الجمعة، 24 ربيع الأول 1446| 2024/09/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

أَلاَ سَاء مَا يَحْكُمُونَ ''کیا ہی برے فیصلے ہیں جو یہ کرتے ہیں‘‘(النحل:59)

 

پاکستان کی فوجی عدالت نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی کی ہدایت پر بریگیڈئر علی خان کو پانچ سال جبکہ دیگر چارافسران کو تین سال تک کی قید کی سزا سنائی ۔ عدالت کی جانب سے یہ سزا 3اگست2012کو اُس وقت سنائی گئی جب ان کو گرفتارکیے ہوئے تقریباً پندرہ ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔
ان افسران پر الزام تھا کہ وہ اسلام پر ایمان رکھتے ہیں اور ایسی اسلامی آراء اور نقطہ نظر کے حامل ہیں،جو کہ حزب التحریر کی بھی ہیں ،جو خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی طرز زندگی کے دوبارہ آغازکے لیے کام کر رہی ہے ،اورپاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر امریکی قبضے کے خلاف سرگرمِ عمل ہے اور افغانستان پر قابض افواج کے لیے پاکستان کی سرزمین سے گزرنے والی نیٹو سپلائی لائن کو کھولنے کی پُرزور مذمت کرتی ہے اور قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف جاری امریکی جارحیت ،کے خلاف عوامی رائے عامہ کو مؤثر طور پر اُبھارتی ہے۔
عدالت نے اِن افسران کے خلاف یہ سزا ''ٹھوس شواہد‘‘کی بنیاد پر سنائی کہ ان کا تعلق حزب سے ہے اور عدالت کے مطابق وہ ایک'' کالعدم جماعت‘‘ ہے!

تو یہ تھا وہ الزام کہ ان کا تعلق حزب التحریر سے ہے ، اور یہی کچھ تھا یہ فیصلہ۔


تاہم کیانی اور اس کا حواری زرداری اور اس کے قریبی ساتھی یہ بھول گئے ہیں کہ اللہ پر پختہ ایمان رکھنے والے لوگ جن اسلامی آراء اور نقطہ نظر کے حامل ہیں اورجو حزب التحریر کے افکار بھی ہیں ،یہ افکار پاکستان کی افواج میں ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں ۔ پس پاکستان کی فوج خلافت کے تصور سے محبت کرتی ہے، افغانستان پر امریکی قبضے اور اس قبضے میں مدد فراہم کرنے کی شدید مخالفت کرتی ہے اور پاکستان کے راستے افغانستان پرقابض امریکی فوجوں کے لیے اسلحے اور سازوسامان کی ترسیل کو مسترد کرتی ہے۔ کیانی اور اس کے حواری یہ بھول گئے ہیں یا بھول جانا چاہتے ہیں کہ یہ سب کچھ پاکستان کے مسلمان سپاہیوں کے دل کی پکارہے اور یہ تصورات ان میں بہت مضبوطی سے پیوست ہیں ماسوائے کیانی ، اس کے غنڈوں اور ساتھیوں کے۔ اگر اسلام سے محبت، امریکہ اور اس کے قبضے کے خلاف دشمنی ان پانچ افسران پر حزب التحریر سے تعلق کے الزام کاثبوت ہیں تو پھر یہ سزا صرف ان پانچ افسران کو نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ افواج پاکستان میں ایسے مخلص افسران بہت کثیر تعداد میں ہیں جن کی وجہ سے زرداری ،کیانی اور ان کے پیروکاروں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ حزب التحریر اور مخلص فوجی افسران کے بوٹوں کی آواز اور خلافت کے قیام کے اعلان کا خوف انہیں سوتے میں جگا دیتا ہے ،وہ خلافت کہ جو اللہ کے اذن سے قائم ہو کر رہے گی اور اسلام کے دشمنوں کی جڑ کاٹ دے گی اور پھر کفر یہ استعماری طاقتیں اور ان کے ایجنٹ اس کے ہاتھوں مزہ چکھیں گے،یوں دنیا میں رسوائی اور آخرت میں اللہ کا عذاب ان کا مقدر بنے گا ،کاش کہ یہ سوچتے اورسمجھتے ۔

جہاں تک میڈیا کو دیے گئے اس بیان کا تعلق ہے جوکہ پاکستان کی ملٹری انٹیلی جنس نے کیانی کے ترجمان کی حیثیت سے دیا ،جس میں کہا گیا کہ '' حزب التحریر ایک ایسا گروہ ہے جس کااس معاشرے سے کوئی تعلق نہیں‘‘، تو اس کے متعلق ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ ایسا صرف وہ شخص ہی کہہ سکتا ہے جو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو۔ خلافت کا تصور کس طرح پاکستان اور اس کے معاشرے کے لیے ایک اجنبی ہوسکتا ہے؟ خلافت کے تصور کے حامی کس طرح ایسے ملک کے معاشرے کے لیے اجنبی ہوسکتے ہیں کہ جس کی بنیاد ہی اسلام ہو اور اس کے قیام کا مقصد اسلام کا نفاذہو اور اس کی فوج کی بنیاد ایک اسلامی فوج کے طور پر رکھی گئی ہو جس کا مقصداسلامی سرزمین کا دفاع ہو؟ بلکہ کیانی،زرداری اور ان کا ٹولہ اس پاک سرزمین اور پاکستان کے سچے لوگوں کے لیے اجنبی ہیں ۔ اور حقیقت میں یہ وہ لوگ ہیں جن کا امتِ مسلمہ اور پاکستان کے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اوریہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچیں گے جیسا کہ ان سے پہلے آنے والے جابروں کا خاتمہ ہوا تھا اور ظالموں کے لیے اللہ سبحا نہ تعالی کی یہی سنت ہے، چاہے وہ کوئی گروہ ہوں یا قصبہ یا حکمران، کہ جب اللہ ان کی پکڑ کرتا ہے تووہ بہت سخت اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ

''تیرے پروردگار کی پکڑ ایسی ہی ہے ،جب وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے بے شک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے‘‘(ھود:102)۔

وہ قوت و کبریائی والا تمام جہانوں کا مالک جب کسی کی پکڑ کرتا ہے تو کوئی اس پکڑسے بھاگ نہیں سکتا ۔ مسلم اور بخاری نے موسی الاشعریؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

((ان اللّٰہ لیملی للظالم حتی اذا اخذہ لم یفلتہ))

'' اللہ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے یہاں تک کہ اللہ اسے پکڑ لیتا ہے اور پھر وہ کہیں بھاگ نہیں سکتا‘‘۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ کیانی امریکہ کو خوش کرنے کے لیے ان تمام فوجیوں کو گرفتار کرنا چاہتا ہے جو اسلام اور مسلمانوں سے مخلص ہیں۔ ایسا کر کے وہ امریکہ کو اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ ان دو گرہوں کے تعلق کو منقطع کردے گا : ایک وہ جو خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی طرز زندگی کے دوبارہ آغاز کے لیے کام کر رہے ہیں یعنی حزب التحریر اور دوسرے وہ مخلص افسران جو خلافت کے قیام اور اسلام کی حکمرانی کے متمنی ہیں ۔ تاہم یہ گمان کرتے ہوئے وہ یہ بھول گیا کہ اس کے جرائم اور سازشوں کی ناکامی زیادہ دور نہیں اور عنقریب اس کا گمان غلط ثابت ہونے والا ہے ،اور اس کا وقت ایسا ہی ہے جو طلوعِ سحر سے پہلے رات کا ہوتا ہے:

أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ

''کیا صبح بالکل قریب نہیں‘‘(ھود:81)۔

حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے اور اسلام اس کی آئیڈیالوجی( نظریہ حیات) ہے۔ ہر مسلمان فوجی جواسلام پر ایمان رکھتا ہے اور خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی طرزِ زندگی کے دوبارہ آغازکے لیے کام کرتا ہے، وہ حزب التحریر کے ساتھ ہے اور حزب التحریر میں سے ہے ۔ اور ایسے فوجیوں کی تعداد صرف پانچ نہیں ہے بلکہ پانچ سے کئی کئی گنا زیادہ ہے۔ انشاء اللہ جلد ہی کیانی ،زرداری اور ان کے ٹولے کو وہاں سے پکڑا جائے گا جس کے متعلق یہ وہم و گمان بھی نہ رکھتے ہوں گے ۔ اور اللہ اپنے لشکروں سے خوب واقف ہے۔

وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ

''اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن اکثر نہیں جانتے‘‘(یونس:21)

Read more...

امریکہ اپنے خود ساختہ بشار کے متبادل ڈھونڈنے سے پہلے ہی اس کے مسلمانوں کے ہاتھوں بربادی سے خوفزدہ ہے اس لیے وہ یمن والے حل کو دہرانے کی کوشش کررہا ہے اور اس توہم پرستی کے ساتھ فوجی مداخلت کے اشارے دے رہا ہے کہ وہ اسلام کے دوبارہ اقتدار میں آنے کو روکے گ

 

پیر 28/05/2012کے دن امریکی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:،،یقیناًامریکی وزارت دفاع،،پینٹاگون،،شام میں جاری تشدد کو ختم کرنے کے لیے فوجی مداخلت کے آپشن کے لیے تیار ہے،یہ اچانک وضاحت امریکی وزیر دفاع پنیٹا،وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن اور خود صدر اوباماکے سلسلہ وار وضاحتوں کے بعد سامنے آیاکہ امریکہ شام میں فوجی مداخلت نہیں کرے گا کیونکہ اس سے معاملات پیچیدہ ہو جائیں گے،یہ وضاحت آخری بار،، G 8،،اور اس کے بعد نیٹو کے اجلاس کے موقعے پرکی گئی۔

 

شام کے لیے امریکی پالیسی ان خطوط پر کاربند تھی کہ اپنے ساختہ بشار کے لیے اس وقت تک قتل وغارت اور خون خرابہ کے لیے راستہ صاف رکھا جائے جب تک کہ اس کا ایسا متبادل تیار نہ کیا جائے جو شام میں اس کے اثرو نفوذ کے تسلسل کی حفاظت کر سکے،چنانچہ وہ اقتدار کی پر امن منتقلی کی آوازلگاکر،مذاکرات اور پے درپے مہلت کے ذریعے (بشار کے لیے)راستہ ہموار کرنے کی دلالی کر تا رہا تاکہ اپنے موجودہ ایجنٹ کے متبادل آنے والے ایجنٹ کو تیار کرنے سے فارغ ہو سکے.....گزشتہ تمام اقدامات،عرب مبصرین پھر عالمی مبصرین .......اس سلسلے کی آخری کڑی کوفی عنان کے اقدامات ہیں جو اس نے عام امریکی پالیسی کی خدمت کے طور پراٹھایا،خود عنان نے بھی اس کی وضاحت کی جس میں اس نے حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کے میز پر مل بیٹنے کی دعوت دی،اس نے کہا کہ اس کی ذمہ داری شام کے موجودہ جھگڑے کا حل نکالنا ہے،ممکن ہے اس کی ابتدا سیاسی طریقے سے ہو......


یقیناًعنان کی جانب سے یہ پیش رفت امریکہ کے خصوصی اقدامات ہیں،اس کا یہ دورہ الحولہ کے قتل عام کے فورا بعد اورشام کی حکومت کے ساتھ بڑھتے ہوئے ڈبلومیٹک بائیکاٹ کے ماحول میں ہوا،جس میں شامی عوام کے لیے یہ پیغام تھا کہ صرف امریکی حل سے ہی شام کی حکو مت سے نجات مل سکتی ہے،یوں امریکہ اپنے منصوبے کی مارکیٹنگ کر رہا ہے:ایک مجرم حکومت جو انتہائی دیدہ دلیری سے نہتے شہریوں کے خلاف بھیانک جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے جبکہ جس پیش قدمی کی قیادت کوفی عنان کررہا ہے جو انسانیت کے خلاف جرائم پر پردہ ڈالنے کے فن کا ماہر ہے،بوسنیا میں اس کا کردار اس کا منہ بولتا ثبوت ہے،ہمارے حافظے میں بسنیاکے اس ہولناک خونریزی کی تصاویر ابھی تک محفوظ ہیں جب مغرب نے وہاں کے مسلمانوں کو ایک لمبے عرصے تک قتل اور ذبح ہو نے کے لیے چھوڑ دیا جس میں سیربرنٹسا میں8000بوسنیائی مسلمان مرد اور بچے قتل کیے گئے،یہی کوفی عنان اس وقت اقوام متحدہ کے شعبہ امن کا ذمہ دار تھا،جب انہوں نے دیکھا کہ پلڑا مسلمانوں کا بھاری ہو رہا ہے تب انہوں نے مداخلت کر کے اپنا ظالمانہ حل مسلط کردیا۔


جس طرح بوسنیا میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری دیکھ کر فوجی مداخلت کے حوالے سے امریکہ کا لہجہ بدل گیا تھااور اس نے مسلمانوں کے زور کو توڑنے اور ان کو اپنے خودساختہ حل کو قبو کر نے پر مجبور کر نے کا ارادہ کیا،اسی طرح اب شام میں سربکف انقلابیوں کے پلڑے کو بھاری اور اپنے پالتو بشار کو ڈھگمگاتادیکھ کر کہ وہ متبادل ایجنٹ کی دستیابی تک بھی ثابت قدم نہیں رہ سکتاتب امریکہ کالہجہ بدل رہا ہے اور بشار کو قتل وغارت اور خونریزی کی مہلت دینے کی بجائے نظام کے اندر سے ہی تبدیلی اور بشار کی چھٹی کر کے اس کے نائب کو ذمہ داری سونپ نا چاہتا ہے،جیسا کہ پہلے ہی قطر نے اس یمنی طرز کی طرف دعوت دی تھی لیکن اس وقت امریکہ اور شامی حکو مت میں موجود اس کے پیروکاروں نے انکار کیا تھا،کیونکہ یہ طریقہ برطانیہ کا بنایا ہوا تھا،پھر وہی خود اس کی طرف آرہا ہے،چنانچہ اوبامانے ،،G8،،کے سربراہان پر بشار کی چھٹی کر نے کی ضرورت پر زور دیا اور یمن کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا اقتدار کی منتقلی کا یہی ماڈل شام میں بھی کامیاب ہو سکتا ہے.....امریکہ کے سیکیورٹی اڈوائزر توماس جونیلون نے بھی اس کا اقرار کیا کہ صدر اوباما نے روس کے وزیر اعظم مید یفیدف کے ساتھ کیمپ ڈیوڈG8 کے اجتماع کے موقعے پر یمن کے طرز پراقتدار کی پر امن منتقلی کا معاملہ زیر بحث لا چکا ہے،اور اوباما اور پوٹن کی ہونے والی پہلی ملاقات میں بھی یہہ بات چیت کا موضوع ہو گا.....


امریکہ اس بات کو جان چکا ہے کہ شام میں لوگ ایک ایجنٹ کو دوسرے ایجنٹ سے یا ایک قبیح چہرے کو اس سے بھی بدتر یااس سے ذراکم بدصورت چہرے سے بدلنے کے لیے نہیں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،بشار اس کا نائب یا اس کے نائب کا نائب یا اس کے سارے چمچے .....وحشیانہ جرائم اورخیانت میں برابر کے شریک ہیں،شام کے انقلابی اس کے سوا کسی متبادل پر راضی نہیں ہوں گے کہ اس نظام کو جھڑوں سے نکال کر پھینک دیا جائے اور اسلام کے دارالحکومت شام میں اسلامی حکومت اور خلافت راشدہ کو قائم کیا جائے.....یہی وجہ ہے کہ امریکہ فوجی مداخلت کی دھمکی پر مجبور ہو گیا،چنانچہ امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی کی مذکورہ وضاحت اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر شام میں اس کے اثرونفوذ کو خطرہ ہو گیا تو عسکری مداخلت کا آپشن کھلا ہے،یہ شام میں نظام کو بدلنے کے لیے مداخلت نہیں جیسا کہ کچھ لوگ غلط فہمی سے ایسا سمجھ رہے ہیں،اس وقت اس قسم کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ شام کی صورت حال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اس سے امریکی اثرو نفوذ کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے،یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ بشار کی حکومت بھی اس قدر کمزور ہوچکی ہے کہ متبادل ایجنٹ کی دستیابی تک بھی قائم نہیں رہ سکتی،یہی وجہ ہے کہ امریکہ انقلابیوں کو ڈرانے کے لیے کہ وہ شام میں اسلامی حکومت قائم نہ کریں فوجی مداخلت کے شوشے چھوڑرہا ہے کیونکہ اس کے بعدامریکہ ہمیشہ کے لیے اپنے گھر تک ہی محدود ہو گا کبھی واپس نہیں آئے گا۔


اے مسلمانوں:شام کی حکومت صرف داخلی طور پر انتشار کا شکار نہیں بلکہ اس کی بنیادیں ہی گرنے والی ہیں اور مختلف سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے اس مبارک انقلاب کا پلڑا بھاری ہو تا جا رہا ہے،ساتھ ہی لوگوں کی طرف سے افسانوی حد تک ایمانی ثابت قدمی اور نظام کو گرانے پر اصراربرقرار ہے،دمشق کے ہڑتال نے بھی واضح اشارہ دیا کہ بشار انتظامیہ اپنے قلعوں ،جائے پناہ اور بیرکوں سے باہر نہ نکل سکی اور الحمیدیہ کا مشہوربازار بند کردیا گیا،اس بعداس کا جڑوان بازار الحریقہ اورالعصرونیہ پھر ساتھ ہی مدحت پاشا کا ثقافتی بازاراور خالد بن ولید روڈ وغیرہ......یوں دمشق کے دل کا اسٹرائیک نظام کے زہر خوری کی وجہ سے تڑپنے والے معدے کے لیے ایک اور مظبوط جھٹکا تھا۔

 

اے اللہ تعالی کے اذن سے نصر اورکامیابی کے شام کے انقلابی مسلمانوں :

علمبردار جھوٹ نہیں بولتے حزب التحریرمغرب اور اس کی حرکات سے تمہیں آگاہ کر تی ہے،خصوصی طورپر اس فیصلہ کن لمحے میں ان کے تمام اقدامات کو مسترد کر نے کا اعلان کرو اس اپوزیشن کو بھی اتار پھینکو جو مغرب کے زہر آلودحل کا مطالبہ کر رہا ہے،جو یوں ہے کہ اسد کے بعد شرع آئے گا جیسا کہ یمنی ماڈل میں ہوا کہ علی عبد اللہ صالح کے بعد عبد ربہ آیا ،اسی حل کو اوباما نے پوٹن کے سامنے پیش کیا ہے،مغرب سے کسی بھی قسم کا رابطہ اور حل کے مطالبے کو ایسی عظیم خیانت سمجھو جس کو معاف نہیں کیا جاسکتا،امریکی فوجی کمانڈر کی طرف سے عسکری مداخلت کی دھمکی تمہیں خوفزدہ نہ کرے ،جب تک تم اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ صادق ہو امریکہ اور اس کا ٹولہ اللہ کے اذن سے دم دبا کر بھا گے گا......تم اپنے مخلص فوج اور اپنی امت کی بھر پو توجہ سے اس نظام کے قلعہ قمع کر نے پر قادر ہو ،جس طرح تم نے یہ اعلان کیا تھا کہ ،،اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں جھکیں گے ،،اسی طرح یہ اعلان بھی کروکہ،،امریکہ کے سامنے نہیں جھکیں گے اور اس کے حل کو قبول نہیں کریں گے،،.....اعلان کرو کہ سازشوں کا زمانہ گزر گیا.....آج کے بعد تمہارا ہمارے اوپر کوئی غلبہ نہیں ہو گا.......اعلان کرو کہ ہمارے انقلاب کا منزل مقصود مغرب بناوٹی کافر نظام اور اس کے سرکش ایجنٹوں سے مکمل آزادی ہے.......ہم سوائے اسلام کے کسی اور چیز پر دین، حکمرانی اورنظام زندگی ،،خلافت علی منہاج نبوت ،،کے طور پرراضی نہیں ہوں گے.....اعلان کرو کہ شام کی سرزمین اسلام کی دارالحکومت ہے،عظیم معرکے کا میدان ہے،یہ تمام مکرو فریب کر نے والوں اور اس کے اور مسلمانوں کے حق جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا قبرستان ثابت ہو گا،

(سیصیب الّذین اٗجرموا صغار عند اللہ وعذاب شدید بما کانو یمکرون)

ترجمہ:،،عنقریب ان مجرموں کو اللہ کی طرف سے ذلت اورشدید عذاب کا سامنا ہوگا جوچالبازیاں کر تے ہیں،،

Read more...

بِن علی اور حُسنی مبارک کے بعدتیسرا ظالم قذافی بھی انجام تک پہنچ گیا ہے اور اللہ کے اِذن سے باقیوں کا انجام بھی اب نزدیک ہے

 

اے مسلمانو! اے ہمارے لیبیا کے عزیزلوگو!

الحمداللہ ، اللہ نے اُس ظالم کی کمر توڑ دی ہے جو بچوں اور عورتوں کو خوفزدہ کرنے والا اور اُن کا بے رحم قاتل تھا...الحمدللہ، آپ لوگوں کے بابرکت خون سے خیرو بھلائی نے جنم لیا اور ایک اور ظالم اپنے انجام کو پہنچ گیااور ذلت، ملامت اور ناپسندیدگی اُس کا مقدر بنی...الحمدللہ، یہ سب کچھ فتوحات، رحمتوں اور برکتوں کے مہینے یعنی ماہِ رمضان میں ہوا۔

بے شک آپ لوگوں کا خون بہایا گیا، آپ کی قربانی عظیم تھی اور آپ کی دعائیں بلند تھیں، پس اللہ القوی، العزیز نے اِن التجاؤں کو سُن لیااور اُس نے اِس ظالم کو اکھاڑ پھینکا اور آپ لوگوں کواجر اور فتح سے ہمکنار کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:


( قَالَ عَسَی رَبُّکُمْ أَنْ یُہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِیْ الأَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْْفَ تَعْمَلُوْنَ)
''(موسیٰ نے )کہا کہ قریب ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور اس کی جگہ تمہیں زمین میں حکمران بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘ (اعراف:129)


پس اپنے رب کے سامنے اپنی اچھائی کو ثابت کیجئے؛ انسان کے بنائے ہوئے قوانین کو مسترد کردیجئے، جو قانون سازی کا اختیار تمام انسانوں کے رب سے چھین کر انسانوں کوتفویض کر دیتے ہیں، اورآپ با آوازِبلندزمین پر اللہ کے قانون، اسلام کی ریاست، یعنی خلافت کے قیام کا اعلان کردیجئے ...وہ ریاست جو اُس دَور کوواپس لائے گی جب آپ کی خلافت فتح اور شہادت کے متوالے بہادرسپاہیوں کی قیادت کیا کرتی تھی اور فتح حاصل کیا کرتی تھی۔
باآوازِ بلندروئے زمین کے ظالموں سے اپنی بریت کا اظہار کردیجئے، وہ ظالم جو امریکہ اور یورپ کے ساتھ ہیں اور جو قذافی کے بعد نئی حکومت میں جگہ بنانے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کررہے ہیں۔ اُنہوں نے یہ مقابلہ بازی ایک عرصہ سے شروع کر رکھی تھی، پس اِن سے محتاط رہیں اور مجاہدین کے ملک اورحفاظ کرام کی سرزمین پر اِنہیں کوئی اتھارٹی حاصل نہ ہونے دیں۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے:


(وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً )
''اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو مومنین پر ہر گز کوئی راستہ (اختیار یا غلبہ )نہیں دیا‘‘(النساء:141)


اے مسلمانو! اے ہمارے لیبیا کے لوگو!
رہنما اپنے لوگوں کو دھوکہ نہیں دیتا ، حزب التحریر آپ کو نصیحت کرنے والی جماعت ہے، یہ آپ ہی میں سے ہے اور آپ ہی کے لیے ہے۔ امریکہ، یورپ، اُن کے حواریوں اور ایجنٹوں کے منصوبوں سے محتاط رہیے اور سیکولر ڈکٹیٹرشپ یا جمہوریت یا پھر سرمایہ داریت کے پردے میں لپٹے ہوئے اُن کے تعفن زدہ سیکولر منصوبوں سے بھی محتاط رہیے... یہ سب نظام کھوٹ اور جھوٹ پر مبنی ہیں، حق کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہیں، بلکہ یہ سب ظلم وستم کی طرف جانے والے رستے ہیں اور اسی طرح کے ایک راستے کا آپ لوگوں نے خون بہا کر خاتمہ کیا ہے... اسلام کی حکمرانی، خلافتِ راشدہ کے قیام کے اعلان کے ذریعے حزب التحریر کو مدد ونصرت فراہم کریں جس سے اللہ ، اُس کا رسول ااور مومنین خوش ہوں گے...یہی وہ ایک واحد راستہ ہے جس کے ذریعے آپ کا خون اور قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ اِس خون پر آپ کو فخر ہوگا، یہ قربانیاں آپ کو خوشی دیں گی اور اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے آپ پر فخر کرے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے :


( وَیَوْمَءِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ o بِنَصْرِ اللّٰہِ یَنْصُرُ مَنْ یَّشَاءُ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ )
''اور اُس روز مومن اللہ کی مدد سے خوش ہوجائیں گے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب اور مہربان ہے‘‘ (الروم:4-5)

Read more...

امریکی وزارتِ خارجہ کے ہیڈ کوارٹر سے دی جانے والی اوبامہ کی تقریر میں موجود مکر وفریب، امریکی سیاست کے جھوٹے پن کو بے نقاب کرتاہے

 

گزشتہ رات اوبامہ نے امریکی وزارتِ خارجہ کے ہیڈکوارٹر میں مشرقِ وسطیٰ کے عوام سے خطاب کیا۔ یہ خطاب دھوکہ دہی سے بھرا ہوا تھا، جس میں یہ جھوٹ بھی شامل تھا کہ امریکہ خطے میں ڈکٹیٹروںاور ظالم حکمرانوں کے خلاف برپا کئے جانے والے انقلابات میں عوام کی حمایت کرتاہے۔ مزید برآں یہ کہ امریکہ اِن انقلابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نئی حکومتوں کے ساتھ بعض قرضوں کی معافی اور ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ سے آسان قرضوں کے اجرائ کے ذریعے تعاون کرے گا۔ اِس ساری گفتگو میںمصر ہی موضوعِ سخن رہا۔ جبکہ اپنی گفتگو کے آخر میں اوبامہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ امریکہ فلسطین کے دوریاستی حل کی حمایت جاری رکھے گا، یعنی ایک پُرامن اور خوشحال یہودی ریاست کہ جس کی سلامتی کی گارنٹی امریکہ خوددے گااور دوسری غیر مسلح اور اپاہج ریاست اہلِ فلسطین کے لیے۔ جبکہ اوبامہ یہ بھول گیا کہ فلسطین ،نہر سے لے کر بحر تک، اسلامی سرزمین ہے جو اللہ کے اذن سے اسلام کے دشمنوں کو روندھتے ہوئے اپنی اصل حالت کی طرف جلد لوٹنے والی ہے۔


جو کوئی بھی اوبامہ کی تقریر کا بغور جائزہ لے تو وہ یہ جان جائے گا کہ اوبامہ حقائق کو بالکل مسخ کررہا ہے۔ ہر صاحبِ بصیرت دیکھ اور جان سکتا ہے کہ اسلامی ممالک کے ظالم حکمران مغرب بالخصوص امریکہ کے لے پالک ہیں۔ کیا کوئی امریکہ اور حسنی مبارک کے درمیان گہرے تعلقات کا انکار کرسکتاہے کہ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ امریکیوں سے بڑھ کر امریکی ہے۔ اسی طرح کیا کوئی ایسا ہے جو مصر کے التحریر اسکوائر میں لاکھوں عوام کے پر ہجوم اجتماع کے وقت امریکہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات کے دوغلے پن کو نہ دیکھ سکا ہو؟ امریکہ حسنی مبارک کی طرف سے اپنے عوام پر ظلم کرنے ، سینکڑوں کی تعداد میں انہیں قتل اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی کرنے اور اُن کے گھروں پر چھاپے مارنے کے عمل کو دیکھ اور سن رہا تھا۔ تاہم اِس کے باوجود امریکہ حسنی مبارک کے مؤقف کا ساتھ دیتا رہا اور اُس کے خلاف کوئی احتجاج نہ کیا اورنہ ہی اُس کے خلاف کوئی آواز اٹھائی بلکہ اسے ہر قدم پرنصیحتیں دیتا رہا جس میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ التحریر سکوائر پر سرسری طور پر حاضری دے۔ اور جب امریکہ کو یقین ہوگیا کہ مبارک اب مزید لوگوں کو قتل نہیں کرسکے گا اور انقلاب کے نعرے کے ساتھ نکلنے والے لوگ دھوکے باز حسنی مبارک کے خوف سے بے نیاز ہوکراب اِس کی گردن کو دبوچنے ہی والے ہیں،تو امریکہ نے اپنے لہجے اور مؤقف کو یکسر تبدیل کرلیا۔ اُس نے مبارک کو سڑک کنارے پھینک دیا اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نئے اور پرانے ساتھیوں میں سے نئے ایجنٹ کی تلاش شروع کردی، تاکہ حسنی مبارک کے خلا کو پُر کیا جائے۔


اور آج شام میں امریکہ وہی طرزِعمل ایک بار پھر دُہرا رہا ہے۔ شامی حکومت کے ساتھ امریکہ کا نرم رویہ نہ صرف امریکی سیاست دانوں کے درمیان بلکہ دنیا بھر میں نہایت واضح ہے۔ کیونکہ پورے دو مہینے تک شام کی حکومت کی طرف سے اپنے ہی لوگوں کے قتل ،خونریزی ،اُنہیں زخمی کرنے ،اُن کی ہڈی پسلی ایک کرنے اورمکانات اور مساجد مسمار کرنے کے باوجود امریکہ شامی حکومت سے چشم پوشی کرتا رہا۔ لیکن جب لوگوں کے احتجاج نے شدت اختیار کرلی اور اُن کی طرف سے نظام کو بدلنے کی منصوبہ بندی ہونے لگی تو امریکہ نے نہایت بے شرمی سے یہ بیان جاری کردیا کہ شام کا حکمران بشارالاسد یا تو سیاسی تبدیلی کی قیادت کرے یا پھر ملک چھوڑ دے! یعنی اِس نظام کے ظلم اور قتل وغارت گری کے خلاف لوگوں کے انقلاب کے باوجود امریکہ شام کو دوبارہ اس قتل وغارت گری کے ذمہ دار کو ہی سونپ دینا چاہتا ہے۔ چنانچہ امریکہ بشارالاسد کے ساتھ وہی کرے گا جو وہ حسنی مبارک کے ساتھ کرچکا ہے، یعنی پہلے توامریکہ بشارالاسد کو موقع دے گا کہ وہ لوگوں کے قتل اور گرفتاریوں کے ذریعے اُن پر قابو پالے اور جب اُسے نظر آئے گا کہ یہ ظالم حکمران مزید قتل وخونریزی نہیں کرپائے گا یا پھریہ حکمران انقلابیوں کے ہاتھوں ختم ہونے کے قریب ہے، تب امریکہ انہی انقلابیوں کی چاپلوسی پر مبنی بیانات دے گا اور شام کے ڈکٹیٹر کے ساتھ تعاون سے اپناہاتھ کھینچ لے گا۔


امریکہ کفر اور استعمار کا سرغنہ ہے اور اوبامہ کی دھوکے بازی امریکہ کے امیج کو بہتر نہیں کر پائے گی، اس مقولے کے مطابق کہ عطر فروش عمر میں اضافے کے اثرات کو زائل نہیں کر سکتا۔ امریکہ صرف اپنے مادی مفادات پر نظر رکھتا ہے،خواہ مفاد کا یہ حصول دوسروں کی کھوپڑیوں اور لاشوں کے بدلے ہو۔ پس امریکہ لوگوں کا استحصال کرنے اور مسلمانوں کے علاقوں کو کالونی بنانے میں یورپی یونین کے ساتھ رسہ کشی کررہا ہے ، جیسا کہ لیبیا، یمن ، بحرین اور ہمارے دیگر حساس علاقوں میں ہورہا ہے۔ یہ مغربی ممالک مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بغض رکھتے ہیں۔ اور ان کی وہ اقدارکہ اوبامہ جن کے گُن گاتا پھرتا ہے، وہ حسد ہے جس کامظاہرہ ہم مغرب اور خصوصاً امریکہ کی طرف سے عراق، افغانستان اور گوانتاناموبے میں دیکھ چکے ہیں۔ امریکہ کی اقدار یہ ہیں کہ پاکستان کے مسلمانوں پر اپنے ڈرون طیاروں سے مسلسل بمباری کی جائے، غیر مسلح شخص کو میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ اس کے گھر میں بزدلانہ حملے کے ذریعے شہید کیا جائے ، عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے قرضوں اور بے فائدہ امدادی پروگراموں اورسودی جال کے ذریعے ممالک کی معیشت پر تسلط جمایا جائے۔ جس کی بدولت اب ہمارے وسائل سے مالامال ممالک کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ کمر توڑ سود اور بھاری قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہے ہیں۔ امریکہ کی اقدار یہ ہیں کہ غاصب یہودیوں کی پشت پناہی کی جائے کہ وہ فلسطین اور ہمارے لوگوں کے خلاف شب وروز وحشیانہ مظالم سرانجام دیں ۔ یہ ہیں امریکہ کی اقدار ،بلکہ یہ اس کی نمایاں ترین اقدارہیں۔


اے مسلمانو!
اگر اوبامہ کی تقریر کا اُس کی پہلی تقریروں کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو اِس میں نیا کچھ نہیں۔ اس کی نئی بات دراصل پرانی ہی ہے۔ وہ یہ سب کچھ پہلے ہی کہہ چکا ہے ، خصوصاً دو سال قبل قاہرہ میں اپنی تقریر کے دوران۔ اس میں اگر کوئی نئی بات ہے تو وہ یہ کہ اس نے یہودی ریاست کی حمایت اور سلامتی کی ضمانت کے طور پر اپنی آواز کو پہلے سے اور بلند کیا ہے۔ سو اُس نے القدس اور وہاں کے پناہ گزینوں کے بارے میں بالکل بات نہیں کی ،گویا یہ چیزیں لازمی اور ضروری نہیں بلکہ فقط جذباتی ہیں۔ اور اس نے1967ئ کی سرحدوں کو آگے پیچھے کرنے اور یہودی نوآبادیوں کو یہودی ریاست میں داخل کرنے کے لیے زمین کے تبادلے کے متعلق کھلم کھلا بیان دیا۔ اوریہ کہنے کے لیے اس نے فلسطین کی اپاہچ ، غیر مسلح اور ننھی ریاست کے قیام کاسہارانہیںلیا۔


اے مسلمانو!
ہاں جب اوبامہ کی تقریر کا موازنہ اُس کی پچھلی تقریروں سے کیا جاتا ہے تو کوئی نئی چیز نظر نہیں آتی۔ جب سے مسئلہ فلسطین ظاہر ہوا ہے اوبامہ اور تمام امریکی صدور کی یہی روش رہی ہے۔ تاہم جو بات سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے وہ اوبامہ کا اسلامی علاقوں میں چکرلگانا ہے۔ وہ کبھی کسی مسلم ملک میں سفر کرتا ہے تو کبھی دوسرے ملک میں، اور حکم جاری کرتا پھرتاہے کہ '' ایسا کرنا جائز ہے اور ایسا کرنا ناجائز ہے‘‘، گویاکہ مسلمانوں کے علاقے ان کی امریکی ریاستیں ہیں۔


مسلمانوں کی یہ علاقے ،خلافت کی موجودگی کے وقت سب سے زیادہ تہذیب یافتہ تھے، یہ علاقے دوستوں کی آنکھوں کا تارا تھے اور دشمن اُن سے خوف کھاتے تھے اور یہ علاقے پوری دنیا تک بھلائی پہنچانے کا ذریعہ تھے۔ اور اب خلافت کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ علاقے اور سرزمینیں اوبامہ کی سیر گاہ بنی ہوئی ہیں۔ اور جو چیز اس تکلیف کو بڑھاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس سب کے باوجود اوبامہ کو مسلمان ممالک میں ایسے حکمران میسرہیں جو بے غیرتی کے ساتھ اُس کے سامنے سرجھکائے یوں کھڑے ہیںکہ جیسے اوبامہ ہی سے اُنہیں عزت ملے گی اور اُن کا تحفظ ہوگا، اور وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اس قول سے نصیحت حاصل نہیں کرتے:


﴿بَشِّرِ الْمُنَافِقِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ عَذَاباً اَلِیْماً o اَلَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ط اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ الْعِزَّۃَ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا﴾
''منافقوں کو درد ناک عذاب کی وعید سنا دیجئے ،جو لوگ مؤمنوں کو چھوڑکر کافروں کو دوست بناتے ہیں ،کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ جبکہ عزت تو سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔‘‘ ﴿النسائ:138-139﴾


اور نہ یہ حکمران موجودہ واقعات سے عبرت حاصل کرتے ہیںکہ کس طرح امریکہ نے اپنے اُن ایجنٹوں کو ردی کی ٹوکری کی نظرکر دیا جو اپنی مدت پوری کرچکے ۔


اے مسلمانو! حزب التحریرآپ کو پکارتی ہے:

کہ کیا اب بھی آپ کے لیے وقت نہیں آیا کہ آپ یہ جان لیں کہ خلافت آپکے پروردگار کی طرف سے فرض اور آپ کے رسول ﷺکا حکم ہے اور یہ آپ کے لیے عزت اور ترقی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ کیا اب بھی آپ خلافت کو قائم کرنے اور اپنے رب کا وعدہ سچاکرنے کے لیے حزب التحریرکے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی طرف جلدی نہیں کریں گے:


وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ
''اللہ تم میں سے اُن لوگوں سے وعدہ فرما چکا ہے جو ایمان لائے ہیں اورانہوں نے نیک عمل کیے ہیں، کہ انہیں ضرور زمین میں اِن حکمرانوں کی بجائے حاکم بنائے گا جیسے کہ اُن لوگوں کوحاکم بنایا جوان سے پہلے تھے‘‘﴿النور:55﴾


اوراپنے نبی ﷺکی بشارت کو سچ کر دکھانے کے لیے :


﴿﴿ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ﴾﴾
''اور پھر نبوت کے نقشِ قدم پر دوبارہ خلافت قائم ہوگی‘‘﴿مسند احمد﴾


تاکہ زمین پھر سے خلافت کے نور سے چمک اُٹھے اور امریکہ اور مغرب کو واپس وہیں دھکیل دیا جائے جہاں سے وہ اٹھے ہیں، اگر وہ جگہ ان کے لیے باقی بچے۔


تو کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ آپ اپنے رب کی طرف توبہ کرتے ہوئے متوجہ ہوجائیں۔ اس سے قبل کہ موت آپ کوآپکڑے،اور پھر آپ پچھتائیں، لیکن اس وقت پچھتاوا کام نہیں آئے گا۔


﴿فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ إِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ (الذاريات﴾
''پس دوڑو اللہ کی طرف ، اورمیں تو تمہارے لیے اللہ کی طرف سے کھلم کھلا ڈرانے والاہی ہوں‘‘﴿الذاریات:50﴾

 

حزب التحریر

17جمادی الثانی 1432 ھ
20مئی 2011ئ

Read more...

یہودی حکمران اپنی فوج کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ ہمیں گولان کی پہاڑیوں اور بیتِ حنون میں قتل کریں جب کہ فلسطین کے اردگرد موجود مسلم ممالک کے حکمران اپنی افواج کواپنے ہی لوگوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں

 

15مئی 2011، یومِ قبضہ فلسطین، کے موقع پر یہودی ریاست نے اپنی فوج کو فلسطین، لبنان اور گولان کے مسلمانوں پر کھلا چھوڑ دیا ،جس نے درجنوں لوگوں کو شہید اور سینکڑوں لوگوں کو زخمی کر دیا۔ ان علاقوں کی فضاء بارود کے دھوئیں سے بھرگئی، اور زمین مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو گئی۔


لیکن گولیوں کی یہ تمام آوازیں، طیاروں کی گھن گرج اور دھوئیں کے بادل فلسطین کے اردگرد موجودمسلم دنیا کے حکمرانوں کو غفلت کی نیند سے جگانے کے لیے کافی نہ تھے ،کہ وہ ہوش میں آئیں اور اپنے ہی لوگوں سے دشمنانہ سلوک کی بجائے اُن یہودیوں سے دشمنی کا سلوک کریں جنہوں نے ارضِ فلسطین پر قبضہ جما رکھا ہے۔ یہ حکمران اپنے ہی لوگوں سے جنگ میں مصروف ہیں ، جو ان حکمرانوں کے ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان حکمرانوں نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ٹینکوں، پرائیویٹ فورسز اور رپبلکن گارڈز کو متحرک کیا ہوا ہے۔ اور بجائے یہ کہ وہ فلسطین، لبنان اور گولان کی سرحدوں کو جنگ کا میدان بناتے، انہوں نے اپنے ملک کے شہروں اور دیہاتوں کو میدانِ جنگ بنایا ہوا ہے۔


اے مسلمانو! اے لوگو!
یہ حکمران مسلسل اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں ، جبکہ اللہ انہیں دھوکے میں ڈالے ہوئے ہے۔ یہ حکمران دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ صیہونیت اور استعماریت کے دشمن ہیں، جبکہ وہ خود اپنے لوگوں پر ظلم کر رہے ہیں اور انہیں دبا رہے ہیں۔ لوگ ان حکمرانوں کے ظلم کے باوجوداس وجہ سے خاموش رہتے تھے کہ یہ حکمران یہودی ریاست کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں اور وہ نہر سے لے کر بحر تک تمام کے تمام فلسطین کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ لیکن درحقیقت انہوں نے فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے کچھ نہیں کیا اور بالآخر نہر اور بحر سمیت اس کے درمیان کا تمام علاقہ یہودیوں کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقے پر اسرائیلی ریاست کے قیام کو تسلیم کر لیا اور اُس علاقے پر مذاکرات میں لگ گئے جس پر اسرائیل نے 1967میں قبضہ کیا تھا اور پھراس بات پر بھی تیار ہوگئے کہ اس علاقے میں سے دشمن جو بھی واپس کرے اسے قبول کر لیا جائے، خواہ ان علاقوں کی واپسی مکمل اتھارٹی کے بغیر ہی ہو۔


جب کہ کچھ حکمران وہ ہیں جنہوں نے یہودیوں کے ساتھ کھلم کھلامفاہمت اور دوستی کی ذلت مول لینے کا انتخاب کیا۔ اسی طرح کچھ حکمران وہ تھے جنہوں نے اصل میں تو امن معاہدے کی راہ اختیار کی مگر وہ اپنے آپ کو' مزاحمت کار‘کہلواتے تھے۔ لیکن ان حکمرانوں کی طرف سے یہودی ریاست کے خلاف مزاحمت کا یہ عالم ہے کہ گولان میںیہودی ریاست کے ساتھ ان کی سرحدیں باقی تمام سرحدوں سے زیادہ پرسکون ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے کچھ یہ کہتے ہیں کہ ملکِ شام کے استحکام کا دارومدار یہودی ریاست کے استحکام پر ہے!


اِن حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ یہ فلسطین کی مبارک سرزمین کی زیارت کے لیے آنے والے غیر مسلح لوگوں کی حفاظت بھی نہیں کرتے، بلکہ قبل اِس سے کہ یہودی زیارت کے لیے آنے والے لوگوں کو روکیں ،خود عرب حکمران ہی لوگوں کو روک دیتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ عرب حکمرانوں نے اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنے کے لیے اپنی افواج کو مصروف کررکھا ہے ،جس کی وجہ سے یہودیوں کو سرحدی خلاف ورزیوں کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگوں کو یہ موقع ہاتھ آجاتا کہ وہ مقبوضہ مبارک خطے کی طرف پیش قدمی کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ سرحد کے قریب شام کی حکومت کے اہلکاروں اور اِن کے حواریوں کے ہوتے ہوئے کسی انسان کے لیے گولان کی پہاڑیوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔


اے مسلمانو! اے لوگو!
فلسطین کی مبارک سرزمین پر قابض یہودی ریاست کی بقاء اس کی اپنی طاقت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ یہ اِن غدار حکمرانوں کی غداری اور کافر استعماری ریاستوں کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ کی بناپر ہے جنہوں نے ایک سازش کے تحت اِس یہودی ریاست کو قائم کیا تھا۔ جس کسی نے گولان کی پہاڑیوں، مارون الرأس ، قلندیا کی چیک پوسٹوں اور بیتِ حنون کے اطراف میں ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کیا ہو، نیز نہتے لوگوں کے سامنے دشمن کی قیادت کے اضطراب کو دیکھا ہو،وہ آسانی سے اِس بات کو پہچان سکتا ہے کہ یہودی ریاست کا وجود نہایت کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے ،جو کسی وقت بھی ختم ہوسکتا ہے جیسا کہ یہودی ریاست کے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ جو کچھ وقوع پذیر ہوا، وہ یہودی ریاست کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ اس اضطراب اور بے چینی کا دائرہ کار صرف عام یہودیوں تک محدود نہ تھا بلکہ اعلیٰ سطحی قیادت میں بھی اِس کو محسوس کیا جا سکتا ہے ، یہاں تک کہ یہودی وزیراعظم غیر مسلح لوگوں کے مارچ کو یہودی ریاست کے لیے خطرہ قرار دے رہا ہے! چنانچہ اُس وقت معاملہ کیا ہوگا جب ان مارچ کرنے والوں کے آگے آگے فوج ہوتی جو یہودیوں کے ناپاک وجود سے فلسطین کی سرزمین کو پاک کردیتی اور لوگوں کو اِس بات کی اجازت دیتی کہ وہ اِس مبارک سرزمین کی عزت کو بحال کرتے اور اللہ کی طرف سے نصر ملنے کی خوشی مناتے ، اگر ایسا ہوجاتا تو کیا صورتحال ہوتی؟ جبکہ ایسا کرنا شرعاً فرض بھی ہے۔ یقیناًاگر اس سے کم بھی ہوتا اور ایک فوجی لشکر مارچ کرنے والوں کے پیچھے ہوتا ،تاکہ اگر دشمن ان پر گولی چلائے تو وہ بھی اُن کو گولی کا جواب گولی سے دیں، تو دشمن کو یہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ ان مارچ کرنے والوں پر حملہ کرتے اور اُنہیں قتل کرتے۔ کیا یہ وہ وقت نہیں ہے کہ وہ دشمن جو نہتے لوگوں کے مارچ سے ڈرتا ہے اُسے ایسی مار ماری جائے کہ وہ شیطان کے وسوسوں کو بھول جائیں؟


اے مسلمانو! اور اے یہودی ریاست کے اردگرد موجودمسلم افواج!
آپ کی رگوں میں موجود خون اُس وقت کیوں نہیں کھولتا جب آپ کے سامنے آپ کے ہی بھائیوں کا خون بے دریغ بہایا جاتا ہے؟ آپ لوگ کیسے اپنے اُن حکمرانوں کے خلاف خاموش رہ سکتے ہیں ،جو آپ کو آپ کے دشمن سے لڑنے سے روکتے ہیں، وہ دشمن جو آپ کے بھائیوں کو شہید کر رہا ہے اور آپ کے علاقوں کی حرمت کو پامال کررہا ہے؟ ایسا کیونکر ہے کہ آپ نے اپنے دشمنوں سے لڑنے کی بجائے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں؟ کیا آپ میں ایک بھی ایسا صالح شخص موجود نہیں جو اِن حکمرانوں کے اقتدار کا خاتمہ کردے؟ وہ حکمران جو اپنی سرزمینوں اور اپنے ہی لوگوں کا سودا کرچکے ہیں اور جنہوں نے استعماری کفار کے ساتھ گٹھ جوڑ بنارکھا ہے اور فلسطین اور اُس کے گردو نواح پر یہودیوں کو اتھارٹی اور کنٹرول دے رکھا ہے؟
کیا اللہ سبحانہ تعالیٰ کے یہ الفاظ آپ کے اندر خوف پیدا نہیں کرتے؟:


(وَلاَ تَرْکَنُوْا إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُونِ اللّٰہِ مِنْ أَوْلِیَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ)
''اورظالم لوگوں کی طرف مت جھکنا،ورنہ تمہیں جہنم کی آگ آلپٹے گی اوراللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست نہ ہو گا، پھر تمہیں کہیں سے مدد نہ مل سکے گی۔‘‘ (ھود:113)


اور آپ رسول اللہﷺ کی اِس حدیث پر غور کیوں نہیں کرتے؟:


((ان الناس اذا راوا الظالم فلم یاخذوا علی یدیہ یوشک ان یعمھم اللّٰہ بعقاب))
''اگر لوگ کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو عذاب دے‘‘(ابوداؤد، ترمذی ، ابنِ ماجہ)


اے مسلم ممالک کے حکمرانو!
عقلمند شخص وہ ہے جو دوسروں کو دیکھ کرسبق حاصل کرتا ہے۔ اور حالیہ واقعات اِس بات کے لیے کافی ہیں کہ تم اِن سے عبرت حاصل کرو۔ وہ جوتم سے زیادہ طاقت ور اورزیادہ جابر تھے، اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں اور ذلت ان کا مقدر بن چکی ہے۔ اُنہیں اُن کا اقتدار اور طاقت بچا نہ سکی۔ اُن کے حواری اور ایجنٹ اُن کا ساتھ چھوڑ گئے حتیٰ کہ اُن کے استعماری آقاؤں نے بھی اُنہیں سٹرک کنارے پھینک دیا!


اِس بات کے باوجود کہ تم لوگ اُن لوگوں میں سے ہو جو مخلص نصیحت پسند نہیں کرتے، پھر بھی حزب التحریرتمہیں نصیحت کرتی ہے! کہ تم لوگ اپنے دین، اپنی امت، اپنی سرزمین اور خود اپنے حوالے سے حد سے گزر چکے ہو:
جہاں تک دین کا معاملہ ہے: تو تم لوگوں نے اپنے دین کو پسِ پشت ڈالا ہوا ہے اور خلافت اور اِس کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف ایک جنگ برپا کررکھی ہے اور تمہاری خواہش ہے کہ تم فیصلے کے لیے طاغوت کی طرف جاؤ، جبکہ اللہ نے تمہیں طاغوت سے انکار کا حکم دیاہے۔
جہاں تک امت کا معاملہ ہے: تو تم لوگوں نے اِس امت کے دشمن استعماری کفار اور یہودیوں کو اپنا اتحادی بنا رکھا ہے اور اِس امت کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔
جہاں تک تمہاری سرزمینوں کا معاملہ ہے: تو تم لوگ فلسطین اور اِس کے گردونواح، کشمیر، سائپرس، مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان اور کئی دوسری اسلامی سرزمینوں سے دستبردار ہو چکے ہو۔
اور جہاں تک تمہارا اپنا معاملہ ہے: تو تم لوگوں نے اِس دنیا میں اپنے لیے ذلت و رسوائی کا ہی انتخاب کیا اورخود کو آخرت میں شدید ترین عذاب کا حق دار بنالیا ہے۔


پس اگر تمہارے اندر ذرا سا احساس بھی باقی ہے تو تم لوگ خود ہی اقتدار سے الگ ہو جاؤ ، قبل یہ کہ خلافت قائم ہوجانے کے بعد وہ تم لوگوں کو اقتدار سے ہٹائے اور عبرت کا نشانہ بنائے، وہ خلافت جس کا قائم ہونا ایک لازمی امر ہے:


(وَلَاتَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا ےَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ط اِنَّمَا ےُؤَخِّرُھُمْ لِےَوْمٍ تَشْخَصُ فِےْہِ الْاَبْصَارُ O مُھْطِعِےْنَ مُقْنِعِیْ رُءُ وْسِھِمْ لَا ےَرْتَدُّ اِلَےْھِمْ طَرْفُھُمْ وَاَفْءِدََتُھُمْ ھَوَآءٌ)
''اور مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں اللہ ان سے بے خبر ہے ۔ وہ اِن کو اُس دن تک مہلت دے رہا ہے جب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ،اور لوگ سر اوپراٹھائے دوڑ رہے ہوں گے ، خود اپنی طرف بھی ان کی نگاہیں لوٹ نہ سکیں گی اور اُن کے دل (خوف کے مارے) ہوا ہو رہے ہوں گے‘‘ (ابراھیم:42-43)


13جمادی الثانی 1432 ھ حزب التحریر
16مئی 2011ء

Read more...

بن علی کی جابر حکومت کا خفیہ فرار اورتمام خونریزی کے بعد حکومت میں کھلم کھلا واپسی


17 جنوری2011ء کوتیونس کے پچھلے (اور اب نئے )وزیراعظم محمد غنوشی کی سربراہی میں حکومت بنانے کا اعلان کیا گیا ،جومفرور ظالم حکمران بن علی کا قریبی ساتھی تھا۔اس نئی حکومت کے ممبران کی اکثریت کاتعلق بن علی کی جابرانہ جماعت آر۔سی۔ڈی (RCD)سے ہے، اور اس نئی حکومت میں بن علی کی حکومت کے چھ وزراء کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھا گیا ہے،جن میں وزارت برائے لیڈرشپ، دفاع، مالیات، اندرونی اور خارجہ امور شامل ہیں۔ غنوشی نے ان وزراء میں اپوزیشن پارٹیوں کے تین وزراء کو برائے نام وزارتیں دے کر شامل کر دیا تاکہ ایک دھوکہ دیا جائے گویاکہ قومی اتحاد ہو گیا ہے۔ چنانچہ بن علی کے خاص آدمی نے اس کے فرار کے بعد بھی اس کی اور پارٹی کی حکومت جاری رکھی۔


17 دسمبر2010ء سے مظاہروں کے آغاز کے بعد سے تیس طویل دنوں میں ان حکمرانوں نے خوب خون بہایا۔ یہ مظاہرے اس غربت، بھوک، بیماری، بے روزگاری اور خصوصاً جبر و ظلم کے نتیجے میں شروع ہوئے،جس نے لوگوں کو دیوار سے لگا دیا تھااورخاص طور پر نوجوان 'بوعزیزی‘ کو اس حد تک مجبور کر دیاتھاکہ اس نے تنگ آ کر خود کشی کر لی؛ جب حکومتی اہلکاروں نے اس کی وہ ریڑھی بھی چھین لی جس کے ذریعے وہ چند اشیاء فروخت کرکے مشکل سے زندہ رہنے کا سامان میسر کرتا تھا۔ اس کے نتیجے میں جابرانہ حکومت کے خلاف ایک عوامی بغاوت کا آغاز ہوا۔ اس سرزمین پر جہاں حکمران عوامی وسائل کو لوٹ کر ، عوام کو شدید غربت میں دھکیلتے ہوئے ،شاہانہ زندگی گزار رہے تھے، وہاں اب عوام اسلام کے تحت ایک عدل پر مبنی حکومت اور پرامن ومحفوظ زندگی کے متلاشی نظر آتے تھے۔


اے تیونس کے لوگو، اے مسلمانو!

تیونس کے عوام کی بہادری کی جڑیں تاریخ کی گہرائی میں پیوست ہیں۔ جب اللہ سبحانہ و تعالی نے انہیں اسلام کی نعمت عطا کی، تو یہ علاقہ اسلام کا نور پھیلانے والی شمع بن گیا۔ یہیں سے شمالی افریقہ اور اندلس کی آزادی کے شعلے بھڑکے۔ یہ ' عقبہ‘ کی سرزمین کہلایا، جو یہاں سے شمالی افریقہ تک اسلام کا پیغام لے کر گئے؛ یہاں تک کہ وہ بحرِاوقیانوس کے ساحل تک جا پہنچے اور وہاں پر ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے مخاطب ہو کر انہوں نے یہ تاریخی جملے ادا کئے: ''اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہارے پار لوگ موجود ہیں تو میں اپنے گھوڑے تمہارے پانیوں میں داخل کر دیتا اور ان لوگوں پر فتح حاصل کرتا‘‘۔
یہ ہے تیونس کا حقیقی درخشاں ماضی اور ایسے تھے اس کے جہاد کے متوالے فرزند!!

 

(رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالأَبْصَارُ) (النور:37 )

''(یعنی ایسے) لوگ جن کو اللہ کے ذکر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ سوداگری غافل کرتی ہے اور نہ خرید و فروخت وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جب دل (خوف و گھبراہٹ کے سبب) الٹ جائیں گے اور آنکھیں (اوپر کو چڑھ جائیں گی) ‘‘


ذلت تیونس میں اس وقت داخل ہوئی جب کافر استعماریوں نے فرانس کی سرکردگی میں اس پر حملہ کر کے اسے1881ء میں عثمانی خلافت سے کاٹ ڈالا۔اس کے بعد ہی تیونس میں استعمار کے ہاتھوں کرپشن ،ظلم اور جبر کو فروغ ملا۔ تیونس کے بہادر مسلمانوں نے مزاحمت کی اور ہزاروں مسلمان صفیں باندھ کر دفاعی جنگ لڑتے ہوئے شہیدہوئے اور اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کی۔ جب بھی انہوں نے جہاد کی پکار سنی،اس پر فوراً لبیک کہا،یہاں تک کہ ا ﷲعزّوجل نے انہیں فتح سے نوازا اور فرانس شکست کھا کر ذلیل ورسوا ہو کر وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوا۔ لیکن اس سے پیشتر کہ تیونس کے عوام اپنی فتح کا ثمر حاصل کرتے اور اسلام کی حکومت دوبارہ اس علاقے میں قائم ہوتی؛ وہیں کے ایک گروہ نے اپنا دین فرانس کے بجائے اب برطانیہ کے ہاتھوں بیچ کر تاج و تخت خرید لیا۔ یوں 'بور قیبۃ ‘ اور' بن علی‘ کی حکومتوں کا ظلم وجبر شروع ہوا جو بد ترین جبر تھا۔ تیونس مقامی حکومت کی لالچ کا پیٹ بھرنے کے لئے مالِ غنیمت اور بین الاقوامی طاقتوں کے تنازعات کے لئے میدانِ جنگ بن گیا۔ خصوصاً جب امریکہ نے اس کے سربراہ کی پشت پناہی شروع کر دی تاکہ اسے قدیم یورپ کے اثر سے نکالا جا سکے۔
ہم آج اس سب کو یاد کررہے ہیں جو کہ بِیت چکا ہے، لیکن آج ایک بار پھر بہایا جانے والا پاک لہو ضائع کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ لوگ اس جدوجہد کا ثمربن علی کی حکومت کی تبدیلی اور اسلامی حکومت کے قیام کی صورت میں حاصل کر پاتے اور امن وسکون کی زندگی گزارتے،ہم دیکھ رہے ہیں کہ بن علی کی حکومت ایک بار پھر لوٹ کر آ رہی ہے۔ یہ وہی پرانے چہرے ہیں جنہوں نے اس زمین کے تقدس کی حفاظت کی نہ لوگوں میں عدل قائم کیا۔


اے تیونس کے لوگو ،اے مسلمانو!

مسئلہ بن علی جیسے جابر شخص کا نہیں۔ مسئلہ انسان کا بنایا ہوا وہ نظام ہے جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہی نظام ظالم و جابر حکمران پیدا کرتا ہے۔یہ ہر گز درست نہیں کہ تیونس کی مقدس سرزمین پر بہنے والے خون کو بھلا دیا جائے یا اس کا اثر ختم ہو جائے اورجابر حکمران کے اتحادی ایک بار پھر اقتدار حاصل کر لیں۔ کیا مبزّع، غنّوشاور قلّال اسی جابرانہ حکومت کے ستون نہیں؟ کیا یہ وزراء اس جبر اور خونریزی کے شریک اور گواہ نہ تھے جس کا بن علی نے حکم دیا تھا؟
اگر آپ ان لوگوں کی حکومت پر راضی ہو گئے جو اس خون کو بہانے کے ذمہ دار تھے، تو تیونس کی پاک زمین پر بہنے والا پاک خون آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ یہ آپ کو معاف نہیں کرے گا سوائے اسکے کہ آپ یہ احساس کر لیں کہ یہ کس لئے بہا گیا ہے۔ یعنی انسان کے بنائے ہوئے جابرانہ نظام کو اس کی جڑوں سے اکھاڑکر اس کی جگہ اﷲ کا حکم ؛خلافتِ راشدہ نافذ کرنے کے لئے۔ صرف تب ہی یہ زمین رب کے نور سے جگمگائے گی اور خیر تمام لوگوں تک پہنچے گا اور مسلمان اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ فتح سے خوش ہوں گے۔


اے تیونس کے لوگو، اے مسلمانو!
ایک مخلص راہنما اپنے عوام کو راستے سے بھٹکنے نہیں دیتا۔ حزب التحریر آپ کو پکارتی ہے کہ آپ اس پاک خون کی پکار کا جواب دیں جو آپ کی اس عظیم بغاوت کے تیس دنوں میں بہایا گیا ہے۔
یہ خون آپ کو پکارتا ہے کہ آپ انسان کے خود ساختہ جابرانہ نظام کے اپنے اوپر نفاذ پر خاموشی اختیار کر کے اس کو ضائع نہ کریں۔
یہ خون آپ کو پکارتا ہے کہ آپ اپنی سرزمین سے مغرب، اس کے آلہ کاروں، اس کے ایجنٹوں کے اثر و رسوخ اور قبضے کو اکھاڑ پھینکیں۔
یہ خون آپ کو پکارتا ہے کہ آپ پکارنے والے کی اس پکار کا جواب دیں یعنی اللہ کے حکم پر خلافت راشدہ کے قیام کی پکار کا ۔ تاکہ اللہ کا آپ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا ہو اور آپ کو رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی خوش خبری حاصل ہو جائے۔
یہ خون آپ کو پکارتا ہے کہ اچھی زندگی گزارنے اور ذلت و رسوائی سے نجات کا واحد طریقہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین کو مسترد کر نا اور انسان کے رب کے قوانین پر چلنا ہے۔


(فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى* وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا )
''جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔ اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اُس کی زندگی تنگ ہو جائے گی ‘‘ (طہٰ :123-4 )


تو کیا آپ اس پکار کا جواب دیں گے؟

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک