الإثنين، 21 جمادى الثانية 1446| 2024/12/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال وجواب:  وصیت اور کرنسی سے متعلق سوالات

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال 1: کیا انگریزی قانون کے مطابق ایک مسلمان وکیل کیلئے غیر مسلم وصی کی وصیت لکھنا جائز ہے، جس میں وصی نے اپنے ترکے کا کچھ حصہ یاپورا ترکہ کسی ایسے ادارے کے نام چھوڑا ہو جو یا تو نامعلوم ہو یا شرعاً ممنوع ہو جیسا کہ ایسے ادارے جہاں کتوں کی نگہداشت کی جاتی ہے یا ایسے ادارے جس کا تعلق لہو لعب سے ہو؟

سوال 2: ہم نے اپنی بہت سی مطبوعات اور کتب میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ حقیقی زر ( کرنسی) صرف سونا اور چاندی کو متصور کیا جائے گا، چاہے یہ اپنی حقیقی شکل میں ہو یا اس کی قیمت کے برابر نقدی ہو۔ شیخ عبد القدیم زلوم کی کتاب میں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کوئی بھی مملکت یا تو سونا اور چاندی، یا کوئی اور موزوں دھات کو بطور کرنسی استعمال کر سکتا ہے جب تک کہ سونے کو مرکزی کرنسی کی حیثیت حاصل ہو۔ لہٰذا، کیا کوئی حکومت سونا چاندی کے ساتھ ساتھ کوئی اور قیمتی دھات مثلا َ َ پلاٹینم یا قیمتی پتھر جیسے ہیرے اور اس جیسی دوسری چیزیں بطور کرنسی استعمال کر سکتا ہے؟

 

جواب(سوال 1): اگر معاملہ ایک کافر وصی اور مسلمان وکیل کے مابین ہو۔ یہ اجرت کا معاملہ ہے جس میں کافر وصی نے وصیت لکھنے کی غرض سے ایک مسلمان وکیل کو اجرت پر ''جیسا وہ کہے، لکھے گا'' کے اصول پر رکھا ہو۔ سو یہ تو محض اجرت کے عوض وصیت لکھنے کا ایک معاہدہ ہے، جس کی رو سے مسلمان وکیل وہی وصیت تحریر کرتا ہے جیسا کہ کافر اسے بتاتا ہے، پھر وکیل اپنی اجرت وصول کرتا ہے اور معاملہ وہیں ختم ہو جاتاہے ۔
جہاں تک وصیت کا تعلق ہے تو۔۔۔ اگر تو معاملہ ایسا ہی ہے تو ایسی صورت میں وصیت لکھنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں اسلامی عقیدہ کے منافی کوئی بات نہ ہو، کیونکہ اسلامی عقیدہ کے خلاف کچھ لکھنا اس کو بولنے کے مترادف ہے اور ایسا جائز نہیں۔
تاہم قابل ترجیح امر یہ ہے کہ ایسی وصیت کو تحریر نہ کیا جائے جس میں اسلامی احکامات کے خلاف مواد موجود ہو۔ یہ اسلئے کہ کافر کی وصیت میں اسلامی احکامات سے متصادم شقوں سے متفق ہونا ظاہر نہ ہو۔
تاہم اگر یہ معاملہ صاحب وصی اوروکیل کے مابین وکالہ(نمائندگی) کا ہو جس میں وکیل، صاحب وصی کے نمائندہ کی حیثیت سے وصیت کا نفاذ کرتا ہے۔۔۔وہ متعلقہ افراد سے رابطہ کرتا ہے۔۔ان کو وصیت سے آگاہ کرتاہے۔۔اور صاحب وصی کے نمائندہ کی حیثیت سے وصیت کا نفاذ کرتا ہے۔۔۔اس صورت میں یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں ایک مسلمان وکیل شریعت،جس پر وہ ایمان لاتاہے،کے برخلاف ایک وصیت کو نافذ کرتاہے ۔

 

جواب (سوال 2): اسلام میں زر(کرنسی) کا تصور سونے اور چاندی کا ہے یا دوسرے ذرائع جیسے کہ کاغذی نوٹ بشرطیکہ بیت المال میں اس مالیت کے موافق سونا اور چاندی موجود ہو۔ ہلکی(کم قیمت) دھاتوں جیسے تانبے وغیرہ کو سستی اشیاء کی خریداری کیلئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر سونے اور چاندی کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا جائے تو ان سے بنے ہوئے سکے اس قدر قلیل الوزن ہونگے جنکو عام حالات میں استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔ سونے اور چاندی کی مقدار قلیل اور کم قیمت دھاتوں کی مقدار کثیر کی آمیزش سے ایسے مناسب سکے بنائے جا سکتے ہیں جو آئندہ کم قیمت اشیاء کی خریداری میں استعمال کئے جا سکتے ہو۔ یہ معاملہ کتاب ''فی الاموال'' میں مذکور ہے؛
...حکومت چاندی کے سکوں سے کم مالیت کے سکے بھی بنا سکتی ہیں تاکہ سستی اشیا کی خریداری کو آسان بنایا جا سکے۔ چونکہ چاندی کے سکے خالص چاندی سے بنے ہوتے ہیں تاہم چونکہ ان میں بہت معمولی مقدار میں چاندی ہوتی ہے اسلئے ان سے معاملہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے اسلئے کم قیمت دھاتوں کو ان میں شامل کیا جا سکتا ہے، تاہم ان سکوں میں چاندی کا تناسب وزن کے حساب سے واضح ہونا چاہئے تاکہ اس معاملے میں کوئی شکوک و شبہات نہ رہیں۔
مسلمانوں کے ہاں سونے اور چاندی پر مبنی دو دھاتی اصول واضح رہا ہے ۔ مصر میں اتابکہ اور عباسیوں کے آخری دور میں مسلمانوں نے سونے ور چاندی کے ساتھ ساتھ تانبے (پیتل) کو بطور کرنسی استعمال کیا جس سے وہ کم قیمت اشیا خریدتے تھے کیونکہ تانبے کی قدر (نسبتاً) کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سونے اور چاندی کا متبادل ہے بلکہ یہ اپنی قدر کے طور پر موجود رہی۔ پس اس کو سستی اشیا کی خریداری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس طرح سونے اور چاندی کے علاوہ اور دھاتوں کے سکے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں جو عموماً سستے دھاتوں کے بنے ہوئے ہوں، لیکن ان کو سونے اور چاندی کی خریداری کے لئے استعمال نہ کیا جائے گا، کیونکہ یہاں معاملہ سستی چیزوں کی خریداری کا ہے جس کیلئے ایک مناسب اور عملی طریقہ کار کی کرنسی کی ضرورت ہے۔ اگر سستی اشیا کی خریداری کیلئے سونے اور چاندی کے سکوں کو استعمال کیا جائے تو ایسے سکوں کا وزن اور مقدار بہت قلیل ہو گی، اسلئے کم قیمت دھاتوں کو استعمال میں لایا جائے گا تاکہ ان سکوں کا ایک مناسب وزن ہو جو کہ استعمال میں آسان ہو۔ یہ امر قیمتی دھات سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک سونے چاندی کے علاوہ دیگر قیمتی دھاتوں کا بطور شرعی کرنسی کے استعمال کا تعلق ہے جیسا کہ پلاٹینم اور ہیرا ہے ۔۔۔ تو شریعت میں اس کی اجازت نہیں کیونکہ شریعت میں موجود دلائل صرف سونے اور چاندی کو بطور کرنسی کے متعین کرنے کے بارے میں واضح اور معلوم ہیں۔ اسی طرح شرعاًیہ بھی جائز نہیں کہ سونے اور چاندی سے زیادہ قیمتی دھاتوں کو بیت ا المال میں بطور 'ریزرو' (reserve) استعمال کیا جائے۔ دوسری کوئی بھی دھات محض ایک شے ہے نہ کہ کرنسی۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک