امریکی وزارتِ خارجہ کے ہیڈ کوارٹر سے دی جانے والی اوبامہ کی تقریر میں موجود مکر وفریب، امریکی سیاست کے جھوٹے پن کو بے نقاب کرتاہے
- Published in حزب التحریر
- Written by Super User
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- الموافق
گزشتہ رات اوبامہ نے امریکی وزارتِ خارجہ کے ہیڈکوارٹر میں مشرقِ وسطیٰ کے عوام سے خطاب کیا۔ یہ خطاب دھوکہ دہی سے بھرا ہوا تھا، جس میں یہ جھوٹ بھی شامل تھا کہ امریکہ خطے میں ڈکٹیٹروںاور ظالم حکمرانوں کے خلاف برپا کئے جانے والے انقلابات میں عوام کی حمایت کرتاہے۔ مزید برآں یہ کہ امریکہ اِن انقلابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نئی حکومتوں کے ساتھ بعض قرضوں کی معافی اور ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ سے آسان قرضوں کے اجرائ کے ذریعے تعاون کرے گا۔ اِس ساری گفتگو میںمصر ہی موضوعِ سخن رہا۔ جبکہ اپنی گفتگو کے آخر میں اوبامہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ امریکہ فلسطین کے دوریاستی حل کی حمایت جاری رکھے گا، یعنی ایک پُرامن اور خوشحال یہودی ریاست کہ جس کی سلامتی کی گارنٹی امریکہ خوددے گااور دوسری غیر مسلح اور اپاہج ریاست اہلِ فلسطین کے لیے۔ جبکہ اوبامہ یہ بھول گیا کہ فلسطین ،نہر سے لے کر بحر تک، اسلامی سرزمین ہے جو اللہ کے اذن سے اسلام کے دشمنوں کو روندھتے ہوئے اپنی اصل حالت کی طرف جلد لوٹنے والی ہے۔
جو کوئی بھی اوبامہ کی تقریر کا بغور جائزہ لے تو وہ یہ جان جائے گا کہ اوبامہ حقائق کو بالکل مسخ کررہا ہے۔ ہر صاحبِ بصیرت دیکھ اور جان سکتا ہے کہ اسلامی ممالک کے ظالم حکمران مغرب بالخصوص امریکہ کے لے پالک ہیں۔ کیا کوئی امریکہ اور حسنی مبارک کے درمیان گہرے تعلقات کا انکار کرسکتاہے کہ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ امریکیوں سے بڑھ کر امریکی ہے۔ اسی طرح کیا کوئی ایسا ہے جو مصر کے التحریر اسکوائر میں لاکھوں عوام کے پر ہجوم اجتماع کے وقت امریکہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات کے دوغلے پن کو نہ دیکھ سکا ہو؟ امریکہ حسنی مبارک کی طرف سے اپنے عوام پر ظلم کرنے ، سینکڑوں کی تعداد میں انہیں قتل اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی کرنے اور اُن کے گھروں پر چھاپے مارنے کے عمل کو دیکھ اور سن رہا تھا۔ تاہم اِس کے باوجود امریکہ حسنی مبارک کے مؤقف کا ساتھ دیتا رہا اور اُس کے خلاف کوئی احتجاج نہ کیا اورنہ ہی اُس کے خلاف کوئی آواز اٹھائی بلکہ اسے ہر قدم پرنصیحتیں دیتا رہا جس میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ التحریر سکوائر پر سرسری طور پر حاضری دے۔ اور جب امریکہ کو یقین ہوگیا کہ مبارک اب مزید لوگوں کو قتل نہیں کرسکے گا اور انقلاب کے نعرے کے ساتھ نکلنے والے لوگ دھوکے باز حسنی مبارک کے خوف سے بے نیاز ہوکراب اِس کی گردن کو دبوچنے ہی والے ہیں،تو امریکہ نے اپنے لہجے اور مؤقف کو یکسر تبدیل کرلیا۔ اُس نے مبارک کو سڑک کنارے پھینک دیا اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نئے اور پرانے ساتھیوں میں سے نئے ایجنٹ کی تلاش شروع کردی، تاکہ حسنی مبارک کے خلا کو پُر کیا جائے۔
اور آج شام میں امریکہ وہی طرزِعمل ایک بار پھر دُہرا رہا ہے۔ شامی حکومت کے ساتھ امریکہ کا نرم رویہ نہ صرف امریکی سیاست دانوں کے درمیان بلکہ دنیا بھر میں نہایت واضح ہے۔ کیونکہ پورے دو مہینے تک شام کی حکومت کی طرف سے اپنے ہی لوگوں کے قتل ،خونریزی ،اُنہیں زخمی کرنے ،اُن کی ہڈی پسلی ایک کرنے اورمکانات اور مساجد مسمار کرنے کے باوجود امریکہ شامی حکومت سے چشم پوشی کرتا رہا۔ لیکن جب لوگوں کے احتجاج نے شدت اختیار کرلی اور اُن کی طرف سے نظام کو بدلنے کی منصوبہ بندی ہونے لگی تو امریکہ نے نہایت بے شرمی سے یہ بیان جاری کردیا کہ شام کا حکمران بشارالاسد یا تو سیاسی تبدیلی کی قیادت کرے یا پھر ملک چھوڑ دے! یعنی اِس نظام کے ظلم اور قتل وغارت گری کے خلاف لوگوں کے انقلاب کے باوجود امریکہ شام کو دوبارہ اس قتل وغارت گری کے ذمہ دار کو ہی سونپ دینا چاہتا ہے۔ چنانچہ امریکہ بشارالاسد کے ساتھ وہی کرے گا جو وہ حسنی مبارک کے ساتھ کرچکا ہے، یعنی پہلے توامریکہ بشارالاسد کو موقع دے گا کہ وہ لوگوں کے قتل اور گرفتاریوں کے ذریعے اُن پر قابو پالے اور جب اُسے نظر آئے گا کہ یہ ظالم حکمران مزید قتل وخونریزی نہیں کرپائے گا یا پھریہ حکمران انقلابیوں کے ہاتھوں ختم ہونے کے قریب ہے، تب امریکہ انہی انقلابیوں کی چاپلوسی پر مبنی بیانات دے گا اور شام کے ڈکٹیٹر کے ساتھ تعاون سے اپناہاتھ کھینچ لے گا۔
امریکہ کفر اور استعمار کا سرغنہ ہے اور اوبامہ کی دھوکے بازی امریکہ کے امیج کو بہتر نہیں کر پائے گی، اس مقولے کے مطابق کہ عطر فروش عمر میں اضافے کے اثرات کو زائل نہیں کر سکتا۔ امریکہ صرف اپنے مادی مفادات پر نظر رکھتا ہے،خواہ مفاد کا یہ حصول دوسروں کی کھوپڑیوں اور لاشوں کے بدلے ہو۔ پس امریکہ لوگوں کا استحصال کرنے اور مسلمانوں کے علاقوں کو کالونی بنانے میں یورپی یونین کے ساتھ رسہ کشی کررہا ہے ، جیسا کہ لیبیا، یمن ، بحرین اور ہمارے دیگر حساس علاقوں میں ہورہا ہے۔ یہ مغربی ممالک مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بغض رکھتے ہیں۔ اور ان کی وہ اقدارکہ اوبامہ جن کے گُن گاتا پھرتا ہے، وہ حسد ہے جس کامظاہرہ ہم مغرب اور خصوصاً امریکہ کی طرف سے عراق، افغانستان اور گوانتاناموبے میں دیکھ چکے ہیں۔ امریکہ کی اقدار یہ ہیں کہ پاکستان کے مسلمانوں پر اپنے ڈرون طیاروں سے مسلسل بمباری کی جائے، غیر مسلح شخص کو میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ اس کے گھر میں بزدلانہ حملے کے ذریعے شہید کیا جائے ، عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے قرضوں اور بے فائدہ امدادی پروگراموں اورسودی جال کے ذریعے ممالک کی معیشت پر تسلط جمایا جائے۔ جس کی بدولت اب ہمارے وسائل سے مالامال ممالک کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ کمر توڑ سود اور بھاری قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہے ہیں۔ امریکہ کی اقدار یہ ہیں کہ غاصب یہودیوں کی پشت پناہی کی جائے کہ وہ فلسطین اور ہمارے لوگوں کے خلاف شب وروز وحشیانہ مظالم سرانجام دیں ۔ یہ ہیں امریکہ کی اقدار ،بلکہ یہ اس کی نمایاں ترین اقدارہیں۔
اے مسلمانو!
اگر اوبامہ کی تقریر کا اُس کی پہلی تقریروں کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو اِس میں نیا کچھ نہیں۔ اس کی نئی بات دراصل پرانی ہی ہے۔ وہ یہ سب کچھ پہلے ہی کہہ چکا ہے ، خصوصاً دو سال قبل قاہرہ میں اپنی تقریر کے دوران۔ اس میں اگر کوئی نئی بات ہے تو وہ یہ کہ اس نے یہودی ریاست کی حمایت اور سلامتی کی ضمانت کے طور پر اپنی آواز کو پہلے سے اور بلند کیا ہے۔ سو اُس نے القدس اور وہاں کے پناہ گزینوں کے بارے میں بالکل بات نہیں کی ،گویا یہ چیزیں لازمی اور ضروری نہیں بلکہ فقط جذباتی ہیں۔ اور اس نے1967ئ کی سرحدوں کو آگے پیچھے کرنے اور یہودی نوآبادیوں کو یہودی ریاست میں داخل کرنے کے لیے زمین کے تبادلے کے متعلق کھلم کھلا بیان دیا۔ اوریہ کہنے کے لیے اس نے فلسطین کی اپاہچ ، غیر مسلح اور ننھی ریاست کے قیام کاسہارانہیںلیا۔
اے مسلمانو!
ہاں جب اوبامہ کی تقریر کا موازنہ اُس کی پچھلی تقریروں سے کیا جاتا ہے تو کوئی نئی چیز نظر نہیں آتی۔ جب سے مسئلہ فلسطین ظاہر ہوا ہے اوبامہ اور تمام امریکی صدور کی یہی روش رہی ہے۔ تاہم جو بات سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے وہ اوبامہ کا اسلامی علاقوں میں چکرلگانا ہے۔ وہ کبھی کسی مسلم ملک میں سفر کرتا ہے تو کبھی دوسرے ملک میں، اور حکم جاری کرتا پھرتاہے کہ '' ایسا کرنا جائز ہے اور ایسا کرنا ناجائز ہے‘‘، گویاکہ مسلمانوں کے علاقے ان کی امریکی ریاستیں ہیں۔
مسلمانوں کی یہ علاقے ،خلافت کی موجودگی کے وقت سب سے زیادہ تہذیب یافتہ تھے، یہ علاقے دوستوں کی آنکھوں کا تارا تھے اور دشمن اُن سے خوف کھاتے تھے اور یہ علاقے پوری دنیا تک بھلائی پہنچانے کا ذریعہ تھے۔ اور اب خلافت کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ علاقے اور سرزمینیں اوبامہ کی سیر گاہ بنی ہوئی ہیں۔ اور جو چیز اس تکلیف کو بڑھاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس سب کے باوجود اوبامہ کو مسلمان ممالک میں ایسے حکمران میسرہیں جو بے غیرتی کے ساتھ اُس کے سامنے سرجھکائے یوں کھڑے ہیںکہ جیسے اوبامہ ہی سے اُنہیں عزت ملے گی اور اُن کا تحفظ ہوگا، اور وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اس قول سے نصیحت حاصل نہیں کرتے:
﴿بَشِّرِ الْمُنَافِقِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ عَذَاباً اَلِیْماً o اَلَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ط اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ الْعِزَّۃَ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا﴾
''منافقوں کو درد ناک عذاب کی وعید سنا دیجئے ،جو لوگ مؤمنوں کو چھوڑکر کافروں کو دوست بناتے ہیں ،کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ جبکہ عزت تو سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔‘‘ ﴿النسائ:138-139﴾
اور نہ یہ حکمران موجودہ واقعات سے عبرت حاصل کرتے ہیںکہ کس طرح امریکہ نے اپنے اُن ایجنٹوں کو ردی کی ٹوکری کی نظرکر دیا جو اپنی مدت پوری کرچکے ۔
اے مسلمانو! حزب التحریرآپ کو پکارتی ہے:
کہ کیا اب بھی آپ کے لیے وقت نہیں آیا کہ آپ یہ جان لیں کہ خلافت آپکے پروردگار کی طرف سے فرض اور آپ کے رسول ﷺکا حکم ہے اور یہ آپ کے لیے عزت اور ترقی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ کیا اب بھی آپ خلافت کو قائم کرنے اور اپنے رب کا وعدہ سچاکرنے کے لیے حزب التحریرکے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی طرف جلدی نہیں کریں گے:
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ
''اللہ تم میں سے اُن لوگوں سے وعدہ فرما چکا ہے جو ایمان لائے ہیں اورانہوں نے نیک عمل کیے ہیں، کہ انہیں ضرور زمین میں اِن حکمرانوں کی بجائے حاکم بنائے گا جیسے کہ اُن لوگوں کوحاکم بنایا جوان سے پہلے تھے‘‘﴿النور:55﴾
اوراپنے نبی ﷺکی بشارت کو سچ کر دکھانے کے لیے :
﴿﴿ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ﴾﴾
''اور پھر نبوت کے نقشِ قدم پر دوبارہ خلافت قائم ہوگی‘‘﴿مسند احمد﴾
تاکہ زمین پھر سے خلافت کے نور سے چمک اُٹھے اور امریکہ اور مغرب کو واپس وہیں دھکیل دیا جائے جہاں سے وہ اٹھے ہیں، اگر وہ جگہ ان کے لیے باقی بچے۔
تو کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ آپ اپنے رب کی طرف توبہ کرتے ہوئے متوجہ ہوجائیں۔ اس سے قبل کہ موت آپ کوآپکڑے،اور پھر آپ پچھتائیں، لیکن اس وقت پچھتاوا کام نہیں آئے گا۔
﴿فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ إِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ (الذاريات﴾
''پس دوڑو اللہ کی طرف ، اورمیں تو تمہارے لیے اللہ کی طرف سے کھلم کھلا ڈرانے والاہی ہوں‘‘﴿الذاریات:50﴾
حزب التحریر
17جمادی الثانی 1432 ھ
20مئی 2011ئ