصوص مقروض، موجود ہے؛ لیکن وہ کسی مجبوری یا کمزوری کی وجہ سے قرض کی بات خود بیان کرنے سے قاصر ہے۔
لغوی الفاظ میں، کہا گیا ہے، 'سافهه' ”وہ اس کے لئے بے ادب تھا“، اس سے مراد یہ ہے کہ اس نے اس کی بے عزتی کی۔ ضرب المثل میں، اس کے معانی، ”ایک ایسا کم عقل شخص جو اپنے فاصلے کا بھی اندازہ نہ لگا سکتا ہو“۔ لہٰذا، اس سے مراد وہ شخص ہے جو کم عقل یا ذہنی طور پر معذور ہو۔ اگر مدیون نادان ہو تو اس کا لکھوانا بے ترتیب، مبہم یا گمراہ کن ہو سکتا ہے، اور وہ قرض کی تفصیلات میں کمی بیشی کر سکتا ہے یا بعض اوقات مدیون ذہنی طور پر واضح ہدایات دینے سے قاصر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے تحریر کے معانی ہی بگڑ جائیں۔
اور آیت میں ذکر ہے کہ ﴿أَوْ لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ﴾ ”یا وہ لکھوانے کی قدرت نہیں رکھتا“، یعنی وہ اپنی زبان یا گویائی میں عذر کے باعث واضح انداز میں نہیں بول سکتا، جیسا کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا اور ہمارے نزدیک یہ تشریح سب سے راجح اور قابل اعتماد ہے کیونکہ قرآن مجید کی آیت ظاہر کرتی ہے :
الف۔ جو افراد تحریر نہیں کر سکتے وہ قرض کے معاملے میں شرکت کرنے سے محروم نہیں ہوتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ آیت ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُمْ بِدَيْنٍ﴾ ”اے ایمان والو! جب تم قرض کا لین دین کرو“ کے ساتھ شروع ہوتی ہے، جو شریعت میں ان معاملات کی جوازیت کو ظاہر کرتی ہے۔ آیت میں مذکور ﴿سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ﴾ ”بے عقل، یا کمزور یا وہ لکھانے کی قدرت نہیں رکھتا“، کی جن صورتوں کا ذکر ہے، انہیں مجنون یا نابالغ افراد کے معاملات پر محمول کرنا مناسب نہیں کیونکہ ایسے افراد کے معاہدے شرعاً نافذ ہی نہیں ہوتے۔
ب- اسی طرح ان اقسام کو غیر حاضر افراد پر محمول کرنا بھی کمزور تأویل ہے، کیونکہ آیت کا سیاق مقروض کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتا ہے، اگرچہ وہ خود قرض کی تفصیل لکھوانے کے قابل نہ ہو۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَلْيُمْلِلْ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلاَ يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ﴾
”اور وہ شخص املا کروائے جس پر قرض ہے، اور وہ اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے، اور کچھ بھی اس میں سے نہ گھٹائے۔ اگر وہ شخص جس پر قرض ہے بے عقل ہو یا کمزور ہو یا وہ خود لکھوا نہ سکتا ہو، تو اس کا ولی عدل کے ساتھ املا کروائے“۔
ج- یہ درست نہیں کہ ان تینوں اقسام، یا ان میں سے دو کو، ایک ہی مفہوم پر محمول کیا جائے، کیونکہ آیت میں تین الگ الگ اور ممتاز اقسام کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ آیت اس امر کو واضح کرتی ہے کہ قرض کی یہ اقسام ایک دوسرے سے جداگانہ حیثیت رکھتی ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا، ﴿سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ﴾ ”بے عقل ہو یا کمزور ہو یا وہ خود لکھوا نہ سکتا ہو“۔ یہ لکھوانے کے عمل کی طرف اشارہ ہے۔ اگر قرض دہندہ کا ولی یا سرپرست قرض کی تفصیل بیان کر رہا ہو تو اسے پوری ایمانداری اور درستگی سے بیان کرنا چاہیے تاکہ حقیقت میں کوئی تبدیلی نہ ہو، کیونکہ وہ قرض دہندہ کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔
د- تفسیر کی بنیاد، لغت کے قواعد و معانی پر ہونی چاہیے۔
اسی بنیاد پر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو وضاحت میں نے پہلے پیش کی، وہی زیادہ درست اور مضبوط ہے۔
ان تینوں اقسام کے افراد کو خود لکھوانے سے روک دیا گیا ہے، اور ان کی جگہ کوئی دوسرا شخص قرض کی تفصیلات لکھوائے گا۔ آیت کے الفاظ کسی فرد کو خارج کرنے کا عندیہ نہیں دیتے، بلکہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر یہ افراد کسی مالی معاملے میں شرکت کی صلاحیت رکھتے ہوں، تو اُن کے ساتھ لین دین جائز ہے۔
ایسے میں ضروری ہے کہ ولی (نگران) ان کی طرف سے سچائی کے ساتھ قرض لکھوائے۔ اُسے نہ کوئی کمی کرنی چاہیے اور نہ زیادتی، بلکہ جو حقیقت ہے، اُسے ٹھیک اسی طرح بیان کرے، کیونکہ وہ مقروض کی جگہ کھڑا ہے۔
اور آیت میں یہ ذکر ہے کہ ﴿فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ﴾ ”تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوائے“؛ ﴿وَلِيُّهُ﴾ ”اس کا ولی“، یہ ضمیر مدیون کی طرف اشارہ کر رہی ہے، یعنی قرض لینے والے کی طرف۔ اس کا مطلب ہے کہ مدیون کا ولی یا سرپرست (جو اس کا ذمہ دار ہے)، وہ تحریر کروائے گا۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ولی، خاص طور پر قانونی سرپرست جیسے والد، بھائی یا مقرر کردہ کوئی اور، قرض کی تفصیل ایمانداری اور انصاف کے ساتھ بیان کرے، اور حق سے کسی قسم کا انحراف نہ کرے۔
اور جہاں تک آیت میں ذکر ہے کہ ﴿بِالْعَدْلِ﴾ ”عدل کے ساتھ“ یہاں ضمیر لکھوانے کے عمل کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور خصوصاً اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مقروض کی طرف سے اُس کا شرعی ولی جو عموماً باپ، بیٹا، بھائی یا شریعہ کی طرف سے مقرر کردہ سرپرست ہوتا ہے، تو وہ لکھوانے کا فریضہ انجام دے۔ چونکہ ولی مقرر ہو چکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ولی کو چاہیے کہ وہ کاتب کے سامنے دیانت داری اور انصاف کے ساتھ قرض کی تفصیلات لکھوائے، اور یہ جملہ تاکید کرتا ہے کہ ولی عدل سے کام لے اور تحریر میں انصاف کرے۔
اور جہاں تک آیت میں ذکر ہے ﴿وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنْ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى﴾ ”اور اپنے میں سے دو گواہوں کو گواہ بنا لو۔ پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنائی جائیں، اُن میں سے جو تم گواہوں کے طور پر پسند کرو، تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے“۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں، دو فریقین کے پاس تحریری معاہدے پر دو مرد، یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانا چاہیے، تاکہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا سکے۔
گواہان کے بارے میں شرط ہے کہ وہ عادل ہوں، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے، ﴿مِنْ رِجَالِكُمْ﴾ ”تم میں سے دو مرد“ یعنی وہ تمہارے میں سے ہوں اور گواہ وہ لوگ ہوں جو اپنے حلقہ میں اعتماد کے لائق سمجھے جاتے ہوں۔، اور یہ کہ ﴿مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنْ الشُّهَدَاءِ﴾: ”اُن میں سے جو تم گواہوں کے طور پر قبول کرو“۔ چونکہ خطاب اپنے آغاز سے ہی مؤمنین کو مخاطب ہے تو اس کا مطلب ہے کہ گواہان کو ان میں سے ہونا چاہئے جنہیں مؤمنین قبول کرتے ہوں اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ گواہ مسلمان ہوں جو واضح طور پر اسلامی اصولوں کی پابندی کرتے ہوں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ گواہ ایسے افراد ہوں جو مؤمنین کی نظر میں قابلِ قبول ہوں، یعنی وہ لوگ جنہیں معاشرہ بھروسے کے قابل سمجھتا ہو۔ ان کا رویہ اس بات کی دلیل دے کہ وہ قابلِ اعتماد اور عادل ہیں، اور ان میں اخلاقی بے راہ روی کے آثار نہیں ہونے چاہئیں تاکہ ان کی گواہی کو قبولیت حاصل ہو۔
اور جہاں تک یہ ذکر ہے کہ ﴿فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ﴾ ”ایک مرد اور دو عورتیں“ تو اس میں مرد فاعلی (رفع) طور پر معطوف کی حالت میں ہے۔ ﴿فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ﴾ ”اور دو عورتیں“ معطوف الیہ ہیں، اور خبر مخذوف ہے، یعنی اس کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ اگر دو مرد گواہ دستیاب نہ ہوں تو ایک مرد اور دو خواتین گواہ کے طور پر کافی ہوں گی۔ یہ جملہ یہ نشاندہی بھی کرتا ہے کہ ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی قابل قبول ہے، خواہ وہاں مرد موجود ہوں یا نہ ہوں۔ یعنی کہ اگر مدعی دو مرد نہ پیش کرسکے تو اسے ایک مرد اور دو عورتیں پیش کرنے کی اجازت ہے۔ اگر وہ ان دونوں حالتوں میں سے کوئی بھی ایک پیش کرتا ہے تو اس کی اجازت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک مرد اور دو خواتین کی شہادت صرف اس وقت قابل قبول ہے جب مرد موجود نہ ہوں۔ یہ اس لئے ہے کہ اگر اس کا مطلب ایسا ہوتا، تو جملے کے الفاظ یوں ہوتے، ”اگر کوئی دو مرد نہ مل سکیں، پھر ایک مرد اور دو عورتیں“ اور”مل سکیں“ اس انداز میں مکمل ہو گا کہ اگر کوئی مرد نہ مل سکتے ہوں۔ تو پھر یوں کہا جاتا، ”اگر کوئی دو مرد نہ مل سکیں“، یعنی اگر وہ کوئی دو مرد گواہ نہ لا سکے، تو صرف ایسی حالت میں وہ ایک مرد گواہ اور دو خواتین کو گواہ کے طور پر لا سکتا ہے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ اگر دو مرد نہ مل سکیں تو ایک مرد اور دو خواتین کی شہادت کافی ہوگی۔
اور جہاں تک ﴿أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى﴾ ”اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے“، تو یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر ان میں سے ایک عورت قرض کی تفصیلات کا کوئی حصہ بھول جائے تو دوسری اُسے یاد دلائے گی۔
اور یہ ذکر کہ ﴿أَنْ تَضِلَّ﴾ ”اور اگر وہ بھول جائے“، تو یہ نسب کی حالت میں ہے، جس میں فعل کے آخر میں زبر دی گئی ہے جو سبب کی نشانی ہے۔
عبارت میں الفاظ، ”ان میں سے کوئی ایک“ کا دہرایا جانا، یہ کہنے کی بجائے کہ ”ان میں سے ایک کو بھول جائے اور دوسری کو یاد رکھنا چاہئے“،اس خیال کے تحت احتیاط پر زور دینا ہے کہ بھول جانا ان میں سے ایک کے لئے خاص ہے اور یاددہانی دوسری کے لئے خاص ہے۔ اس کے بجائے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے جو بھول جائے اسے دوسری یاد دلا دے اور وہ ان میں سے کوئی بھی ہو سکتی ہے۔
اور جہاں تک یہ مذکور ہے کہ ﴿أَنْ تَضِلَّ﴾ ”اور اگر وہ بھول جائے“، یہ تو لغوی طور پر یہ عبارت گواہی کے بھولنے یا جزوی طور پر یادداشت کے زوال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جب کوئی شخص گواہی کا ایک حصہ بھول جائے اور دوسرا حصہ یاد رکھے، تو وہ الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور انہی دو میں ہی کھو جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی پوری گواہی ہی بھول جائے تو اسے ”گمشدہ“ یا ”ضائع شدہ“ کے معنوں میں نہیں لیا جاتا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مالی معاملات میں عورتوں کی گواہی کو قبول فرمایا ہے، اور اس کو ایک خاص تناسب کے ساتھ بیان کیا ہے، دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دی گئی ہے۔ جیسا کہ قرآن کی آیت میں اشارہ موجود ہے، ﴿فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنْ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى﴾ ”پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنائی جائیں، اُن میں سے جو تم گواہوں کے طور پر پسند کرو، تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے“، یہ اس امکان کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مالی معاملات میں عورتوں کے بھولنے کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہو سکتا ہے، کیونکہ عورتیں عمومی طور پر ایسے معاملات میں کم حصہ لیتی ہیں۔ چونکہ عورتوں کی شرکت مالی معاملات میں مردوں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہوتی ہے، اس لئے ان کی گواہی کی درستگی کو یقینی بنانے کے لئے دو عورتوں کی ضرورت رکھی گئی ہے، تاکہ اگر ایک بھول جائے یا کسی مخصوص لین دین میں موجود نہ ہو، تو دوسری اسے یاد دلائے۔ اس صورت میں، دونوں عورتوں کی مشترکہ گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر قرار پاتی ہے، کیونکہ مرد عام طور پر مالی معاملات میں زیادہ فعال ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ مالیاتی حقائق کے گواہوں کے طور پر مردوں اور عورتوں کی موجودگی کی حقیقت میں فرق ہے، کیونکہ گواہی واقعہ کی صریح اور واضح موجودگی پر مبنی ہونی چاہئے۔
یہ اصول اُن معاملات میں خاص طور پر لاگو ہوتا ہے جن میں عورتیں عموماً زیادہ موجود ہوتی ہیں جیسے ولادت، رضاعت (دودھ پلانا)، اور اسی طرح کے دیگر امور۔ ان معاملات میں فقط ایک عورت کی یا ایک سے زیادہ عورتوں کی گواہی قابلِ قبول سمجھی جاتی ہے اور اس پر اعتماد کیا جاتا ہے۔
اور جہاں تک یہ مذکور ہے کہ ﴿وَلاَ يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا﴾ ”اور جب گواہوں کو بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں“۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب گواہوں کو قرض کے بارے میں گواہی دینے کے لئے بلایا جائے، تو اُنہیں لبیک کہنا چاہیے اور انکار نہیں کرنا چاہیے۔ گواہی سے انکار کرنے کی ممانعت دراصل ناپسندیدگی (مکروہ) کے طور پر آئی ہے، کیونکہ ایسی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں جو اسے جازم (حتمی) طور پر حرام قرار دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گواہی سے انکار کرنا شرعاً سختی سے ممنوع نہیں، لیکن ناپسندیدہ ضرور ہے۔
یہاں اس شخص کے لئے ناپسندیدگی ظاہر کی گئی ہے کہ جسے قرض پر شہادت دینے کے لئے بلایا جائے اور وہ اس معاملہ میں حاظر ہونے سے انکار کر دے۔
اور جہاں تک یہ مذکور ہے کہ ﴿وَلاَ تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ﴾ ”قرض چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی مدت مقرر تک اسے لکھنے میں سستی نہ کرو“۔ یعنی کسی مقررہ مدت کے قرض کے لئےتحریر کرنے میں سستی نہ کریں، اس بات سے قطع نظر کہ قرض کی مقدار کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ جملہ قرض کو تحریر کرنے کی ترغیب ہے۔
اور یہ ذکرکہ ﴿ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ﴾ ”یہ طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف پر مبنی ہے“، تو یہ عدل اور انصاف کے ساتھ تحریر کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اور یہ ذکر کہ ﴿وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ﴾ ”اور گواہی کو درست رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے“ یعنی یہ تحریر کرنے کی مزید تائید ہے۔
اور یہ ذکر کہ﴿وَأَدْنَى أَلاَّ تَرْتَابُوا﴾ ” اور اس سے شک و شبہ پیدا نہیں ہوگا“ جو کہ شک اور مفروضہ کر لینے سے بعید ہے۔
اور یہ ذکرکہ ﴿ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلاَّ تَرْتَابُوا﴾ ”یہ طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف پر مبنی ہے اور گواہی کو درست رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے اور اس سے شک و شبہ پیدا نہیں ہوگا“، تو یہ پوری بات اس سیاق میں ہے جو ہم پہلے وضاحت کر چکے ہیں۔
اور یہ ذکرکہ ﴿إِلاَّ أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلاَّ تَكْتُبُوهَا﴾ ”ہاں اگر معاملہ فوری تجارتی لین دین کا ہو جسے تم آپس میں دست بدست کرتے ہو، تو اس کو نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں“، تو یہ ایک متواتر استثنیٰ کے معنوں میں ہے 'اگر یہ تمہارے درمیان فوری دست بدست تجارت ہے کہ جس میں کوئی قرض نہیں تو اس کے نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں یعنی یہ آپ کے لئے جائز ہے کہ آپ اسے لکھیں یا نہ لکھیں'۔
اور یہ ذکر کہ ﴿وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ﴾ ”مگر جب بھی تم خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو“، تو اس سے مراد موجود تجارت ہے اور یہاں یہ معاملہ جائز ہے کیونکہ یہ سیاق سے مبرا ہے اور عبادت میں اللہ کے قرب حاصل کرنے کا عمل نہیں ہے۔ اس لئے موجود تجارت کے معاملے میں گواہی جائز ہے۔
اور جہاں تک یہ ذکر ہے کہ﴿وَلاَ يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلاَ شَهِيدٌ﴾ ”اور نہ تو کاتب کو کوئی ضرر دیا جائے اور نہ گواہ کو“، تو اس کا مطلب ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے، چاہے انہیں لکھنے پر مجبور کر کے یا تحریر لکھنے کے لئے دباؤ ڈال کر یا غلط گواہی دے کر، یا انہیں ایسے طریقے سے گواہی دینے کے لئے بوجھ ڈال کر جو ان کے لئے مشکل ہو، چاہے وہ اخراجات کے لحاظ سے ہو یا مشکلات کے لحاظ سے۔ بلکہ اس کے بجائے ان سے مہربانی سے پیش آنا چاہئے اور معاملہ ان کے لئے آسان ہو۔
یہاں پر کاتب اور گواہ کو ضرر پہنچانا اس ممانعت (تحریم) پر مبنی ہے، جیسا کہ سیاق میں ہے کہ ﴿وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ﴾ ”اور اگر تم ایسا کرو گے تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے“۔ یہ ایک قابل فہم وضاحت ہے جو ضرر دینے کی حتمی ممانعت (نہی جازم) کی طرف اشارہ کرتی ہے یعنی ایسا کرنا حرام ہے۔
اور جہاں تک یہ ذکر ہے کہ ﴿وَاتَّقُوا اللَّهَ﴾ ”اور اللہ سے ڈرو“ تو یہ اللہ تعالیٰ کے خوف کی یاد دہانی ہے، جو لکھنے اور گواہی دینے میں ایمانداری اور احتیاط کی ضرورت پر زور دیتی ہے، کیونکہ یہ عمل حق کی خاطر کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے اپنے آپ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے غضب اور عذاب سے بچاؤ اور اس سے ڈرو، وہ بلند وبرتر ذات ہے۔
اور جہاں تک یہ ذکر ہے کہ﴿وَيُعَلِّمُكُمْ اللَّهُ﴾ ”اور اللہ ہی ہے جو تمہیں لکھنا سکھاتا ہے“، اس کا مطلب ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی ہے جو تمہیں اپنی شریعت کے احکام سکھاتا ہے، لہٰذا ان کی پابندی کرو۔
اور جہاں تک یہ ذکر ہے کہ ﴿وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ ”اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے“، تو اس میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہے کہ وہ ہر چیز سے خبردار ہے اور کوئی چیز اس کی نظر سے اوجھل نہیں رہتی۔ تمام حقائق اور واقعات اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں، اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جزا دے گا جو حق اور انصاف کے ساتھ عمل کرتے ہیں، کیونکہ وہ ہر معاملے کی حقیقت سے مکمل آگاہ ہے۔
یہ نہیں کہا گیا کہ لفظ عظمت والا ﴿اللَّهُ﴾ ”اللہ“ اور باربار یہ دہرایا گیا ہے کہ ﴿وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمْ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ ”اور تم اللہ سے ڈرو، اور اللہ ہی تمہیں سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے“۔ یہ محض یونہی نہیں دہرائے گئے بلکہ ہر ذکر کردہ لفظ کا ایک الگ مطلب ہے، جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی تسبیح بیان کرتا ہے اور اس کی شان و بزرگی کو بلند کرتا ہے۔ اللہ عزوجل ہی ہے جو ڈرنے کے لائق ہے اور وہی ہے جس پر تمام علم کی بنیاد ہے۔ تمام تر علم کا دارومدار صرف اس پر ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندوں کو عطا کر دیا ہے، اس سے اللہ نے اشیاء اور ان کے اندر خصوصیات اور عناصر دئیے اور انسان کو فطری اور عقلی صلاحیتیں دیں جن سے وہ سیکھ سکتے ہیں جو وہ نہیں جانتے تھے۔ وہ ذاتِ باری تعالیٰ ہی ہے جو اپنے بندوں کو علم عطا کرتا ہے۔
آیت کے آخر میں، اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کے پاس وہ ابدی علم ہے جو ہر شے کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے اور اس سے آسمان وزمین کا کوئی ایک ذرہ برابر بھی نہیں چھپ سکتا۔
آخری بات : اس آیت میں ﴿اللَّهُ﴾ اللہ کے نام اور صفات کا بار بار ذکر یونہی یا بے معنی نہیں بلکہ اس کی عظمت اور ہر چیز پر اس ذات جل جلالہ کے خاص علم کی تاکید کے لئے ہے، چاہے وہ زمین و آسمان کی چھوٹی سے چھوٹی بات ہو۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات پاک ہے جو زمین و آسمانوں کا خالق ہے اور ہر شے اس کی حکمت اور اذن الہٰی کے تحت وقوع پذیر ہوتی ہے۔
Latest from
- حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس میں شعبہ خواتین نے ایک بین الاقوامی مہم کا آغاز کیا:
- لبنان کو واپس بلادِ شام کا حصہ قرار دینے سے متعلق توم بَرّاک کے بیانات!
- رمسیس سنٹرل کی آگ — شہری ریاست کے انہدام کی ایک اور تصویر
- اے وزیرِ خارجہ، جو غزہ پر روٹی بند کرے، وہ دیانت کی بات نہ کرے!...
- امریکہ ازبکستان کو اپنے بین الاقوامی جیوپولیٹیکل اہداف کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے