بسم الله الرحمن الرحيم
اداریہ :اے مسلم علما! فرضوں کے تاج کی طرف آئیں
(ترجمه)
ہمارے دین میں یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ تمام مسلمان، اپنے سچے عقیدے اور ربّانی شریعت کی بدولت، دوسرے لوگوں سے الگ ایک ہی امت ہیں۔ اور بطورِ امت ان کا اتحاد اس وقت تک قائم رہے گا جب تک وہ اپنے عقیدے اور شریعت پر قائم رہیں اور یہ چیز شرعاً واجب ہے کہ عقیدے میں امت کی وحدت اس کی سیاسی وحدت کے ساتھ ہم آہنگ ہونی چاہیے۔ اصطلاحاً اسے "الجماعة" کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ مسلمان ایک امام یعنی خلیفہ کے تحت ایک جماعت کی شکل میں ہوں۔ اس پر قرآن و سنت کے دلائل، صحابہ کرام کا اجماع اور اسلامی اصولوں کا مکمل اتفاق ہے۔
مسلمانوں کے علماء نے قدیم زمانے میں اس فرض کی عظمت اور مرکزیت کو اس وقت بھی محسوس کیا تھا جب خلافت کے انگریزوں اور ان کے ایجنٹوں کے ہاتھوں ختم کیے جانے سے پہلے وہ عملی طور پر غائب نہیں ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں امت ایک ایسے اندھیرے میں زندگی گزار رہی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہاں خلافت کے واجب ہونے اور ایک امام پر متحد ہونے کے بارے میں ان کے اقوال کا ایک خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے:
امام الماوردی نے اپنی کتاب "الأحکام السلطانية" میں فرمایا:
«الإمامة موضوعة لخلافة النبوة في حراسة الدين وسياسة الدنيا، وعقدها لمن يقوم بها في الأمة واجب بالإجماع»
"امامت دین کی حفاظت اور دنیا کے امور کی دیکھ بھال میں نبوت کی جانشینی کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ اور جو شخص امت میں سے اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے کھڑا ہوجائے تو اس کی بیعت کرنا اجماع کی رو سے واجب ہے۔"
امام نووی نے "شرح مسلم" میں فرمایا: «أجمعوا على أنه يجب على المسلمين نصب خليفة» "اس بات پر اجماع ہے کہ مسلمانوں پر ایک خلیفہ کا نصب کرنا واجب ہے۔"
امام قرطبی نے اللہ تعالیٰ کے قول
﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً﴾
"اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" کی تفسیر میں فرمایا: «هذه الآية أصل في نصب إمام وخليفة يسمع له ويطاع، لتجتمع به الكلمة، وتنفذ به أحكام الخليفة. ولا خلاف في وجوب ذلك بين الأمة ولا بين الأئمة، إلا ما روي عن الأصم؛ حيث كان عن الشريعة أصم» "یہ آیت ایک امام اور خلیفہ کے نصب کرنے کی بنیاد ہے جس کی بات سنی جائے اور اطاعت کی جائے، تاکہ اس کے ذریعے وحدت قائم ہو اور خلیفہ کے احکام نافذ ہوں۔ اس کے واجب ہونے پر امت اور ائمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، سوائے اس روایت کے جو اصم سے مروی ہے، کیونکہ وہ شریعت کے بارے میں بہرا تھا۔"
امام ابن تیمیہ نے "السياسة الشرعية" میں فرمایا: «يجب أن يعرف أن ولاية أمر الناس من أعظم فاجعات الدين، بل لا قيام للدين إلا بها فإن بني آدم لا تتم مصلحتهم إلا بالاجتماع لحاجة بعضهم إلى بعض، ولا بدَّ لهم عند الاجتماع من رأس حتى قال النبي ﷺ «إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ» رواه أبو داود من حديث أبي سعيد وأبي هريرة ولأن الله تعالى أوجب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، ولا يتم ذلك إلا بقوة وإمارة» "یہ جان لینا لازم ہے کہ لوگوں پر حکمرانی دین کے عظیم ترین فرائض میں سے ہے، بلکہ دین اور دنیا کے امور اس کے بغیر سدھرتے ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے محتاج ہیں نتیجتاً وہ اپنے مفادات صرف اجتماعیت کی صورت میں ہی پورے کرسکتے ہیں اور اجتماع کی صورت میں ان کو کسی سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ» "جب تین آدمی سفر پر نکلیں تو ان میں سے ایک کو اپنا امیر بنا لیں" اسے ابو داؤد نے ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب قرار دیا ہے، اور یہ قوت اور امارت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔"
امام ابن حجر الہیثمی نے "الصواعق المحرقة" میں فرمایا: «اعلم أيضاً أن الصحابة رضوان الله عليهم أجمعوا على أنَّ نصب الإمام بعد انقراض زمن النبوة واجب بل جعلوه أهم الواجبات حيث اشتغلوا به عن دفن رسول الله ﷺ» "یہ بھی جان لیں کہ صحابہ کرامؓ کا اس پر اجماع تھا کہ دورِ نبوت کے بعد ایک امام کا تقرر فرض ہے، بلکہ انہوں نے اس فرض کو اہم ترین فرض گردانا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی تدفین پر فوقیت دیتے ہوئے اپنے آپ کو اس فرض کی ادائیگی میں مصروف کیا۔"
جمال الدین الغزنوی نے "أصول الدين" میں فرمایا: «لا بدَّ للمسلمين من إمام يقوم بمصالحهم من تنفيذ أحكامهم وإقامة حدودهم وتجهيز جيوشهم وأخذ صدقاتهم وصرفها إلى مستحقيها لأنه لو لم يكن لهم إمام فإنه يؤدي إلى إظهار الفساد في الأرض» "مسلمانوں کے لیے امام (خلیفہ) کی موجودگی لازم ہے،جو ان کے مفادات کی نگہداشت کرے یعنی احکام کو نافذ کرے، شرعی حدود قائم کرے، افواج کو تیار کرے، مسلمانوں سے صدقات وصول کرے اور انہیں مستحق لوگوں پر خرچ کرے، کیونکہ اگر ان کا کوئی امام نہ ہو، تو اس سے زمین میں فساد و بگاڑ پیدا ہو جائے گا۔"
ابن خلدون نے "المقدمة" میں فرمایا: «إن نصب الإمام واجب قد عرف وجوبه في الشرع بإجماع الصحابة والتابعين؛ لأن أصحاب رسول الله ﷺ عند وفاته بادروا إلى بيعة أبي بكر رضي الله عنه وتسليم النظر إليه في أمورهم، وكذا في كل عصر من بعد ذلك ولم يُترك الناس فوضى في عصر من الأعصار، واستقر ذلك إجماعاً دالاً على وجوب نصب الإمام» "امام کی تقرری واجب ہے، اور شریعت میں اس کا واجب ہونا صحابہؓ اور تابعین کےاجماع سے ثابت ہے، کیونکہ صحابہؓ نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر (تدفین کو موخر کرکے) ابوبکرؓ کی بیعت میں جلدی کی اور اپنے معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کے سپرد کر دی۔ اس کے بعد تمام ادوار میں خلافت کے سلسلے میں یہی ہوتا رہا کہ لوگوں کو کسی دور میں بھی انتشار کی حالت میں نہیں چھوڑا گیا۔ یوں یہ امر اجماعاً طے ہو گیا، جو امام کی تقرری کی فرضیت پر دلیل ہے۔"
ابن حزم اندلسی نے "الفصل في الملل والأهواء والنحل" میں فرمایا: «اتفق جميع أهل السنة، وجميع المرجئة، وجميع الشيعة، وجميع الخوارج على وجوب الإمامة، وأن الأمة واجب عليها الانقياد لإمام عادل، يقيم فيهم أحكام الله، ويسوسهم بأحكام الشريعة...» "تمام اہل سنت، تمام مرجئہ، تمام شیعہ اور تمام خوارج امامت کے واجب ہونے پر متفق ہیں، اور یہ کہ امت پر ایک عادل امام کی اطاعت کرنا واجب ہے جو ان میں اللہ کے احکام قائم کرے اور شریعت کے مطابق ان پر حکومت کرے۔"
امام طبری نے اللہ تعالیٰ کے قول
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ﴾
"اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اولی الامر کی (اطاعت کرو)" کی تفسیر میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ «أن أولي الأمر هم الأمراء» "اولی الامر سے مراد حکمران ہیں۔" امام طبری نے فرمایا: «أولى الأقوال في ذلك بالصواب قول من قال: هم الأمراء والولاة فيما كان لله طاعة وللمسلمين مصلحة» "اس بارے میں سب سے درست قول ان لوگوں کا ہے جنہوں نے کہا کہ اس سے مراد وہ امراء اور حکمران ہیں جو اللہ کی اطاعت اور مسلمانوں کی مصلحت کے معاملات میں ہوں۔"
اس استدلال کی وجہ یہ ہے کہ امام کی اطاعت کا حکم دراصل اس کے نصب کرنے کا حکم ہے، کیونکہ اللہ، اس کی اطاعت کا حکم نہیں دیتے جس کا وجود ہی نہ ہو۔ اور اس کی اطاعت کا حکم دینے سے اللہ کا ارادہ شریعت کے اس حکم کو پورا کرنا ہے جو اس کے موجود ہونے کی صورت میں بھی اس کی اطاعت کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا، تو پھر اس کے وجود کے بغیر کیسے پورا ہو گا! لہٰذا اس کی اطاعت کے حکم سے اس کے نصب کرنے کا حکم لازم آتا ہے۔
استاد عبد القادر عودة نے "الإسلام وأوضاعنا السياسية" میں فرمایا: «فالرسول ﷺ كوّن من المسلمين وحدة سياسية، وألف منهم جميعا دولة واحدة كان هو رئيسها وإمامها الأعظم، وكان له وظيفتان: الأولى: التبليغ عن الله، والثانية: القيام على أمر الله وتوجيه سياسة الدولة في حدود الإسلام... بل إن التأسي بالرسول ﷺ واتباع سنته يقتضي من المسلمين جميعا أن يكوّنوا من أنفسهم وحدة سياسية واحدة تجمعهم، وأن يقيموا على رأسهم من يخلف رسول الله ﷺ في إقامة الدين وتوجيه سياسة الدولة توجيها إسلاميا خالصا» "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں ایک سیاسی وحدت بنائی، اور ان سب کو ملا کر ایک ایسی ریاست قائم کی جس کے حاکم اور عظیم امام آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو فرائض تھے: پہلا: اللہ کی طرف سے پیغام پہنچانا، اور دوسرا: اللہ کے حکم کو نافذ کرنا اور اسلام میں موجود حدود کے معاملے میں ریاست کی پالیسی کی رہنمائی کرنا... بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور آپ کی سنت کی اتباع تمام مسلمانوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک ایسی سیاسی وحدت میں مجتمع کریں جو انہیں اکٹھا کرے، اور وہ اپنے اوپر ایسے شخص کو قائم کریں جو دین قائم کرنے اور ریاست کی خالص اسلامی انداز میں قیادت کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین ہو۔"
ڈاکٹر عبد اللہ بن عمر الدمیجی نے اپنی کتاب "الإمامة العظمى عند أهل السنة والجماعة" میں ابو حامد الغزالی کا قول ان کی کتاب "الاقتصاد في الاعتقاد" سے نقل کیا ہے: «إن الدنيا والأمن على الأنفس والأموال لا ينتظم إلا بسلطان مطاع. فبان أن السلطان ضروري في نظام الدين ونظام الدنيا، ونظام الدنيا ضروري في نظام الدين، ونظام الدين ضروري في الفوز بسعادة الآخرة، وهو مقصود الأنبياء قطعا، فكان وجوب الإمام من ضروريات الشرع الذي لا سبيل إلى تركه فاعلم ذلك» "دنیا اور جان و مال کا امن ایک اطاعت کیے جانے والے سلطان کے بغیر منظم نہیں ہو سکتا۔ پس یہ واضح ہوا کہ سلطان دین کے نظام اور دنیا کے نظام میں ضروری ہے، اور دنیا کا نظام دین کے نظام میں ضروری ہے، اور دین کا نظام آخرت کی سعادت حاصل کرنے میں ضروری ہے، اور یہی یقیناً انبیاء کا مقصود تھا، پس امام کا وجوب شریعت کی ضروریات میں سے ہے جس کو ترک کرنے کا کوئی راستہ نہیں، اسے جان لو۔" پھر ڈاکٹر دمیجی نے غزالی کے قول پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: «وخير دليل على ذلك الواقع المرير الذي تعيشه الأمة الإسلامية اليوم، ففيه دلالة قاطعة على أنه لن تقوم للإسلام قائمة إلا بالرجوع إلى الله، ثم السعي إلى إقامة الخلافة الإسلامية التي ما فتئ أعداء الإسلام ينخرون في جنباتها حتى قوضوها، وصار لهم ما أرادوا، فبعد أن أبعدت الخلافة الإسلامية، ونحي الإسلام عن قيادة الأمة، عطلت الحدود، وانتهكت الأعراض والحرمات، وعطلت راية الجهاد، وقسمت بلاد المسلمين إلى دويلات متناحرة يضرب بعضها رقاب بعض... فالقعود عن العمل لاستئناف الحياة الإسلامية معصية من أكبر المعاصي، لذلك كان نصب خليفة لهذه الأمة فرضا لازما لتطبيق الأحكام على المسلمين، وحمل الدعوة إلى جميع أنحاء العالم» "اور اس پر بہترین دلیل وہ تلخ حقیقت ہے جس میں آج امتِ مسلمہ زندگی گزار رہی ہے، پس اس میں اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اسلام اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ اللہ کی طرف رجوع نہ کیا جائے، پھر اسلامی خلافت کے قیام کے لیے کوشش نہ کی جائے، جس کے کناروں میں دشمنان اسلام ہمیشہ نقب لگاتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے اسے گرا دیا، اور انہیں وہ مل گیا جو وہ چاہتے تھے۔ پس جب اسلامی خلافت کو ہٹا دیا گیا اور اسلام کو امت کی قیادت سے دور کر دیا گیا تو حدود معطل ہو گئیں، عزتوں اور حرمتوں کی پامالی ہوئی، جہاد کا جھنڈا معطل ہو گیا، اور مسلمانوں کے ممالک کو چھوٹی چھوٹی دست و گریباں ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا جو ایک دوسرے کی گردنیں مار رہی ہیں... پس اسلامی زندگی کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے کام نہ کرنا، بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے، اسی لیے اس امت کے لیے ایک خلیفہ کا نصب کرنا مسلمانوں پر احکام نافذ کرنے اور تمام دنیا میں دعوت پہنچانے کے لیے ایک لازمی فرض ہے۔"
اے امت کے علماء!
ہم، حزب التحریر میں آپ کے بھائی، آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کے راستے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اپنی کوششیں صرف کریں۔ اللہ کی قسم! حق واضح ہو چکا ہے اور اب کسی عذر کرنے والے کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ اور اللہ کی قسم! عزت کے راستے میں تلوار کی ایک ضرب، ذلت کے راستے میں کوڑے کی ضرب سے بہتر ہے، اور اللہ کی اطاعت میں موت اللہ کی نافرمانی میں زندگی سے بہتر ہے، اور اللہ آپ سے آپ کے علم اور آپ کے عمل کے بارے میں پوچھے گا، لہٰذا آئیں، ہم مل کر فرائض کے تاج، نبوت کے نقشِ قدم پر قائم دوسری خلافتِ راشدہ کو قائم کریں۔
تحریر: شیخ عدنان مزیان
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے رکن