المكتب الإعــلامي
ولایہ سوڈان
ہجری تاریخ | 14 من ربيع الثاني 1438هـ | شمارہ نمبر: HTS 18/1438 |
عیسوی تاریخ | جمعرات, 12 جنوری 2017 م |
پریس ریلیز
بے ہنگم معاشرہ اور بے ڈھنگا لباس،
لوگوں کے درمیان اللہ سبحانہ و تعالٰی کے قانون کے نفاذ سے ہی ٹھیک ہو گا نہ کہ کھوکھلی بیان بازی سے!!
صدر البشیر نے کہا ہے کہ خواتین کے فیشن سے معاشرے میں تنزلی کا خطرہ ہے ۔ انہوں نے خواتین کےغیر مناسب فیشن پر اعتراض کیا اور لباس بنانے والے والوں کو مناسب اور حیا دار لباس بنانے کی ہدایت دی! انہوں نے کہا کہ خواتین کا فیشن سوڈانی خاندانوں کے لیے جنون اور تشویش کا باعث بن گیا ہے، اور انہوں نے ٹیکسٹائل کارخانوں کو ہدایت کی کہ وہ عوام کی پسند پر اثر انداز ہونے کے لیے بہتر کردار ادا کریں۔۔۔۔یہ بیان اس موقع پر دیا گیا جب وہ بھاری کے صنعتی علاقے میں واقع فوجی کپڑے بنانے والی سر فیکٹری کی نئی عمارت کے افتتاح کی تقریب سے 8 جنوری 2017 ،اتوار کی صبح کوخطاب کر رہے تھے۔
یہ خطاب اس صورت میں قابلِ قبول ہوتا اگر کسی ایسے مبلغ کی طرف سے آتا جو کہ لوگوں کے جذبات میں تلاطم پیدا کرتا ہے ، یا کوئی ایسا نشر کار جو کہ اپنے پروگرام کو اس انداز سے پیش کرے کہ لوگوں کو اپنا مطیع بنا لے، یا کوئی اسکول کا استاد جو اپنے طالب علموں کو سمجھائے، یا ایک امام مسجد جو لوگوں پر ایک حقیقت واضح کرے اور اقدار اور اخلاقیات کے نقصان پر مایوسی کا اظہار کرے۔ مگر اگر یہ ایک صدر اور گورنر کا خطاب ہو، جو کہ اس مرض اور لعنت کی وجہ جانتا ہو، اور اس کے خاتمے اور اس سے بچاؤ کے لیے کوئی حکم نہ دے تو یہ قابلِ قبول نہیں!
یہ ایک صدر کی طرف سے قابلِ قبول نہیں کہ وہ صدارت کے عہدے کے باوجود ایک انتہائی سنجیدہ معاملے پر اسطرح بات کرے، ایک ایسا معاملہ جو لوگوں کی اخلاقیات کو خطرہ میں ڈالے، معاشرہ کے بگاڑ کا باعث بنے، اور کوئی قانونی اقدام نہ کرے؛ کیونکہ درحقیقت حکمران ایک چرواہے کی طرح ہے، اور چرواہا عمل کرتا ہے، نہ کہ صرف بیان بازی کے بعد خاموش ہو جائےاور نہ ہی وہ ان فرض معاملات کے متعلق شور مچا کر فارغ ہو جاتا ہے جن پر عمل کے بارے میں روزِ قیامت اس سے حساب ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر صدر اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے جائز احکام نافذ کریں تو لوگ اطاعت میں دیر نہیں کریں گے۔ مگر درحقیقت یہ حکومت کی ترجیح نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کی ترجیہات میں سے ایک ترجیح ہے۔ ایک حکومت جس کا سربراہ جدید جمہوری ریاست کے لیے کام کرتا ہو؛ جہاں بشیر نے پیر، 3 اکتوبر 2016 کو پارلیمنٹ کو یہ بتایا ہو کہ :"بات چیت کا مقصد ایک جدید جمہوری ریاست کا قیام ہے"، اس لیے لوگوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بات چیت، جس کی توجہ کا مرکز شخصی آزادی کا معاملہ ہے ، محض امریکہ کی ہدایات ہیں، جیسا کہ ہم نے کئی بار بتایا ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ آزادی جس کا آغاز مغرب سے ہواتھا، کا مقصد محض غلامی کا خاتمہ نہیں، بلکہ یہ ایک مغربی فکر ہے جس کے مطابق انسان تمام حدود سے آزاد ہے اور اسلامی احکام کا تابع نہیں ہے۔ شاید ہم جو اخلاق کی دھجیاں بکھرتے اور اقدار کو تحلیل ہوتے دیکھ رہے ہیں ،یہ نام نہاد شخصی آزادی کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ بات کسی کے لیے قابلِ بحث ہی نہیں کہ شخصی آزادی نے مغرب کے لوگوں کو کیا دیا، بد سے بھی بدتر، اور حقیقت اس سوال کا جواب دیتی ہے۔
اسلام نے اسلامی شرعی لباس کے مسئلہ کو حل کر دیا تھا اور اسلامی فقہ میں اس کی بھرپور تفصیلات موجود ہیں۔ آیات اور احادیث اس اہم مسئلہ کی نشاندہی کے لیے نازل ہوئیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ﴾
اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اور اپنی پارسائی کی حفاطت کریں اور اپنا بناؤ ظاہر نہ کریں ۔ مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں"(النور:31)
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾
"اے نبی کہہ دو اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مومنین کی عورتوں سے کہ ڈال لیا کریں اپنے اوپر اپنی چادریں۔ یہ قریب تر ہے کہ انکی پہچان ہو جائے تو نہ ایذا دی جائے انہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے" (الاحزاب:59)۔
اس کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَا يَصْلُحُ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا وَهَذَا»
"جب ایک نو جوان لڑکی کو ماہانہ ایام آ جائیں تو یہ ٹھیک نہیں کہ اس کے چہرے اور ہاتھ کے سوا کچھ نظر آئے"۔ اور آپﷺ نے چہرے اور ہاتھ کی طرف اشارہ کیا ( الاداب البوھیقی)۔
اس لیے صدر کو اپنے الفاظ کے ساتھ سنجیدہ ہونا چاہیے، اسلامی احکام کی تعمیل اور خلافت کا قیام کرنا چاہیے، اور وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں، کیونکہ ایسے لوگ ان کی مدد کے لیے تیار ہوں گے جن کو پیسہ اور کاروبار اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتا، اللہ کے لیے کسی الزام سے مت ڈریں، اور دن رات اللہ کے نظام اور لوگوں کے مابین اس پر عمل کے لیے کام کریں؛ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشی تلاش کریں، تاکہ اس دنیا میں بھی عزت نصیب ہو اور آخرت میں بھی اللہ کی (رضوان) خوشی حاصل ہو۔ یہی ہے جس کا حزب التحریر پرچار کرتی ہے، یعنی نبوت کے طریقے پر خلافتِ راشدہ کا قیام، جو کہ اللہ کا نظام اور اس کا وعدہ ہے اور رسول اللہ کی بشارت ہے، اللہ کی ان پر رحمت ہو۔ یہ ہی ہے جس کے ذریعے معاشرے کے رویے کی تنظیم کیا جاتی ہے اور بندوں کا کردار بلند ہوتا ہے۔ کیونکہ اسلامی ریاست لوگوں کے اخلاق کی دیکھ بحال اور ان کا تحفظ کرتی ہے، لہٰذا وہ اسلام کے افکار اور احکام کی ترویج کے لیے کام کرتی ہے تا کہ لوگوں کے تصورات پر اثرانداز ہو ، اور انہیں بلند سے بلند تر کردار کی جانب لے جائے کیونکہ انسانی رویے ہی اس کے تصورات کے عکاس ہوتے ہیں۔ اس لیے آئیے جمہوریت اور اس کے بدبو دار خیالات جیسا کی آزادی اور اس جیسے دیگر خیالات کو اکھاڑ پھینکیں اور خلافت کے نظام کی طرف گامزن ہو جائیں جو ہر لحاظ سے بہترین ہے؛ قانون کے لحاظ سے بھی ، نفاذ کے حوالے سے بھی اوراس پر عملدرآمد کے لحاظ سےبھی، اور بحران سے نمٹنے کے لیے بھی، تاکہ آسمانوں کے مالک کی خوشنودی حاصل ہو۔
ابراہیم عثمان (ابوخلیل) ولایہ سوڈان میں حزب التحریرکے ترجمان
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ سوڈان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: 0912240143- 0912377707 http://www.hizbuttahrir.today |
E-Mail: Spokman_sd@dbzmail.com |