الإثنين، 17 صَفر 1447| 2025/08/11
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

شام کی سرزمین میں قابض یہودی وجود کی دراندازی – ایک شرعی نقطۂ نظر

(عربی سے ترجمہ)

 

تحریر: استاد ابو المعتز باللہ اشقر

 

مسلمانوں نے تیرہ صدیوں تک ایک ہی جھنڈے اور ایک ہی ریاست کے تحت زندگی گزاری۔ اگرچہ اس ریاست پر زوال اور انحطاط کے ادوار بھی آئے، مگر شرعی احکام ہمیشہ اسی سے مربوط رہے۔ جن میں سرِ فہرست جہاد کا حکم تھا۔ یہ جہاد کافروں سے پیش قدمی کرتے ہوئے لڑائی کا نام ہے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اور دعوتِ اسلام کو پھیلایا جائے۔

 

البتہ مسلمانوں پر کچھ ایسے ادوار بھی گزرے جب وہ کمزور ہو گئے اور کفار نے مسلمانوں پر، مسلمانوں کے ملک میں ہی حملہ کیا، جیسا کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ اُحد اور خندق کی لڑائیوں میں ہوا۔

 

اسی لیے جہاد کی ایک استقرائی تقسیم فطری طور پر سامنے آئی:

 

1.اقدامی جہاد: اس کے لیے امام کی اجازت شرط ہے، اور اس کے مخصوص شرائط و احکام ہیں، جن میں سب سے اہم قدرت اور استطاعت ہے۔

 

2.دفاعی جہاد: اس کے لیے شارع نے کوئی خاص شرائط نہیں رکھیں، نہ ہی امام کی اجازت کو لازم قرار دیا۔

 

اس صورت میں مرد، عورت، حتیٰ کہ بچے بھی اپنی استطاعت کے مطابق قتال میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ امر عملی طور پر اس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب منگولوں نے بغداد پر حملہ کیا، یا جب صلیبی عیسائیوں نے اندلس کے علاقوں پر حملے کیے جب طوائف الملوکی غالب آ چکی تھی۔ ان تمام مواقع پر سبھی نے اپنی استطاعت کے مطابق جنگ کی، کیونکہ دفاعی جہاد کا تقاضا ہی یہ ہے کہ کفار کی ایذا رسانی کو اسلامی سرزمین سے دور کیا جائے اور مسلمانوں کے ملک سے ان کا مکر و فریب واپس دھکیلا جائے۔ چنانچہ اس میں امام کی اجازت کا تصور ہی نہیں، کیونکہ اس میں تاخیر کرنا یا تنظیم اور اجازت کی شرط لگانا، مصلحت کو فوت کر دیتا ہے، خاص طور پر جب کافر اسلامی سرزمین کو پامال کر رہے ہوں۔

 

اس کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے: 

 

﴿فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾

"پس اللہ سے ڈرو جتنی تمہیں استطاعت ہو" (سورۃ التغابن – آیت 16)

 

نیز نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

 

«وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ»

"جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اس پر اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو" [متفق علیہ]۔

 

لہٰذا ایسی حالت میں، یعنی جب کافر اسلامی سرزمین پر حملہ آور ہو، جہاد قطعی طور پر فرض ہو جاتا ہے، اور اس میں اقدامی جہاد کی شرائط کو نہیں دیکھا جاتا۔ بلکہ اگر اسلامی سرزمین کا ایک بالشت بھر حصہ بھی قبضے میں لے لیا جائے، یا کوئی کافر کسی اسلامی ملک پر حملہ کرے، تو جہاد فرضِ عین بن جاتا ہے۔

 

ہمیں یہ بات اس لیے کہنی پڑ رہی ہے کیونکہ یہودی وجود کا شام کی سرزمین میں مسلسل دراندازی کا عمل جاری ہے، اور اس کے ساتھ ہی وہ آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں جو بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ہم ان جنگوں میں نہیں الجھنا چاہتے جو یہودی وجود خطے پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ یہی بزدلی ہے جو انہیں بار بار ذلت آمیز چوٹوں اور ضربوں کا نشانہ بناتی ہے۔ اگر اس سائکس-پیکو کی تقسیم کو بھی مان لیا جائے، رب بھی حکمِ شرعی یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی زمین اور اپنے وطن کا دفاع اپنی استطاعت کے مطابق کریں۔ پس یہودی وجود کی دراندازی کو صرف عسکری ردِ عمل کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے، وہ بھی طاقت کے بقدر۔

 

یہ کہنا قابلِ قبول نہیں کہ شام ایک کمزور ملک ہے یا یہ کہ شام یہودی وجود کا سامنا نہیں کر سکتا، کیونکہ شرعی دلیل اپنی سرزمین اور ملک کے دفاع کو لازم قرار دیتی ہے، نہ کہ تماشائی بن کر بیٹھنے کو۔

 

ان کے بڑوں کا یہ بیان کہ شام کی سرزمین پر یہ جارحیت تمام بین الاقوامی معاہدات اور سفارتی روایات کی خلاف ورزی ہے اور خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹ ہے، محض ایک بے کار تبصرہ ہے۔ گویا ہم ان سے علاج نہیں، صرف تشخیص کے منتظر ہیں! حالانکہ تشخیص تو ہر عورت اور ہر بوڑھا بھی کر سکتا ہے۔ کیا یہ وہی طرزِ عمل ہے جس کی ایک حکمران سے توقع کی جاتی ہے؟ جسے "ڈھال" ہونا چاہیے جس کے پیچھے لوگ پناہ لیں، اور جس کے پیچھے سے دشمنوں سے لڑا جائے؟!

 

یہ ذلت جس میں شام کے موجودہ حکمرانوں نے اہلِ شام کو مبتلا کر رکھا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہودی اب سویداء میں بے خوف مداخلت کرتے ہیں، وہاں کے لوگوں کو دھمکاتے ہیں، وزارتِ دفاع اور صدارتی محل تک پر حملے کرتے ہیں۔ یہ سب وہ کام ہیں جن کا یہودی تصور بھی نہ کر سکتے اگر انہیں عوام میں مردانگی نظر آتی۔

 

دوسری طرف یہ دیکھئے، اہلِ غزہ نے تاریخ رقم کر دی، اپنے نام عظمت کے دفاتر میں لکھوا لیے، حالانکہ ان کے پاس دشمن کے مقابلے میں دسویں حصے کی بھی طاقت نہیں، بلکہ وہ شامی حکمرانوں کے مقابلے میں بھی دسویں حصے کی طاقت نہیں رکھتے۔

 

جب اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں خلافتِ عثمانیہ کمزور ہوئی، تو اس کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت اس کی کمزوری کے اسباب میں سے ایک بن گئی، بلکہ یہ مداخلت اتنی ہی خطرناک تھی جتنی کہ اس کے اطراف، بلکہ اس کے مرکز میں استعمار کا قبضہ۔ روس نے "اقلیتوں کے تحفظ" کے نام پر "آرتھوڈوکس" کی حمایت میں مداخلت کی، فرانس نے "موارنہ" کی حمایت کی، بالکل ویسے ہی جیسے آج یہودی سویداء میں "دروز" کی حمایت کے بہانے مداخلت کرتے ہیں۔

 

اس قسم کی مداخلت ریاست کی ہیبت اور وقار کو چھین لیتی ہے اور پھر یہی مداخلت براہِ راست عسکری مداخلت کا بہانہ بن جاتی ہے۔

 

شامی حکمران یہ گمان نہ کریں کہ دنیا شام کو اس کے حال پر چھوڑ دے گی۔ شام وہ سرزمین ہے جو ہزاروں سال سے تصادم کا مرکز رہی ہے۔ لہٰذا وہ یا تو باعزت ہوگی، یا ذلیل – اس کے بیچ کا کوئی راستہ نہیں۔ اگر اہلِ شام کے شریف لوگ جلدی نہ اٹھے اور اپنے ںادانوں کا ہاتھ نہ پکڑا، تو شام بھی یہودی وجود کے لیے ویسا ہی میدان بن جائے گا جیسے کہ مغربی کنارہ ہے؛ جہاں وہ دندناتے پھرتے ہیں، قتل کرتے ہیں، اغوا کرتے ہیں، اور وہاں کی اتھارٹی محض لاشوں کی گنتی اور حاکم کی حفاظت تک محدود ہے، بالکل ویسے جیسے محمود عباس اور اس کی سیکیورٹی ایجنسیاں کرتی ہیں!

 

اور رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا کہ:

 

«إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ»

"جب تم عینہ کی بیع کرنے لگو گے، گائے کی دُمیں پکڑ لو گے، کھیتی باڑی پر راضی ہو جاؤ گے، اور جہاد کو چھوڑ دو گے، تو اللہ تم پر ذلت مسلط کر دے گا، اور وہ اس ذلت کو اس وقت تک نہیں ہٹائے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ" (سنن ابی داود)

 

اسلامی ریاست کی تاریخ میں کبھی کوئی مسئلہ "اقلیتوں" کے نام سے موجود نہ تھا – نہ مذہبی، نہ نسلی، نہ فرقہ وارانہ۔ جو شخص ریاست کی شہریت رکھتا تھا، وہ اس کا جزوِ لاینفک ہوتا تھا۔ مسلمانوں نے اس مسئلے کو کمال حکمت و طاقت سے سنبھالا، اور تاریخ گواہ ہے کہ جنہیں آج دنیا "اقلیتیں" کہتی ہے، وہ مسلمانوں کی سرزمین پر، مسلمانوں کی حکومت میں، صدیوں تک رہے۔ نہ وہ مسلمانوں کے ظلم سے اجتماعی طور پر ہجرت پر مجبور ہوئے، نہ ان پر کوئی اجتماعی مظالم ڈھائے گئے۔ بلکہ انہوں نے اپنے ہم مذہبوں کو، جو ریاست کی حدود سے باہر تھے، دعوت دی کہ اسلامی ریاست کی عدل و انصاف کی فضا میں آ کر رہیں۔

 

مگر آج جب مسندِ اقتدار پر حکمران نما لوگ براجمان ہیں، تو مسلمانوں کی سرزمین دنیا کی ہر درندہ صفت مخلوق کے لیے کھلے چراگاہ بن چکی ہے۔ سرحدیں چھینی جا رہی ہیں، کفار مختلف بہانوں سے مداخلت کر رہے ہیں، اور ہر عنوان کے نیچے اپنی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں غرور اس بات کا  یہ ہے کہ مسلمان حکمران انہی کے ملازم ہیں اور انہیں اپنے اس تخت کی قیمت چکانی پڑتی ہے جس پر وہ براجمان ہیں۔

 

شام بھی دیگر اسلامی سرزمینوں سے کوئی مختلف نہیں۔ اس کا حکمران یہودی وجود کو اپنی سرزمین میں قتل و غارت کرتے، گشت کرتے، بمباری کرتے دیکھتا ہے، اور بس تبصرہ و مذمت پر اکتفا کرتا ہے، گویا یہ ملک اس کا نہیں، اور یہ مقتولین اس کی رعایا نہیں!حالانکہ کل تک جب وہ کرسی سے چمٹا نہ تھا، کفار کو جہاد اور قتال کی دھمکیاں دیتا تھا۔ مگر آج وہ خود کفار کے ساتھ اہلِ شام سے لڑ رہا ہے۔

 

سویداء میں اس کا جو طرزِ عمل رہا — کہ اُس نے افواج اور سیکیورٹی اداروں کو وہاں سے واپس بلالیا، اور لوگوں کو مسلح گروہوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، جو نہ صرف تعداد میں بلکہ اسلحے میں بھی ان سے زیادہ طاقتور ہیں — یہی اس کی غداری کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق قیامت کے دن اس سے سوال ہوگا، پس اسے چاہیے کہ اس سوال کے لیے کوئی جواب تیار رکھے!

 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک