بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
ایسی ریاستوں کے ساتھ معاملات کرنا جو فعلاً حربی ممالک (المحاربة فعلا) ہیں
)ترجمہ(
أبو محمد سليم کے لئے
سوال:
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
أبو محمد سليم -
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں، اور یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو عظیم فتح سے ہمکنار فرمائے، اور آپ کے ہاتھوں خیر کے تمام دروازے کھول دے۔
میں اپنے محترم شیخ اور حزب التحریر کے امیر،
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ،
کی خدمت میں ایک سوال پیش کرنا چاہتا ہوں:
ایک بھائی نے مجھ سے ”اسرائیلی“ بستی برکان میں ایک فیکٹری میں کام کرنے کے متعلق سوال کیا ہے، جو کنٹینرز تیار کرتی ہے۔ حال ہی میں اس فیکٹری کے ایک حصے کو ”اسرائیلی“ فوج کے استفادہ کے لئے تبدیل کر دیا گیا ہے، جہاں بجلی کے جنریٹرز کو منتقل کرنے والی گاڑیاں اور دیگر فوجی متعلقہ اشیاء تیار کی جا رہی ہیں۔
کیا اس حصے میں کام کرنا جائز ہے جو فوجی گاڑیاں تیار کرتا ہے؟
اللہ آپ کو جزاۓ خیر دے اور بہترین اجر عطا فرمائے۔
اللہ آپ کی مدد فرمائے، آپ کو فتح عطا کرے، آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کو طاقت عطا فرمائے، اور آپ کے ہاتھوں فتح و تمکین عطا فرمائے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کی حفاظت فرمائے اور ہر قسم کے شر و نقصان سے محفوظ رکھے۔
اور اگر جلد جواب دیا جا سکے تو یہ آپ کی بہت بڑی مہربانی ہو گی۔
جواب :
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
جہاں تک مذکورہ فیکٹری کا تعلق ہے، کہ ”حال ہی میں اس فیکٹری کے ایک حصے کو ‘اسرائیلی’ فوج کے استفادہ کے لئے تبدیل کیا گیا ہے، جہاں بجلی کے جنریٹرز اور دیگر فوجی اشیاء کی نقل و حمل کے لئے گاڑیاں تیار کی جا رہی ہیں“، اور چونکہ یہ فیکٹری یہودی وجود سے وابستہ ہے، جو کہ فعلاً ایک متحارب (المحاربۃ فعلاً) ریاست ہے،
تو اس کا جواب دو حالات پر مبنی ہے:
پہلا معاملہ ان مسلمانوں سے متعلق ہے جو قابض صورتحال کے تحت ہیں، اور دوسرا ان مسلمانوں سے متعلق ہے جو اس قبضے سے باہر ہیں۔
جہاں تک پہلے معاملے کا تعلق ہے، اس پر ان مسلمانوں کی صورتحال لاگو ہوتی ہے جو مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام ہو جانے کے بعد مکہ میں رہ گئے تھے۔
فلسطین میں یہودیوں کے قبضے کے تحت رہنے والے فلسطینی لوگوں کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ خرید و فروخت اور لین دین کے دیگر معاملات کریں، سوائے ان کاموں کے جو دشمن کو تقویت پہنچاتے ہوں۔
یہی اصول اسی طرح ان مسلمانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جو امریکی شہریت رکھتے ہیں، مثال کے طور پر، ان کا حکم مکہ کے ان مسلمانوں جیسا ہے جنہوں نے ہجرت نہیں کی، ان کے لئے دار الحرب (یعنی حربی ریاست) کے ساتھ معاملات کرنا جائز ہے جہاں وہ رہ رہے ہوں، سوائے ان امور کے جو کفار کو مسلمانوں کے خلاف تقویت دیتے ہوں، بشرطیکہ ”تحقیق المناط“ (مقصد کی تحقیق) کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے۔
جہاں تک دوسرے معاملے کا تعلق ہے، ہم اس سے پہلے بھی ایسے ہی سوالات پر متعدد جوابات دے چکے ہیں، جن میں سے مورخہ 31 مارچ، 2009ء کا ایک جواب ذیل میں ہے:
”[1] ایسی ریاستوں کے ساتھ براہ راست کام کرنا جائز نہیں جو سرگرمی سے فعلاً حربی ہوں، اور اسی طرح نہ ہی ان ریاستوں سے وابستہ کمپنیوں کے ساتھ کام کرنا جائز ہے، کیونکہ سرگرم محاربین کے ساتھ تعلق بھی جنگی نوعیت کا ہوتا ہے، تجارتی یا پرامن نہیں۔
[2] جہاں تک ان اداروں کے ساتھ کام کرنے کا تعلق ہے جو بالفعل محارب ریاستوں سے لین دین کرتے ہیں، تو اس کا دارومدار ذیل کی صورتحال پر ہے:
الف - اگر وہ منصوبہ جو وہ ادارہ انجام دے رہا ہو، وہ ایسی ریاستوں کے لئے ہو جو بالفعل محارب ریاست ہے، تو اس ادارے کے ساتھ اس منصوبے پر کام کرنا جائز نہیں ہے۔
ب - اگر وہ منصوبہ جو وہ ادارہ انجام دے رہا ہو، وہ کسی محارب ریاست کے لئے نہ ہو بلکہ مقامی آبادی کے لئے ہو، جیسے اسکول کی تعمیر یا سڑک کی تعمیر کرنا، تو اس کا گناہ اس ادارے پر ہے جو محارب ریاست سے تعلق رکھے ہوئے ہے۔ البتہ ایسے کسی منصوبے پر اس ادارے کے ساتھ کام کرنا تب تک جائز ہے جب تک وہ منصوبہ محارب ریاست کے لئے نہ ہو“۔ [اقتباس ختم]
مورخہ 24 جولائی، 2011ء کو ایک اور سوال کا جواب :
”… ان ممالک کی کمپنیوں اور تنظیموں کے ساتھ براہ راست معاہدہ کرنا جو مسلم سرزمینوں پر قابض ہیں اور بالفعل حالت جنگ میں ہیں، تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ایسا کرنا حربی ریاستوں کے ساتھ معاملہ کرنا ہے…
اگر معاملہ کسی مقامی حکومت یا مقامی تنظیم کے ساتھ ہو جو قابض ریاست سے براہ راست تو وابستہ نہ ہو لیکن اس کے ساتھ تعلقات رکھتی ہو، تو یہ اس پر منحصر ہے:
1- اگر مقامی تنظیم کا قابض ریاست کے ساتھ تعلق فوجی منصوبوں پر ہو، تو اس صورتحال میں یہ جائز نہیں۔
2- اگر مقامی تنظیم کا تعلق قابض ریاست کے ساتھ ایسے تجارتی منصوبوں پر ہو جو ملک کو نقصان نہ پہنچاتے ہوں، تو یہ جائز ہے۔ بہرحال اس کے ساتھ کام کرنے سے اجتناب کرنا بہتر (مندوب) ہے تاکہ نقصان پہنچنے کا شبہ نہ ہو۔
3- اگر کارکن کی ملازمت مقامی حکومت کے تحت ہو لیکن اس کی ملازمت کا معاہدہ براہ راست قابض ریاست سے ہو، تو یہ جائز نہیں۔
4- اگر کارکن کی ملازمت مقامی حکومت کے تحت ہو اور اس کا معاہدہ بھی اسی حکومت کے ساتھ ہو، تو یہ جائز ہے، اگرچہ اس حکومت کو قابض ریاست سے مالی امداد بھی ملتی ہو، بشرطیکہ اس کارکن کی تنخواہ مقامی حکومت دے رہی ہو۔
5- اگر کارکن کی ملازمت مقامی حکومت کے تحت ہو، اور اس کا معاہدہ بھی اسی مقامی حکومت کے ساتھ ہو، لیکن اس کی تنخواہ براہ راست قابض ریاست دے رہی ہو، تو یہ جائز نہیں۔
جہاں تک ان باتوں کے دلائل کا تعلق ہے، تو یہ بالفعل محارب ریاستوں کے ساتھ تعلقات کے احکام پر مبنی ہیں“۔ [اقتباس ختم]
مجھے امید ہے کہ یہ جواب کافی ہو گا، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور وہ سب سے زیادہ حکمت والا ہے۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خليل أبو الرشتة
12 محرم 1447هـ
بمطابق 07 جولائی، 2025ء
#أمير_حزب_التحرير
#Ameer_Hizb_ut_Tahrir
Latest from
- شام کی سرزمین میں قابض یہودی وجود کی دراندازی...
- یہودی وجود کے ساتھ گیس کا معاہدہ،..
- اے مسلمانو! کیا تمہارے دلوں میں اب بھی ان رُوَيبضہ (نااہل و خائن) حکمرانوں کے لیے کوئی امید باقی ہے؟!
- کیا یہ ممکن نہیں کہ نہر سویز اور رفح بارڈر کو اُمت کی افواج کے لیے کھولا جائے؟
- جو قیادت کشمیر کے حصول کا سنہری موقع ٹرمپ کی خوشنودی کے لیے ضائع کر دے،...