بسم الله الرحمن الرحيم
روانڈا اور جمہوریہ کانگو کے مابین تنازع اور اس کے حل کے لیے ٹرمپ کا منصوبہ
تحریر: استاد نبیل عبد الکریم
(ترجمہ)
افریقہ کا 'گریٹ لیکس' (عظیم جھیلوں کا) خطہ اس وقت دنیا کے پیچیدہ ترین تنازعات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، جہاں پرانے نسلی، سیاسی اور معاشی بحرانوں کے یکجا ہونے سے روانڈا اور جمہوریہ کانگو کے درمیان کشیدگی دوبارہ شدت اختیار کر رہی ہے۔ تاریخی تناظر میں اس تنازع کی جڑیں 1994 کی نسل کشی، مسلح ملیشیاؤں کے عروج اور وسیع معدنی ذخائر پر قبضے کے لیے علاقائی قوتوں کے مابین جاری رسہ کشی سے جڑی ہوئی ہیں۔ سال 2025 میں تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر کے پیشِ نظر، ریاستہائے متحدہ امریکہ نے ایک ایسے اقدام کے ساتھ مداخلت کی ہے جسے اس بحران کا رخ موڑنے کی ایک بڑی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
آئیے اس تنازع کی بنیادوں، مفادات کے ٹکراؤ اور امن کی بحالی یا دوبارہ جنگ چھڑنے کے امکانات کے درمیان موجود امریکی مفادات کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں۔
اس تنازع میں کلیدی موڑ 1994 کی روانڈا نسل کشی تھی، جس کے نتیجے میں لاکھوں 'ہوتو' (Hutu) باشندوں نے ہجرت کر کے مشرقی کانگو میں پناہ لی۔ اس بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی نے پناہ گزینوں اور ان کے مخالفین (مثلاً کانگو میں مقیم روانڈا کی باغی فوج 'ڈیموکریٹک فورسز فار دی لبریشن آف روانڈا' - FDLR) کے مابین شدید تناؤ پیدا کر دیا۔ اس ہولناک قتلِ عام کے بنیادی محرکات درج ذیل تھے:
· استعماری باقیات: بیلجیم نے 1916 سے روانڈا کو اپنی نوآبادی بنا رکھا تھا، اور اسی استعماری طاقت نے وہاں نسلی تفریق کے بیج بوئے۔ انہوں نے 'توتسی' (Tutsi) قبیلے کو برتر نسل قرار دے کر انہیں اسلحہ، اقتدار اور تعلیم سے نوازا، جبکہ 'ہوتو' قبیلے کو یکسر دیوار سے لگا دیا گیا۔
· سیاسی اور سماجی امتیاز: 1962 میں روانڈا کی آزادی کے وقت اقتدار 'ہوتو' قبیلے کو منتقل ہو گیا، جس کے نتیجے میں توتسیوں کے خلاف پرتشدد فسادات پھوٹ پڑے اور ہزاروں افراد یوگنڈا، برونڈی اور کانگو کی جانب ہجرت کر گئے۔ 1980 کی دہائی کے اواخر میں 'روانڈن پیٹریاٹک فرنٹ' (RPF) کا قیام عمل میں آیا، جس نے 1990 میں' ہوتو' حکومت پر حملہ کر دیا۔ حکمران طبقے نے اس حملے کو نسلی منافرت پھیلانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا۔ 6 اپریل 1994 کو صدر ہابیاریمانا کا طیارہ مار گرایا گیا، جس کا الزام کسی ثبوت کے بغیر RPF اور عمومی طور پر توتسی انتہا پسندوں پر عائد کر دیا گیا۔
ریاستی ڈھانچے کی کمزوری اور عالمی نظام کی مداخلت میں ناکامی کے باعث (جس نے اس سانحے کو 'نسل کشی' تسلیم کرنے میں طویل عرصہ لگایا)، توتسیوں اور اعتدال پسند ہوتوؤں کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ انہیں قتل و غارت گری کی ایک ایسی مشین کے حوالے کر دیا گیا جس نے محض 100 دنوں میں تقریباً 8 لاکھ انسانی جانیں نگل لیں۔ یہ بربریت اس وقت تھمی جب RPF کی افواج نے پیش قدمی کرتے ہوئے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا اور نسل کشی کی منصوبہ ساز حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس کے بعد ہزاروں مجرم اور سیاست دان فرار ہو گئے۔ اس مرحلے پر، اقوام متحدہ نے ہمیشہ کی طرح قتلِ عام روکنے کے بجائے صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے مداخلت کی۔
1994 سے 2000 تک ریاست سازی کا مرحلہ پال کاگامے کی قیادت میں RPF کے زیرِ سایہ شروع ہوا۔ ایک قومی مفاہمت کی حکومت تشکیل دی گئی اور یوگنڈا، برونڈی اور تنزانیہ سے لاکھوں پناہ گزینوں کی واپسی ہوئی۔ نسل کشی کے ذمہ داروں کا احتساب کیا گیا اور ہوتو مسلح ملیشیاؤں کو کچل دیا گیا، جن کے بیشتر ارکان فرار ہو کر کانگو (سابقہ زائر) منتقل ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں روانڈا 1996 اور 1998 کی کانگو جنگوں کا براہِ راست فریق بن گیا۔ سال 2000 میں پال کاگامے باقاعدہ طور پر روانڈا کے صدر منتخب ہو گئے۔
2010 سے 2022 کے دوران مشرقی کانگو میں روانڈا کا اثر و رسوخ بڑھا اور وہاں کے مسلح گروہوں سے اس کے روابط کلیدی اہمیت اختیار کر گئے۔ روانڈا پر تواتر سے یہ الزام لگتا رہا کہ وہ '23 مارچ موومنٹ' (M23) جیسے گروہوں کو وسیع امداد فراہم کر رہا ہے، جو کانگو میں ہوتو ملیشیاؤں کے مدِ مقابل ہیں۔ اس مداخلت کا بنیادی مقصد ہوتو ملیشیاؤں کی واپسی کا سدِ باب کرنا تھا، جبکہ دوسرا بڑا محرک یہ تھا کہ مشرقی کانگو سونا، کولٹن، قلعی اور الیکٹرانکس کی صنعت کے لیے درکار دیگر معدنیات سے مالا مال ہے۔
اس عرصے میں روانڈا، افریقہ کے تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا، تاہم وہاں کا نظامِ حکومت آمریت پر مبنی رہا۔ دستور میں ترمیم کے ذریعے کاگامے کے لیے 2034 تک اقتدار میں رہنے کی راہ ہموار کی گئی، اور وہ اپنے سیاسی حریفوں کی ٹارگٹ کلنگ جیسی سرگرمیوں میں بھی ملوث رہے۔ 2022 کے اوائل میں مسلح گروہوں، بالخصوص M23 نے 'روبایا' جیسے معدنیات سے بھرپور علاقوں پر قبضہ کر لیا، جس سے انہیں ٹیکسوں کی صورت میں مستقل مالی منفعت حاصل ہونے لگی۔ بعد ازاں انہوں نے گوما اور بوکاوو جیسے اہم شہروں کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔ اس صورتحال پر عالمی سطح پر مذمت کی گئی اور روانڈا پر M23 کو اسلحہ و افرادی قوت فراہم کرنے کے الزامات لگے، جن کی روانڈا نے سرکاری سطح پر تردید کی۔
یہیں سے 27 جون 2025 کو ٹرمپ کی سفارتی پیش قدمی کا آغاز ہوتا ہے۔ روانڈا اور جمہوریہ کانگو نے امریکی سرپرستی میں ایک امن معاہدے پر دستخط کیے، جسے 'واشنگٹن معاہدہ' کا نام دیا گیا۔ ٹرمپ نے دونوں ممالک کے سربراہان کو واشنگٹن مدعو کیا تاکہ اس معاہدے کو تاریخی رنگ دیا جا سکے۔ معاہدے کی شرائط کے مطابق: 90 دنوں کے اندر مشرقی کانگو سے روانڈا کی افواج کا انخلاء، دوطرفہ معاشی انضمام کے ڈھانچے کی تشکیل، سیکیورٹی کے لیے مشترکہ طریقہ کار کی وضع، اسلحے پر کنٹرول، M23 اور FDLR جیسی ملیشیاؤں کا قلع قمع، اور کانگو کی کان کنی کی صنعت میں بین الاقوامی (خصوصاً امریکی) نجی سرمایہ کاری کی شمولیت طے پائی۔ ٹرمپ کے اس مصالحتی عمل کا اصل محور یہی آخری نکتہ تھا، یعنی کان کنی کے شعبے پر غلبہ پانا تاکہ تزویراتی معدنیات کے لیے چین پر امریکی انحصار کو کم کیا جا سکے۔
4 دسمبر کے بیانات میں ٹرمپ نے اس معاہدے کو تاریخ ساز قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ دنیا کے طویل ترین تنازعات میں سے ایک کا اختتام ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیے: "یہ ایک شاندار دن ہے؛ افریقہ، دنیا اور ان دونوں ممالک کے لیے ایک عظیم دن... آج ہم وہاں کامیابی حاصل کر رہے ہیں جہاں باقی سب ناکام رہے؛ گزشتہ 30 برسوں سے مشرقی کانگو میں روئے زمین کا بدترین تنازع جاری تھا"۔ کیا یہ معاہدہ پائیدار ثابت ہوگا اور امن لائے گا، یا یہ تنازع کی ایک نئی لہر کا پیش خیمہ ہے؟۔ امن کا ایک امکان اس لیے موجود ہے کیونکہ معدنیات پر کنٹرول پانے کے لیے امن برقرار رکھنا خود امریکہ کے اپنے مفاد میں ہے، اور عوام بھی طویل جنگ کے اثرات سے چور ہو چکے ہیں۔
تاہم، متعدد عوامل اس تنازع کے دوبارہ بھڑک اٹھنے کا خطرہ پیدا کرتے ہیں:
· M23 تحریک اب بھی مشرقی کانگو میں فعال ہے جس پر روانڈا کی پشت پناہی کا الزام ہے۔
· اس سفارت کاری کا اصل ہدف امن نہیں بلکہ قدرتی وسائل اور نایاب زمینی عناصر (Rare Earth Elements) پر تسلط ہے، تاکہ امریکی کمپنیوں کے لیے راہیں ہموار کی جا سکیں۔
· ملیشیاؤں کا خاتمہ کاغذ پر جتنا سہل ہے، حقیقت میں اتنا ہی دشوار گزار ہے۔
· آج بھی مشرقی کانگو سے جھڑپوں اور حملوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
· کانگو کی بعض مقامی برادریوں کا ماننا ہے کہ یہ امن ان پر جبراً مسلط کیا گیا ہے اور مسئلہ اپنی جڑوں سے حل نہیں ہوا؛ نسلی تناؤ اب بھی موجود ہے، جسے محض اس وقت تک نظر انداز کیا جاتا ہے جب تک کوئی نیا بحران سراٹھا نہ لے۔
ایک محدود علاقائی قوت کے طور پر روانڈا کا ابھرنا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ آج یہ وسطی افریقہ میں وہی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے جو بین البراعظمی توازن میں 'یہودی وجود' (اسرائیل) کا ہے۔ روانڈا ایک منظم فوج کا حامل ہے اور وہ موزمبیق، وسطی افریقی جمہوریہ اور کانگو کے معاملات میں بھرپور طریقے سے دخیل ہے، جسے امریکہ کی بھرپور تائید حاصل ہے۔ روانڈا کو اس کی جغرافیائی اور آبادیاتی حیثیت سے کہیں زیادہ بڑا کردار تفویض کیا جا رہا ہے۔ روانڈا کے واسطے سے امریکہ اپنی جیو-اکنامک سیکیورٹی کو یقینی بنائے گا اور بڑی امریکی کارپوریشنز کی رسائی کو ممکن بنائے گا۔ اس امریکی موجودگی کو بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ امریکہ اس امر کو یقینی بنائے گا کہ کانگو ایک ایسا "کمزور دیو" بن کر رہے جو ہمیشہ امریکی معاونت کا محتاج ہو، تاکہ اس کے وسائل کا استحصال کیا جا سکے اور چین یا کسی دوسری قوت کو ان معدنیات تک رسائی نہ ملے۔ استحصال اور استحکام کے تسلسل کا دارومدار اب اس امریکی فارمولے پر ہے: کنٹرول شدہ امن + امریکی سرمایہ کاری + روانڈا کا اثر و رسوخ = استحکام۔
طے پانے والا امن معاہدہ برقرار تو رہ سکتا ہے لیکن اس کی کوئی قطعی ضمانت نہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان نزاع محض ایک معمولی سرحدی تنازع نہیں، بلکہ یہ دہائیوں پر محیط نسلی تناؤ، علاقائی مداخلتوں اور ان وسائل پر قبضے کی جنگ ہے جنہیں اب قومی اثاثہ اور انتہائی بیش قیمت (نایاب زمینی عناصر) تسلیم کیا جاتا ہے۔ حقیقی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ فریقین سیاسی وعدوں کو زمینی حقائق میں کس حد تک بدلتے ہیں۔ اصل چیلنج یہی ہے، کیونکہ یہ حل تنازع کی بنیادی وجوہات کے تدارک کے بجائے صرف فوری مفادات کی تکمیل کے لیے وضع کیا گیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا روانڈا اور کانگو امریکی ثالثی کو ایک مستقل امن کی بنیاد بنا سکیں گے، یا یہ معاہدہ محض ایک بے جان تحریر ثابت ہوگا اور ایک طویل جنگ میں صرف عارضی وقفے کا نام ہوگا؟




