الإثنين، 21 جمادى الثانية 1446| 2024/12/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

تفسیر سورۃ البقرۃ 111 تا 113

بسم الله الرحمن الرحيم

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِين - بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ - وَقَالَتْ الْيَهُودُ لَيْسَتْ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتْ النَّصَارَى لَيْسَتْ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُون -

"اور یہ (یعنی یہود اور عیسائی) کہتے ہیں کہ جنت میں سوائے یہودیوں یا عیسائیوں کے کوئی بھی ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں۔ آپ ان سے کہیں کہ اگر تم (اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل لے کر آؤ۔ کیوں نہیں؟ (قاعدہ یہ ہے کہ) جو شخص بھی اپنا رُخ اللہ کے آگے جھکا دے اور وہ نیک عمل کرنے والا ہو،اُسے اپنا اجر اپنے پروردگار کے پاس ملے گا۔ اور ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ غمگین ہوں گے۔ اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیاد نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیاد نہیں، حالانکہ یہ سب (آسمانی) کتاب پڑھتے ہیں۔اسی طرح وہ (مشرکین) جن کے پاس کوئی (آسمانی) علم سرے سےہی نہیں ہے، اُنہوں نے بھی اِن (اہلِ کتاب) کی جیسی باتیں کہنی شروع کردی ہیں۔ چنانچہ اللہ ہی قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ اختلاف کرتے رہےہیں۔ (البقرۃ:111-113)

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات کے اندر مندرجہ ذیل امور بیان فرمائے ہیں:
1- بے شک یہودیوں نے کہا تھا کہ ان کے سوا کوئی بھی جنت میں داخل نہیں ہوگا، نصاریٰ (عیسائیوں) نے بھی یہی کہا تھا کہ صرف ہم جنت میں داخل ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ ان کی یہ باتیں محض باطل اور بے سروپا ارمان ہیں جیساکہ ان کی یہ تمنا کہ آنے والا رسول ان ہی میں سے ہوگا، یا جیسا کہ انہوں نے مسلمانوں کو اپنے حسد اور ہٹ دھرمی وانکار کی وجہ سے کفار بنانے کی تمنا کی، پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ انہیں بتاتے ہیں کہ ان کی یہ آرزوئیں جھوٹی ہیں ورنہ اگر وہ سچے ہی ہیں تو لائیں کوئی دلیل۔
اگرچہ انداز مطالبے کا اپنا یا گیا ہے یعنی (قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِين) "کہیں کہ اگر تم ( اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل لے کر آؤ" مگر حقیقت میں اللہ نے ان کا جھوٹ کھول دیا ہے کیونکہ یہ لوگ کبھی بھی برہان اور دلیل پیش کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، سو یہ جھوٹی بات کرتے ہیں، جیساکہ دوسری آیت (بَلَى مَنْ أَسْلَمَ ) کی تفسیر میں یہ بات واضح ہوجائے گی انشاء اللہ۔
2- اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات مبارکہ کے اندر واضح کیا ہے کہ ان کا قول باطل ہے اور ان کے جواب میں فرماتے ہیں کہ جنت نہ تو یہود کی ہے اور نہ نصاریٰ کی، بلکہ یہ ہر اُس شخص کے لئے ہے جو مخلصانہ ایمان لائے اور رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے احکامات کی تصدیق کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آگے سرتسلیم خم کردے اور اسی کا مطیع بن کے رہے، تو ایسے لوگ جنت کے مستحق ہیں اور انہیں کسی قسم کا خوف اور پریشانی نہیں ہوگی۔
(اَسلَمَ) لُغت میں اسلام کا اصل معنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آگے جھکنا اور اس کی فرمانبرداری واطاعت ہے۔ شرع کی رو سے اسلام کا معنی ہے وہ دین جو محمدﷺ پر نازل کیا گیا جیسا کہ ان آیات سے واضح ہے إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإِسْلاَمُ (آل عمران:19)، وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنْ الْخَاسِرِينَ (آل عمران:85)۔
(أَسْلَمَ وَجْهَهُ) "اپنا چہرہ جھکا دے" مرُاد اس سے یہ ہے کہ پورا کاپورا جھک جائے، یہاں "وجہ" کا استعمال مجازی معنیٰ میں کیا گیا ہے اور اس کو اِطلاقُ الجزء للدلالۃِ علی الکلِّ سے تعبیر کرتے ہیں یعنی کسی شے کا ایک جز و ذکر کے اُس سے پوری شے مراد لیا جائے،تو یہاں بھی وجہ (چہرہ) کو ذکر کے پورا جسم مراد لیا گیا ہے۔
(بَلیٰ) حرف ِایجاب ہے اور اس کو صرف ایسی بات کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس کی ماقبل میں نفی کی گئی ہو، چونکہ یہود اپنے علاوہ دوسروں کے لئے جنت کا داخلہ ممنوع قرار دیتے تھے اور اس بات کی نفی کرتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور بھی جنت میں داخل ہوسکتا ہے، چنانچہ بلیٰ کا کلمہ لا کر جو بات وہ نہیں مانتے تھے اُس کو ثابت کیا گیا ہے یعنی ان کے علاوہ دیگر لوگ بھی جنت میں داخل ہوں گے۔
یہاں (فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ) میں مفرد کی ضمیریں لائی گئی ہیں جبکہ (وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ) میں جمع کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے مَن اَسلَمَ کے اندر مَن کا لفظ آیا ہے یہ ایسا لفظ ہے جولفظی طور پرتو مفرد ہے جبکہ معنوی اعتبار سے اس کے اندر کثرت یعنی جمع کا معنیٰ پایا جاتا ہے، تو کبھی اس کی لفظی حیثیت کو دیکھتے ہوئے مفرد لیا جاتا ہے اور کبھی اس کی معنوی حیثیت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اس کو جمع کا صیغہ مانا جاتا ہے، آیت کریمہ میں اسی نہج پر استعمال ہوا ہے۔
3- آخری آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ یہودی عیسائیوں کے بارے میں کیونکر یہ کہتے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں یعنی ان کا سرے سے کوئی دین ہی نہیں یہی بات عیسائی ان کے بارے میں کرتے ہیں کہ یہود کا کوئی دین نہیں، اور یہ تب ہوا تھا جب رسول اللہﷺ کے پاس مدینہ میں نجران کے نصاریٰ آئے اور یہودیوں کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ کس طرح یہ بات کرتے ہیں، حالانکہ فریقین اہل کتاب ہیں اور ان کی کتابیں اس کی گواہ ہیں کہ یہود کے پاس اللہ کے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ اسی طرح عیسائیوں کے پاس حضرت عیسی ٰ علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ اس کے باوجود ہر ایک فریق دوسرے کے بارے میں طعنہ زنی کرتا ہے، جس کی بدولت دونوں فریقین نے اپنی حیثیت گھٹا کر اپنے آپ کو اُن جہلاء میں شامل کردیا ہے جن کے پاس علم ہے نہ کوئی کتاب، جیسے بتوں کے پجاری مشرکین جن کا تمام ادیان والوں کے بارے میں یہ کہنا تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ نے ان کی سرزنش کی ہے۔
اب اللہ تعالیٰ اس آیت کا اختتام اس بات سے کر رہے ہیں کہ قیامت کے دن ان باتوں پر ان کا محاسبہ کیا جائے گا، جس دن صرف اللہ کی حکمرانی ہوگی اور وہ سب کو ان کے کئے کا بدلہ چکا دے گا،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ "چنانچہ اللہ ہی قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ اختلاف کرتے رہےہیں"۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک