الأحد، 05 رجب 1446| 2025/01/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

امریکہ کی پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیاں:

 

عالمی جغرافیائی سیاست کی حکمت عملی

 

https://www.alraiah.net/index.php/political-analysis/item/9134-us-sanctions-on-pakistans-missile-program

 

اوباما انتظامیہ کے دور سے ہی واشنگٹن نے پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی پر چھ مرتبہ پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان پابندیوں کی بنا پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی یہ پیش رفت امریکی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرہ بن سکتی ہے۔ لیکن یہ دعوے حقیقت سے دور اور گمراہ کن ہیں، جو ایک چھپے ہوئے ایجنڈے کو ظاہر کرتے ہیں۔ گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ پابندیاں دراصل چین کو محدود کرنے اور بھارت کو جنوبی ایشیا میں ایک مضبوط علاقائی طاقت کے طور پر ابھارنے کی جامع حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ پاکستان کے میزائل اور تکنیکی ترقی، خصوصاً چین کے ساتھ اس کی شراکت داری، جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو چیلنج کر رہی ہے جو کہ اب امریکی حکمت عملی کا مرکزی حصہ بن چکی ہے۔

 

جنوبی ایشیا میں امریکی پالیسی کا بنیادی مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے۔ بھارت، اپنی معاشی اور عسکری صلاحیتوں کی بنا پر، بیجنگ کے مقابلے میں فطری طور پر ایک ہم پلہ قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بھارت کو براہ راست مدد فراہم کرنا اور بالواسطہ اقدامات، جیسے پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو محدود کرنا، خطے میں امریکہ کے مفادات کی تکمیل کے لیے اہم اقدامات ہیں۔ پاکستان کو کمزور کر کے امریکہ بھارت کو طاقتور بنا رہا ہے تاکہ نئی دہلی اپنی توجہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو روکنے پر مرکوز رکھ سکے۔

 

ان پابندیوں کے پیچھے ایک بڑی وجہ پاکستان کی ہائپرسونک میزائل ٹیکنالوجی میں پیش رفت ہے، جو 2022ء کے بعد اہمیت اختیار کر گئی، جب بھارت نے "غلطی سے" اپنا برہموس سپرسونک میزائل پاکستان کی طرف داغا، اور اسلام آباد اسے روکنے میں ناکام رہا۔ اس واقعے کے بعد، پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت نے بھارت کے دفاعی نظام کے لیے سنگین چیلنج پیدا کر دیا ہے۔

 

یہ پابندیاں صرف میزائل ٹیکنالوجی تک محدود نہیں بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو امریکی مفادات کے مطابق ڈھالنے کی ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ ہیں۔

 

ہائپرسونک میزائل، جو آواز کی رفتار سے کئی گنا تیز سفر کرنے، راستہ بدلنے اور موجودہ بھارتی دفاعی نظام کو دھوکہ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہ میزائل خطے میں طاقت کے توازن کو بدل سکتے ہیں۔ پاکستان کو تکنیکی برابری حاصل کرنے سے روکنے کا مطلب ہے کہ بھارت اپنی عسکری برتری کو برقرار رکھے۔ یہ امر خاص طور پر اس وقت اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب بھارت کی جوہری اور روایتی مزاحمت، پاکستان کے جدید میزائل نظام کے ذریعے کمزور ہو سکتی ہو۔

 

یہ پابندیاں خلائی پروگرام کی بڑھتی ہوئی عسکریت کو بھی مدنظر رکھتی ہیں۔

 

یہ پابندیاں خلائی پروگرام کی بڑھتی ہوئی عسکری دوڑ کو بھی ہدف بناتی ہیں۔ بھارت نے اپنے خلائی پروگرام میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے اور اس نے اسٹریٹجک نگرانی اور مواصلاتی ٹیکنالوجیز تیار کی ہیں۔ دوسری جانب، پاکستان کی اس میدان میں کوششیں محدود وسائل اور بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں۔ پاکستان کی میزائل صلاحیتوں کو نشانہ بنا کر، امریکہ اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ اسلام آباد وہ ضروری راکٹ ٹیکنالوجی تیار نہ کر سکے جو بھارت کے خلائی ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ہے۔ یہ تکنیکی خلا بھارت کی پوزیشن کو براعظم میں ایک غالب طاقت کے طور پر مزید مستحکم کرتا ہے، جو چین کو محدود کرنے کے امریکی مفادات کے مطابق ہے۔

 

پاکستان کے خلاف پابندیوں کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ بھارت کے لیے پاکستان کے اسٹریٹجک خطرے کو کم سے کم کیا جائے۔ تاریخی طور پر، پاکستان نے بھارت کی توجہ اور وسائل کو وسیع تر علاقائی چیلنجز سے ہٹا دیا ہے۔ 1999ء کی کارگل جنگ نے یہ ظاہر کر دیا تھا کہ پاکستان اپنے طاقتور پڑوسی کا مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکہ، پاکستان کو عسکری، تکنیکی اور خاص طور پر آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرتے ہوئے، بھارت کو یہ موقع فراہم کرنا چاہتا ہے کہ وہ اپنی توجہ بیجنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے پر مرکوز کر سکے۔ یوں، بھارت امریکہ کی چین کو گھیرنے کی حکمت عملی میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

 

ان پابندیوں کا ایک اہم پہلو ان کا چین کے ان اداروں پر اثر و رسوخ قائم کرنا ہے جو پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں۔ چین، پاکستان کے میزائل اور دفاعی ترقی میں ایک کلیدی شراکت دار رہا ہے۔ ان پابندیوں کے ذریعے، امریکی حکومت نہ صرف پاکستان کی پیش رفت بلکہ خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو بھی نشانہ بناتی ہے۔ اس طرح واشنگٹن دیگر ممالک کو یہ باور کراتا ہے کہ بیجنگ کے ساتھ زیادہ قربت رکھنے کے ممکنہ خطرات کیا ہیں، اور ساتھ ہی چین کی عالمی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 

اس طرح، امریکی بیانیے کے برعکس، یہ پابندیاں امریکہ کی سلامتی کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو اپنی مرضی کے مطابق ترتیب دینے کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیتوں کو محدود کرکے، امریکہ یہ یقینی بناتا ہے کہ بھارت غالب قوت کے طور پر اپنی جگہ برقرار رکھے اور چین کے اثرات کو مؤثر طریقے سے روک سکے۔ یہ پالیسی واشنگٹن کے انڈو پیسفک کے طویل مدتی وژن کو اجاگر کرتی ہے، جہاں بھارت کو ایک علاقائی طاقت کے طور پر، اور کوآڈ (QUAD - Quadrilateral Security Dialogue) کے ذریعے تقویت دے کر، چین کے ارادوں کو ناکام بنایا جا سکے۔  

 

پاکستان کی قیادت آج اسی دوراہے پر کھڑی ہے جس پر کبھی ٹیپو سلطان کھڑے تھے۔ سلطانِ میسور نے راکٹ ٹیکنالوجی ایجاد کی تاکہ ہندوستان سے برطانوی قبضے کا خاتمہ کریں، اور اسی راہ میں بہادری سے شہید ہو گئے۔ کیا پاکستان کی موجودہ قیادت امریکی مطالبات کے سامنے جھک جائے گی، یا اپنی میزائل ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے برصغیر پر امریکی بالادستی کا خاتمہ کرے گی اور اپنے لوگوں کو امریکی غلامی سے آزاد کرائے گی؟

 

یہ سوال اس قیادت کے لیے ایک آزمائش ہے، جو امریکی پالیسیوں کے تابع ہے اور نہ تو اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے نہ ہی ان کے خلاف کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ خطے کو استعماری زنجیروں سے آزاد کرنے اور مغربی غلبے، بالخصوص امریکی غلبے سے چھٹکارا دلانے کے لیے ایک ایسی نظریاتی قیادت کی ضرورت ہے جو اس عظیم امت کے بطن سے وجود میں آئے۔ یہی قیادت، ان شاء اللہ، خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے، پاکستان کی صلاحیتوں کو یکجا کرکے، اس امت کو دوبارہ سربلند کرے گی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿وَيَقُوۡلُوۡنَ مَتٰى هُوَ‌ قُلۡ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنَ قَرِيۡبًا﴾

"وہ کہتے ہیں کہ یہ کب ہوگا؟ کہہ دو، شاید یہ جلد ہی ہو جائے" (سورة  الإسراء: 51)۔

 

تحریر: عبدالمجید بھٹی، ولایہ پاکستان

Last modified onجمعرات, 02 جنوری 2025 11:54

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک