بسم الله الرحمن الرحيم
رمضان المبارک کے آغاز کا تعین کرنے میں وحدتِ مطالع کو اپنانے پر اصرار کی وجہ
الخبر:
بین الاقوامی فلکیاتی مرکز نے 2025ء میں رمضان المبارک کے آغاز کی حتمی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے جس میں مسلمانوں کے لیے روزے کے مہینے کے چاند کی رویت کو فلکیاتی حسابات کی بنیاد پر طے کیا گیا ہے۔ مرکز نے اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا کہ اسلامی دنیا کے ممالک 28 فروری 2025ء (جمعۃ المبارک) کو 1446 ہجری کے رمضان المبارک کے چاند کی تلاش کریں گے۔ مرکز نے بتایا کہ اس روز چاند کی ٹیلی اسکوپ کے ذریعے مغربی ایشیا، افریقہ کے بیشتر حصوں اور جنوبی یورپ میں رویت ممکن ہو گی جبکہ امریکہ کے وسیع علاقوں میں یہ ننگی آنکھ سے بھی دیکھا جا سکے گا۔ مرکز نے مزید کہا کہ چونکہ اسلامی دنیا میں جمعرات کے روز چاند کی رویت ممکن ہے اور "اقتران" (چاند اور سورج کا ملنا) سورج غروب ہونے سے پہلے وقع پذیر ہو گا جبکہ چاند، سورج غروب ہونے کے بعد غروب ہو گا، اس لیے توقع ہے کہ بیشتر اسلامی ممالک یکم مارچ 2025ء (ہفتہ) کو رمضان المبارک کا آغاز کریں گے۔ (مصدر)
التعليق:
مسلمانوں کو بار بار وحدتِ مطالع کو رمضان اور شوال کے آغاز کے لیے اپنانے کی تلقین کی وجہ شرعی دلائل کی مضبوطی اور امتِ مسلمہ کی وحدت کو یقینی بنانا ہے۔ مسلمانوں کے فقہاء اور علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ امت کی وحدت شریعت کا اہم مقصد ہے جس کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر اس کے لیے ہر ممکن کوشش ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ فَاقْتُلُوه»
"جو شخص تمہارے پاس اس حال میں آئے کہ تم سب کا معاملہ ایک شخص کے ہاتھ میں ہو اور وہ تمہاری جماعت کو توڑنا یا تمہاری لاٹھی کو چیرنا چاہے تو اسے قتل کر دو"۔
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
«فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَهِيَ جَمِيعٌ، فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ كَائِناً مَنْ كَان»
"جو کوئی اس امت کے معاملے کو، جب کہ وہ متحد ہو، تقسیم کرنا چاہے تو اسے تلوار سے مار دو خواہ وہ کوئی بھی ہو" (صحیح مسلم)۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی اس امت میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے، اس کی سزا موت اور قتل ہے۔ لہٰذا، وہ احکام تلاش کرنا اور اختیار کرنا جو مسلمانوں کے اتحاد کو یقینی بنائیں، اخلاص کے حامل افراد کا کام ہے، جو امت کو اس کے ہر معاملے میں متحد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاہے وہ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکومت کرنا ہو، یا مسلمانوں پر ایک خلیفہ کو مقرر کرنے کا فرض ادا کرنا ہو جو اللہ کی کتاب اور نبی کی سنت کے مطابق ان پر حکمرانی کرے، یا ان کے دینی شعائر جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جہاد کے معاملات میں سے ہو۔
اگرچہ عبادات کو اسی طریقے سے ادا کرنا جسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پسند فرمایا ہے، نہایت آسان ہے، مگر اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بضد ہیں کہ وہ فقہی طور پر ایسی غیر معتبر آراء کو اختیار کریں جو درحقیقت سیاسی ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے ہیں۔ ان کا مقصد امت کے اسلامی شعائر میں وحدت کو نقصان پہنچانا ہے، بالکل اسی طرح جیسے مغربی کافروں نے امت کو سیاسی طور پر تقسیم کرکے پچاس سے زائد ریاستوں میں بانٹ دیا، اور ہر ریاست پر اپنا ایک وفادار حکمران مقرر کر دیا، جس کا اصل کام اللہ کے نازل کردہ احکام کے بغیر حکومت کرنا، مغربی آقاؤں کو راضی رکھنا، اور اپنی چالاکیوں سے ہر ممکن طریقے سے اسلامی نظام کے نفاذ کو روکنا ہے، حتیٰ کہ مسلمانوں کی عبادات، جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جہاد وغیرہ میں بھی رکاوٹیں ڈالنا ہے جبکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی شریعت کو آسان اور سہل بنایا ہے اور اس کے احکام کو ظاہری اور محسوس چیزوں سے جوڑا ہے، جنہیں عامی اور عالم، دیہاتی اور شہری سب یکساں طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
«انا أمة أمية لا نكتب ولا نحسب، الشهر هكذا، وهكذا، وهكذا»
"ہم ایک ان پڑھ امت ہیں، نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب کرتے ہیں، مہینہ ایسے اور ایسے (یعنی تیس یا انتیس دن) کا ہوتا ہے"۔
اس میں اس بات کی تصدیق ہے کہ ہمارا دین ان پیچیدہ حسابات کا محتاج نہیں، جو اہلِ کتاب اپنی عبادات کو منظم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان حکمرانوں اور ان کے ہم نوا درباری علماء نے لوگوں کے لیے ان کے دینی شعائر کو مشتبہ بنا دیا، اور ایسی فقہی آراء اختیار کیں جو مرجوح تھیں، حالانکہ علماء ان پر متفق نہیں تھے۔ ان کا مقصد امت کی سیاسی تفرقہ بندی کو مزید مستحکم کرنا اور اس تفرقے کو دینی شعائر تک پھیلانا تھا۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مہینے کے آغاز اور اختتام کا معیار چاند کو آنکھ سے دیکھنا ہے، جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے:
«لا تصوموا حتى تروه، ولا تفطروا حتى تروه»
"چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر ہی افطار کرو"۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شرعی فقہ میں فلکیاتی حسابات پر اعتماد کرنا معتبر نہیں، بلکہ اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ اس میں چاند، ستاروں کی چال کا علم رکھنے والوں کے قول کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، چاہے وہ چاند کی نظر آنے پر متفق ہی کیوں نہ ہوں۔ چنانچہ یہ حکمران اور درباری علماء ان لوگوں میں سے ہیں جو اسلام کی بنیادوں کو کمزور کر رہے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں آیا ہے:
«لَيُنْقَضَنَّ عُرَى الْإِسْلَامِ عُرْوَةً عُرْوَةً، فَكُلَّمَا انْتَقَضَتْ عُرْوَةٌ تَشَبَّثَ النَّاسُ بِالَّتِي تَلِيهَا، وَأَوَّلُهُنَّ نَقْضًا الْحُكْمُ، وَآخِرُهُنَّ الصَّلَاةُ»
"اسلام کی گرہیں ایک ایک کر کے کھولی جائیں گی، جب بھی ایک گرہ کھلے گی تو لوگ اس کے بعد والی کو مضبوطی سے تھام لیں گے، سب سے پہلے اسلامی حکومت ختم ہوگی اور سب سے آخری گرہ نماز ہو گی۔" ( اسے احمد نے روایت کیا ہے)
جمہور علماء، جن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن المنذر، ابن عابدین، قرطبی اور دیگر شامل ہیں، کا اجماع منقول ہے کہ فلکیاتی حسابات پر اعتماد کر کے مہینوں کے شیروں ہونے کا ثبوت لینا جائز نہیں۔ انہوں نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ روزہ، حج اور دیگر چاند سے متعلقہ احکام کا فیصلہ چاند کی رؤیت کی بنیاد پر ہی کیا جائے، اور فلکی حساب کتاب جاننے والوں کے حسابات پر اعتماد کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی بات مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہے، اور اس میں کوئی قدیم یا جدید اختلاف نہیں پایا جاتا، سوائے چند متأخرین کے، جنہوں نے بغیر کسی راجح شرعی دلیل کے اس اجماع کی مخالفت کی۔ چاند کے ثبوت کا اصل معیار آنکھ سے دیکھنا ہے، نہ کہ حسابات پر انحصارکرنا۔ یہی وہ چیز ہے جو مسلمانوں کو ایک رکھتی ہے اور روزہ و افطار میں اتحاد کے لیے پیچیدہ حسابات کی ضرورت نہیں پڑتی۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ ﴾
"اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی دعوت کو قبول کرو جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی بخشتی ہے" (سورۃ الأنفال:24)۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے تحریر کردہ
بلال مہاجر — ولایہ پاکستان