الخميس، 06 صَفر 1447| 2025/07/31
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سات ماہ کی بین الاقوامی سرگرمیوں کے بعد:

شام، ریاستوں کی خواہشات یا اپنا فیصلہ کرنے کے درمیان

 

(عربی سے ترجمہ)

 

تحریر: استاد عبده الدلي (ابو المنذر) *

 

8 دسمبر 2024 کے بعد سے شام میں مختلف سطحوں پر کئی طرح کے سفارتی دورے ہو رہے ہیں، جنہیں بے ضضر یا بےغرض نہیں کہا جا سکتا، خاص طور پر جب ہم اُن ملکوں کی تاریخ اور اصل حقیقت پر نظر ڈالیں جو دمشق کا دورہ کر چکے ہیں۔

 

ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج شام اپنے بین الاقوامی تعلقات میں ایک بنیادی تبدیلی سے گزر رہا ہے، اور یہ سب کچھ بشار الاسد کے فرار کے بعد شروع ہوا؛ وہ غیر متوقع واقعہ جس نے اس سفارتی سرگرمی کو متحرک کر دیا، خاص طور پر طویل سیاسی جمود اور ناکام اقدامات کے بعد جو نارملائزیشن کی طرف کیے جا رہے تھے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا؛ یا تو اس کے نتیجے میں خطے کے سفارتی نقشے کی نئی تشکیل ہو گی، یا پھر یہ محض ان لوگوں کے نقشِ قدم پر دوبارہ چلنے کا عمل ہو گا جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں۔

 

دمشق میں عرب اور مغربی ممالک کے وفود کا ایک غیر معمولی رش دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جو 2011ء میں انقلاب کے آغاز کے بعد پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے۔ تو یہ وفود کون ہیں؟ یہ کیوں آئے؟ اور ان کا مقصد کیا ہے؟

 

چودہ سال بعد برطانوی دورہ:

 

5 جولائی 2025ء کو برطانوی وزیر خارجہ "ڈیوڈ لامی" نے دارالحکومت دمشق کا دورہ کیا، جو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں پہلا سرکاری برطانوی دورہ تھا۔ انہوں نے عبوری صدر "احمد الشرع" اور وزیر خارجہ "اسعد الشیبانی" سے ملاقات کی، اور تقریباً 129 ملین ڈالر کی انسانی اور ترقیاتی امداد کا اعلان کیا، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ برطانیہ شام کے استحکام اور بحالی کی حمایت کرتا ہے۔ لامی نے کہا کہ برطانیہ شام کے ساتھ ایک نیا باب کھول رہا ہے، اور یہ امداد بارودی سرنگوں کے خاتمے، بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور سول سوسائٹی کو مضبوط بنانے پر مشتمل ہو گی، ساتھ ہی جنگی جرائم میں ملوث افراد کے احتساب پر بھی زور دیا۔

 

امریکہ کی جانب سے پابندیوں میں نرمی:

 

30 جون 2025ء کو امریکہ نے دمشق پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی کا اعلان کیا۔ یہ فیصلہ مشرقِ وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی میں تبدیلیوں کے سلسلے کا حصہ تھا۔ امریکی ذرائع کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کا مقصد "شامی حکومت کو جمہوری تبدیلی کے راستے پر آگے بڑھنے کی ترغیب دینا اور علاقائی استحکام کی حمایت کرنا" ہے۔

 

سعودی عرب کی واضح حمایت:

 

فروری 2025ء میں احمد الشرع نے سعودی عرب کا دورہ کیا، جہاں ولی عہد محمد بن سلمان نے اس کا سرکاری استقبال کیا۔ اس ملاقات میں تعمیر نو، توانائی، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں تعاون پر بات چیت ہوئی، اور ساتھ ہی شامی انفرا اسٹرکچر میں خلیجی سرمایہ کاری کی حمایت پر گفتگو ہوئی۔ یہ دورہ خاص علامتی اہمیت رکھتا تھا، کیونکہ یہ عبوری صدر کی پہلی بیرونی سرکاری ملاقات تھی، جسے دمشق اور خلیجی دارالحکومتوں کے درمیان بڑھتی قربت کی علامت سمجھا گیا۔

 

بین الاقوامی برادری کی متحرک شرکت:

 

12 جنوری کو ریاض نے ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کی، جس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت 17 ممالک کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں شام پر پابندیوں کے بتدریج خاتمے، ادارہ جاتی تعمیر کی حمایت، اور عبوری حکومت کو مضبوط بنانے کے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔

 

یورپی دورظ: مشروط حمایت اور محتاط نگرانی:

 

3 جنوری 2025ء کو فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ دمشق پہنچے، ان کے اس مشترکہ دورے میں سیاسی اور انسانی پہلو زیادہ نمایاں تھا۔ انہوں نے صیدنایا جیل کا دورہ کیا، اپوزیشن اور سرکاری حکام سے ملاقاتیں کیں، اور عبوری دور میں انصاف اور بین الاقوامی نظام کے ساتھ اعتماد سازی کی بات کی۔

 

مارچ میں جرمنی نے 13 سال بعد دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا، اور 300 ملین یورو کی امدادی پیکج کا اعلان کیا، جس کا مقصد بنیادی ڈھانچے، صحت کی دیکھ بھال، اور واپس آنے والے مہاجرین کے لیے تعلیمی پروگرامز کی مدد تھا۔

 

عرب سفارت خانوں کی واپسی:

 

عرب ممالک بھی اس سرگرمی سے الگ نہیں رہے۔ مئی 2025ء میں مراکش نے اپنا سفارت خانہ کھولنے کی تیاری کے لیے ایک تکنیکی وفد دمشق بھیجا، جو شاہی احکامات کے تحت تھا۔ فروری 2025ء میں الجزائر کے وزیر خارجہ نے دمشق کا دورہ کیا، اور عبوری مرحلے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ دسمبر 2024ء میں عراق نے ایک اعلیٰ سطحی سیکیورٹی وفد بھیجا تاکہ سرحدی تعاون کو مضبوط بنایا جا سکے اور انتہا پسند گروہوں کے داخلے کو روکا جا سکے

 

یہ تمام تفصیلات بتاتی ہیں کہ عوامی حمایت اور مجاہدین کی بڑی کوششوں کے باوجود جو نتیجہ حاصل ہوا، وہ ان ممالک کے لیے نہ تو قابلِ قبول تھا اور نہ ہی انہیں اطمینان دے سکا۔ اور وہ کیسے مطمئن ہو سکتے تھے، جبکہ وہ دن رات اس انقلاب کو کچلنے اور ختم کرنے کے لیے کوشاں رہے؟

 

ان کی چالیں واضح اور غیر مبہم تھیں: "نارملائزیشن" اور پرانے نظام کی واپسی۔ اور عوامی حمایت پر دباؤ ڈالنے کی تمام کارروائیاں اسی منصوبے کا حصہ تھیں۔

 

ترکی کے وزیر خارجہ کے بیانات محض اتفاقیہ نہ تھے، نہ ہی سراقب اور ابو الزندین کی ملاقاتیں بے مقصد تھیں، اور نہ ہی راستہ کھولنے سے متعلق معارہ النعسان اور ابو الزندین کی باتیں محض خیالی باتیں تھیں؛ بلکہ یہ سب ایک واضح منصوبے کے تحت کیے جانے والے حقیقی اقدامات تھے۔

 

اگر مطلوبہ ہدف حاصل نہیں ہوا، تو پھر یہ تمام وفود کیوں؟ یہ تمام دورے کیوں؟ کیا شام کا مکمل بائیکاٹ اور تنہائی بہتر نہ ہوتا؟

 

جواب ان بیانات میں ہے جو ان معرکوں کے دوران دیے گئے، جن میں کھلے لفظوں میں کہا گیا کہ اس تحریک کو قابو میں رکھنا لازم ہے تاکہ یہ ان راہوں پر نہ چلے جو ان ممالک کو ناپسند ہیں

 

عراق، اردن، اور یہودی وجود کے بیانات کہ "صورتحال خطرناک ہے" اور "اسے قابو میں لانے کی فوری ضرورت ہے"، یہی وہ باتیں ہیں جو اس سفارتی ہلچل، پابندیوں میں نرمی، اور دیگر اقدامات کی اصل وجہ کو آشکار کرتی ہیں

 

اگر ہم ان تمام ممالک کا جائزہ لیں جن کا اس مضمون میں ذکر آیا، اور ان کے انقلاب کے وقت کے موقف کو دیکھیں، تو ہم، بغیر کسی استثناء کے، ایک بدبودار اور بد نیتی پر مبنی تاریخ دیکھیں گ۔ سب نے اس انقلاب کو ختم کرنے کی کوشش کی، منصوبہ بنایا، سازش کی، اور ہر ممکن راستہ اپنایا تاکہ یہ ساحلِ نجات تک نہ پہنچ سکے۔

 

اس تاریخی رویّے اور ان پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے، واضح ہوتا ہے کہ آج جو وفود آ رہے ہیں، وہ کسی خیر خواہی کے جذبے سے نہیں آ رہے، بلکہ وہ ایک ایسے راستے کو روکنے آئے ہیں جو وہ ناپسند کرتے ہیں۔ وہ شام کو ایک سیکولر، تابع اور فیصلہ سازی سے محروم ریاست بنائے رکھنا چاہتے ہیں، جو ان کے قوانین، نظریات اور حلوں کی غلام ہو۔ وہ ہمیں آزادی، خودمختاری، اور عزت سے جینے سے روکنا چاہتے ہیں۔

 

تو بھلا ان کے ذریعے نجات کیسے ممکن ہے جنہوں نے ہمیں غلام بنایا؟ اور ان کے ہاتھوں سے آزادی کیسے مل سکتی ہے جنہوں نے ہماری آزادی چھینی، ہماری عوامی طاقت کو توڑا، اور ہمارے انقلاب کو کمزور کیا؟

 

آج، اس تمام ہلچل کے سات مہینے گزرنے کے بعد، ہم یہ نہیں کہتے کہ شام نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب بھی موقع موجود ہے، اور غلطی سے پلٹنا ممکن ہے؛ یا تو ہم فیصلہ کریں کہ اس دنیا میں با اختیار، با وقار قوم بن کر جئیں گے، یا پھر ہم غلامی کی راہ پر باقی رہیں گے جس میں فیصلہ کرنے کی طاقت ہم سے چھن جائے گی، اور ملک لوٹا جائے گا!

 

یہ موقع بار بار نہیں آتا... لہٰذا صحیح سمت میں قدم بڑھائیں، عزت کی جانب لپکیں، اور خبردار! کہیں آپ دیر نہ کر بیٹھیں یا تذبذب کا شکار نہ ہو جائیں، ورنہ وہ ذات جس نے آپ کو بشار سے نجات دی تھی، وہ آپ کو آپکے اپنے حال پر چھوڑ دے گی، اور آپ اپنی آنکھوں کے سامنے ہلاکت کی طرف چلے جائیں گے!

 

یاد رکھیں، یہ ممالک کوئی خیراتی تنظیمیں نہیں ہیں، اور ہمارے بارے میں ان کے  رویے کسی خیر کی نوید نہیں دیتے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہمارے حق میں نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم خود فیصلہ کرنے والے نہ ہوں۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے، اور کنٹرول ابھی ہمارے پاس ہے۔ تو پوری طرح محتاط رہیں، اور آج جو کچھ ہو رہا ہے، اسے ایک ایسا دروازہ بنا دیں، جس سے ہم دنیا میں اس شان کے ساتھ داخل ہوں کہ ہم آقا ہوں، باوقار ہوں، اور فیصلہ ساز ہوں۔

 

* ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن

 

Last modified onبدھ, 30 جولائی 2025 21:23

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک