بسم الله الرحمن الرحيم
شامی حکومت، سیکولرازم کی شکست، تبدیلی کے عمل کی تکمیل اور خلافت راشدہ کی بحالی
(عربی سے ترجمہ)
احمد معاذ – شام
سابق شامی حکومت کا زوال امت مسلمہ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حقیقت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ ہے، اور یہ کہ مسلم انقلابات بھی ختم نہیں ہوئے اور تبدیلی کا یہ منصوبہ، جسے امت کے بیٹوں اور بیٹیوں نے اسلام کے احیاء اور اسلام کے پیغام کو دنیا بھر تک پہنچانے کے لیے شروع کیا تھا، وہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اور یہ سب اس کے باوجود ہے کہ اس انقلاب کو پھیلنے سے روکنے اور اس کے شعلوں کو بجھانے کے لئے تگ و دو مسلسل جاری ہے، جو کہ اس سرمایہ دارانہ مادیت پرست آئیڈیالوجی کے خلاف تہذیبی جدوجہد کے تناظر میں ہے جس نے کھیت کھلیانوں اور لوگوں دونوں کو ہی تباہ وبرباد کر ڈالا ہے۔ یہ بات خاص طور پر شام کے لئے سچ ہے کیونکہ وہ دنیا کے قلب بلاد الشام کے ممالک میں سے ایک ہے۔ شام میں برسوں سے جاری کشمکش اس تہذیبی جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے جو امت مسلمہ کے درمیان پَنپ رہی ہے، امت اپنے مقام اور ریاست کو بحال کرنے کے لئے کوشاں ہے، جبکہ یہ کشمکش امت مسلمہ اور عالمی سرمایہ دارانہ استعمار کی قوتوں اور اس کی ریاستوں کے مابین ہے، جن کی قیادت امریکہ کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکومت کا زوال تبدیلی کی راہ پر ایک اہم قدم کی نمائندگی کرتا ہے، جو قادرِ مطلق کی مدد سے ہی وقوع پذیر ہوا، جس کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے شام کے مظلوم مسلمانوں کو عزت بخشی، جن پر قرب وجوار کے نام نہاد دوستوں اور دشمنوں نے یکساں مل کر حملہ کر رکھا تھا۔ چودہ سالوں کے دوران غیر معمولی ثابت قدمی اس تنازعے میں ایک اہم موڑ تھا، جس کا ایک اہم مرحلہ ایران کے اس قدر تیزی سے ذلت آمیز انخلا اور اس کے اثر و رسوخ کے خاتمہ سے ہوا ، جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اور لبنان کے اندر ایرانی حزب کی شکست، اور جنگی اکھاڑے سے ایرانی حزب کے انخلاء کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ ایران اور لبنان کے اندر اس کی حزب دونوں ہی اسلامی امت کے اس منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک آلۂ کار اور ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے تھے، وہ منصوبہ کہ جس کے ذریعے امت اپنے اقتدار کو بحال کرنے اور اپنی ریاست قائم کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔
شام کے بابرکت انقلاب کا مقابلہ کرنے والے اہم عسکری مہروں کا گر جانا خطے پر نمایاں اثرات مرتب کرے گا، خاص طور پر اس لئے کہ شامی انقلاب نے اپنے مقصد کے لئے واضح اور مخصوص اصول اپنا رکھے ہیں کہ حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے اور اس کی باقیات پر خلافت قائم کی جائے۔ اس امر نے پوری دنیا کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی، اور پوری دنیا نے انقلاب کے خلاف سازش کرنے اور اس کے خلاف کھڑے ہونے کے لئے اپنی تمام تر قوتوں کو متحرک کر دیا، اور فرقہ وارانہ تحریک کے ذریعے فوجی سطح پر اس انقلاب کا مقابلہ کرنے کے لئے غلیظ ترین حربے استعمال کیے، جس کا انقلاب پر گہرا اثر پڑا۔ ترک حکومت، جو کہ سیاسی طور پر امریکی مدار میں گردش کرتی ہے، اس نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر جب ترکی نے انقلاب کے فیصلہ سازی کے عمل کا کنٹرول اپنے قابو میں کر لیا تھا۔
ترک حکومت نے امریکی رہنمائی اور دباؤ تلے آ کر شام میں مداخلت کی تا کہ انقلاب کے فیصلوں کو کنٹرول کیا جائے، انقلاب کو کنٹرول سے باہر ہونے سے روکا جائے اور عالمی نیتوں اور فیصلوں کو الٹنے اور شام میں سیکولرازم کو تباہ ہونے سے بچایا جائے، اس مقصد کے لئے ایرانی فوج کے اپنے کردار میں ناکام ہو جانے کے بعد ترکی نے دھوکہ دہی اور چال بازی کے ذریعے شام میں دراندازی شروع کر دی۔
ڈی ایسکلیشن زونز اور بین الاقوامی کانفرنسوں کے نتائج کا بھی شامی انقلاب کے زوال پر نمایاں اثر پڑا۔ ایران اور روس 2016ء میں حلب کا کنٹرول حاصل کرنے کے قابل ہو گئے، اس کے بعد غوطہ ، حمص اور درعا کے علاقوں اور حال ہی میں، 2019ء کے اواخر میں شمالی حما اور مشرقی ادلب کے دیہی علاقوں میں تباہی اور ہتھیار ڈال دیئے گئے تھے۔ ان حالات کے ساتھ ساتھ جس قدر جرائم اور قتل وغارت کا ارتکاب کیا گیا، صیدنایا جیل، ان جرائم کے محض ایک چھوٹے سے حصہ کی عکاسی کرتی ہے۔ پیوٹن نے بعد میں اس کا اعتراف بھی کیا کہ وہ اپنے دوست، اردگان کی مدد کے بغیر، حلب پر ہرگز قبضہ نہ کر سکتا تھا، جبکہ (اردگان)نے خود اس سلسلے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ حقائق خود ہی کتابوں اور بیانات سے زیادہ سچائی کو بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ آخری لمحے تک، "مزاحمت کے سدباب" (Deterrence of Aggression)کی لڑائی کے آغاز سے ٹھیک پہلے، اردگان نے شامی عوام پر زور دیا کہ وہ قرارداد 2254 پر عمل درآمد کے لئے ترکی آئیں، جو شام میں سیکولر حکومت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ "مزاحمت کے سدباب" کی لڑائیوں نے شام کے فرزندان میں راسخ طور پر پیوست انقلاب کی شدید خواہش کو واضح کر دیا، جو سابقہ حکومت کے لڑکھڑاتے ہوئے باقی ماندہ دھڑوں کا خاتمہ کرنے کے لئے مجاہدین کے طور پر نکلے تھے۔ اس جنگ کا اختتام سابقہ حکومت کا خاتمہ اور دہائیوں سے جاری ان ناانصافیوں، مظالم اور جرائم کا خاتمہ تھا، جس کی مثال جدید تاریخ نے نہیں دیکھی تھی۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان جھڑپوں کے نتائج منصوبہ بندی سے کہیں زیادہ تھے، یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فضل و کرم ہی ہے، جس نے مخلص مجاہدین کی شجاعت و بہادری میں برکت عطا فرمائی۔ شام کی مجرمانہ حکومت کے خاتمے کے بعد ترک حکومت، دمشق میں نئی انتظامیہ کو جو ہدایات اور مشورے دے رہی ہے اس سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی شام میں سرکاری سطح پر سیکولرازم کو برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔ اور یہ سب اس خوف سے ہے جو کہ شامی انقلاب کے مجاہدین کا اسلامی رجحان اور خلافت کا منصوبہ ہے، جو طویل عرصے سے امریکی فیصلہ ساز حلقوں کے لئے تشویش کا باعث رہا ہے، اور وہ بہر صورت طریقے سے اسے ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ بات اب خاص طور پر سچ نظر آتی ہے کہ اس رجحان کو شام میں اور انقلابیوں اور مجاہدین کے درمیان وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ لہٰذا ترک حکومت نے اپنے مختلف حربوں کے ذریعے اس منصوبے کی کامیابی کو روکنے اور اس کے حامیوں کو محدود کرنے پر زور دیا ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ ٹھیکیدار امریکہ شام میں بھی نام نہاد ترک ماڈل کو دہرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور عرب ریاستوں، خاص طور پر خلیجی ریاستوں اور مصر کے ساتھ مل کر میڈیا کی چمک دمک اور بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کے ساتھ ایسا کیا جا رہا ہے۔ اور اس معاملے کو انتہائی باریک بینی اور نگرانی کے ساتھ کیا جا رہا ہے، اور ساتھ ہی بہت سے جواز کی بھرمار شامل ہے، جیسا کہ ترکی میں کیا گیا تھا۔ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ اہل شام کو ان کی اس عظمت اور وقار کی راہ سے گرا کر بہت دور پستی میں ڈال دیا جائے، وہ عظمت کی راہ جس کے وہ متلاشی ہیں اور جس کی خاطر انہوں نے اپنے خون کی ندیاں بہا دی ہیں، تاکہ زمین پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حکمرانی کو بحال کیا جا سکے، اس کی رضا حاصل کی جا سکے اور تاریخ کے دھارے کو بدل دیا جائے۔
ترکی کی ترقی کا ماڈل، جو دو دہائیوں سے بین الاقوامی مفادات اور عالمی نظام کو خدمات پیش کرنے کے طور پر مسلم دنیا میں برآمد کیا جا رہا ہے، وہی ماڈل اس وقت شام میں دہرایا جا رہا ہے۔ یہ ماڈل ایک جمہوری سول حکومت اور دھیمی سیکولرازم کی ایک شکل کے ذریعے اپنایا جا رہا ہے، جس میں ان لوگوں کو استعمال کیا جا رہا ہے جن کو امریکہ اقتدار میں لانا چاہتا ہے، اور وہ جو امریکہ کے لئے قابل قبول ہیں۔ یہ افراد مبہم کردار ادا کرتے ہیں اور موقف تبدیل کرنے، وفاداریاں تبدیل کرنے، اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرنے اور انقلابیوں اور مجاہدین کے خلاف متعدد جرائم کا ارتکاب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ کردار اسد حکومت کے خاتمے اور اس کے فرار ہونے کے بعد ہی ادا کیا جا سکتا تھا۔ لہٰذا موجودہ انتظامیہ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے تاکہ اسلام کی حکمرانی کو روکنے اور شام میں خلافت کے قیام کو روکنے کے امریکی مقاصد کو حاصل کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترک حکومت اور عرب ریاستوں کے درمیان ذرائع ابلاغ اور سفارتی کشمکش بھی ہے، جو اس مرحلے پر سخت گیر دکھائی دیتی ہیں، جو موجودہ انتظامیہ کو تسلیم کرنے اور عرب لیگ اور بعد میں اقوام متحدہ میں شام کی دوبارہ شمولیت کے لئے حمایت اور قبولیت فراہم کرنے کے بدلے میں زیادہ سے زیادہ ممکنہ رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اسلام کے غالب ہونے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور اس کی تاخیر کرنے کے لئے علاقائی طاقتوں اور بین الاقوامی نظام کی سازشیں ان شاء اللہ انہی پر وبال بن کر گریں گی، کیونکہ ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے خمیر میں ہی خود اپنے خاتمے کے بیج لئے ہوئے ہے۔ اور ناگزیر نتیجہ ایک زبردست تباہی سے ہرگز کم نہ ہوگا۔ آج مسلمان وہ نہیں ہیں جو سو سال پہلے تھے۔ بیداری اس دور کی پہچان ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغرب کو اپنے وہ پتے چند ہی سالوں میں جلانے پڑ گئے ہیں جو اس نے دہائیوں میں تیار کئے تھے۔ جس طرح اہل شام کی استقامت نے فریب اور مزاحمت کے محور کو بے نقاب کیا ہے، تو پھر اس سے کم آخر اور کیا ہوگا؟ تحریکوں کے انہدام کے بعد انقلابات کے ذریعے کی جانے والی تباہی آخری مراحل میں پہنچ چکی ہے جس کے بعد امت مسلمہ کی سیاسی بیداری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں کوئی سازشی یا دھوکہ باز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وہ ترقی جو ٹھوس اصولوں اور مضبوط بنیادوں پر تعمیر نہیں ہوتی وہ تبدیلی کی ہوائیں آنے سے آسانی سے جڑ سے اکھڑ جاتی ہے۔ ترکی کے ماڈل کو نقل کرنے کی کوشش کرنے والوں نے ترقی کے جو مظاہر قبول کیے ہیں، جن کی تصویریں اور چمک ہر جگہ بھری ہوئی ہیں، ان کو زمینی حقائق سے باآسانی جھٹلایا جا سکتا ہے، اور جلد ہی وہ انہی لوگوں کے سروں پر الٹا گر پڑیں گی جنہوں نے انھیں بنایا تھا۔
سیاسی تجزوں اور شام کے معاملات میں ملوث کرداروں کے الجھاؤ کے درمیان، ہمیں یہودی وجود کے کردار کو ہرگز نہیں بھولنا چاہئے۔ ایک ایسے وقت میں جب امت مسلمہ نے اپنے حالات کو تبدیل کرنے اور ایک سیاہ صدی تک آہنی ہاتھوں سے حکمرانی کرنے والی جبری سیکولر حکومتوں کے ملبے سے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کے لئے بغاوت کر دی ہے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی سربراہی میں خلیجی ریاستیں اس ناجائز وجود کے ساتھ نارملائزیشن کے منصوبے کی قیادت کر رہی ہیں اور اسے فروغ دینے اور اسے خطے میں ضم کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت کے ساتھ کوشش کر رہی ہیں۔ اور یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اس وجود کا مقدر ہی نامراد ہونا ہے جو کہ یہود کی ذہنیت اور مسلمانوں کے مسترد کرنے کی وجہ سے ہے؛ مسلمان جو کہ فلسطین کی بابرکت سرزمین کے مسئلے کو عقیدے کے مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں، جسے قرآن کریم نے امت کے اذہان میں مضبوطی سے گاڑ رکھا ہے، ایک ایسا مسئلہ جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم مصر اور اردن کے ساتھ مل کر یہ ممالک نارملائزیشن کے لئے دوڑے جا رہے ہیں اور اسد کے خاتمے کے بعد شام کو بھی اپنے اس محکوم کیمپ میں شامل کرنے کے خواہاں ہیں۔ امت مجموعی طور پر اسرائیل کے وجود کو مسترد کرتی ہے اور اسے استعماری کینسر سمجھتی ہے جس کا خاتمہ کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔ عرب ایجنٹ حکمران نارملائزیشن کے ساتھ جواب دے رہے ہیں، اسی طرح بہت سے مسلمان مبہم اور مشکوک ایران کے کردار کے چنگل میں بھی پھنس جاتے ہیں، جسے شام کے مبارک انقلاب نے بے نقاب کر دیا ہے اور امت کے اذہان سے ہی مٹا دیا ہے۔ اور اسی طرح طوفان الاقصیٰ نے ایران سے ان جھوٹے نعروں کو بھی چھین لیا جن کی آڑ میں وہ چھپا ہوا تھا۔
شام میں ریاست کے سیکولرازم کو برقرار رکھنے میں عرب حکومتوں اور ترک حکومتوں نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ امریکہ کے محتاط مشاہدے اور یہودی وجود کی کڑی نگرانی میں شام کے لئے آئندہ کا لائحہ عمل ہے، اور یہ سب شامی انقلاب کے تسلسل کو ختم کر دینے، اس پر قابو پانے اور عربوں کے ساتھ مصالحت کے لئے اس کی راہ ہموار کرنے کی ایک کاوش ہے۔ اور ایسا ریاست کی تعمیر نو کے بہانے تلے کیا جا رہا ہے کہ وہ سبھی تابع رہنا چاہتے ہیں اور خطے کے ممالک کے مؤقف کے مطابق رہنا چاہتے ہیں، تاکہ یہودی وجود، اس کے استحکام اور غیر منصفانہ عالمی نظام کے استحکام کی حفاظت کی جا سکے۔ اور یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امت مسلمہ کا پارہ حقیقی تبدیلی کو حاصل کرنے کے لئے ابل رہا ہے، وہ تبدیلی جو سائیکس پیکوٹ کی کھینچی ہوئی قومی سرحدوں کو ختم کر دے گی اور امت کو اس پر دوبارہ اکٹھا کر دے گی جس سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ، اس کا رسول ﷺ اور مؤمنین محبت کرتے ہیں۔ شام میں جو کچھ مارکیٹ کیا جا رہا ہے اس کے بالواسطہ مقاصد میں سے ایک ہے، کیونکہ امت پر اس انقلاب کے بڑے مثبت نفسیاتی اثرات ہیں، جو دنیا کے طول و عرض میں انقلاب کی کامیابی اور جابر اسد کا تختہ الٹے جانے پر بے پناہ خوش تھی۔ امت امید کرتی ہے کہ شام کے لوگ ہی ان لوگوں میں شامل ہوں گے جو اس سب کی اصلاح کریں گے جو کہ ان ایجنٹ حکمرانوں نے فساد برپا کر رکھا تھا، اور ان سیکولر اور قوم پرست، گمراہ کن حکومتوں کی پیداکردہ بدترین صورتحال سے امت مسلمہ کی آزادی (تحریر) کے لئے شام ہی ایک نقطۂ آغاز بنے گا۔ امت امید کرتی ہے کہ شام کے لوگ اپنے اس تہذیبی کردار کو بحال کریں گے، جس کے پاس اسلام کو مٹانے کی کوشش کرنے والی مہمات کو پسپا کر دینے کے لئے ایک بہت بڑی میراث اور وسیع تاریخ موجود ہے۔ الشام امت کی حفاظتی ڈھال ہوا کرتی تھی جو تباہ ہونے کے بعد بھی ہر بار پھر اٹھ کھڑی ہوئی، شام نے قربانیاں پیش کیں، وقت کا رُخ پھر سے موڑ دیا، اور تاریخ کے دھارے کو پھر سے درست کر دیا۔ اس معاملے میں کہی جانے والی سب سے سچی بات یہ ہے کہ شام ہمیشہ سے تہذیبوں کا چوراہا رہا ہے اور اب یہ تاریخ کے چوراہے پر کھڑا ہے۔ یا تو الشام اٹھے گا اور شریعت کو اپنی مشعلِ راہ کے طور پر بحال کرے گا، اور امت بھی اس کے ساتھ اٹھ کھڑی ہو گی اور اپنے کاندھوں سے دہائیوں پر محیط استبداد اور جابرانہ حکمرانی کو ہٹانے کے لئے بیداری کی جنگ میں مصروف ہو جائے گی، یا پھر یہ ایک ناکام کوشش ہوگی، جو سابقہ ناکام کوششوں کی فہرست میں شامل ہو جائے گی۔
البتہ جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ شام دارالاسلام کا قلب ہے اور اہل شام خصوصاً مجاہدین کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر ثابت قدم رہنا چاہیے اور دنیاوی خواہشات کے آگے ہرگز سرنگوں نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں نتائج کے بارے میں آگاہی اور سمجھ رکھنے کے ساتھ قربانیاں جاری رکھنی چاہئیں، یہاں تک کہ شام کو مؤمنین کے دارالایمان کے طور پر بحال نہیں کر دیا جاتا، اور غوطہ کی سرسبز چراگاہوں کو مجاہدین کے مضبوط مورچے کے طور پر بحال نہیں کر دیا جاتا، جو فلسطین کو آزاد کرانے کے لئے بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں، اور مسجدِ الاقصیٰ کے وہ صحن جن کو نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافت راشدہ کے سوا کوئی اور آزاد اور بحال نہیں کرا سکتا۔ اور پس اسی کامیابی کے لئے عملِ صالح کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ صالح اعمال جاری رکھیں۔
Latest from
- پوری انسانیت کی موت کے اعلان کا وقت آن پہنچا ہے
- ابو بکر صدیقؓ رضی اللہ عنہ کے اپنائے گئے مؤقف، حق پر ثابت قدم رہنے اور حق کو علی الاعلان بیان کرنے والے ہر مسلمان کے لئے مشعلِ راہ رہیں گے
- قرآنِ کریم کے ساتھ اخلاصِ کامل
- خلافت کے انہدام کے 104ویں سالانہ موقع پر حزب التحریر کی عالمی سرگرمیوں پر ایک نظر
- آخر یہ کیسے ہو گیا کہ کمیونزم نے تو اپنی ریاست قائم کر لی، جبکہ امت مسلمہ اپنی ریاست قائم نہیں کر سکی ؟!