بسم الله الرحمن الرحيم
قرآنِ کریم کے ساتھ
اخلاصِ کامل
(ترجمہ)
https://www.al-waie.org/archives/article/19685
الوعی میگزین: شمارہ نمبر 462، 463، اور 464
انتالیسواں سال — رجب، شعبان، رمضان 1446 ہجری
بمطابق — جنوری، فروری، مارچ 2025 عیسوی
خلیفہ محمد — اردن
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِماتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً * قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا﴾
”کہہ دو اگر میرے رب کی باتیں لکھنےکے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائے اور اگرچہ اس کی مدد کے لیے ہم ایسا ہی اور سمندر لائیں۔ کہہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہی ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پھر جو کوئی اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے تو اسے چاہیئے کہ اچھے کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے“۔ (سورۃ الکہف؛ 18: 109-110)
ابن عباس رضی اللہ عنہ اس پہلی آیت کے نزول کے سبب کے بارے میں فرماتے ہیں، جیسا کہ امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے: قالت اليهود لما قال لهم النبي، صلى الله عليه وسلم،
﴿وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾
قالوا وكيف وقد أوتينا التوراة، ومن أوتي التوراة فقد أوتي خيراً كثيراً؟ فنزلت،
﴿قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ﴾
”یہود نے اُس وقت کہا جب نبی کریم ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾
”اور (اے لوگو) تمہیں بہت ہی تھوڑا علم دیا گیا ہے“ (سورۃ الإسراء؛ 17:85)۔
تو وہ کہنے لگے: ”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جب کہ ہمیں تو تورات دی گئی ہے، اور جسے تورات دی جائے، گویا اُسے بہت بڑا خیر عطا کیا گیا! تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ﴿قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ﴾
”کہہ دو اگر میرے رب کی باتیں لکھنےکے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائے“ (سورۃ الکہف؛ 18:109)۔
اور امام قرطبیؒ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: وقيل قالت اليهود إنك أوتيت الحكمة، ومن أوتي الحكمة فقد أوتي خيراً كثيراً، ثم زعمت أنك لا علم لك بالروح؟! فقال الله تعالى قل وإن أوتيت القرآن وأوتيتم التوراة فهي بالنسبة إلى كلمات الله تعالى قليلة، ”اور کہا گیا ہے کہ: یہود نے کہا: ”تمہیں تو حکمت عطا کی گئی ہے، اور جسے حکمت دی جائے، یقیناً اُسے خیرِ کثیر (بہت بڑی بھلائی) دی گئی ہے، پھر تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ تمہیں روح کے بارے میں کچھ علم نہیں؟!“ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”کہہ دو (اے محمدﷺ): اگرچہ مجھے قرآن دیا گیا ہے اور تمہیں تورات دی گئی ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ کے کلام کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑا (یعنی قلیل) ہے“۔
یہ قرآنی آیت، اسی طرح جیسے پوری سورہ، ان سوالات کے جواب میں نازل ہوئی جو مدینہ کے یہودیوں نے قریش کے مشرکین کو دیے تھے تاکہ وہ رسولِ کریم ﷺ سے پوچھیں تاکہ یہ تصدیق ہو سکے کہ آپ ﷺ واقعی اللہ کے بھیجے ہوئے نبی ہیں۔ وہ سوالات ان چند نوجوانوں کے بارے میں تھے جو پہلے زمانے میں کہیں چلے گئے تھے، ان کا کیا ماجرا تھا؟ کیونکہ ان کا واقعہ عجیب و غریب تھا اور وہ ”اصحابِ کہف“ تھے۔ دوسرا سوال ایک ایسا شخص جو دنیا کے مشرق و مغرب تک جا پہنچا، اس کا کیا قصہ ہے؟ اور وہ ”ذو القرنین“ تھا۔ اور اگلا سوال روح کے بارے میں تھا، کہ وہ کیا ہے؟ تو پہلے دو سوالات کے جوابات سورۃ الکہف میں نازل ہوئے، جب کہ تیسرے سوال کا جواب سورۃ الاسراء میں نازل ہوا۔ شریعت کا اصول ہے: والعبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب ”عبارت کا اعتبار الفاظ کی عمومیت سے ہوتا ہے، نہ کہ سببِ نزول کی خصوصیت سے“۔چنانچہ، ”اس آیتِ قرآنی کا موضوع اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت ہے“۔
ابن عاشور رحمہ اللہ اس سورۃ مبارکہ (سورۃ الإسراء) میں اس آیت اور اس سے پہلے آنے والی آیات کے باہمی ربط کے بارے میں فرماتے ہیں: لما ابتدئت هذه السورة بالتنويه بشأن القرآن ثم أفيض فيها من أفانين الإرشاد والإنذار والوعد والوعيد، وذكر فيها من أحسن القصص ما فيه عبرة وموعظة، وما هو خفيٌّ من أحوال الأمم؛ حُوّلَ الكلامُ إلى الإيذان بأنّ كل ذلك قليل من عظيم علم الله تعالى. فهذا استئناف ابتدائي وهو انتقال إلى التنويه بعلم الله تعالى مفيض العلم على رسوله صلى الله عليه وآله وسلم لأن المشركين لما سألوه عن أشياء يظنونها مفحمة للرسول وأنْ لا قِبَلَ له بعلمها؛ علَّمه اللهُ إياها، وأخبرَ عنها أصدقَ خبر، وبيّنها بأقصى ما تقبله أفهامهم وبما يقصر عنه علم الذين أغروا المشركين بالسؤال عنها، وكان آخرها خبر ذي القرنين، أتبع ذلك بما يُعْلَمُ منه سعةُ علم الله تعالى، وسعةُ ما يجري على وَفْقِ علمه من الوحي إذا أراد إبلاغَ بعض ما في علمه إلى أحد من رسله. وفي هذا رد عجز السورة على صدره ”یہ سورہ (سورۃ الإسراء) قرآن کی اہمیت کے بیان سے شروع ہوئی، پھر اس میں مختلف اقسام کی ہدایت، تنبیہ، وعدے اور وعیدیں بیان کی گئیں، اور اس میں بہترین قصے بیان کیے گئے جن میں نصیحتیں اور عبرتیں موجود ہیں، نیز ان قوموں کے حالات بھی ذکر کیے گئے جو لوگوں سے مخفی تھے۔ پھر کلام کا رخ موڑ کر یہ بتانے کی طرف اشارہ کیا گیا کہ یہ سب کچھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے عظیم علم کا صرف تھوڑا سا حصہ ہے۔ یہ آیت ایک آغازِ نو ہے، اور تغیراتی انداز میں اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت کو نمایاں کرتی ہے، اُس ذات کا علم جس نے اپنے رسول ﷺ پر علم نازل فرمایا۔ کیونکہ جب مشرکین نے آپ ﷺ سے ان باتوں کے متعلق سوالات کیے جن کے بارے میں ان کا گمان تھا کہ وہ آپ ﷺ کو حیران و پریشان کر دیں گی، اور آپ ﷺ ان کا علم نہیں رکھتے ہوں گے۔ تاہم، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو ان امور کا علم عطا فرمایا، اور ان کے بارے میں سب سے سچی باتوں سے آگاہ کیا، اور انہیں سب سے جامع انداز میں واضح کیا، ایسا انداز کہ سامعین کی عقل و فہم اسے قبول کر سکے، اور ان لوگوں کے علم سے کہیں بڑھ کر ہو، جنہوں نے مشرکین کو ان سوالات کے ذریعے آزمانے پر اُکسایا تھا۔ ان سوالات میں سب سے آخری سوال ذوالقرنین کے قصے کے بارے میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد یہ بات ذکر فرمائی تاکہ معلوم ہو جائے کہ اللہ کا علم کس قدر وسیع ہے، چنانچہ، یہ سب کچھ اُس کے علم کے دائرے سے نازل کردہ امور میں سے ہے، جنہیں اگر وہ چاہے تو اپنے کسی رسول (علیہ السلام) کو عطا کر دے۔ اور یہی اس سورہ کے آغاز میں کیے گئے سوال کا مؤخر جواب ہے“۔
عربی لغت کا اصول ہے ، "ردّ العجز على الصدر" ”شروع کے بیان کا موخرالذکر جواب“، یہ لغویاتی اظہار کے فنون میں سے ایک فن ہے، جس میں سورہ کے آخر کو اس کے آغاز سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
ہم نے کہا تھا کہ اس آیت کا موضوع اللہ سبحانہ وتعالى کا علم ہے، ایسا علم جو ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، مطلق اور لا محدود ہے۔ یہ آیت مبارکہ فعلِ امر "قُلْ" (کہہ دو) سے شروع ہوتی ہے، جو کہ رسول اللہ ﷺ سے خطاب ہے، اور اس میں اس بات کا تاکیدی اظہار ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ذمہ اللہ تعالیٰ کی وحی کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ پھر آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے، فرمایا گیا کہ اگر سمندر سیاہی بن جائے، یعنی وہ سیاہی جو کلماتِ الٰہی کو لکھنے کے لیے استعمال ہو، تو وہ سیاہی تو ختم ہو جائے گی، لیکن اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔ بلکہ اگر ایسا ایک اور سمندر اس کے برابر مقدار و وزن میں لا کر شامل کر دیا جائے، وہ بھی ختم ہو جائے گا، مگر اللہ کے کلمات پھر بھی ختم نہ ہوں گے۔ آیت میں 'اللہ کے کلمات کو لکھنے کے لیے سیاہی' کا جملہ صراحتاً نہیں کہا گیا، بلکہ اسے حذف کر کے کلام کو مزید پراثر اور بلیغ بنایا گیا ہے۔
اور شیخ الشعراوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ، هي (كن) وكلّ مرادات الله في كونه، ما علمنا منه وما سنعلم، وما لم نعلم إلا حين تقوم الساعة ”اللہ کے کلمات سے مراد وہ فرمان "ہو جا" (کُن) ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے بارے میں ارادہ فرمایا۔ یہ کلمات ان تمام چیزوں پر محیط ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں، جو ہم آئندہ جانیں گے، اور وہ بھی جنہیں ہم اس وقت تک نہیں جان پائیں گے جب تک کہ وہ گھڑی قائم نہ ہو جائے“۔
تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ اُس نے آسمانوں اور زمین کا اپنا منفرد علم "لوحِ محفوظ" میں ثبت فرما دیا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس ارشاد میں آیا ہے:
﴿أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّماءِ وَالْأَرْضِ إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ﴾
”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ الله جانتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے ؟بے شک یہ سب ایک کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ بے شک یہ الله پر آسان ہے“۔ (سورۃ الحج:70)
تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے واضح بتلا دیا کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اسے جانتا ہے، اور یہ بھی فرمایا کہ اُس کا یہ علم ایک کتاب میں محفوظ ہے، اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے لیے نہایت آسان ہے۔ سبحان اللہ! ترمذی نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
«إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهُ اكْتُبْ فَجَرَى بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الأَبَدِ»
”بیشک سب سے پہلی چیز جو اللہ نے پیدا کی وہ قلم تھا، پھر اللہ نے اُس سے فرمایا: لکھ! تو اس نے وہ سب کچھ لکھ دیا جو ہمیشہ ہونے والا ہے“۔ (ترمذی)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا مطلق علم تو صرف آسمانوں اور زمین کے علم سے بھی کہیں زیادہ عظیم اور جامع ہے۔ اور اللہ کے کلمات، جو اُس کے اِس مطلق علم کا اظہار ہیں، اگر اُنہیں لکھا جائے تو زمین کے سارے سمندر بھی اگر سیاہی بن جائیں، تو وہ کافی نہ ہوں گے۔ اس حقیقت کی تصدیق اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے:
﴿وَلَوْ أَنَّما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ﴾
”روئے زمین کے (تمام) درخت اگر قلم بن جائیں اور تمام سمندروں کی سیاہی بن جائے اور ان کے بعد سات سمندر اور ہوں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے، بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے“۔ (سورۃ لقمان:27)
جب سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس زمین کو تخلیق کیا، تب سے لے کر اگر زمین کے تمام درخت بھی لکھنے کے لئے قلم بن جائیں، اور سمندر اُس کی سیاہی ہو، اور اس کے بعد اس کے ساتھ مزید سات سمندر ملا دیے جائیں، تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے، جبکہ وہ سیاہی ختم ہو جائے گی۔ یقیناً اللہ، عز و جل، کا علم ایسا ہے جس کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا، اور کوئی بھی اُس کی حدود کو نہیں پا سکتا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ﴾
”اور وه اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وه چاہے“۔ (سورۃ البقرۃ؛ 2:255)
جہاں تک دوسری آیت کی بات ہے، تو امام طبریؒ نے اس کی تفسیر میں فرمایا:
يَقُولُ تَعَالَى ذِكْرُهُ قُلْ لِهَؤُلَاءِ الْمُشْرِكِينَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ مِنْ بَنِي آدَمَ لَا عِلْمَ لِي إِلَّا مَا عَلَّمَنِي اللَّهُ وَإِنَّ اللَّهَ يُوحِي إِلَيَّ أَنَّ مَعْبُودَكُمُ الَّذِي يَجِبُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، مَعْبُودٌ وَاحِدٌ لَا ثَانِيَ لَهُ، وَلَا شَرِيكَ، فَمَنْ يَخَافُ رَبَّهُ يَوْمَ لِقَائِهِ، وَيُرَاقِبُهُ عَلَى مَعَاصِيهِ، وَيَرْجُو ثَوَابَهُ عَلَى طَاعَتِهِ؛ فَلْيُخْلِصْ لَهُ الْعِبَادَةَ، وَلْيُفْرِدْ لَهُ الرُّبُوبِيَّةَ ”
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ان مشرکوں سے کہہ دو اے محمد (ﷺ):
﴿إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ﴾
”بے شک میں تم جیسا ہی ایک بشر ہوں“ (سورۃ الکہف:110)
یعنی بنی آدم میں سے ہوں، میرا علم صرف وہی ہے جو اللہ نے مجھے سکھایا ہے۔ اللہ نے مجھ پر وحی کیا ہے کہ عبادت کے لائق صرف ایک ہی ذات ہے، وہ واحد ہے، اس کا کوئی دوسرا نہیں، نہ کوئی شریک۔ پس جو شخص اپنے رب سے ملاقات کے دن کا خوف رکھتا ہے، اور اپنے گناہوں سے بچتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اس کے اجر کی امید رکھتا ہے، تو اُسے چاہیے کہ وہ صرف اُسی کی عبادت کرے، اور اس کی ربوبیت کو خالص طور پر اُسی کے لیے مخصوص رکھے“۔
یہ قرآنی آیت اسی فعل سے شروع ہوتی ہے جیسے پچھلی آیت، یعنی حکم کے صیغے میں "کہہ دو!" — یہ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا، اور آپ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ ﷺ فرما دیں،
﴿إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ﴾
”بے شک میں تم جیسا ہی ایک آدمی ہوں“ (سورۃ الکہف:110)۔
یہ حکم قرآن مجید میں بارہا دہرایا گیا ہے تاکہ رسول ﷺ کے بشر ہونے اور آپ سے پہلے تمام رسولوں اور انبیاء علیہم السلام کے بشر ہونے کو واضح کیا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ﴾
”اور ہم نے آپ سے پہلے صرف ایسے مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجے جن کی طرف ہم وحی نازل کرتے تھے“ (سورۃ النحل: 43)۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانوں کی طرف انہی کی جنس میں سے انسانوں کو رسول بنا کر بھیجا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرشتوں کو رسول بنا کر نہیں بھیج دیا، جیسا کہ کفار نے کئی مرتبہ مطالبہ کیا تھا، جیسا کہ قرآن کے کئی مقامات پر ذکر موجود ہے۔ اگر زمین پر فرشتے بس رہے ہوتے، اور اللہ تعالیٰ ان کی طرف رسول بھیجنا چاہتا، تو وہ ضرور فرشتوں ہی میں سے کسی کو رسول بنا کر بھیجتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا﴾
”کہہ دو اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے ہوتے تو ہم آسمان سے ان پر فرشتہ کو ہی رسول بنا کر بھیجتے“ (سورۃ الاسراء:95)۔
اور شاید اس میں حکمت یہ ہے کہ رسول (علیہ السلام) کو بھی وہی کام سونپا جائے جو ان لوگوں کو سونپا گیا ہے جن کی طرف وہ بھیجے گئے، تاکہ رسول (علیہ السلام) اپنی قوم کے لیے نمونہ اور اسوہ بن جائے، اور اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنی قوم تک قول و عمل دونوں کے ذریعے پہنچائے۔ اور قرآنِ کریم نے اس نکتے کو ان الفاظ میں واضح فرمایا: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ﴾
”بے شک تمہارے لیے رسول الله (کی ذات ) میں بہترین نمونہ ہے، اس کے لئے جو الله اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد کرتا ہے“ (سورۃ الاحزاب:21)
اور آیت نے رسول کی ذمہ داری کو واضح کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وحی کے پہنچانے والے ہیں، اور سب سے پہلا پیغام جو رسول کی طرف وحی کیا گیا، وہ یہ ہے کہ ہمارا معبود ایک ہی ہے۔ اور یہی پیغام تمام انبیاء اور رسول لے کر آئے؛ یعنی اللہ سبحانہ وتعالى کی توحید کی دعوت دینا اور صرف اسی کی عبادت کے لیے لوگوں کو بلانا۔ اور قرآنِ کریم میں کئی بار رسول کی ذمہ داری کو "صاف طور پر پیغام پہنچانا" قرار دیا گیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ﴾
”اور رسول کے ذمے تو صرف صاف صاف پیغام پہنچا دینا ہے“۔ (سورۃ النور: 54)
اور رسول ﷺ کی لوگوں کو صرف اللہ سبحانہ وتعالى کی عبادت کی دعوت دینا انسان کی فطرت سے ہم آہنگ ہے اور عقل کو قائل کرنے والی بات ہے۔ یہ انسان میں پائی جانے والی جبلّتِ تدین سے ہم آہنگ ہے، جو اسے اس کی فطری کمزوری، خامی، محدودیت اور ضرورت کا احساس دلاتی ہے، اور یہ احساس صرف اسی وقت مکمل طور پر مطمئن ہوتا ہے جب وہ خالق، مدبّر اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ اور انسان کی عقل بھی قائل ہوتی ہے کیونکہ اس کے حواس خود اس کی اور اس کے اردگرد کی چیزوں کی حاجت و احتیاج کو ایک خالق و مدبّر کا محتاج دیکھتے ہیں۔ یہ زبردست تخلیق اور وہ حیرت انگیز نظام، جس پر یہ کائنات انسان کے اردگرد کی ہر چھوٹی بڑی چیز کے ساتھ چل رہی ہے، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کوئی خالق ضرور ہو، اور ایسا ناظم و منتظم ہو جس کے تابع یہ کائنات ہے۔ پس رسولوں کی دعوت، جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور صرف اسی کی عبادت کی طرف بلاتی ہے، عقل کو قائل کرنے والی اور فطرت کے عین مطابق ہے، جو انسان کے دل و دماغ کو ایمان، اطمینان اور رضا سے بھر دیتی ہے۔
جہاں تک دوسری آیت کے آخری حصے کا تعلق ہے، جو سورۃ کا اختتام بھی ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا﴾
”پھر جو کوئی اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے تو اسے چاہیئے کہ اچھے کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے“۔ (سورۃ الکہف:110)
یہ آیت کئی اہم معانی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ان میں سب سے پہلا مفہوم "آخرت پر یقین" ہے، جسے یہاں "رب سے ملاقات" کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات قیامت کے دن ہی ہوگی۔ اور یہ ملاقات یومِ آخرت پر ایمان لانے کے تقاضوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو، جو قیامت کے دن مقدر ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے لیے محبوب بنا دیا ہے۔ جیسا کہ امام بخاریؒ نے عبادہ بن صامتؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَن أحَبَّ لِقاءَ اللَّهِ أحَبَّ اللَّهُ لِقاءَهُ ، ومَن كَرِهَ لِقاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقاءَهُ»
”جو شخص اللہ سے ملاقات کو محبوب رکھے، اللہ بھی اُس سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرے، اللہ بھی اُس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے“۔ (صحیح بخاری)
اور یہ (اللہ سے ملاقات کی محبت) رسول اللہ ﷺ کی دعا میں بھی شامل تھی، جیسا کہ طبرانی نے 'الأوسط' میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: ”میری جگہ رسول اللہ ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان (یعنی آپ کے قریب) تھی، اور جب آپ سلام پھیرتے تو یہ دعا فرماتے:
«اللَّهمَّ اجعَلْ خيرَ عُمُري آخِرَه اللَّهمَّ اجعَلْ خواتيمَ عمَلي رِضوانَكَ اللَّهمَّ اجعَلْ خيرَ أيَّامي يومَ ألقاكَ»
”اے اللہ! میری عمر کا بہترین حصہ اس کا آخری حصہ بنا، اے اللہ! میرے اعمال کے اختتام کو اپنی رضا بنا دے، اے اللہ! میرے دنوں کا سب سے بہترین دن وہ دن بنا جب میں تجھ سے ملاقات کروں“۔ (طبرانی)
اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی محبت اور اُس سے اُمید وابستہ رکھنا، دو لازم و ملزوم چیزوں کا تقاضا کرتی ہے: پہلی، نیک اعمال؛ اور دوسری، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا۔ رہی بات نیک اعمال کی، تو وہ وہی ہیں جس کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی زبانی حکم دیا ہے، اور ہر نیک عمل کی وضاحت کرنا ہی انبیاء اور رسولوں کی دعوت ہے۔ جیسا کہ النسائی اور ابن ماجہ میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إنَّهُ لمْ يكنْ نَبِيٌّ قَبلي إِلاَّ كان حَقًّا عليهِ أنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ على ما يَعْلَمُهُ خيرًا لهُمْ ويُنْذِرَهُمْ ما يَعْلَمُهُ شَرًّا لهُمْ»
”میرے سے پہلے کوئی نبی ایسا نہ گزرا جس پر یہ لازم نہ ہو کہ وہ اپنی امت کو ان باتوں کی رہنمائی کرے جنہیں وہ ان کے لیے خیر (بھلائی) جانتا ہے، اور ان چیزوں سے ڈرائے جنہیں وہ ان کے لیے شر (برائی) جانتا ہے“۔ (سنن ابن ماجہ)
چنانچہ نیک اعمال کا تعیّن انسان کے سپرد نہیں کیا گیا، کیونکہ انسان کا فیصلے کا پیمانہ اشیاء اور افعال کے بارے میں اختلاف، تضاد، ناپائیداری اور ماحول کے اثرات کا شکار ہوتا ہے۔ وہ جس چیز کو پسند کرتا ہے، یا جس سے اسے فائدہ محسوس ہوتا ہے، اُسے "اچھا" قرار دے دیتا ہے۔ اور جس چیز کو ناپسند کرے یا جس سے نقصان پہنچے، اُسے اپنے لئے "برائی" گردانتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان انسانی پیمانوں کی غلطی کو اس وقت واضح کیا جب قتال (جہاد) کو فرض کیا، چنانچہ فرمایا:
﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾
”(ایمان والو!) تم پر قتال (جہاد) فرض کیا گیا ہے گرچہ وہ تمہیں ناگوار ہے اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے شر ہو اور الله ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“ (سورۃ البقرۃ؛ 2:216)۔
پس نیک عمل کی اصل تعریف وہ ہے جو انبیاء اور رسول (علیہم السلام) لے کر آئے تاکہ وہ اسے بیان کریں اور واضح کریں۔ ہمارے آقا محمد ﷺ کی بعثت کے بعد، نیک عمل کی تعریف اس بات پر منحصر ہو گئی کہ محمد ﷺ کیا لے کر آئے، کیونکہ آپ ﷺ کی رسالت نے سابقہ تمام رسالتوں کو منسوخ کر دیا۔ اس آیت کا آخری حکم، جو اس بابرکت سورہ کا اختتام ہے، یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں صرف اللہ ہی کی عبادت کرنی ہے، لیکن صرف رسمی عبادات تک محدود ہو کر نہیں۔ مراد یہ ہے کہ عبادت مکمل اور عمومی اطاعت ہو، ایسی اطاعت جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہو، نہ کہ وہ محدود عبادت جس کا تعلق صرف بندے اور اس کے رب کے درمیان ہوتا ہے۔ الطبرانی نے "الکبیر" میں، اور امام ترمذی و امام بیہقی نے "السنن الکبریٰ" میں روایت کیا ہے کہ عدی بن حاتم، جو ایک نصرانی تھے، رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ کو قرآن کی یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا،
﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾
”انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا خدا بنا لیا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انہیں حکم یہی ہوا تھا کہ ایک الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے“ (سورۃ التوبہ:31)
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہا: "تو میں نے (نبی ﷺ سے) عرض کیا: ہم تو اُن (علماء اور راہبوں) کی عبادت نہیں کرتے“۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
«أليسَ يحرمونَ ما أحلَّ اللهُ فتحرِّمونَه، ويحلُّونَ ما حرَّمَ اللهُ فتحلُّونَه»
”کیا وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام نہیں کرتے، تو تم بھی اُنہیں حرام قرار دے دیتے ہو؟ اور کیا وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال نہیں کرتے، تو تم بھی اُنہیں حلال مان لیتے ہو؟‘‘ عدی نے کہا: "جی ہاں، (ایسا ہوتا ہے)!" تو آپ ﷺ نے فرمایا:
«فتلك عبادتُهم»
”بس یہی ان کی عبادت کرنا ہے“۔
پس اللہ تعالیٰ کی عبادت کا مطلب ہے صرف اسی کو معبود ماننا، اسی کو حلال مقررکرنے اور حرام مقرر کرنے کا اختیار دینا، اور ہر اُس بات میں اس کی مطلق اطاعت کرنا جو اُس نے حکم دیا یا جس سے منع فرمایا۔
صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کا تقاضا یہ ہے کہ مومن بندہ اپنے عمل میں خالص اخلاص رکھے، یعنی عبادت صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہو، اور اس میں ریاکاری یا دکھاوے (ریا) کا شائبہ تک نہ ہو۔ مسلم نے اپنی صحیح میں عبداللہ بن جُندبؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَن يُسَمِّعْ يُسَمِّعِ اللَّهُ به، ومَن يُرائِي يُرائِي اللَّهُ بهِ» ”جو شخص (اپنے اعمال کو) ظاہر کرنا چاہے، اللہ تعالیٰ اسے (لوگوں پر) ظاہر کر دے گا، اور جو ریاکاری کرے، اللہ اسے (اس کی ریاکاری سمیت) لوگوں پر آشکار کر دے گا“۔ اسی طرح مسلم نے ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ مَنْ عَمِلَ عَمَلاً أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ» ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”میں سب سے بے نیاز ہوں کہ میرے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے۔ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے سوا کسی اور کو بھی شریک ٹھہرایا، تو میں اسے اور اس کے شریک کیے گئے کو ترک کر دوں گا“۔ (یہ حدیث قدسی مسلم میں ہے)
لہٰذا، جو کوئی بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ملاقات کی محبت رکھتا ہو اور اُس سے ملنے کی امید رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ صرف اُسی کو رب، خالق اور نظام چلانے والا تسلیم کرے۔ وہ صرف اُسی سے مدد طلب کرے، صرف اُسی پر توکل (بھروسا) کرے، اور صرف اُسی سے امید وابستہ رکھے۔ اُسے چاہیے کہ وہ نیک اعمال کا التزام کرے، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ یعنی وہ اپنی دنیاوی زندگی میں حلال و حرام کو ہی اپنے فیصلوں کا معیار بنائے۔
ہم اپنے بیان کا اختتام سورۃ الکہف کی آخری آیت کے دوسرے حصے میں موجود ایک نہایت اہم نکتے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کرتے ہیں۔ یہ نکتہ انسان کے اندر پائی جانے والی سب سے بڑے عقدۃ الکبریٰ کا درست اور مکمل حل پیش کرتا ہے۔ اس سورہ کی آخری آیت نے فطرتِ تدین سے جُڑے تین بنیادی سوالات کے جوابات دے دیے ہیں : یہ سوالات یہ ہیں۔ میں کہاں سے آیا ہوں؟ مجھے یہاں کیوں بھیجا گیا ہے؟ اور آخرکار مجھے کہاں جانا ہے؟ تو ان کے جوابات یہ ہیں: اللہ تعالیٰ ہی ہمارا خالق ہے، وہی ہمارا رب اور ہمارے اور کائنات کے تمام امور کو منظم کرنے والا ہے۔ اس نے ہمیں اپنی عبادت کرنے، اپنے احکامات کی پیروی کرنے، اور حرام کردہ امور سے بچتے رہنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اور آخرکار ہمیں اسی کی طرف واپس لوٹنا ہے، قیامت کے دن حساب و کتاب کے لیے، جہاں جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے، اور ہمیں اُن لوگوں میں سے بنائے جو اُس سے ملاقات کی امید رکھتے ہیں اور اُسے محبوب رکھتے ہیں، تاکہ ہم اُس کی رضا اور جنت کے حقدار بن سکیں۔ اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے ایسا بابرکت معاملہ طے فرمائے جس میں اس کے فرمانبرداربندے عزت پائیں اور نافرمان ذلیل و خوار ہوں۔
Latest from
- پوری انسانیت کی موت کے اعلان کا وقت آن پہنچا ہے
- ابو بکر صدیقؓ رضی اللہ عنہ کے اپنائے گئے مؤقف، حق پر ثابت قدم رہنے اور حق کو علی الاعلان بیان کرنے والے ہر مسلمان کے لئے مشعلِ راہ رہیں گے
- خلافت کے انہدام کے 104ویں سالانہ موقع پر حزب التحریر کی عالمی سرگرمیوں پر ایک نظر
- آخر یہ کیسے ہو گیا کہ کمیونزم نے تو اپنی ریاست قائم کر لی، جبکہ امت مسلمہ اپنی ریاست قائم نہیں کر سکی ؟!
- شامی حکومت، سیکولرازم کی شکست، تبدیلی کے عمل کی تکمیل اور خلافت راشدہ کی بحالی