الأحد، 20 جمادى الثانية 1446| 2024/12/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

امریکی وزارتِ خارجہ کے ہیڈ کوارٹر سے دی جانے والی اوبامہ کی تقریر میں موجود مکر وفریب، امریکی سیاست کے جھوٹے پن کو بے نقاب کرتاہے

 

گزشتہ رات اوبامہ نے امریکی وزارتِ خارجہ کے ہیڈکوارٹر میں مشرقِ وسطیٰ کے عوام سے خطاب کیا۔ یہ خطاب دھوکہ دہی سے بھرا ہوا تھا، جس میں یہ جھوٹ بھی شامل تھا کہ امریکہ خطے میں ڈکٹیٹروںاور ظالم حکمرانوں کے خلاف برپا کئے جانے والے انقلابات میں عوام کی حمایت کرتاہے۔ مزید برآں یہ کہ امریکہ اِن انقلابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نئی حکومتوں کے ساتھ بعض قرضوں کی معافی اور ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ سے آسان قرضوں کے اجرائ کے ذریعے تعاون کرے گا۔ اِس ساری گفتگو میںمصر ہی موضوعِ سخن رہا۔ جبکہ اپنی گفتگو کے آخر میں اوبامہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ امریکہ فلسطین کے دوریاستی حل کی حمایت جاری رکھے گا، یعنی ایک پُرامن اور خوشحال یہودی ریاست کہ جس کی سلامتی کی گارنٹی امریکہ خوددے گااور دوسری غیر مسلح اور اپاہج ریاست اہلِ فلسطین کے لیے۔ جبکہ اوبامہ یہ بھول گیا کہ فلسطین ،نہر سے لے کر بحر تک، اسلامی سرزمین ہے جو اللہ کے اذن سے اسلام کے دشمنوں کو روندھتے ہوئے اپنی اصل حالت کی طرف جلد لوٹنے والی ہے۔


جو کوئی بھی اوبامہ کی تقریر کا بغور جائزہ لے تو وہ یہ جان جائے گا کہ اوبامہ حقائق کو بالکل مسخ کررہا ہے۔ ہر صاحبِ بصیرت دیکھ اور جان سکتا ہے کہ اسلامی ممالک کے ظالم حکمران مغرب بالخصوص امریکہ کے لے پالک ہیں۔ کیا کوئی امریکہ اور حسنی مبارک کے درمیان گہرے تعلقات کا انکار کرسکتاہے کہ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ امریکیوں سے بڑھ کر امریکی ہے۔ اسی طرح کیا کوئی ایسا ہے جو مصر کے التحریر اسکوائر میں لاکھوں عوام کے پر ہجوم اجتماع کے وقت امریکہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات کے دوغلے پن کو نہ دیکھ سکا ہو؟ امریکہ حسنی مبارک کی طرف سے اپنے عوام پر ظلم کرنے ، سینکڑوں کی تعداد میں انہیں قتل اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی کرنے اور اُن کے گھروں پر چھاپے مارنے کے عمل کو دیکھ اور سن رہا تھا۔ تاہم اِس کے باوجود امریکہ حسنی مبارک کے مؤقف کا ساتھ دیتا رہا اور اُس کے خلاف کوئی احتجاج نہ کیا اورنہ ہی اُس کے خلاف کوئی آواز اٹھائی بلکہ اسے ہر قدم پرنصیحتیں دیتا رہا جس میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ التحریر سکوائر پر سرسری طور پر حاضری دے۔ اور جب امریکہ کو یقین ہوگیا کہ مبارک اب مزید لوگوں کو قتل نہیں کرسکے گا اور انقلاب کے نعرے کے ساتھ نکلنے والے لوگ دھوکے باز حسنی مبارک کے خوف سے بے نیاز ہوکراب اِس کی گردن کو دبوچنے ہی والے ہیں،تو امریکہ نے اپنے لہجے اور مؤقف کو یکسر تبدیل کرلیا۔ اُس نے مبارک کو سڑک کنارے پھینک دیا اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نئے اور پرانے ساتھیوں میں سے نئے ایجنٹ کی تلاش شروع کردی، تاکہ حسنی مبارک کے خلا کو پُر کیا جائے۔


اور آج شام میں امریکہ وہی طرزِعمل ایک بار پھر دُہرا رہا ہے۔ شامی حکومت کے ساتھ امریکہ کا نرم رویہ نہ صرف امریکی سیاست دانوں کے درمیان بلکہ دنیا بھر میں نہایت واضح ہے۔ کیونکہ پورے دو مہینے تک شام کی حکومت کی طرف سے اپنے ہی لوگوں کے قتل ،خونریزی ،اُنہیں زخمی کرنے ،اُن کی ہڈی پسلی ایک کرنے اورمکانات اور مساجد مسمار کرنے کے باوجود امریکہ شامی حکومت سے چشم پوشی کرتا رہا۔ لیکن جب لوگوں کے احتجاج نے شدت اختیار کرلی اور اُن کی طرف سے نظام کو بدلنے کی منصوبہ بندی ہونے لگی تو امریکہ نے نہایت بے شرمی سے یہ بیان جاری کردیا کہ شام کا حکمران بشارالاسد یا تو سیاسی تبدیلی کی قیادت کرے یا پھر ملک چھوڑ دے! یعنی اِس نظام کے ظلم اور قتل وغارت گری کے خلاف لوگوں کے انقلاب کے باوجود امریکہ شام کو دوبارہ اس قتل وغارت گری کے ذمہ دار کو ہی سونپ دینا چاہتا ہے۔ چنانچہ امریکہ بشارالاسد کے ساتھ وہی کرے گا جو وہ حسنی مبارک کے ساتھ کرچکا ہے، یعنی پہلے توامریکہ بشارالاسد کو موقع دے گا کہ وہ لوگوں کے قتل اور گرفتاریوں کے ذریعے اُن پر قابو پالے اور جب اُسے نظر آئے گا کہ یہ ظالم حکمران مزید قتل وخونریزی نہیں کرپائے گا یا پھریہ حکمران انقلابیوں کے ہاتھوں ختم ہونے کے قریب ہے، تب امریکہ انہی انقلابیوں کی چاپلوسی پر مبنی بیانات دے گا اور شام کے ڈکٹیٹر کے ساتھ تعاون سے اپناہاتھ کھینچ لے گا۔


امریکہ کفر اور استعمار کا سرغنہ ہے اور اوبامہ کی دھوکے بازی امریکہ کے امیج کو بہتر نہیں کر پائے گی، اس مقولے کے مطابق کہ عطر فروش عمر میں اضافے کے اثرات کو زائل نہیں کر سکتا۔ امریکہ صرف اپنے مادی مفادات پر نظر رکھتا ہے،خواہ مفاد کا یہ حصول دوسروں کی کھوپڑیوں اور لاشوں کے بدلے ہو۔ پس امریکہ لوگوں کا استحصال کرنے اور مسلمانوں کے علاقوں کو کالونی بنانے میں یورپی یونین کے ساتھ رسہ کشی کررہا ہے ، جیسا کہ لیبیا، یمن ، بحرین اور ہمارے دیگر حساس علاقوں میں ہورہا ہے۔ یہ مغربی ممالک مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بغض رکھتے ہیں۔ اور ان کی وہ اقدارکہ اوبامہ جن کے گُن گاتا پھرتا ہے، وہ حسد ہے جس کامظاہرہ ہم مغرب اور خصوصاً امریکہ کی طرف سے عراق، افغانستان اور گوانتاناموبے میں دیکھ چکے ہیں۔ امریکہ کی اقدار یہ ہیں کہ پاکستان کے مسلمانوں پر اپنے ڈرون طیاروں سے مسلسل بمباری کی جائے، غیر مسلح شخص کو میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ اس کے گھر میں بزدلانہ حملے کے ذریعے شہید کیا جائے ، عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے قرضوں اور بے فائدہ امدادی پروگراموں اورسودی جال کے ذریعے ممالک کی معیشت پر تسلط جمایا جائے۔ جس کی بدولت اب ہمارے وسائل سے مالامال ممالک کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ کمر توڑ سود اور بھاری قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہے ہیں۔ امریکہ کی اقدار یہ ہیں کہ غاصب یہودیوں کی پشت پناہی کی جائے کہ وہ فلسطین اور ہمارے لوگوں کے خلاف شب وروز وحشیانہ مظالم سرانجام دیں ۔ یہ ہیں امریکہ کی اقدار ،بلکہ یہ اس کی نمایاں ترین اقدارہیں۔


اے مسلمانو!
اگر اوبامہ کی تقریر کا اُس کی پہلی تقریروں کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو اِس میں نیا کچھ نہیں۔ اس کی نئی بات دراصل پرانی ہی ہے۔ وہ یہ سب کچھ پہلے ہی کہہ چکا ہے ، خصوصاً دو سال قبل قاہرہ میں اپنی تقریر کے دوران۔ اس میں اگر کوئی نئی بات ہے تو وہ یہ کہ اس نے یہودی ریاست کی حمایت اور سلامتی کی ضمانت کے طور پر اپنی آواز کو پہلے سے اور بلند کیا ہے۔ سو اُس نے القدس اور وہاں کے پناہ گزینوں کے بارے میں بالکل بات نہیں کی ،گویا یہ چیزیں لازمی اور ضروری نہیں بلکہ فقط جذباتی ہیں۔ اور اس نے1967ئ کی سرحدوں کو آگے پیچھے کرنے اور یہودی نوآبادیوں کو یہودی ریاست میں داخل کرنے کے لیے زمین کے تبادلے کے متعلق کھلم کھلا بیان دیا۔ اوریہ کہنے کے لیے اس نے فلسطین کی اپاہچ ، غیر مسلح اور ننھی ریاست کے قیام کاسہارانہیںلیا۔


اے مسلمانو!
ہاں جب اوبامہ کی تقریر کا موازنہ اُس کی پچھلی تقریروں سے کیا جاتا ہے تو کوئی نئی چیز نظر نہیں آتی۔ جب سے مسئلہ فلسطین ظاہر ہوا ہے اوبامہ اور تمام امریکی صدور کی یہی روش رہی ہے۔ تاہم جو بات سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے وہ اوبامہ کا اسلامی علاقوں میں چکرلگانا ہے۔ وہ کبھی کسی مسلم ملک میں سفر کرتا ہے تو کبھی دوسرے ملک میں، اور حکم جاری کرتا پھرتاہے کہ '' ایسا کرنا جائز ہے اور ایسا کرنا ناجائز ہے‘‘، گویاکہ مسلمانوں کے علاقے ان کی امریکی ریاستیں ہیں۔


مسلمانوں کی یہ علاقے ،خلافت کی موجودگی کے وقت سب سے زیادہ تہذیب یافتہ تھے، یہ علاقے دوستوں کی آنکھوں کا تارا تھے اور دشمن اُن سے خوف کھاتے تھے اور یہ علاقے پوری دنیا تک بھلائی پہنچانے کا ذریعہ تھے۔ اور اب خلافت کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ علاقے اور سرزمینیں اوبامہ کی سیر گاہ بنی ہوئی ہیں۔ اور جو چیز اس تکلیف کو بڑھاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس سب کے باوجود اوبامہ کو مسلمان ممالک میں ایسے حکمران میسرہیں جو بے غیرتی کے ساتھ اُس کے سامنے سرجھکائے یوں کھڑے ہیںکہ جیسے اوبامہ ہی سے اُنہیں عزت ملے گی اور اُن کا تحفظ ہوگا، اور وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اس قول سے نصیحت حاصل نہیں کرتے:


﴿بَشِّرِ الْمُنَافِقِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ عَذَاباً اَلِیْماً o اَلَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ط اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ الْعِزَّۃَ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا﴾
''منافقوں کو درد ناک عذاب کی وعید سنا دیجئے ،جو لوگ مؤمنوں کو چھوڑکر کافروں کو دوست بناتے ہیں ،کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ جبکہ عزت تو سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔‘‘ ﴿النسائ:138-139﴾


اور نہ یہ حکمران موجودہ واقعات سے عبرت حاصل کرتے ہیںکہ کس طرح امریکہ نے اپنے اُن ایجنٹوں کو ردی کی ٹوکری کی نظرکر دیا جو اپنی مدت پوری کرچکے ۔


اے مسلمانو! حزب التحریرآپ کو پکارتی ہے:

کہ کیا اب بھی آپ کے لیے وقت نہیں آیا کہ آپ یہ جان لیں کہ خلافت آپکے پروردگار کی طرف سے فرض اور آپ کے رسول ﷺکا حکم ہے اور یہ آپ کے لیے عزت اور ترقی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ کیا اب بھی آپ خلافت کو قائم کرنے اور اپنے رب کا وعدہ سچاکرنے کے لیے حزب التحریرکے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی طرف جلدی نہیں کریں گے:


وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ
''اللہ تم میں سے اُن لوگوں سے وعدہ فرما چکا ہے جو ایمان لائے ہیں اورانہوں نے نیک عمل کیے ہیں، کہ انہیں ضرور زمین میں اِن حکمرانوں کی بجائے حاکم بنائے گا جیسے کہ اُن لوگوں کوحاکم بنایا جوان سے پہلے تھے‘‘﴿النور:55﴾


اوراپنے نبی ﷺکی بشارت کو سچ کر دکھانے کے لیے :


﴿﴿ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ﴾﴾
''اور پھر نبوت کے نقشِ قدم پر دوبارہ خلافت قائم ہوگی‘‘﴿مسند احمد﴾


تاکہ زمین پھر سے خلافت کے نور سے چمک اُٹھے اور امریکہ اور مغرب کو واپس وہیں دھکیل دیا جائے جہاں سے وہ اٹھے ہیں، اگر وہ جگہ ان کے لیے باقی بچے۔


تو کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ آپ اپنے رب کی طرف توبہ کرتے ہوئے متوجہ ہوجائیں۔ اس سے قبل کہ موت آپ کوآپکڑے،اور پھر آپ پچھتائیں، لیکن اس وقت پچھتاوا کام نہیں آئے گا۔


﴿فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ إِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ (الذاريات﴾
''پس دوڑو اللہ کی طرف ، اورمیں تو تمہارے لیے اللہ کی طرف سے کھلم کھلا ڈرانے والاہی ہوں‘‘﴿الذاریات:50﴾

 

حزب التحریر

17جمادی الثانی 1432 ھ
20مئی 2011ئ

Read more...

یہودی حکمران اپنی فوج کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ ہمیں گولان کی پہاڑیوں اور بیتِ حنون میں قتل کریں جب کہ فلسطین کے اردگرد موجود مسلم ممالک کے حکمران اپنی افواج کواپنے ہی لوگوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں

 

15مئی 2011، یومِ قبضہ فلسطین، کے موقع پر یہودی ریاست نے اپنی فوج کو فلسطین، لبنان اور گولان کے مسلمانوں پر کھلا چھوڑ دیا ،جس نے درجنوں لوگوں کو شہید اور سینکڑوں لوگوں کو زخمی کر دیا۔ ان علاقوں کی فضاء بارود کے دھوئیں سے بھرگئی، اور زمین مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو گئی۔


لیکن گولیوں کی یہ تمام آوازیں، طیاروں کی گھن گرج اور دھوئیں کے بادل فلسطین کے اردگرد موجودمسلم دنیا کے حکمرانوں کو غفلت کی نیند سے جگانے کے لیے کافی نہ تھے ،کہ وہ ہوش میں آئیں اور اپنے ہی لوگوں سے دشمنانہ سلوک کی بجائے اُن یہودیوں سے دشمنی کا سلوک کریں جنہوں نے ارضِ فلسطین پر قبضہ جما رکھا ہے۔ یہ حکمران اپنے ہی لوگوں سے جنگ میں مصروف ہیں ، جو ان حکمرانوں کے ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان حکمرانوں نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ٹینکوں، پرائیویٹ فورسز اور رپبلکن گارڈز کو متحرک کیا ہوا ہے۔ اور بجائے یہ کہ وہ فلسطین، لبنان اور گولان کی سرحدوں کو جنگ کا میدان بناتے، انہوں نے اپنے ملک کے شہروں اور دیہاتوں کو میدانِ جنگ بنایا ہوا ہے۔


اے مسلمانو! اے لوگو!
یہ حکمران مسلسل اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں ، جبکہ اللہ انہیں دھوکے میں ڈالے ہوئے ہے۔ یہ حکمران دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ صیہونیت اور استعماریت کے دشمن ہیں، جبکہ وہ خود اپنے لوگوں پر ظلم کر رہے ہیں اور انہیں دبا رہے ہیں۔ لوگ ان حکمرانوں کے ظلم کے باوجوداس وجہ سے خاموش رہتے تھے کہ یہ حکمران یہودی ریاست کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں اور وہ نہر سے لے کر بحر تک تمام کے تمام فلسطین کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ لیکن درحقیقت انہوں نے فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے کچھ نہیں کیا اور بالآخر نہر اور بحر سمیت اس کے درمیان کا تمام علاقہ یہودیوں کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقے پر اسرائیلی ریاست کے قیام کو تسلیم کر لیا اور اُس علاقے پر مذاکرات میں لگ گئے جس پر اسرائیل نے 1967میں قبضہ کیا تھا اور پھراس بات پر بھی تیار ہوگئے کہ اس علاقے میں سے دشمن جو بھی واپس کرے اسے قبول کر لیا جائے، خواہ ان علاقوں کی واپسی مکمل اتھارٹی کے بغیر ہی ہو۔


جب کہ کچھ حکمران وہ ہیں جنہوں نے یہودیوں کے ساتھ کھلم کھلامفاہمت اور دوستی کی ذلت مول لینے کا انتخاب کیا۔ اسی طرح کچھ حکمران وہ تھے جنہوں نے اصل میں تو امن معاہدے کی راہ اختیار کی مگر وہ اپنے آپ کو' مزاحمت کار‘کہلواتے تھے۔ لیکن ان حکمرانوں کی طرف سے یہودی ریاست کے خلاف مزاحمت کا یہ عالم ہے کہ گولان میںیہودی ریاست کے ساتھ ان کی سرحدیں باقی تمام سرحدوں سے زیادہ پرسکون ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے کچھ یہ کہتے ہیں کہ ملکِ شام کے استحکام کا دارومدار یہودی ریاست کے استحکام پر ہے!


اِن حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ یہ فلسطین کی مبارک سرزمین کی زیارت کے لیے آنے والے غیر مسلح لوگوں کی حفاظت بھی نہیں کرتے، بلکہ قبل اِس سے کہ یہودی زیارت کے لیے آنے والے لوگوں کو روکیں ،خود عرب حکمران ہی لوگوں کو روک دیتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ عرب حکمرانوں نے اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنے کے لیے اپنی افواج کو مصروف کررکھا ہے ،جس کی وجہ سے یہودیوں کو سرحدی خلاف ورزیوں کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگوں کو یہ موقع ہاتھ آجاتا کہ وہ مقبوضہ مبارک خطے کی طرف پیش قدمی کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ سرحد کے قریب شام کی حکومت کے اہلکاروں اور اِن کے حواریوں کے ہوتے ہوئے کسی انسان کے لیے گولان کی پہاڑیوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔


اے مسلمانو! اے لوگو!
فلسطین کی مبارک سرزمین پر قابض یہودی ریاست کی بقاء اس کی اپنی طاقت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ یہ اِن غدار حکمرانوں کی غداری اور کافر استعماری ریاستوں کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ کی بناپر ہے جنہوں نے ایک سازش کے تحت اِس یہودی ریاست کو قائم کیا تھا۔ جس کسی نے گولان کی پہاڑیوں، مارون الرأس ، قلندیا کی چیک پوسٹوں اور بیتِ حنون کے اطراف میں ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کیا ہو، نیز نہتے لوگوں کے سامنے دشمن کی قیادت کے اضطراب کو دیکھا ہو،وہ آسانی سے اِس بات کو پہچان سکتا ہے کہ یہودی ریاست کا وجود نہایت کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے ،جو کسی وقت بھی ختم ہوسکتا ہے جیسا کہ یہودی ریاست کے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ جو کچھ وقوع پذیر ہوا، وہ یہودی ریاست کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ اس اضطراب اور بے چینی کا دائرہ کار صرف عام یہودیوں تک محدود نہ تھا بلکہ اعلیٰ سطحی قیادت میں بھی اِس کو محسوس کیا جا سکتا ہے ، یہاں تک کہ یہودی وزیراعظم غیر مسلح لوگوں کے مارچ کو یہودی ریاست کے لیے خطرہ قرار دے رہا ہے! چنانچہ اُس وقت معاملہ کیا ہوگا جب ان مارچ کرنے والوں کے آگے آگے فوج ہوتی جو یہودیوں کے ناپاک وجود سے فلسطین کی سرزمین کو پاک کردیتی اور لوگوں کو اِس بات کی اجازت دیتی کہ وہ اِس مبارک سرزمین کی عزت کو بحال کرتے اور اللہ کی طرف سے نصر ملنے کی خوشی مناتے ، اگر ایسا ہوجاتا تو کیا صورتحال ہوتی؟ جبکہ ایسا کرنا شرعاً فرض بھی ہے۔ یقیناًاگر اس سے کم بھی ہوتا اور ایک فوجی لشکر مارچ کرنے والوں کے پیچھے ہوتا ،تاکہ اگر دشمن ان پر گولی چلائے تو وہ بھی اُن کو گولی کا جواب گولی سے دیں، تو دشمن کو یہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ ان مارچ کرنے والوں پر حملہ کرتے اور اُنہیں قتل کرتے۔ کیا یہ وہ وقت نہیں ہے کہ وہ دشمن جو نہتے لوگوں کے مارچ سے ڈرتا ہے اُسے ایسی مار ماری جائے کہ وہ شیطان کے وسوسوں کو بھول جائیں؟


اے مسلمانو! اور اے یہودی ریاست کے اردگرد موجودمسلم افواج!
آپ کی رگوں میں موجود خون اُس وقت کیوں نہیں کھولتا جب آپ کے سامنے آپ کے ہی بھائیوں کا خون بے دریغ بہایا جاتا ہے؟ آپ لوگ کیسے اپنے اُن حکمرانوں کے خلاف خاموش رہ سکتے ہیں ،جو آپ کو آپ کے دشمن سے لڑنے سے روکتے ہیں، وہ دشمن جو آپ کے بھائیوں کو شہید کر رہا ہے اور آپ کے علاقوں کی حرمت کو پامال کررہا ہے؟ ایسا کیونکر ہے کہ آپ نے اپنے دشمنوں سے لڑنے کی بجائے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں؟ کیا آپ میں ایک بھی ایسا صالح شخص موجود نہیں جو اِن حکمرانوں کے اقتدار کا خاتمہ کردے؟ وہ حکمران جو اپنی سرزمینوں اور اپنے ہی لوگوں کا سودا کرچکے ہیں اور جنہوں نے استعماری کفار کے ساتھ گٹھ جوڑ بنارکھا ہے اور فلسطین اور اُس کے گردو نواح پر یہودیوں کو اتھارٹی اور کنٹرول دے رکھا ہے؟
کیا اللہ سبحانہ تعالیٰ کے یہ الفاظ آپ کے اندر خوف پیدا نہیں کرتے؟:


(وَلاَ تَرْکَنُوْا إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُونِ اللّٰہِ مِنْ أَوْلِیَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ)
''اورظالم لوگوں کی طرف مت جھکنا،ورنہ تمہیں جہنم کی آگ آلپٹے گی اوراللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست نہ ہو گا، پھر تمہیں کہیں سے مدد نہ مل سکے گی۔‘‘ (ھود:113)


اور آپ رسول اللہﷺ کی اِس حدیث پر غور کیوں نہیں کرتے؟:


((ان الناس اذا راوا الظالم فلم یاخذوا علی یدیہ یوشک ان یعمھم اللّٰہ بعقاب))
''اگر لوگ کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو عذاب دے‘‘(ابوداؤد، ترمذی ، ابنِ ماجہ)


اے مسلم ممالک کے حکمرانو!
عقلمند شخص وہ ہے جو دوسروں کو دیکھ کرسبق حاصل کرتا ہے۔ اور حالیہ واقعات اِس بات کے لیے کافی ہیں کہ تم اِن سے عبرت حاصل کرو۔ وہ جوتم سے زیادہ طاقت ور اورزیادہ جابر تھے، اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں اور ذلت ان کا مقدر بن چکی ہے۔ اُنہیں اُن کا اقتدار اور طاقت بچا نہ سکی۔ اُن کے حواری اور ایجنٹ اُن کا ساتھ چھوڑ گئے حتیٰ کہ اُن کے استعماری آقاؤں نے بھی اُنہیں سٹرک کنارے پھینک دیا!


اِس بات کے باوجود کہ تم لوگ اُن لوگوں میں سے ہو جو مخلص نصیحت پسند نہیں کرتے، پھر بھی حزب التحریرتمہیں نصیحت کرتی ہے! کہ تم لوگ اپنے دین، اپنی امت، اپنی سرزمین اور خود اپنے حوالے سے حد سے گزر چکے ہو:
جہاں تک دین کا معاملہ ہے: تو تم لوگوں نے اپنے دین کو پسِ پشت ڈالا ہوا ہے اور خلافت اور اِس کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف ایک جنگ برپا کررکھی ہے اور تمہاری خواہش ہے کہ تم فیصلے کے لیے طاغوت کی طرف جاؤ، جبکہ اللہ نے تمہیں طاغوت سے انکار کا حکم دیاہے۔
جہاں تک امت کا معاملہ ہے: تو تم لوگوں نے اِس امت کے دشمن استعماری کفار اور یہودیوں کو اپنا اتحادی بنا رکھا ہے اور اِس امت کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔
جہاں تک تمہاری سرزمینوں کا معاملہ ہے: تو تم لوگ فلسطین اور اِس کے گردونواح، کشمیر، سائپرس، مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان اور کئی دوسری اسلامی سرزمینوں سے دستبردار ہو چکے ہو۔
اور جہاں تک تمہارا اپنا معاملہ ہے: تو تم لوگوں نے اِس دنیا میں اپنے لیے ذلت و رسوائی کا ہی انتخاب کیا اورخود کو آخرت میں شدید ترین عذاب کا حق دار بنالیا ہے۔


پس اگر تمہارے اندر ذرا سا احساس بھی باقی ہے تو تم لوگ خود ہی اقتدار سے الگ ہو جاؤ ، قبل یہ کہ خلافت قائم ہوجانے کے بعد وہ تم لوگوں کو اقتدار سے ہٹائے اور عبرت کا نشانہ بنائے، وہ خلافت جس کا قائم ہونا ایک لازمی امر ہے:


(وَلَاتَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا ےَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ط اِنَّمَا ےُؤَخِّرُھُمْ لِےَوْمٍ تَشْخَصُ فِےْہِ الْاَبْصَارُ O مُھْطِعِےْنَ مُقْنِعِیْ رُءُ وْسِھِمْ لَا ےَرْتَدُّ اِلَےْھِمْ طَرْفُھُمْ وَاَفْءِدََتُھُمْ ھَوَآءٌ)
''اور مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں اللہ ان سے بے خبر ہے ۔ وہ اِن کو اُس دن تک مہلت دے رہا ہے جب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ،اور لوگ سر اوپراٹھائے دوڑ رہے ہوں گے ، خود اپنی طرف بھی ان کی نگاہیں لوٹ نہ سکیں گی اور اُن کے دل (خوف کے مارے) ہوا ہو رہے ہوں گے‘‘ (ابراھیم:42-43)


13جمادی الثانی 1432 ھ حزب التحریر
16مئی 2011ء

Read more...

بن علی کی جابر حکومت کا خفیہ فرار اورتمام خونریزی کے بعد حکومت میں کھلم کھلا واپسی


17 جنوری2011ء کوتیونس کے پچھلے (اور اب نئے )وزیراعظم محمد غنوشی کی سربراہی میں حکومت بنانے کا اعلان کیا گیا ،جومفرور ظالم حکمران بن علی کا قریبی ساتھی تھا۔اس نئی حکومت کے ممبران کی اکثریت کاتعلق بن علی کی جابرانہ جماعت آر۔سی۔ڈی (RCD)سے ہے، اور اس نئی حکومت میں بن علی کی حکومت کے چھ وزراء کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھا گیا ہے،جن میں وزارت برائے لیڈرشپ، دفاع، مالیات، اندرونی اور خارجہ امور شامل ہیں۔ غنوشی نے ان وزراء میں اپوزیشن پارٹیوں کے تین وزراء کو برائے نام وزارتیں دے کر شامل کر دیا تاکہ ایک دھوکہ دیا جائے گویاکہ قومی اتحاد ہو گیا ہے۔ چنانچہ بن علی کے خاص آدمی نے اس کے فرار کے بعد بھی اس کی اور پارٹی کی حکومت جاری رکھی۔


17 دسمبر2010ء سے مظاہروں کے آغاز کے بعد سے تیس طویل دنوں میں ان حکمرانوں نے خوب خون بہایا۔ یہ مظاہرے اس غربت، بھوک، بیماری، بے روزگاری اور خصوصاً جبر و ظلم کے نتیجے میں شروع ہوئے،جس نے لوگوں کو دیوار سے لگا دیا تھااورخاص طور پر نوجوان 'بوعزیزی‘ کو اس حد تک مجبور کر دیاتھاکہ اس نے تنگ آ کر خود کشی کر لی؛ جب حکومتی اہلکاروں نے اس کی وہ ریڑھی بھی چھین لی جس کے ذریعے وہ چند اشیاء فروخت کرکے مشکل سے زندہ رہنے کا سامان میسر کرتا تھا۔ اس کے نتیجے میں جابرانہ حکومت کے خلاف ایک عوامی بغاوت کا آغاز ہوا۔ اس سرزمین پر جہاں حکمران عوامی وسائل کو لوٹ کر ، عوام کو شدید غربت میں دھکیلتے ہوئے ،شاہانہ زندگی گزار رہے تھے، وہاں اب عوام اسلام کے تحت ایک عدل پر مبنی حکومت اور پرامن ومحفوظ زندگی کے متلاشی نظر آتے تھے۔


اے تیونس کے لوگو، اے مسلمانو!

تیونس کے عوام کی بہادری کی جڑیں تاریخ کی گہرائی میں پیوست ہیں۔ جب اللہ سبحانہ و تعالی نے انہیں اسلام کی نعمت عطا کی، تو یہ علاقہ اسلام کا نور پھیلانے والی شمع بن گیا۔ یہیں سے شمالی افریقہ اور اندلس کی آزادی کے شعلے بھڑکے۔ یہ ' عقبہ‘ کی سرزمین کہلایا، جو یہاں سے شمالی افریقہ تک اسلام کا پیغام لے کر گئے؛ یہاں تک کہ وہ بحرِاوقیانوس کے ساحل تک جا پہنچے اور وہاں پر ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے مخاطب ہو کر انہوں نے یہ تاریخی جملے ادا کئے: ''اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہارے پار لوگ موجود ہیں تو میں اپنے گھوڑے تمہارے پانیوں میں داخل کر دیتا اور ان لوگوں پر فتح حاصل کرتا‘‘۔
یہ ہے تیونس کا حقیقی درخشاں ماضی اور ایسے تھے اس کے جہاد کے متوالے فرزند!!

 

(رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالأَبْصَارُ) (النور:37 )

''(یعنی ایسے) لوگ جن کو اللہ کے ذکر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ سوداگری غافل کرتی ہے اور نہ خرید و فروخت وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جب دل (خوف و گھبراہٹ کے سبب) الٹ جائیں گے اور آنکھیں (اوپر کو چڑھ جائیں گی) ‘‘


ذلت تیونس میں اس وقت داخل ہوئی جب کافر استعماریوں نے فرانس کی سرکردگی میں اس پر حملہ کر کے اسے1881ء میں عثمانی خلافت سے کاٹ ڈالا۔اس کے بعد ہی تیونس میں استعمار کے ہاتھوں کرپشن ،ظلم اور جبر کو فروغ ملا۔ تیونس کے بہادر مسلمانوں نے مزاحمت کی اور ہزاروں مسلمان صفیں باندھ کر دفاعی جنگ لڑتے ہوئے شہیدہوئے اور اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کی۔ جب بھی انہوں نے جہاد کی پکار سنی،اس پر فوراً لبیک کہا،یہاں تک کہ ا ﷲعزّوجل نے انہیں فتح سے نوازا اور فرانس شکست کھا کر ذلیل ورسوا ہو کر وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوا۔ لیکن اس سے پیشتر کہ تیونس کے عوام اپنی فتح کا ثمر حاصل کرتے اور اسلام کی حکومت دوبارہ اس علاقے میں قائم ہوتی؛ وہیں کے ایک گروہ نے اپنا دین فرانس کے بجائے اب برطانیہ کے ہاتھوں بیچ کر تاج و تخت خرید لیا۔ یوں 'بور قیبۃ ‘ اور' بن علی‘ کی حکومتوں کا ظلم وجبر شروع ہوا جو بد ترین جبر تھا۔ تیونس مقامی حکومت کی لالچ کا پیٹ بھرنے کے لئے مالِ غنیمت اور بین الاقوامی طاقتوں کے تنازعات کے لئے میدانِ جنگ بن گیا۔ خصوصاً جب امریکہ نے اس کے سربراہ کی پشت پناہی شروع کر دی تاکہ اسے قدیم یورپ کے اثر سے نکالا جا سکے۔
ہم آج اس سب کو یاد کررہے ہیں جو کہ بِیت چکا ہے، لیکن آج ایک بار پھر بہایا جانے والا پاک لہو ضائع کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ لوگ اس جدوجہد کا ثمربن علی کی حکومت کی تبدیلی اور اسلامی حکومت کے قیام کی صورت میں حاصل کر پاتے اور امن وسکون کی زندگی گزارتے،ہم دیکھ رہے ہیں کہ بن علی کی حکومت ایک بار پھر لوٹ کر آ رہی ہے۔ یہ وہی پرانے چہرے ہیں جنہوں نے اس زمین کے تقدس کی حفاظت کی نہ لوگوں میں عدل قائم کیا۔


اے تیونس کے لوگو ،اے مسلمانو!

مسئلہ بن علی جیسے جابر شخص کا نہیں۔ مسئلہ انسان کا بنایا ہوا وہ نظام ہے جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہی نظام ظالم و جابر حکمران پیدا کرتا ہے۔یہ ہر گز درست نہیں کہ تیونس کی مقدس سرزمین پر بہنے والے خون کو بھلا دیا جائے یا اس کا اثر ختم ہو جائے اورجابر حکمران کے اتحادی ایک بار پھر اقتدار حاصل کر لیں۔ کیا مبزّع، غنّوشاور قلّال اسی جابرانہ حکومت کے ستون نہیں؟ کیا یہ وزراء اس جبر اور خونریزی کے شریک اور گواہ نہ تھے جس کا بن علی نے حکم دیا تھا؟
اگر آپ ان لوگوں کی حکومت پر راضی ہو گئے جو اس خون کو بہانے کے ذمہ دار تھے، تو تیونس کی پاک زمین پر بہنے والا پاک خون آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ یہ آپ کو معاف نہیں کرے گا سوائے اسکے کہ آپ یہ احساس کر لیں کہ یہ کس لئے بہا گیا ہے۔ یعنی انسان کے بنائے ہوئے جابرانہ نظام کو اس کی جڑوں سے اکھاڑکر اس کی جگہ اﷲ کا حکم ؛خلافتِ راشدہ نافذ کرنے کے لئے۔ صرف تب ہی یہ زمین رب کے نور سے جگمگائے گی اور خیر تمام لوگوں تک پہنچے گا اور مسلمان اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ فتح سے خوش ہوں گے۔


اے تیونس کے لوگو، اے مسلمانو!
ایک مخلص راہنما اپنے عوام کو راستے سے بھٹکنے نہیں دیتا۔ حزب التحریر آپ کو پکارتی ہے کہ آپ اس پاک خون کی پکار کا جواب دیں جو آپ کی اس عظیم بغاوت کے تیس دنوں میں بہایا گیا ہے۔
یہ خون آپ کو پکارتا ہے کہ آپ انسان کے خود ساختہ جابرانہ نظام کے اپنے اوپر نفاذ پر خاموشی اختیار کر کے اس کو ضائع نہ کریں۔
یہ خون آپ کو پکارتا ہے کہ آپ اپنی سرزمین سے مغرب، اس کے آلہ کاروں، اس کے ایجنٹوں کے اثر و رسوخ اور قبضے کو اکھاڑ پھینکیں۔
یہ خون آپ کو پکارتا ہے کہ آپ پکارنے والے کی اس پکار کا جواب دیں یعنی اللہ کے حکم پر خلافت راشدہ کے قیام کی پکار کا ۔ تاکہ اللہ کا آپ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا ہو اور آپ کو رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی خوش خبری حاصل ہو جائے۔
یہ خون آپ کو پکارتا ہے کہ اچھی زندگی گزارنے اور ذلت و رسوائی سے نجات کا واحد طریقہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین کو مسترد کر نا اور انسان کے رب کے قوانین پر چلنا ہے۔


(فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى* وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا )
''جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔ اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اُس کی زندگی تنگ ہو جائے گی ‘‘ (طہٰ :123-4 )


تو کیا آپ اس پکار کا جواب دیں گے؟

Read more...

معزز بھائیو: القدس کی آزادی باتوں سے نہیں بلکہ مسلم افواج کی صیہونی ریاست سے جنگ کے ذریعے ہی ممکن ہے

 

آج دو دن کی لاحاصل اور بے مقصد بحثوں کے بعد28 مارچ 2010ئ کو عرب حکمرانوں نے اپنی بائیسویںسمٹ کانفرنس کا اختتام سِرت ، لیبیائ میںکیا۔ جس سے پہلے 25 اور26مارچ کو ان کے وزرائِ خارجہ نے نے بھی اس کی تیاری کیلئے ملاقاتیں کی تھیںاور اس کانفرنس کیلئے ایجنڈا مرتب کیا تھا۔اس سمٹ کانفرنس میں جو قراردادیں پاس ہوئیںوہ ما ضی کی طرح قدیم اور جدید استعاروں سے بھری پڑی تھیں جیسا کہ ، 'امن process‘، 'عرب ۔اسرائیلی تصادم ‘(Arab Israeli conflict)، 'عرب کا پہل کرنے کا اقدام‘﴿the arab initiative﴾،حرمِ ابراہیم اور مسجدِ بلال کو کھولنے سے اسرائیل کا انکاراسکے ساتھ ساتھ نئی آبادکاریوں سے باز آنے سے یہودیوں کا انکار اور اس کے مزاکرات پر واسطہ یا بالواسطہ اثرات....عراق اور امارات میں صورتحال، سوڈان، سومالیہ اور کمورس کے جزائر میں امن اور ترقی کی حمایت، اور خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا وغیرہ وغیرہ ....اور اس کے بعد مزید ایک اورسمٹ کانفرنس کیلئے ایک اضافی قراردادبھی منظور کی گئی جس میں یہ حکمران صرف میل جول اور ایک دوسرے کو شاباشیاں دیں گے۔ یہ سب بے وقعت اور بے مقصد قراردادیں ہیںجو اصل مسئلہ کو حل نہیں کرتیں بلکہ اسے اور الجھا دیتی ہیں اور یہ صرف فضولیات ہیں جن کا کوئی مطلب نہیں ۔ یہاں تک کہ سمٹ کے اختتام پر اعلامیہ بھی جلدی جلدی پڑھ دیا گیا جیسے شائد یہ حکمران اس سے شرمندہ تھے۔

بہر حال وزرائِ خارجہ کی ابتدائی ملاقاتوں سے سمٹ کانفرنس کے اعلامیہ تک دو نکات توجہ طلب ہیں۔

 

پہلا یہ کہ برطانوی ایجنٹ پوری محنت کے ساتھ عرب لیگ کی قراردادوں کو متاثر اور کنٹرول کرنی کی کوششوں میں مصروف تھے۔ یمن نے عرب لیگ کی جگہ عر ب یونین بنانے کی تجویز پیش کی اور جس طرح لبنانی صدر اور اس کے وفد نے فوراً اس کا خیر مقدم کیا اس سے واضح تھا کہ ان کا اس پر پہلے سے گٹھ جوڑ تھا۔ اور پھر قذافی نے کہا کہ اس پر اتفاقِ رائے ہے، دوسری طرف قذافی نے سمٹ کا صدر ہونے کی حیثیت سے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کے احتساب اور خاص سمٹ کانفرنسیں طلب کرنے کے اختیارات کا بھی مطالبہ کیا۔ اس سب سے واضح ہوتا ہے کہ برطانیہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عرب لیگ کا متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے یعنی عرب لیگ کی جگہ وہ کچھ اور قائم کر سکے، اور وہ اسلئے کہ عرب لیگ جسے 22مارچ 1945ئ کو برطانیہ نے قائم کیا تھا پچھلے کچھ سالوں میں امریکہ کی دستِ راست بن چکی ہے جو کہ عرب لیگ کی قراردادوں سے واضح ہے.... عرب لیگ کا مرکز قاہرہ میں ہے اور مصرکا صدر امریکی ایجنٹ ہے ، وہ سپر وائزر کی حیثیت سے عرب لیگ اور سیکرٹری جنرل دونوں کی رکھوالی کرتا ہے۔اگر چہ برطانیہ اور اس کے ایجنٹ کوششیں کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی کامیابی کے امکانات کم ہیں، بلکہ زیادہ امکان تو اس بات کا ہے کہ یہ کوششیں صرف پانی کی گہرائی کا اندازہ لگانے کیلئے ہیں کہ دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے تاکہ اس کے مطابق آئندہ اقدامات اٹھائے جا سکیں۔

 

دوسرا موضوع القدس کا ہے ، قراردادوں نے کم از کم اس مو ضوع پر بات ضرور کی ہے جس کی بنائ پر پوری کانفرنس اس شیریں زبانی سے لطف اندوز ہوئی.....کانفرنس میں فاتحانہ انداز میں دعوہ کیاگیا کہ انہوں نے القدس کو آزاد کروانے کا منصونہ تشکیل دے دیا ہے جس کی بنیادتین ستونوں پر ہو گی، سیاسی، قانونی اور مالیاتی.....تو انہوں نے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھائے اور عرب۔اسرائیلی تنازعہ ختم کروانے کیلئے مناسب اقدامات اٹھائے ۔پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بیت المقدس میں اسرائیل کی طرف سے کئے جانے والے مظالم کے خلاف عالمی عدالت میں جائیں گے۔ انہوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ وہ القدس کو 50کروڑ ڈالر کی رقم بھی دیں گے تاکہ وہ اسرائیل کے نئے آبادکاری کے منصوبوں کا مقابلہ کر سکیں۔اور انہوں نے عرب لیگ کی سربراہی میں القدس کیلئے ایک بااختیار کمشنر کوتائنات کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔اور سب سے اہم ان سب حکمرانوں نے القدس کے ساتھ اپنی محبت جتانے اور الاقصیٰ کی قدر دانی کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی سر توڑ کوششیں کیں ۔کانفرنس سے پہلے ہونے والی وزرائ کی ملاقات میں ، مصر کے وزیر خارجہ نے اپنے ہم عصروں سے سبقت لیجانے کی کوشش کی اور کہا کہ مصر نے کانفرنس کا نام ''القدس کانفرنس ‘‘رکھنے کی تجویز دی تھی تو عرب لیگ کیلئے شام کے مستقل نمائندے نے احتجاج کیا کہ نہیں بلکہ یہ اس کے ملک نے دوسرے عرب ممالک کے وزرائ خارجہ سے ایسا کرنے کا مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس کانفرنس کا نام القدس کانفرنس رکھ دیں....پس عربوں کا سکور برابر رہا، چاہے وہ میانہ رو ہوں یا نہیں۔ بلاشبہ امریکیوں نے اردگان کیلئے اس خطے میں بے باکی اور جوشیلی تقاریر کرنے کا کردار چن رکھا ہے، جس کی بدولت اس نے القدس اور اس کے تقدس کے بارے میں وہ باتیں کی ہیں جو عرب بھی نہیں کر سکے۔اور اگر اشکینازی، جو یہودی فوج کا سربراہ ہے، ابھی کل ہی اردگان کی پیشکش پر ترقی میں ایک ملٹری کانفرنس میں شامل نہ ہوا ہوتا تو لوگوں نے اس کی دھواں دار تقریر کو یہودی ریاست کے خلاف اعلانِ جنگ سمجھ لینا تھا

 

اے لوگو ! ان حکمرانوں کے دماغ ہیں لیکن یہ سوچتے نہیں، ان کے کان ہیں لیکن یہ سنتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں لیکن یہ دیکھتے نہیں؛ یہ اندھے ہیں، آنکھوں سے نہیں بلکہ یہ دلوں سے اندھے ہیں جو ان کے سینوں میں ہیں! کیا القدس کو ایک ایسا کمشنر آزاد کروا سکتا ہے جس کے پاس خود کوئی اختیار نہیں؟ کیا اقوامِ متحدہ کو اسے آزاد کروانے کا کہنے سے یہ آزاد ہو سکتا ہے جس نے خوداس یہودی ریاست کو فلسطین مین قائم کیا؟اور کیا اسے عالمی عدالت کے ذریعے آزاد کروایا جا سکتا ہے جو نہ تو بھلائی کو حکم دیتی ہے اور نہ ہی منکر کو روکتی ہے؟کیا القدس کی شان میں یہ گرما گر م تقاریر اسے آزاد کروا سکتی ہیں جبکہ ان کا مقرر اپنے ملک میں یہودی سفارت خانے کا افتتاح کر رہا ہو اور القدس کے قاتلوں کی میزبانی کر رہا ہو؟

 

اے لوگو ! تمہارے درمیان وہ لوگ موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر یہ حکمران مقبوضہ فلسطین سے ناطہ توڑ بھی لیں تو بھی وہ الاقصیٰ اور القدس کو نہیں چھوڑیں گے ، اپنے تقوے کی وجہ سے نہ بھی ہو تو کم از کم شرم کی وجہ سے ہی......لیکن یہ القدس ہے جو نہ صرف ہر طرف سے ڈسا جا رہا ہے بلکہ اس کے دل پر بھی وار ہو رہا ہے، اس کے گنبد پر ، اس کی مسجد پر ، یہودی اس میں ہر طرف سے داخل ہو چکے ہیں، انہوں نے اس کے نیچے سے زمین کھود ڈالی ہے اور اس کے تقدس کو پامال کر دیا ہے۔انہوں نے اس کے آگے اورپیچھے آبادیاں بنا لی ہیں ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ انہوںنے کانفرنس کے افتتاح کی رات غزہ کے اوپر جارہانہ حملہ کیا اورارعلان کیا کہ انکی نئی آبادکاری کی پالیسی کسی تبدیلی کے بغیر جاری رہے گی، اور یہ حکمران اپنی ملاقاتوں، مارکبادوں ، کھانوں اور قہقہوں کے دوران چپ سادھے یہ سب دیکھتے اور سنتے رہے۔

 

ا ے مسلمانو! بے شک القدس کو صرف ایک ایسا حکمران ہی آزاد کروا سکتا ہے جو اپنے خالق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ مخلص ہو اور اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ سچا ہو، جو مسلم افواج کی کما ن سنبھالے گا اور تمام اہل لوگوں کو اس میں جمع کرے گا.......اسے ایک مضبوط اور متقی حکمران ہی آزاد کروا سکتا ہے جس میں عمرالفاروق (رض) جیسی خوبیاں ہوںجس نے القدس کو ہجرت کے پندرہویں سال میں آزاد کروایا تھا، وہ ایک ایسا حکمران ہو گا جوعمر الفاروق کے قول کو پورا کرے جس نے کہا تھا کہ القدس میں کوئی یہودی آباد نہیں ہو سکے گا۔ایسے حکمران میں صلاح الدین کی خوبیاں ہو ں گی جس نے القدس کو 583ھ میںصلیبیوں کی غلاظت سے پاک کیا تھا اور وہ قاضی محی الدین جیسا ہو گا جس نے القدس کی آزادی کے بعد پہلے جُمع کے خطبے میں اس اٰیت کی تلاوت کی تھی:


﴿فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
پھر ان ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور اللہ ہی کیلئے سب تعریف ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ ﴿الانعام۔45:6﴾

 

ایسا حکمران سلطان عبدالحمید دوئم کی خصوصیات کا حامل ہو گا جس نے القدس کی حفاظت کی اور ہرٹزل اور اس کے ہواریوں کو 1901میںفلسطین کی زمین دینے سے انکار کر دیا، حالانکہ وہ اسکیلئے حکومت کے خزانے کو ایک خطیر رقم بھی دینے کو تیار تھے۔اس نے کہا تھا، ''فلسطین میری ملکیت نہیں ، بلکہ یہ اس کی ملکیت ان لوگوں کو پاس ہے جنہوں نے اسکیلئے اپنا خون دیا ہے۔ یہودی اپنے اربوں روپے اپنے پاس رکھیں، مجھے اپنے جسم سے ایک خنجر کو آر پار کرنا زیادہ آسان ہے بجائے اس کے کہ میں فلسطین کو اپنی ریاست سے الگ ہوتا دیکھوں۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔‘‘

 

ان یہودیوں کے شکنجے سے القدس مسلم افواج ہی آزاد کروائیں گی جب وہ ان پر وہاں سے حملہ کریں گی جہاں سے یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے اور ان پر ایک ایسا حملہ کریں گی کہ یہ شیطان کی سب سر گوشیاں بھول جائیں گے اور مسلم افواج کے لشکر دونوں میں سے ایک رحمت کی طرف دوڑیں گے: فتح یا شہادت، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا کہ:

 

﴿فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾
اور اگر تم ان پر جنگ میں غلبہ پا لو تو انہیں ایسی سخت سزا دو کہ ان کے پچھلے دیکھ کر بھاگ جائیں ، تاکہ انہیں عبرت ہو۔ ﴿الانفال۔57:8﴾

 

﴿واخرجوھم من حیث اخرجوکم﴾....
اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے.... ﴿البقرہ۔191:2﴾

اے مسلمانو !یہ ایسے ہو گا۔

اے مسلم افواج کے جوانو!

اس سے اعتراض کرنے والوں کے پاس کوئی چارہ نہیں ،اور اس عذر کی کوئی گنجائش نہیں، تو ایسا نہ کہو کہ یہ حکمران تمہیں روک رہے ہیں ، بلکہ طاقت تو تمہارے ہاتھوں میں ہے، دراصل یہ تم ہو جو انہیں تحفظ دیتے ہو ان کی گردنوں کے پھندے تو تمہارے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر تم ان کے اطاعت کرو گے تو تم گناہگار اور حد سے گزرنے والے ہو جائو گے اور رسول اللہﷺ کے حوص کوثر پر نہیں جا پائو گے۔ اور اگر تم نے ان کے جرم میں ان کی معاونت نہ کی اور ان کے جھوٹ کا اعتبار نہ کیا تو رسول اللہ ﷺ تم میں ہوں گے اور تم حوص کوثر تک پہنچ جائو گے، اور اچھائی کا صلہ تو صرف اچھائی ہے۔ ترمزی میں کعب ابن عجرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

اعذک باللہ یا کعب بن عجرہ من امرائ یکونون من بعدی فمن غشی ابوابھم فصدقھم فی کذ بھم و أعائھم علی ظلمھم فلیس منی ولست منہ ولا یرد علی الحوض ومن غشی ابوابھم فلم یصدقھم فی کذبھم ولم یعنھم علی ظلمھم فھو منی و انا منہ و سیرد علی الحوض
'' میں تمہارے لئے بیوقوف کی حکمرانی کی اللہ سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ پوچھا کہ وہ کون ہوں گے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، ''میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جن کے جھوٹ پر یقین کیا جائے گا اور ان کے فرمانبردار ان کے جبر میں ان کی مدد کریں گے۔ وہ مجھ سے نہیں اور میں ان میں سے نہیںاور وہ کبھی حوص کوثر پر میرے پاس نہ آ سکیں گے۔ لیکن جنہوں نے ان کی فرمانبرداری نہ کی ، اور ان کے جھوٹ پر یقین نہ کیا اور نہ ہی ان کے جبر میں ان کی مدد کی وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں اور وہ حوص کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔‘‘

 

اے مسلم افواج کے جوانو!

خلافت کے قیام میںحزب التحریر تمہاری مدد کر رہی ہے تو تم بھی اس کی مدد کرو اور یہودیوں سے جہاد کیلئے وہ تمہیں پکار رہی ہے تو اس کی پکار پر اٹھ کھڑ ے ہو، یہود سے لڑنا تو مقرر ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ قراٰن میں فرماتے ہیں:

 

﴿فاذا جائ وعد الاخرۃ لیسو عوا وجوحکم ولید خلو ا المسجد کما دخلوہ اول مرۃ ولیثبروا ما علو تثبیرا عسی ربکم ان یر حمکم و ان عدتم عد تا وجعلنا جھنم للکافرین حصیرا﴾
مسلم میں ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

لتُقا تِلُنَّ ال،یَھُودَ فَلَتَق،تُلُنَّھُم، حَتَّی یَقُولَ ال،حَجَرُ یَا مُس،لِمُ ھَذا یَھُودِیَّ فتَعَالَ فَاق،تُل،ہُ
''اور تم ضرور یہود سے جہاد کرو گے حتیٰ کہ پتھر کہے گا: اے مسلمان، یہا ں ایک یہودی ہے آئو اور اسے قتل کر دو‘‘

 

کیا تم میں کوئی عقلمند آدمی ہے جو اپنے جوانوں کے ساتھ اٹھے اور اپنے راستے میں رکاوٹ بننے والے سب حکمرانوں کو روندھتا ہوااسلام کے حکم کو نافذ کرے، یعنی رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر خلافت، اور یوںالاقصیٰ کو آزاد کروائے اور پھراسے یہودیوں کے ناپاک ہاتھوں سے آزاد کروانے کے بعد اپنے پہلے خطبے میںوہ کہے جو قاضی محی الدین نے کہا تھا:

 

﴿فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾
پھر ان ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور اللہ ہی کیلئے سب تعریف ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ ﴿الانعام۔45:6﴾

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کا ذکراپنے ساتھ والوں سے کریں گے، اور جنتوں میں اس کے ساتھ اللہ کے ملائکہ ہوں گے اوردنیا میں اس کے ساتھ مو منین ہوں گے، اس سے اس دنیا میں بھی محبت کی جائے گی اور آخرت میں بھی، اور بے شک یہی اصل کامیابی ہے۔

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴾
''اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی آواز پر لبیک کہو جس وقت وہ تمہیں اس کا م کی طرف بلائیں جس میں تمہارے لئے زندگی ہے اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے اور بیشک اسی کی طرف تم سب جمع کئے جائو گے۔ ﴿الانفال8 :24﴾

Read more...

لندن کانفرنس - امریکہ اور برطانیہ سرزمینِ یمن پر اپنا اثرورسوخ مضبوط کرنے کیلئے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں

 

برطانوی وزیر اعظم نے یکم جنوری 2010کو یمن کی صورتحال پر غور کرنے اور جنم لینے والے بحران سے نکلنے میں یمن کی مدد کے نام پر لندن میں کانفرنس طلب کی۔ جو آج یعنی 27جنوری 2010ئ کو منعقد ہوئی ،جس میں 21ممالک نے شرکت کی اور یہ کانفرنس دو گھنٹے جاری رہی۔ اس کانفرنس میں القائدہ کے خلاف جنگ میں یمن کی مدد اور اسکے ساتھ ساتھ ترقیاتی معاونت، اقتصادی اور سیاسی اصلاحات کے نفاذ میں مدد اور IMFکیساتھ مذاکرات اورجامع مفاد کے حصول میں مدد کے متعلق قرارداد یں اور میڈیا بیانات جاری کیے گئے۔

 

یمن میں حالیہ واقعات اور موجودہ حالات پر نظر رکھنے والا شخص اس بات کو محسوس کرسکتاہے کہ ان قراردادوں کی ظاہری مک دمک نے درپردہ طے پانے والی حقیقی اور موثر قراردادوں کو چھپا دیا ہے۔ اور وہ یہ بھی دیکھ سکتا ہے کہ امریکہ و برطانیہ کویمن پر وسیع اختیار حاصل ہیں اور اس کانفرنس کے انعقاد کے پسِ پردہ ان کے اپنے مفادات اور ایجنڈا ہے اور وہ اس کانفرنس سے مخصوص نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

 

یمن میں برطانوی اثررسوخ کے قیام سے لے کر آج تک ، خصوصاً موجودہ حکومت کے دور میں ، امریکہ یمن میں حالات کو غیر مستحکم کرنے اور اپنے دیرینہ نقطہ نظر کو نئی شکل میں مسلط کرنے کیلئے کئی کوششیں کر چکا ہے ۔ امریکہ اپنے آپ کو دم توڑتی برطانوی سلطنت کا فطری جانشین سمجھتا ہے اور اس بات کو اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ پرانی اور کمزور برطانوی سلطنت کی سابقہ کالونیوں پر اپنی مرضی چلائے۔ پس وہ برطانیہ کے بجائے اپنے آپ کو یمن کا حقیقی مالک سمجھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ برطانیہ کے ساتھ وفاداری کے باوجودیمن کی موجودہ حکومت بڑی حد تک یا مکمل طور پرامریکہ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے اور امریکہ کی وفادار ہے، پس امریکہ جسے قتل کرانا چاہتا ہے یہ حکومت اسے قتل کرتی ہے ،اور امریکہ جسے گرفتار کرانا چاہتا ہے یہ اسے ہتھکڑیاں لگا دیتی ہے،امریکہ جسے ملک بدر کرنا چاہے یہ اسے ملک بدر کردیتی ہے اور امریکہ جسے غائب کرانے کی خواہش ظاہر کرے ،یہ اسے غائب کردیتی ہے...تاہم یمن میں امریکہ کے پاس کوئی ایسا قدآور سیاست دان نہیں ہے جسے امریکہ کندھا دے کر مسندِاقتدارتک پہنچا سکے اوربرطانوی اثر رسوخ کو لگام دے کر یمن میں اپنے اثرورسوخ کو مضبوط بنیادیں فراہم کر سکے ۔ چنانچہ امریکہ نے دو کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے:

 

یمن کی حکومت کو دھمکانے کے لیے تھریٹ بٹالین(Threat Battalions) اور امریکہ نواز درمیانے درجے کی سیاسی قیادت کی تربیت(Training Battalions)۔

 

جہاں تک تھریٹ بٹالین(Threat Battalions) کا تعلق ہے توایران کویہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ حوثیوں (Houthis)کو مدد فراہم کرے۔ پس یہ صورتِ حال ایک ٹِک ٹِک کرتے ٹائم بم کی شکل اختیار کر چکی ہے جو کہ ضرورت پڑنے پر سعودی عرب کے قریب شمالی یمن میں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے...ہم نے حوثیوں(Houthis) کو'تھریٹ بٹالین‘ قرار دیاہے کیونکہ یہ یمن کے اقتدار پر قابض ہونے کیلئے کام نہیں کررہے بلکہ یہ علاقے میں اپنی پوزیشن کو مستحکم بنانے کے لیے کا م کر رہے ہیں۔

 

جہاں تک ٹر یننگ بٹالین(Training Battalions) یا امریکہ نوازمِڈ لیول سیاستدانوں کا تعلق ہے تو یہ جنوبی یمن میں ایک مسلسل تحریک ہے ،تاکہ امریکی ایجنڈے کے پہلے قدم کے طور پر جنوبی یمن کو شمالی یمن سے علیحدہ کیا جائے، اور پھر پورے یمن پر امریکی اثررسوخ کو مستحکم کیا جائے۔ ہم نے انہیں ٹر یننگ بٹالین(Training Battalions) کا نام اس لئے دیا ہے کہ ان درمیانے درجے کے سیاست دانوںکو ان کی ٹاپ لیڈرشپ کے خاتمے کے بعد پروان چڑھایا جا رہا ہے اور انہیںاشتعال و عدم استحکام پیدا کرنے کی تربیت دی جارہی ہے۔

 

امریکہ ان دونوں کاموں میں کامیاب رہا ہے کیونکہ اس نے جنو ب میں حکومت کے ظلم سے فائدہ اٹھایا اور سیاسی لحاظ سے حکومت کو کارنر کیا۔ اور پھر حوثیوں کو انکی تشریح اور اسلامی افکار کی تبنی کے مطابق احکامِ شریعہ پر عمل کرنے سے روکا گیا۔ اسی مقصد کے تحت حکمرانوں نے یمن میں احسن طریقے سے شرعی احکامات کو نافذ نہ کرنے میں رضامندی اور تعاون کا رستہ اپنایا۔ یمنی حکومت نے نرم اور قابل قبول فضا بنانے میں امریکہ کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں امریکہ شمال میں تھریٹ بٹالین اور جنوب میں ٹر یننگ بٹالین کو پھیلانے کے قابل ہوا۔ تاہم یہ صورتِحال حکومت کی گردن پر اس حد تک سوار ہو گئی کہ برطانیہ اس امر پر مجبور ہو گیا کہ وہ دو محاذوں پر 'ہنگامی‘ اقدامات کرے۔

 

اول : ایک امن معاہدہ کے ذریعہ امریکہ کو خوش کرنا اور حکومت کیلئے اسکی خاموش حمایت حاصل کرنا۔ 10اور 11نومبر 2009 کو صنعائ میں عسکری اور دفاعی قیادت کے مذاکرات کے بعد یمن اور امریکہ ایک امن اور دفاعی ﴿عسکری﴾ معاہدے پر پہنچ گئے۔ یہ معاہدہ عسکری اور دفاعی معاملات میں تعاون اور دونوں میدانوں میں معلومات اور مہارت کے تبادلے کی بات کرتا ہے۔ اس معاہدہ کا اعلان یمن کی افواج کے چیف آف سٹاف بریگیڈیئر جنرل احمد علی اوریوایس جوائنٹ کمانڈکے پلاننگ کے ڈائریکٹر جیفری سمتھ کے درمیان گفت وشنیدکے بعد کیا گیا۔

 

دوم: القائدہ کی روک تھام کرنا اور اس سے لڑنا! حکومت کافی عرصہ سے القائدہ کے لوگوں کو جانتی تھی لیکن وہ انکی موجودگی کے متعلق خاموش رہی، کیونکہ حکومت حوثیوں اور جنوبیوں کے ساتھ لڑائی ک ساتھ ساتھ ایک تیسرا محاذ کھول کر اپنی مشکلات بڑھانا نہیں چاہتی تھی ۔ حکومت القائدہ کے بارے میں اس وقت تک خاموش رہی جب تک برطانیہ نے اسکے دوسرے پہلو پر نہیں سوچا ۔ برطانیہ جانتا ہے کہ امریکہ القائدہ کے بارے میں حساس ہے اور اگر یمن کی حکومت القائدہ سے لڑے گی تو امریکہ یمن کی مدد کرنے پر مجبور ہوجائیگا اور شمال اور جنوب سے پڑنے والا دبائو کم ہوجائے گا۔ پس حکومت نے القا ئدہ کے ٹھکانوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا ،جنہیں وہ پہلے سے جانتی تھی۔ القائدہ پر یہ حملہ اتفاقی نہیں تھا بلکہ یہ ایک غیر معمولی حملہ تھا۔ یمن کی حکومت شمال ﴿حوثیوں﴾اور جنوب میں دو محاذوں پر لڑرہی تھی، ایک تیسرا محاذ کھولنا غیر معمولی امر تھا جو کہ ایک سیاسی اقدام تھا ، جبکہ اس کا اظہار عسکری تھا۔ یہ قدم خالصتاً برطانوی ایما ئ اور ایجنڈے کے مطابق تھا۔

 

اس نازک موڑ پر برطانوی وزیراعظم نے لندن کانفرنس بلائی تاکہ القا ئدہ پر حملہ کرنے اور اس سے لڑنے کیلئے یمن کے حق میں بین الاقوامی حمایت اور مدد حاصل کی جائے۔ اور اس طرح امریکہ کو یمن کی حکومت کی مدد کرنے اور شمال اور جنوب سے دبائو کم کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ امریکہ کے پاس کانفرنس کی حمایت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن ساتھ ہی امریکہ اپنے اثرورسوخ کو قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنے سیاسی اتحادیوں کو خصوصاً جنوب میں مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ اور حوثیوں کیلئے ایک ایسے حل کا متمنی ہے کہ امریکہ ان سے دور بھی ہوجائے اور ان سے قطع تعلق بھی نہ ہو ،تاکہ یہ تحریک چلتی رہے اور ضرورت پڑنے پر اسکو بڑھاکر ﴿ہوا دیکر﴾ اسکا فائدہ بھی اٹھایا جاسکے۔

 

کانفرنس کے دوران کیا ہوا: امریکہ اس بات پر زور دیتا رہا کہ القائدہ کے خلاف لڑنے میں یمن کی عسکری مدد کی جائے اور اسے لاجسٹک امداد دی جائے اور جنوبی اور شمالی علاقوں میں تحریکوں کیساتھ مذاکرات کرنے کیلئے یمن کے اوپر دبائو ڈالا جائے، جبکہ برطانیہ اس بات پر زور دے رہا تھا کہ شمالی اور جنوبی تحریکوں کا مقابلہ کرنے کیلئے یمن کی اقتصادی معاونت کی جائے اور اس کیلئے عالمی حمایت حاصل کی جائے۔ اور حوثیوں اور جنوبیوں کے خلاف مدد کے طور پر القائدہ کی نگرانی کی جائے۔ لہٰذا یہ کانفرنس مختلف ممالک کے نمائندوں کا دو گھنٹوں کیلئے کیمروں کے سامنے کھل کر مسکرانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا۔ اور پھر برطانیہ اور امریکہ نے شرکائ میں سے اپنے اپنے حواری ممالک کو اپنے گرد اکٹھا کیا تاکہ یمن کے لوگوں کے خون کے بدلے اپنے اپنے ایجنڈے کو پورا کرسکیں!۔

 

اے مسلمانو!

 

آخر کب تک مسلمانوں کے علاقے بڑی متحارب اقوام کی آپس کی لڑائی کا میدانِ جنگ بنے رہیں گے اور یہاں کے بیٹوں کو اپنی جنگوں کیلئے ایندھن کے طور پراستعمال کرتے رہیں گے اور اپنے مفاد کی جنگوںکا لقمہ بناتے رہیں گے؟ آخر کب تک مسلمانوں کی زمینیں مغرب کیلئے کھیل کا میدان بنی رہیں گی ،کہ وہ انکی دولت لُوٹے اور مسلمانوں کا خون بہائے؟ آخر کب تک مسلمانوں کی زمینوں پر مغرب کی آگ اس کی مرضی اور خواہش کے مطابق بھڑکائی جاتی رہے گی؟ آخر کب تک یمن اور دیگر مسلمان ممالک کے حکمران بغیر کسی شرمندگی ،رکاوٹ اور مزاحمت کے ،شطرنج کے مہروں اور کٹھ پتلیوں کی طرح استعماری مغرب کے اشاروں پر ناچتے رہیں گے۔ کیا یمن کے عوام پر اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ اس بات کا ادراک کرلیں کہ یہ یمن کی حکومت اور اسکا ظلم ہی ہے جس نے مغرب کو یمن میں اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے ،یہاں کے لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے اموال کو تباہ و بربادکرنے کے قابل بنایا ہے۔ اس کے باوجود حکمرانوں کو اپنی حکومت اور اپنا عہدہ بچانے کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہیں ،خواہ یہ طاقت اور اقتدار کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، اس حد تک کہ ان کی حکومت مفلوج ہوکر کسی بھی وقت گر سکتی ہے ۔

 

پچھلے دس سالوں میں اس جنگ کے دوران ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ یا تو قتل کردیے گئے یا معذور ہوچکے ہیںاور دونوں اطراف اس تباہی کا نشانہ مسلمان ہی ہیں،دونوں طرف کے لوگ اللہ کی معبودیت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں ۔ کیا آپ اس بات کا ادراک نہیں کرتے کہ کسی مسلمان سے لڑنا انتہائی سنگین اور عظیم گناہ ہے اور ایک مسلمان کا ناجائز قتل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک بہت شدید امر ہے ،یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے گرانے سے بھی زیادہ شدید۔ ابن ماجہ نے عبیداللہ بن عمرو سے روایت کیا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

«مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا»
''کتنا طیب ہے تو اور کتنی طیب تیری ہواہے ، کتنا عظیم ہے تو اور کتنی عظیم تیری حرمت ہے۔ لیکن اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اللہ کی نظر میں ایک مومن ، اس کے خون اور اس کے مال کی حرمت تجھ سے بڑھ کر ہے ۔ اورہم اس کے متعلق خیر کے سوا اور کچھ گمان نہیں کرتے‘‘

 

ا بے شک برطانیہ اور امریکہ آپس کی جنگ لڑرہے ہیں اور یمنی حکومت کے تعاون اورلاجسٹک سپورٹ سے یہاں کے مقامی عناصر کو استعمال کررہے ہیں جبکہ جنوب میں علیحدگی پسند اور شمال میں حوثی نادانی میں دشمنوں کے ایجنڈے کو ہی مضبوط کر رہے ہیں،جبکہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ بھلائی کاکام کررہے ہیں۔

 

اے مسلمانو! ہمارامسئلہ دو ہراہے:

 

اول: مسلم ممالک کے حکمران نہ اپنے عوام کے امور کی دیکھ بھال کرتے نہ ہی وہ اپنے لوگوں کی پرواہ کرتے ہیں ۔ وہ نہ تواپنے لوگوں اور نہ ہی اپنے علاقوں پر ظلم ڈھانے پر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ اگر وہ سوچتے تو جان لیتے کہ اپنے لوگوں سے غداری کرنے والا اور انکے امور کی دیکھ بھال نہ کرنے والا حکمران جنت میں داخل نہیں ہوگا ، حتیٰ کہ وہ اسکی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔ بخاری نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

«مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ»
''کوئی بھی والی اس حال میں مرے کہ اس نے اپنے لوگوں سے غداری کی ہو، تواللہ اس پر جنت کو حرام کر یتا ہے‘‘۔ ﴿بخاری﴾

 

اور ایسا کوئی حکمران جو اپنے لوگوں کو دھوکہ دے اور ان سے غداری کرے ، اوران کے سامنے حق کو باطل اور باطل کو حق بنا کر دکھائے ،وہ اس چرواہے کی مانند ہے جو اپنے ہی ریوڑ کو موت اور تباہی کے دہانے پر پہنچا دے۔ امام احمد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نقل کی ہے:

 

«إِنَّهَا سَتَأْتِي عَلَى النَّاسِ سِنُونَ خَدَّاعَةٌ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيلَ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ قَالَ السَّفِيهُ يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ»
''لوگوں پر دھوکہ دہی کا ایک ایسا دور آئے گا کہ لوگ سچے کو جھٹلائیں گے اورجھوٹے کا یقین کریں گے ، امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور خائن کو امانت دار سمجھا جائے گا،اور اس وقت رویبضۃ کا بول بلا ہو گا۔ پوچھا گیا کہ رویبضۃ کون ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھٹیا اور قابلِ نفرت شخص جو لوگوں کے امور میں کلام کرے گا‘‘۔

 

ہمارا دوسرا مسئلہ جابر حکمرانوں کے سامنے امت کی خاموشی اور انکے خلاف آواز نہ اٹھانا اور انہیں نہ روکنا ہے۔ ایسا اس امر کے باوجود ہے کہ ان حکمرانوں نے امت پر ذلت مسلط کررکھی ہے ۔ ہم فلسطین ،کشمیر ،قبرص اور مشرقی تیمور کھو چکے ہیں،سوڈان علیحدگی کے دہانے پر ہے، عراق،افغانستان،پاکستان اور اب یمن مغرب کی آپس کی لڑائی کیلئے میدانِ جنگ بنے ہوئے ہیں، جبکہ ہمارے حکمران انکے آلہ کار ہیں ،اورمتحارب مغرب کے اتحادی ہیں۔ پس اس میں کوئی تعجب نہیں کہ عذاب نہ صرف حکمرانوں بلکہ عوام پربھی مسلط ہو، جنہوں نے خاموش رہ کر ظلم کو قبول کر لیاہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

﴿وَاتَّقُواْ فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب﴾
''اور اُس فتنہ سے ڈرو جو تم میں سے صرف ظالموں پر ہی نہ پڑے گا اور جان لو کہ بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘﴿الأنفال:25﴾
احمد اور ابو داؤد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے:

 

«إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَهُمْ فَلَمْ يُنْكِرُوهُ يُوشِكُ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابِهِ»
'' جب لوگ اپنے درمیان برائی ہوتادیکھیں اور اُسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ اُن سب پر اپنا عذاب نازل کر دے‘‘

 

اے مسلمانو!

 

تاہم صبح اب قریب ہے اور نظر رکھنے والے اسکی روشنی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف اسی طرح ٹھیک ہوگا جیسے اسلام کے پہلے دور میں ہواتھا، یعنی نبوت کے قدموں پر چلتے ہوئے خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکومت کرے گی ا ور اللہ کی راہ میں جہاد کرے گی۔ جس میں مسلمانوں کاحکمران خلیفۂ راشد ہوگا جو کہ ایک ڈھال کی مانند مسلمانوں کی حفاظت کرے گا اور مسلمان اس کی قیادت میں لڑیں گے۔ یہی ہے وہ ڈھال جو اپنے لوگوں کی حفاظت کرتی ہے اور انہیں عمدہ نصیحت کرتی ہے۔ پھر امریکہ ، برطانیہ اور انکی طرح کے دیگراستعماری کفارکوہم پر اور ہماری زمینوں پر حملہ آور ہونے اوراثر و رسوخ قائم کرنے کیلئے نہ تو وقت ہوگا اور نہ ہی موقع ، کیونکہ وہ اپنے علاقوں اور ممالک کو بچانے کے لیے واپس بھاگیں گے۔ لیکن وہ اسلام کے نور سے ''بھاگ‘‘ نہیں سکیں گے، کیونکہ اسلام کی روشنی پھیل کر انکے گھروں کی دہلیز پرپہنچ جائے گی۔

 

﴿وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی أَمْرِہٰ وَلَ کِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ﴾

''اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘﴿یوسف: 21﴾

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک