الأحد، 20 جمادى الثانية 1446| 2024/12/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ سوڈان

ہجری تاریخ    19 من جمادى الأولى 1438هـ شمارہ نمبر: HTS 26/1438
عیسوی تاریخ     جمعرات, 16 فروری 2017 م

پریس ریلیز

یہ کانفرنسیں منعقد کررہے ہیں تا کہ قابض یہودی وجود سے تعلق قائم

کرنے کے لیے درکار ماحول بنایا جائے

 

سوڈانی تنظیم برائے پولیٹیکل سائنس نے 13 سے 15 فروری 2017 تک وزارت اعلیٰ تعلیم اور سائنسی تحقیق کے بین الاقوامی ہال میں وزیر خارجہ ابراہیم غندور کے تعاون اس ایک کانفرنس منعقد کی۔ یہ کانفرنس "سوڈان۔۔۔علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں" کے عنوان کے تحت منعقد کی گئی۔  یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس میں پڑھیں  گئی چار دستاویزات  یہودی وجود سے تعلقات  کے حوالے سے تھیں جو سرزمین اسراء پر قابض ہے۔ ان میں سے ایک دستاویز میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اس وقت انقاذ حکومت اور یہودی وجود کے درمیان  خفیہ بات چیت ہورہی ہے ، اور دستاویز نے یہودی وجود کے ساتھ خفیہ بات چیت کے تسلسل کو ناگزیر قرار دینے کی جانب بھی نشاندہی کی۔

 

حزب التحریر کے اراکین، استاد عبداللہ عبد الرحمان –رکن ولایہ کمیٹی اور استاد محمد جامع(ابو ایمن)-ولایہ سوڈان میں حزب التحریر کے ترجمان کے معاون، نے بھی اس کانفرنس میں اپنے تبصروں اور رائے کے ذریعے سے شرکت کی۔ انہوں نے شکست خوردہ ذہنیت کی جانب نشاندہی کی جس کے زیر اثر ملکی مسائل پر غیر ملکی طاقتوں سے معاملات طے کیے جاتے ہیں،  کوئی اصول  نہیں جس کے تحت اس بات کا تعین کیا جائے کہ کون دشمن اور کون دوست ہے، اور سوڈان کے حکمرانوں کے لیے کوئی وا ضح سیاسی بصیرت  حاصل کرنے کا طریقہ کارنہیں ہے جو ان کے رویے کو تبدیل کرے کہ وہ دشمنوں کو دوست بنا کر انہیں فائدہ پہنچاتے ہیں۔  اور یہ کہ یہودی وجود کوئی طاقتور ریاست نہیں جیسا کہ میڈیا میں دیکھایا جاتا ہے کیونکہ اس کی طاقت کا بھرم تو اس وقت فاش ہوگیا تھا جب اس نے لبنان میں ایران، حماس اور حزب اللہ کے ساتھ جنگ کی تھی۔ جہاں تک شناخت کی بات ہے تو دونوں بھائیوں نے وضاحت کی کہ ہم معاملات کو عر ب یا افریقی  شناخت کی بنیاد پر نہیں بلکہ مسلمان ہونے کی بنیاد پر دیکھیں، اور یہ کہ مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے قابل نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی ہوگی۔

 

شرکاء نے ان کی جانب سے اٹھائے گئے نقات پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امت میں خیر ہے۔ یہ بات واضح ہوگئی کہ آج کل خبروں کے ذریعے یہودی وجود سے تعلقات کے حوالے سے جو بات اٹھائی جارہی ہے وہ کسی فرد واحد کی رائے نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے انقاذ حکومت سوڈان میں اس حوالے سے رائے عامہ تیار کرنا چاہتی ہے۔  یہ بات بھی قابل ذکر ہے اس کانفرنس میں بڑی تعداد میں سفارت کاروں، شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے افراد اور سیاست دانوں نے شرکت کی اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصد انہیں یہودی وجود کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے جرم کے حوالے سے تیار کرنا تھا، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوڈان کو دہشت گرد ممالک کی فہرست سے نکالنے کے لیے یہ  امریکہ کی شرائط میں سے ایک شرط ہے یا یہ کہ اس کے ساتھ مکمل تعلقات قائم کیے جائیں اور پھر سوڈان کے عوام کو اس سے آگاہ کیا جائے۔

 

اس بات کی نشاندہی وزیر خارجہ غندور کے 18 جنوری 2017 بروز بدھ کو دیے جانے والے بیان سے ہوتی ہے جب پارلیمنٹ میں خطاب کے بعد ان سے پوچھا گیا کہ خرطوم کب تل ابیب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے غور کرے گا جبکہ سوڈان پر سے امریکہ نے جزوی اقتصادی پابندیاں بھی اٹھا لی ہیں؟  زور دینے جانے پر غندور نے جواب دیا: "بین الاقوامی تعلقات میں ہر چیز ممکن ہے"۔ اس کے علاوہ یہ کوئی خفیہ بات نہیں کہ ای- پاسپورٹ سے "تمام ممالک سوائے اسرائیل کے" کیسے غائب ہوگیا جبکہ پرانے پاسپورٹ میں یہ لکھا تھا۔

 

اوپر بیان کی گئی باتوں کی بنیاد پر حزب التحریر ولایہ سوڈان انقاذ حکومت کو  اس راہ پر چلنے سے خبردار کرتی ہے کہ یہودی وجود سے تعلق قائم کرنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور مسلمانوں سے غداری ہے جو مسلمانوں کے قاتل ہیں، جن کے قید خانے مسلمان مرد و خواتین سے بھرے پڑے ہیں  اور وہ اعلانیہ  اسلام اور  مسلمانوں سے اپنی دشمنی کا اظہار کرتے ہیں۔  اور  جنوبی سوڈان کی علیحدگی اور دارفر کی علیحدگی کی تیاریوں کے بعد یہ کام انقاذ حکومت کے کالے کرتوتوں میں ایک اور اضافہ ہوگا۔  ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تمام مسلمان یہ جانتے ہیں کہ مسلمان کا خون ایک اور ناقبل تقسیم ہے، اور یہ کہ مسلمانوں کا امن ایک ہے اور ان کی جنگ بھی ایک ہے۔ وہ جو یہ کہتے ہیں کہ سوڈانیوں کا فلسطین کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ، تو پھر وہ رسول اللہ ﷺ سے بھی اور ان کے زبردست اور شاندار خلفائے راشدین سے بھی  اپنی لا تعلقی کا اعلان کریں  کیو نکہ وہ بھی  سوڈانی تو نہیں تھے۔  اور وہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کمزور ہو گئے ہیں اور ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں کہ قابض سے تعلق قائم کریں تو ان سے ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلامی امت کمزور نہیں ، اس کے پاس اسلامی عقیدہ اور نظریہ حیات، مال و دولت، مرد، ہتھیار اور اسلحہ موجود ہے۔  اور جو کچھ آپریشن فیصلہ کن طوفان (سعودی عرب کا یمن میں فوجی آپریشن) میں استعمال کیا گیا وہ کافی تھا یہود کو فلسطین سے نکال دینے کے لیے اگر اس کا مقصد شکست خوردہ مسلم حکمرانوں کو دشمن کے سامنے ذلیل کرنا نہ ہوتا۔  اور اللہ سچ کہتے ہیں جب انہوں نے یہود کو دوست بنانے سے منع کیا، اللہ نے اُن شکست خوردہ لوگوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا:

 

﴿فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ

"آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان میں گھس رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے، ایسا نہ ہو کہ کوئی حادثہ ہم پر پڑ جائے۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ فتح دے دے۔ یا اپنے پاس سے کوئی اور چیز لائے۔ پھر تو یہ اپنے دلوں میں چھپائی ہوئی باتوں پر نادم ہونے لگیں گے"(المائدہ:52)

 

یہ سب واقعات امت کے اس یقین کو مزید پختا کررہے ہیں کہ مسلم دنیا میں موجود  یہ ریاستیں صرف وہی کچھ کرتی ہیں جو اس امت کے دشمنوں کو اچھا لگتا ہے۔ اور کوئی نجات نہیں، عزت نہیں، طاقت نہیں سوائے اس کے کہ نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے جو مسلم زمینوں پر ہوئے قبضوں کو ختم کرے گی، اور اسلام کی امت کے اختیار کو بحال کرے گی تا کہ مسلمان اللہ کے احکامات کے نفاذ سے خوش ہوں اور دنیا اور آخرت  کی نعمتوں سے مستفید ہوں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم سے ایسا جلد ہی ہوگا۔ 

ابراہیم عثمان (ابوخلیل)

ولایہ سوڈان میں حزب التحریرکے ترجمان

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ سوڈان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 0912240143- 0912377707
http://www.hizbuttahrir.today
E-Mail: Spokman_sd@dbzmail.com

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک