الإثنين، 21 جمادى الثانية 1446| 2024/12/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب مینسک معاہدہ اور یو کرائن میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال :

مارکل اور ہولاندی  کی پوٹین کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے اور پھر مینسک کا دورہ اور  اس  دوران یوکرائن کے صدر  کی ملاقات میں موجودگی ، یہ  سب کچھ قابل دید تیزی ہوتا نظر آتا ہے ۔۔۔ملاقات کے بعد  وہ مینسک میں ایک معاہدے پر بھی پہنچ گئے  جس کی رو سے  مشرقی یوکرائن میں15 فروری 2015 سے  فائر بندی کی جائے گی  اور  غیر مسلح زون قائم کیا جائے گا۔۔۔ مینسک معاہدے  میں کہا گیا کہ یوکرائنی قوتوں اور مشرقی علاقوں کے    انقلابیوں کو فائر بندی  کے بعد  دو دن کے اندر اگلے مورچوں   سے بھاری اسلحہ ہٹانا پڑے گا، تاکہ بفر زون قائم کیا جاسکے گا  جس کو  لائن کے دونوں جانب 70 کلو میٹر تک  وسعت دی جائے گی ۔۔۔آخر کس چیز نے یورپ "فرانس اور جرمنی " کو  اس جلد بازی بلکہ بھاگ دوڑ کر  روس سے  سیاسی معاہدہ کرنے کے لیے رابطہ کرنے پر مجبور کیا  جبکہ  اس میں یو کرائن کے علاقے  کریمیا  کا کوئی تذکرہ کیا ہی نہیں گیا، حالانکہ یہی   مملک حتمی معاہدہ کرنے کے لیے ٹال مٹول کر رہے  تھے تا کہ کریمیا کا موضوع بھی اس میں شامل ہو جائے؟پھر برطانوی وزیر اعظم  ان کے ساتھ کیوں نہیں تھے؟امریکہ نے ایسا کیوں ظاہر کیا کہ  وہ اس  کا حامی نہیں ہے؟ اس معاہدےکو نافذ کرنے کے بارے میں کیا توقعات ہیں ؟ سوال کی طوالت پر معذرت چاہتا ہوں اللہ آپ کو بہترین بدلہ دے ۔

 

جواب :

صحیح جواب تک پہنچنے  کے لیے صورت حال کو واضح کرنے کی خاطر   ہم مندجہ ذیل امور کی وضاحت کریں گے:

 

1 ۔ امریکہ  کی عمومی پالیسی یہ ہے کہ  یوکرائن اسی طرح سلگتا   اور گرم رہے تاکہ یہ روس کے لیے گلے کی ہڈی بنے  اور امریکہ اس کو روس  پر دباو ڈالنے اور کئی بین الاقوامی مسائل  جیسے شام  اور ایرانی ایٹمی پروگرام  وغیرہ میں روس کو اپنے فرنٹ لائن کے  طور پر استعمال کر سکے۔ یورپ بھی اس عمومی پالیسی کی مخالفت نہیں کر تا تھا  کیونکہ وہ اس کو  یورپ اور روس کو جنگ کے دہانے پر پہنچانے والا یا جنگی صورت  حال تک پہنچانے والا نہیں سمجھتا تھا ۔۔۔یوکرائن کے واقعات اسی نہج پر آگے بڑھتے رہے : علیحدگی  پسندوں اور یوکرائنی فوج  کے مابین  نوک جھونک  اور کریمیا کے باری میں خاموشی جاری رہی ۔۔۔معاملات میں اتار چڑھاؤ  جاری رہا  جس کو یورپ  اس نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے نتیجے میں  جلد یا بدیر   کوئی بڑا سانحہ واقع پزیر نہیں ہوگا ۔۔

 

2 ۔ لیکن حال ہی میں معاملات  نے ہنگامی صورت حال اختیار کی  کیونکہ  یوکرائن میں معمولی جھڑپوں  کے ساتھ  کسی حد تک حالات کا پر سکون ہونا   امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھایا،خاص کر  جبکہ کچھ عالمی مسائل  میں شدت پیدا ہو گئی ۔  روس پر دباؤ  ڈالنااور اس کو مشتعل کرنا ممکن نہ ہوتا اگر اس کے گلے سے ہڈی اتر جائے،   اس لیے امریکہ نے  یو کرائن میں  معاملہ گرم کرنے کا ارادہ کیا۔۔۔اسی مقصد سے یہ بیان دیا  کہ وہ  یوکرائن کو جدید اسلحہ فراہم کر ے گا  اور یہ بھی کہ یوکرائن نیٹو میں شامل ہو سکتا ہے ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے روس کے لیے کچھ اہم علاقوں کے قریب جنگی مشقیں  کیں ۔  اس امر نے روس کے اندر اشتعال پیدا کیا اور اس نے  یوکرائن  کے قریب اپنی جنگی  حرکات میں اضافہ کر دیا  بلکہ غیر اعلانیہ طور پر  علیحدگی پسندوں   میں مداخلت کرنے لگا  اور اس کے ساتھ  ساتھ گرما گرم بیان بھی داغ دیا ۔۔۔

بعض ذرائع ابلاغ نے یہ خبر بھی نشر کی کہ   امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے  اس وقت کیف کا دورہ کیا جب  پوٹین  مارکل اور ہولاندی  سے سیاسی معاہدے کے موضوع پر  بات چیت کرنے کے لیے  ملاقات کر رہا تھا۔ کیری  اپنے دورے میں  واشنگٹن کی جانب سے کیف کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کر نے پر تبادلہ خیال کیاکیونکہ وہ یہ جانتا تھا مینسک میں  اکھٹے ہو نے والے اس کی مخالفت کریں گے۔ "الحیاۃ " اخبار نے  اپنے ویب سائٹ پر  جمعہ 6 فروری 2015 کو  یہ خبر نقل کی کہ  واشنگٹن نے اعلان کیا ہے کہ وہ 118 ملین ڈالر کے  امداد بھی فورا کیف کو دے گا ،جو یوکرائنی فورسز کی تربیت کے لیے ہیں اورآلات  وغیرہ بھی فراہم کرے گا جن میں حفاظتی وردیاں،فوجی گاڑیاں،رات کو دیکھنے کے آلات بھی شامل ہیں ۔۔۔"  روس کی وزارت خارجہ کے ترجمان ایلکزنڈر یوکا شاویچ نے  اس  پر رد عمل کا  اظہار کیا اور کہا کہ "امریکہ کی جانب سے کیف کو جدید اسلحے کی فراہمی  سے نہ صرف تنازعے کو ہوا ملے گی  بلکہ  یہ روس کی سلامتی کے لیے بھی  خطرنا ک ہے  کیونکہ یوکرائنی فوج پہلے ہی کئی بار اس کے علاقوں پر بمباری کر چکی ہے"۔ اس نے تنبیہ کی کہ "اس قسم کے فیصلوں سے روس امریکہ تعلقات  کو ناقبل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے" ۔۔۔

اس سے بڑھ کر  امریکی عہدیداروں نے بھی  کریمیا کے موضوع پر بیانات دیے کہ روس نے اس کا اپنے ساتھ الحاق  کروا کر جارحیت کی ہے۔۔۔ امریکی صدر باراک اوباما نے  پیر 9 فروری 2015 کو اپنے بیان  میں  یوکرائن کے تنازعے کے بارے میں روس کو تنبیہ کی ۔ اس نے کہا کہ ماسکو کو یہ حق حاصل نہیں  کہ"وہ قوت کے زور پر یورپی سرحدوں کی حد بندی کرے"۔   یہ  مینسک میں ہو نے والے معاہدے میں نظر انداز کیے جانے والے  جزیرہ نما کریمیا کے موضوع کی طرٖ ف واضح اشارہ تھا اور صورت حال کو دیکھتے ہوئے  اس بیان نے روس  کے اندر آگ لگا دی کیونکہ وہ کریمیا  کو اپنا حصہ سمجھتا ہے۔  اگرزیادہ نہیں تو کم ازکم  اس   بیان نے یہ واضح کردیا کہ امریکہ  یوکرائنی فوج کو مسلح کررہا ہے ۔۔۔

 

3 ۔ یورپ اور خاص کر فرانس اور جرمنی نے  امریکی بیانات کو سنجیدہ لیا  اور دونوں ملکوں نے  یہ بیان دینے میں جلد بازی کی کہ دونوں  یوکرائن کو مسلح کر نے کے حق میں نہیں  کیونکہ  یہ یورپ کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔۔۔

6 فروری 2015سے 9 فروری 2015 تک میو نخ میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی امن  کانفرنس  سے خطاب کرتے ہو ئے  انجیلا مارکل نے امریکہ کی جانب سے کیف کو اسلحہ فراہم کرنے  سے تنازعے کے حل ہونے  کی رائے کو مسترد کیا اور کہا  کہ "یوکرائنی فوج کو  بہترین اسلحہ سے لیس کرنے سے  صدر پوٹین  کو یہ یقین نہیں دلایا جاسکتا کہ  وہ عسکری طور پر  شکست کھاجائے گا ، جبکہ یورپ چاہتا ہے کہ  روس کے ساتھ تعاون کے ذریعے اپنی سلامتی کو  یقینی بنا ئے نہ کہ روس کے مکالفت  مول لے کر "۔  اسی طرح جرمن وزیر خارجہ  اُرسولا  نے   میونخ میں سالانہ بین الاقوامی امن کانفرنس  کے افتتاح کے موقعے پر اپنے بیان میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا   کہ  مغرب کی جانب سے یو کرائن کو اسلحہ کی فراہمی  "یوکرائن کے تنازعے ہوا  دے سکتا ہے  کیونکہ یہ آگ میں تیل چھڑکنے جیسا  ہو گا  اور مطلوبہ حل سے ہمیں دور کردے گا "۔

فرانس نے بھی یہی کیا ، چنانچہ القدس العربی اخبار  نے7 فروری 2015کو   ذکر کیا کہ "فرانس کے صدر فرانسو ہولاند  نے  اظہار خیال کر تے ہوئے کہا کہ   یہ قدم اٹھانا ہی آخری موقع ہے "۔  ہولاند نے مزید کہا کہ مصالحت  یا امن  کے قیام کے لیے کسی پائیدار  معاہدے کے بغیر جو صورتحال ہے "اس کا نام تو جنگ ہے "۔  ہولاند نے  کہا کہ یہ بات ان کو اچھی طرح  معلوم تھی کہ  جرمن چانسلر  انجیلا مارکل کے ساتھ کیف اور ماسکو  کا دورہ  مشکل اور مہم جوئی تھی "لیکن یہ ضروری تھا"۔  ہولاند نے  واضح کیا کہ وہ اور مارکل سمجھتے ہیں کہ " جنگ کا بھوت  یورپ  کے دروازے پر دستک دے رہا ہے " ۔اسی طرح فرانسیسی وزیر خارجہ لوران فابیوس نے    جس  کا ملک  مذاکرات میں کردار ادا کررہا ہے، کہا کہ " کوئی  بھی  بڑی جنگ کے جال میں پھنسنا نہیں چاہتا ہے اور نہ ہی یہ کسی کے مفاد میں ہے اور یہ کہ یہی وقت ہے کہ تمام ممکنات کو اختیار کیا جائے"۔ اس نے  اس بات کی بھی تاکید کی کہ فرانس اور جرمنی یو کرائن میں جو چاہتے ہیں وہ "صرف کاغذی امن نہیں بلکہ حقیقی امن ہے " ۔

 

4 ۔  یورپ ( فرانس اور جرمنی )ڈر گئے  کہ کہیں امریکی موقف میں  اس بڑھتی ہوئی گرمی سے  یوکرائن  کے خلاف روسی جارحیت  میں  اضا فہ نہ ہو جائے  اور اس سے  یورپ  پر بھی  برا اثر پڑے گا ، اور اگر  یورپ یوکرائن  کے شانہ بشانہ کھڑا نہ ہوا تو یہ اس کے لئے انتہائی شرمندگی کا باعث ہو گا اور  اس سے یورپ میں جنگی صورت  پیدا ہوجائے گی  مگر اس جنگ سے امریکہ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ یہی  اہم سبب  ہے کہ جس کی وجہ سے یورپ  نے  یوکرائن میں  امریکی پالیسی  کی حمایت کی پالیسی میں تبدیلی کی  اوراسی لیے روسی صدر  سے سیاسی حل نکالنے کے لیے  رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا  تا کہ یورپ اور روس کے درمیان کسی تناؤ کو پیدا ہونے سے روک دیا جائےاورپھر یہی ہوا ۔  یورپی" فرانسیسی اور جرمن " راہنماوں نے6 فروری 2015 کو اس بات پر اتفاق کیا۔  اس کے بعد مارکل 8 فروری 2015 کو واشنگٹن گئی  تاکہ اوباما کو  یورپ کی پالیسی کے بارے میں بتا دے  نہ کہ اس سے اجازت لینے ۔۔۔یہ واضح ہے کہ یورپ نے  پہلی بار امریکہ کی طرف سے گرین سگنل  ملنے سے  پہلے کوئی فیصلہ کیا۔  اس کے ساتھ    تینوں قائدین ولادی میر پوٹین، انجیلا مارکل اور فرانس کے صدر  فرانسوا ہولاند کے مابین جمعہ 6 فوری 2015 کو  اس لائحہ عمل پر اتفاق ہو گیا تھا اور کاغذی کاروائی مکمل ہو گئی تھی  اور جو چیز باقی رہ گئی تھی وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ یوکرائنی فریقوں " صدر اور انقلابیوں" کو  اس پر دستخط کی عوت دینے کے  لئے بلایا جائے  اور پھر  اس کے بعد مارکل اوباما کو بتا نے کے لیے  واشنگٹن  گئی !

 

5 ۔ فرانس اور جرمنی کے موقف نے  اوباما اور  اس کے انتظامیہ  پر بڑا اثر ڈالا  اور اس کے نتیجے میں   میونخ کانفرنس میں بھی  کیری اور مارکل کے درمیان سخت الفاظ کے تبادلہ ہواخاص کر امریکہ کی جانب سے یوکرائن   کو اسلحہ سپلائی کرنے کے بیان پر جس کو یورپ  نے مسترد کردیا۔  الحیاۃ اخبار نے  8 فروری 2015 کو  اپنے ویب سائٹ پر یہ خبر نشر کی کہ "میونخ میں بین الاقوامی  امن کانفرنس میں امریکیوں اور جرمنز کے درمیان   امریکہ کی جانب سے مشرقی یو کرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے کیف کو اسلحہ فراہم کرنے کے ارادے پر "سخت کلامی " دیکھنے کو ملی ۔ اس کی عکاسی اس سے ہو تی ہے کہ  اٹلانٹک کے دونوں جانب کے فریقین  میں  پوٹین  کا سامنا کر نے کے حوالے سے  اتفاق رائے نا پاید تھا۔ میونخ کانفرنس  کی ایک اور تقریر میں  امریکی سینیٹر لینزی گراہم نے مارکل کی جانب سے  یو کرائن کے بحران کو اہمیت دینے کی تعریف کی  لیکن اس نے کہا کہ "اب وقت آگیا ہے کہ  چانسلر  روسی جارحیت کی حقیقت کے بارے میں  آنکھیں کھول لیں"۔اس نے مزید کہا کہ "ہمارے یورپی دوست بڑی خوشی سے ماسکو جائیں  اور دلبرداشتہ ہونے تک جائیں مگر اس میں کوئی کامیابی ملنے والی نہیں ،جھوٹ اور خطرے  کا مقابلہ کیا جانا چاہیے"۔

 

6 ۔  اس سب کے باوجود یورپ اب بھی امریکہ کا اہم اتحادی ہے لیکن جب اس دوست نے  دیکھا کہ آگ  اس کے قریب آرہی ہے تو  اس کو بجھا نے کے لیے اپنے دوست سے پوچھے بغیر ہی اس کی طرف دوڑا کیونکہ  وہ سمجھتا ہے کہ اس کے عذر کو قبول کیا جائے گا !ایسا لگتا ہے کہ اس کا اظہار بھی کیا گیا ہے  کیونکہ اوباما نے 9 فروری 2015 کو  مارکل کے ساتھ  دوگھنٹے کی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں  کہا کہ "یوکرائن میں روسی جارحیت نے  ہمارے اتحاد کو مضبوط کیا اور ہم ہر گز  غیر جانبدار نہیں رہیں گے"۔  اوباما نے  کہا کہ "اس ہفتے  سفارت کاری کے نا کام ہونے کی صورت میں نے اپنی ٹیم کو دوسرے آپشنز اختیار کرنے کا کہا ہے   جس میں اسلحہ کی فراہمی بھی ہے  "۔ اوباما نے مزید کہا " کوئی عسکری حل نہیں مگر  ہدف روس کے  منصوبوں کی تبدیلی ہے ، یاد رہے کہ ابھی تک میں نے فیصلہ نہیں کیا "۔ مارکل نے  سفارتکاری کو   دوسرے آپشنز سے پہلے "ایک اور کوشش" قرارد یا۔  انہوں نے امریکی یورپی اتحاد کے بارے میں کہا کہ "یہ  مضبوط ہی رہے گا ، یہ برقرار رہے گا خواہ ہمارا اگلا فیصلہ  جو بھی ہو "۔ یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ ان کے درمیان رسّی  ابھی کٹی نہیں ہے  مگر مضبوطی سے  باندھی ہوئی بھی نہیں بلکہ بعض امریکی عہدیداروں  کے بیانات میں بے رخی  کا اظہار ہے ! جیسا کہ پہلے امریکی سینیٹر کا ذکر ہو گیا ہے ۔

 

7 ۔ سابقہ تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ  یورپ کی جانب سے روس کے حوالے سے  یوکرائن  کے مسئلےپر پالیسی میں اچانک تبدیلی  مذکورہ بالا   وجوہات کی بنا  سے ہے اگر چہ یورپ نے  خطرے  کو  بڑھا چڑھاکر پیش کیا اور معاہدے کے لیے  دوڑ کر گیا حالانکہ  معاہدے کی شرائط  روس کے حق میں تھیں  کیونکہ اس میں کریمیا کے موضوع کا ذکر بھی نہیں تھا۔ اور یہ بات  مارکل سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بھی واضح تھا کیونکہ اس نے  جواب دیا کہ کریمیا کا موضوع اس کے لیے اہم نہیں  بلکہ معاہدے تک پہنچنا اس کے لیے اہم ہے! اُس کا پورا جواب یہ تھا کہ "میں  زمین سے متعلق  مسائل میں الجھنا  نہیں چاہتی۔  ہر ریاست کو  ایسے مذاکرات خود کرنا چاہیے ، میں  فرانس کے صدر کے ساتھ ماسکو  غیر جانبدار ثالث بن کر نہیں گئی تھی، مسئلے کا تعلق فرانس اور جرمنی سے ہے  اور یورپی یونین کا  مفاد ہی ہر چیز پر مقدم ہے " ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ  کریمیا کا ذکر کرے یا نہ کرے  جرمنی اور فرانس اس کا ذکر کریں یا نہ کریں  مگر ان میں سے کسی کو  بھی کریمیا سے کوئی ہمدردی نہیں سوائے اس کے کہ اس   کو  سرمایہ دارانہ تصور کے تحت استعماری مفاد میں استعمال کیا جائے۔۔۔

 

8 ۔  رہی یہ بات کہ برطانوی وزیر اعظم کیوں فرانس اور جرمنی کے  سربراہان کے ساتھ نہیں تھا ، تو  اس کی وجہ برطانیہ کا وہی پرانا طریقہ کار ہے یعنی  ایک قدم یہاں اور دوسرا قدم وہاں ! ایک طرف برطانوی وزیر خارجہ  فیلیپ ہا مونڈ نے  روس کے صدر کو یوکرائن کے بارے میں  "سرکشی کرنے والا" کہا  جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ کیف  میدان جنگ میں   روسی فوج کو شکست  نہیں دے سکتی  اس لیے  خون خرابہ سے بچنے کے لیے سیاسی حل ہی واحد آپشن ہے۔  اسی طرح ہامونڈ نے یہ بھی کہا کہ "ان کا ملک کیف کی قوتوں کو مسلح کر نے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا۔۔۔"اس بیان سے وہ یورپ کو خوش رکھنا چاہتا تھا۔۔۔

بار حال ایک اور بیان میں  اس نے کہا کہ  برطانیہ  اپنے سابقہ فیصلے کو واپس لے سکتا ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا  کہ برطانیہ یوکرائنی فوج کو علیحدگی پسندوں سے لڑنے کے لیے مسلح نہیں کر رہا ، اور ایسا اس لئے کہا کیونکہ  امریکہ یہ چاہتا ہے ۔  الحیاۃ اخبار نے 11 فروری 2015 کو برطانوی وزیر خارجہ فیلیپ ہامونڈ کا  پارلیمنٹ کے سامنے یہ بیان  نشر کیا کہ "یوکرائنی فوج کو   اس طرح گرنے نہیں دیا جائے گا" مزید کہا کہ " یوکرائن کو جدید اسلحہ دینے  کا فیصلہ نیٹو میں موجود ہر ملک کا اپنا قومی  فیصلہ ہو گا، ہم ایسا کرنا نہیں چاہتے  لیکن  ہم اپنے موقف سے رجوع کا حق محفوظ رکھتے ہیں"۔  یوں برطانیہ  ہر دروازہ کھلا چھوڑ تا ہے  اور اس طرح وہ  امریکہ سے ٹکر لیے بغیر  اس  کو  خوش رکھتا ہے۔  حالیہ برسوں میں برطانیہ کا یہی موقف رہا ہے  اوراسی موقف کی وجہ سے اس کا وزیر اعظم  مارکل اور ہولاند کا ہم رکاب نہیں بنا۔

 

9 ۔ جہاں تک  توقعات کا تعلق ہے  تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ   امریکہ اس معاہدےپر عمل دارآمد کی راہ میں روکاوٹ بنے گا  کیونکہ اس کے کارندے یو کرائن میں موجود ہیں ، اگر چہ جمہوریہ کا صدر پوریشنکو  یورپ سے  زیادہ قریب ہے مگر امریکہ کا بھی ساجھے دار ہے۔۔۔اس لیے امریکہ  مندرجہ ذیل تین میں سے کسی ایک امر یا سب کے ذریعے  حالات کو بگاڑ سکتا ہے :

۔ یو کرائن کو جدید اسلحہ فراہم کر کے

۔ یا نیٹو میں شامل کر نےکے لیے اس کے ساتھ مذاکرات کر کے

۔ یا  یو کرائن میں اپنے بعض کارندوں کو متحرک کر کے

یوں یہ معاہدہ ناکام ہو سکتا ہے ، کیونکہ ان تین امور میں سے کوئی بھی امر   روس کو مشتعل کر کے صورت حال کو بگاڑ سکتا ہے جس سے یہ معاہدہ ناکام ہوسکتا  ہے۔۔۔

روس  بھی  اس مسئلے میں امریکہ کے ساتھ مذاکر ات کی کوشش کر سکتا ہے ، کیونکہ اس کو اس موضوع میں امریکہ کے وزن کا علم ہے۔  اسی لیے پہلے یہ خبریں تھیں کہ روس   یورپ کے مقابلے میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کو ترجیح دیتا ہے ،لیکن روس کے ساتھ رابطہ کرنے میں جلد بازی یورپ نے کی  یہ روس کی طرف سے نہیں تھا۔

 

10 ۔ یہ تو توقعات ہیں ۔۔۔ مگر ہمارے لیے اس موضوع کی اہمیت کریمیا کے سوا کچھ نہیں،کیونکہ یہ اسلامی علاقہ ہے۔   صدیوں تک یہ ہمارے ساتھ اور ہم اس کے ساتھ تھے۔ اگر کریمیا کا مسئلہ یوکرین کے مسئلے کی بنیاد نہ ہوتا  تو ہم  امریکہ اور روس کے درمیان اس تنازعے کو زیادہ  اہمیت نہ دیتے۔۔۔ کریمیا صدیوں تک خلافت کا حصہ رہا   یہاں تک کہ روس نے اس پر حملہ کر دیا  اور مغربی ممالک کے ساتھ مل کر سازش کر کے  اٹھارویں صدی کے اواخر میں اس پر قبضہ کر لیا ۔ 1430 عیسوی تک کریمیا اسلامی امارت تھا ،پھر 1521 عیسوی میں خلافت کے عروج کے زمانے میں خلافت عثمانیہ  کا ایک ولایہ(صوبہ) بن گیا ۔  اس کے بعد 1783 میں روس اور مغربی ممالک نے سازشیں کر کے اس کو عثمانی خلافت سے الگ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس ساتھ ہی یہاں وحشیانہ خون خرابہ کیا ۔  پھر اس کو روس میں ضم کر دیا  جس نے اس کے دار الحکومت "اق مسجد"  یعنی سفید مسجد  کا نام بدل کر موجودہ نام " سیمفرو پول" رکھ دیا ۔   یاد رہے کہ قرم (کریمیا)  کا معنی  تاتاری مسلمانوں کی زبان میں قلعہ ہے،  یوں روس کی جانب سے قبضے سے ساڑھے تین سو سال پہلے سے ہی کریمیا  اسلامی سرزمین ہے   !اس لیے اس میں  حقیقی امن صرف اسی صورت میں ہی آسکتا ہے جب اس کو  اس کی اصل کی طرف لوٹا دیا جا ئے اور اللہ کے اذن سے عنقریب قائم ہونے والی خلافت کا صوبہ بنا یا جائےگا ۔

 

چاہے  جس قدر بھی وقت گزر  جائے ہم کریمیا یا استعماری کفار کی جانب سے  قبضہ کیے گئے کسی بھی اسلامی سرزمین کو نہیں بھولیں گے۔

﴿وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ﴾

"یہ ایام تو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں" (آل عمران:140)

﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ﴾

"عنقریب تمہیں اس کی خبر ملے"(ص:88)

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک