بسم الله الرحمن الرحيم
ابو بکر صدیقؓ رضی اللہ عنہ کے اپنائے گئے مؤقف، حق پر ثابت قدم رہنے اور حق کو علی الاعلان بیان کرنے والے ہر مسلمان کے لئے مشعلِ راہ رہیں گے
)ترجمہ)
https://www.al-waie.org/archives/article/19687
الوعی میگزین: شمارہ نمبر 462، 463، اور 464
انتالیسواں سال — رجب، شعبان، رمضان 1446 ہجری
بمطابق — جنوری، فروری، مارچ 2025 عیسوی
ماهر الدبعي – اليمن
آپ رضی اللہ عنہ کا نام، عربی لقب، اور آپؓ کی صفات :
ابو بکر الصدیق عبد اللہ بن ابی قحافہ عثمان بن عامر التیمی القرشی (50 ق.هـ - 13هـ / 573م - 634م)۔ ابو بکرؓ کو متعدد القابات سے نوازا گیا، جن میں الصِّديق، الصاحب، العتيق، الأتقى، الأوَّاه شامل ہیں۔ ہر لقب ایک ایسی کہانی سے جُڑا ہوا ہے جو ابو بکرؓ کی نیکی، اخلاص، اور فضیلت کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم، لقب ”الصدیق“ (یعنی ”سچائی کی تصدیق کرنے والا“) ان کے ساتھ خاص طور پر جُڑ گیا، کیونکہ یہ لقب اس وقت سامنے آیا جب اہلِ مکہ، جو بت پرست تھے، وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کے انکار اور مخالفت میں مصروف تھے۔ اس موقع پر ابو بکرؓ نے رسول اللہ ﷺ کے حق پر ہونے کی بھرپور تصدیق کی، جس کی بنا پر انہیں ”الصدیق“ کہا گیا۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ اسلام سے قبل کے دور میں ہی کئی نمایاں صفات کی وجہ سے مشہور تھے، جن میں عربوں کاشجرۂ نسب کا علم اور عرب کی تاریخ کا علم ہونا سرفہرست ہے۔ روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ أَعْلَمُ قُرَيْشٍ بِأَنْسَابِهَا»
”قریش کے نسب کو سب سے بہتر جاننے والے ابو بکر ہیں“۔ (صحیح مسلم)
ابو بکر رضی اللہ عنہ ایک تاجر تھے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”وہ خوش اخلاق، دیانت دار اور نیک نام تاجر تھے۔ ان کی قوم کے لوگ ان کے پاس مختلف وجوہات کی بنا پر آتے تھے، ان کے علم، ان کی تجارت، اور ان کی بہترین صحبت کی بنا پر دوستی کرتے تھے“۔ ان کا سرمایہ چالیس ہزار درہم تھا۔ بعض نے ان کے بارے میں کہا کہ مکہ کے لوگ ان کے ساتھ بیٹھنے کو پسند کیاکرتے تھے، کیونکہ وہ نہایت خوش گفتار، ذہین، بردبار، نرم مزاج، سخی، صادق، منکسر المزاج، خوددار اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے قبل اسلام (زمانۂ جاہلیت) کے ان افعال میں کبھی حصہ نہ لیا، جن میں لوگ مبتلا تھے، جیسے کہ بتوں کو سجدہ کرنا، شراب نوشی کرنا، اور غربت کے خوف سے اولاد کو قتل کر دینا۔ وہ اپنی قوم کی مجالس میں بھی شریک نہ ہوا کرتے تھے سوائے اس کے کہ اگر وہ مجالس صرف اچھے اخلاق اور اعلیٰ اقدار کی بنیاد پر ہوتیں۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات بہادری کے کارناموں سے بھرپور اور ایمان کی خوشبو سے معطر ہے۔ان کی شخصیت قابلِ تعریف صفات سے گھری ہوئی اور اعلیٰ اخلاق سے آراستہ تھی۔ وہ ایمان لانے والے سب سے پہلے شخص تھے، اور سب سے پہلے دعوتِ دین دینے والے بھی تھے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا دفاع کیا، اور دین کی سربلندی کے لئے مال خرچ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں اذیت برداشت کی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ، رسول اللہ ﷺ کے قریبی ساتھی،آپ ﷺکے سفر کے ہمراہ، آپ ﷺ کے احوال کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے، آپ ﷺ کے رازدار، اور آپ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب انسان تھے۔ انہوں نے مصیبتوں اور آزمائشوں کے وقت جرأت مندانہ فیصلے کیے۔ وہ اسلام کے پہلے خلیفہ، دین کے محافظ، عقیدہ اور شریعت کے احکام کا دفاع کرنے والے، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی تدوین کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائی۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ نہایت متقی، محبوب، بہادر، رحم دل، نرم خو، ثابت قدم، ذہین اور بصیرت رکھنے والے تھے۔ اگر ہم ان کی صفات کو مختصر طور پر بیان کریں، تو یوں کہیں گے کہ کوئی فضیلت یا قابلیت ایسی نہ تھی جس میں ان کا حصہ نہ ہو، اور نہ ہی کوئی نیک عمل ایسا تھا جس میں سبقت حاصل کرنے کی انہوں نے کوشش نہ کی ہو۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ صَائِماً؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَا، قَالَ ﷺ، فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ جَنَازَةً؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَا، قَالَ ﷺ فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ مِسْكِيناً؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْه، أَنَا، قَالَ ﷺ، فَمَنْ عَادَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ مَرِيضاً؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ، مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ»
”تم میں سے آج کس نے روزہ رکھا؟“ ابو بکرؓ نے عرض کیا: ”میں نے“۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”آج تم میں سے کس نے جنازے کے ساتھ شرکت کی؟“ ابو بکرؓ نے عرض کیا: ”میں نے“۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”تم میں سے کس نے آج کسی مسکین کو کھانا کھلایا؟“ ابو بکرؓ نے عرض کیا: ”میں نے“۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”تم میں سے کس نے آج کسی مریض کی عیادت کی؟“ ابو بکرؓ نے کہا: ”میں نے“۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص میں یہ تمام نیکیاں جمع ہو جائیں، وہ یقیناً جنت میں داخل ہوگا“۔ (صحیح مسلم)
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جرأت مندانہ مؤقف ہر مسلمان کے لئے ایک مشعلِ راہ کی مانند ہیں، جو اُسے حق پر ڈٹے رہنے اور اللہ کے کلمے کو ہر حال میں بلند کرنے کا حوصلہ دیتے ہیں، چاہے حالات کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ مثالی کردار ہیں، جن سے ہم صبر، تدبر، اور مشکل حالات میں حکمت سے قیادت کرنے کا سبق سیکھ سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ دعا میں اخلاص، اور دینِ حق کی سربلندی کے لئے جدوجہد کرنے کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنا اور اسلام میں ان کا سبقت لے جانا :
جب رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی، تو آپ ﷺ نے سب سے پہلے اپنے قریبی دوست ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اسلام کی دعوت دی۔ ابوبکرؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پیغام کا جواب دینے میں ذرہ بھر بھی نہ تو کوئی ہچکچاہٹ دکھائی، نہ شک کیا، اور نہ ہی کسی تاخیر کا مظاہرہ کیا۔ وہ بالغ مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے، جبکہ علی رضی اللہ عنہ نوجوانوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے۔ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا، تو رسول اللہ ﷺ کو اس پر بہت خوشی ہوئی۔ ابن کثیرؒ کے مطابق، الحافظ أبو الحسن الأطرابلسي نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: ”ابو بکرؓ رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرتے ہوئے نکلے۔ وہ قبل اسلام کے دور سے ہی آپ ﷺ کے دوست تھے۔ جب ابوبکرؓ رسول اللہ ﷺ کو ملے تو ابو بکرؓ نے کہا: ”اے ابو القاسم! تم اپنی قوم کی مجالس سے غائب رہتے ہو۔ انہوں نے تم پر الزام لگایا ہے کہ تم نے ان کے باپ دادا اور ماؤں کی توہین کی ہے“۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِنِّي رَسُولُ اللهِ أَدْعُوكَ إِلَى اللهِ» ”بے شک میں اللہ کا رسول ہوں، اور تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں“۔ ابھی آپ ﷺ نے اپنی بات مکمل کی ہی تھی کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ ابو بکرؓ سے جدا ہوئے، تو دونوں شخصیات میں سے آپ ﷺ سے زیادہ خوش کوئی نہ تھا جسے ابوبکرؓ کے اسلام میں داخل ہونے کی خوشی ہوئی ہو“۔
ابن اسحاق نے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابوبکرؓ کے ایمان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
«مَا دَعَوْتُ أَحَداً إِلَى الْإِسْلَامِ إِلَّا كَانَتْ عِنْدَهُ كَبْوَةٌ وَتَرَدُّدٌ وَنَظَرٌ، إِلَّا أَبَا بَكْرٍ، مَا عَكَمَ مِنْهُ حِينَ ذَكَرْتُهُ وَمَا تَرَدَّدَ فِيهِ»
”میں نے جب بھی کسی کو اسلام کی دعوت دی، تو اس میں کچھ نہ کچھ ہچکچاہٹ، تذبذب یا سوچ بچار ضرور ہوتی تھی، سوائے ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے۔ جب میں نے ان کے سامنے اسلام کا ذکر کیا، تو انہوں نے (اسلام قبول کرنے کے اپنے فیصلہ میں) نہ کوئی ’عکَم‘ (ہچکچاہٹ) کیا اور نہ ہی کوئی تامل کیا“۔یہاں "عکَم" کا مطلب تاخیر، مؤخر کرنا یا کسی چیز کو ٹالنا ہے، جیسا کہ ابن ہشامؒ نے بیان کیا ہے۔
یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي صَاحِبِي، هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي صَاحِبِي؟ إِنِّي قُلْتُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعاً، فَقُلْتُمْ كَذَبْتَ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ صَدَقْتَ»
”کیا تم لوگ میرے لئے میرے ساتھی ابو بکر کو چھوڑ دو گے؟ کیا تم لوگ میرے لئے میرے ساتھی کو چھوڑ دو گے؟ جب میں نے کہا: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، تو تم لوگوں نے کہا: تم نے جھوٹ کہا، جبکہ ابو بکرؓ اکیلے وہ تھے جنہوں نے کہا: آپؐ نے سچ کہا“۔ (صحیح بخاری)
اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ایمان کو کرۂ ارض پر موجود تمام انسانوں کے ایمان کے ساتھ پلڑے میں ڈالا جائے، تو ابو بکرؓ کا ایمان وزن میں بھاری ہوگا۔ امام احمد نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا:
«رَأَيْتُ آنِفاً كَأَنِّي أُعْطِيتُ الْمَقَالِيدَ وَالْمَوَازِينَ، فَأَمَّا الْمَقَالِيدُ فَهَذِهِ الْمَفَاتِيحُ، وَأَمَّا الْمَوَازِينُ فَهِيَ الَّتِي تَزِنُونَ بِهَا، فَوُضِعْتُ فِي كِفَّةٍ وَوُضِعَتْ أُمَّتِي فِي كِفَّةٍ فَرَجَحْتُ بِهِمْ، ثُمَّ جِيءَ بِأَبِي بَكْرٍ فَرَجَحَ، ثُمَّ جِيءَ بِعُمَرَ فَرَجَحَ، ثُمَّ جِيءَ بِعُثْمَانَ فَرَجَحَ، ثُمَّ رُفِعَتْ، قَالَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ، فَأَيْنَ نَحْنُ؟ قَالَ، حَيْثُ جَعَلْتُمْ أَنْفُسَكُمْ»
”میں نے (خواب میں) دیکھا کہ مجھے چابیاں اور ترازو دیے گئے۔ جہاں تک چابیوں کا تعلق ہے، وہ اختیارات کی علامت ہیں، اور ترازو وہ ہے جس سے وزن کیا جاتا ہے۔ پھر مجھے ایک پلڑے میں رکھا گیا، اور میری امت کو دوسرے پلڑے میں رکھا گیا، تو میں اپنی امت پر بھاری ثابت ہوا۔ پھر ابو بکرؓ کو لایا گیا، تو وہ بھی امت پر بھاری نکلے۔ پھر عمرؓ کو لایا گیا، وہ بھی امت پر بھاری ہوئے۔ پھر عثمان کو لایا گیا، وہ بھی بھاری ہوئے۔ پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ ایک آدمی نے (یہ سن کر) کہا: تو پھر ہم کہاں ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جہاں تم نے اپنے آپ کو رکھا (وہیں تم ہو)“۔ (ابن شیبہ، اور طبرانی)
ابو بکر صدیقؓ کا اسلام کی دعوت دینا اور اسلام کے بارے میں ان کا مؤقف :
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلامی دعوت کے ایک منفرد حامی تھے، جو کہ ان کے بہت سے اعمال اور ان کے مؤقف سے ظاہر ہوتا ہے۔ابو بکرؓ نے اللہ سبحانہ وتعالى کی راہ میں دعوت دی اور ان کی دعوت کے نتیجے میں کئی جلیل القدر صحابہؓ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، جن میں الزبیر بن عوامؓ، عثمان بن عفانؓ، طلحہ بن عبیداللہؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، عبدالرحمٰن بن عوفؓ، عثمان بن مظعونؓ، ابو عبیدہ بن الجراحؓ، ابو سلمہ بن عبد الاسدؓ اور ارقم بن ابی الارقمؓ شامل ہیں۔ ابو بکرؓ نے اپنے گھر والوں کو بھی اسلام کی دعوت دی، چنانچہ ان کی بیٹیاں اسماءؓ اور عائشہؓ، ان کا بیٹا عبداللہ، ان کی اہلیہ اُم رُمان، اور ان کے خادم عامر بن فهيرة نے اسلام قبول کیا۔
ابو بکر صدیقؓ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو مکہ میں اعلانیہ طور پر حق کی دعوت دینے اور اہل ایمان کےكتلة (تنظیم) کو منظم انداز میں سامنے لانے کا مشورہ دیا۔ ابن کثیرؒ نے البداية والنهاية میں ام المؤمنین عائشہؓ سے روایت کیا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کے صحابہؓ جمع ہوئے، اور ان کی تعداد اُس وقت 38 مردوں پر مشتمل تھی، تو ابو بکرؓ نے نبی ﷺ سے درخواست کی کہ وہ اعلانیہ طور پر دین کی دعوت دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّا قَلِيلٌ» ’’اے ابو بکر! ہم ابھی تعداد میں کم ہیں‘‘۔ لیکن ابو بکرؓ اصرار کرتے رہے، یہاں تک رسول اللہ ﷺ مسجد الحرام میں آئے اور مسلمان اپنے قبیلہ کے مطابق کعبہ کے مختلف کونوں میں پھیل گئے۔ ابو بکرؓ نے لوگوں کے درمیان کھڑے ہوکر خطاب کیا، جبکہ رسول اللہ ﷺ ابھی تشریف فرما تھے۔ چنانچہ وہ اسلام کی دعوت کو اعلانیہ پیش کرنے والے پہلے خطیب بنے۔ اس پر مشرکین مکہ نے ابو بکرؓ اور دیگر مسلمانوں پر حملہ کر دیا، اور ابو بکرؓ کو سختی سے مارا پیٹا گیا اور پاؤں تلے روند ڈالا گیا۔ عتبہ بن ربیعہ، ابو بکر صدیقؓ کے قریب آیا اور اس نے چمڑے کے دو جوتوں سے انہیں مارنا شروع کر دیا، حتیٰ کہ وہ جوتے سے اُن کے چہرے پر مارتا رہا۔ پھر وہ ابو بکرؓ کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور اتنی شدت سے ان کے چہرے پر مارا کہ چہرہ بگڑ گیا حتیٰ کہ چہرے اور ناک سے ان کو پہچاننا مشکل تھا۔ جب بنو تیم (ابو بکرؓ کا قبیلہ) کو اس کی خبر ہوئی تو وہ دوڑتے ہوئے آئے، جس پر مشرکین ابو بکرؓ کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ بنو تیم نے ابو بکرؓ کو ایک چادر میں لپیٹا اور انہیں ان کے گھر لے آئے، اور ان کے بارے میں انہیں یہ یقین ہو گیا کہ ان کی موت قریب ہے۔ پھر بنو تیم واپس مسجد الحرام آئے اور قسم کھا کر کہا: ’’اللہ کی قسم! اگر ابو بکر انتقال کر گئے تو ہم عتبہ بن ربیعہ کو قتل کر دیں گے“۔ پھر وہ ابو بکرؓ کے پاس واپس آئے، ان کے والد ابو قحافہ اور قبیلہ بنو تیم اس وقت تک ان سے بات کرتے رہے یہاں تک کہ ابو بکرؓ نے دن کے آخر میں ہوش میں آکر بولنا شروع کردیا۔ ان کی زبان سے سب سے پہلا سوال یہ نکلا: ’’رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے؟“ اس پر لوگوں نے انہیں سخت ملامت کی اور زبان سے برا بھلا کہا، اور ان کی والدہ اُمّ الخیر سے کہا: ’’ان کو کچھ کھلاؤ یا پانی پلاؤ“۔ جب ابو بکرؓ اور ان کی والدہ اُمّ الخیر اکیلے ہوئے تو اُن کی والدہ نے اُنہیں ملامت کی، جبکہ وہ مسلسل یہی پوچھتے رہے: ’’رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے؟“ تو اُن کی والدہ نے کہا: ’’اللہ کی قسم! مجھے تمہارے ساتھی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں“۔ اس پر ابو بکرؓ نے فرمایا: ’’آپ جائیں، أم جميل بنت خطاب کے پاس جائیں اور اُن سے نبی ﷺ کے بارے میں پوچھیں“۔ چنانچہ وہ باہر نکلیں یہاں تک کہ أم جميل کے پاس پہنچیں، جو اُس وقت اپنا اسلام چھپائے ہوئے تھیں۔ اُمّ الخیر نے ان سے کہا: ’’ابو بکر تم سے محمد بن عبد اللہ کے بارے میں پوچھ رہے ہیں“۔ أم جميل نے جواب دیا: ’’مجھے ابو بکر اور محمد بن عبد اللہ کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ کیا تم چاہتی ہو کہ میں تمہارے ساتھ تمہارے بیٹے کے پاس چلوں؟“ اُمّ الخیر نے کہا: ’’ہاں“۔ پھر أم جميل اُن کے ساتھ چلیں، یہاں تک کہ ابو بکرؓ کے پاس پہنچیں، جو بے حس و حرکت پڑے تھے۔ اُمّ جمیل آگے بڑھیں اور بلند آواز سے رونے لگیں اور کہنے لگیں: ’’اللہ کی قسم! جن لوگوں نے تمہیں تکلیف دی ہے، وہ یقینی طور پر فاسق اور کافر لوگ ہیں۔ میں امید کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بدلے اُن سے انتقام لے گا“۔ ابو بکرؓ نے پوچھا: ’’پھر رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے؟“ أم جميل نے کہا: ’’یہ تمہاری والدہ سن رہی ہیں“۔ تو ابوبکرؓ نے ان کے بارے میں کہا: ’’میری والدہ کے بارے میں فکر نہ کرو“۔ أم جميل نے کہا: ’’وہ ﷺ بخیر و عافیت ہیں“۔ ابو بکرؓ نے پوچھا: ’’وہ کہاں ہیں؟“ انہوں نے جواب دیا: ’’وہ اس وقت دارِ اَرقم میں ہیں“۔ اس پر ابو بکرؓ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں اُس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گا اور نہ کچھ پیوں گا، جب تک رسول اللہ ﷺ کو دیکھ نہ لوں“۔
چنانچہ وہ اس وقت تک انتظار کرتے رہے جب تک کہ مجمع پرسکون نہ ہو گیا، پھر وہ حضرت ابو بکرؓ کو سہارا دے کر لےگئیں، یہاں تک کہ وہ رسول اللہﷺ کے پاس پہنچ گئے۔ رسول اللہ ﷺ ان پر جھکے اور ان کو بوسہ دیا ، اور مسلمان بھی ان کے ساتھ آگے بڑھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی اس حالت پر دکھ کا اظہار کیا۔ ابو بکرؓ نے کہا: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے کوئی تکلیف نہیں، سوائے اُس ظلم کے جو اُس بدبخت نے میرے چہرے پر کیا۔ یہ اپنے بیٹے کے ساتھ نیک سلوک کرنے والی میری والدہ ہیں۔ آپ مبارک ہستی ہیں، پس انہیں اللہ کے دین کی طرف دعوت دیں اور ان کے لئےاللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کریں، شاید اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپؐ کے ذریعے انہیں جہنم کی آگ سے نجات دے دے“۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے دعا کی، انہیں اللہ کی طرف دعوت دی اور ان کے لئےاللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگی، اور وہ ایمان لے آئیں۔
جب ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بلال ابن رباح رضی اللہ عنہ کے اذیت دئیے جانے کا علم ہوا، جو امیہ ابن خلف کے غلام تھے، تو وہ اذیت دینے کی جگہ پر گئے، امیہ سے معاملات طے کئے، اور بلال رضی اللہ عنہ کو خرید کر اللہ کی رضا کے لئے آزاد کر دیا۔ انہوں نے دیگر کئی مردوں اور عورتوں کے ساتھ بھی ایسے ہی معاملات کئے جو اسلام قبول کر چکے تھے، چنانچہ انہوں نے انہیں بھی خرید کر آزاد کیا، جن میں عامر بن فهيرة، اور أم عبيس (یا أم عميس)، اور زنيرة شامل ہیں۔ انہوں نے النهدية اور ان کی بیٹی کو بھی آزاد کیا، اور بني مؤمل کی ایک مسلمان لونڈی لبينة کو بھی خرید کر آزاد کیا۔
ہجرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت:
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہجرت کے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی بننے کے شدید خواہشمند تھے اور انہوں نے اس کے لئےتیاری بھی کر رکھی تھی۔ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ایک مالدار شخص تھے۔ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہجرت کی اجازت طلب کی، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: «لَا تَعْجَلْ، لَعَلَّ اللهَ يَجِدُ لَكَ صَاحِباً» ’’جلدی نہ کرو، شاید اللہ تمہارے لئے ایک ساتھی مقرر فرما دے“۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امید ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات سے خود اپنی ذات مراد لے رہے ہیں، چنانچہ انہوں نے دو اونٹنیاں خریدیں اور انہیں اپنے گھر میں رکھا، اور اس سفر کی تیاری کے لئےان کی خوب دیکھ بھال کی۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت کی اجازت دی، تو آپ ﷺ نے کچھ بھی لئے بغیر اپنے گھرکو چھوڑا، حالانکہ لوگ آپ کو قتل کرنے کے لئےجمع ہو چکے تھے، اور سیدھے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے“۔ عائشہ رضی اللہ عنہا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر روز ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر صبح یا شام کے وقت ضرور تشریف لایا کرتے تھے۔ جب وہ دن آیا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت دی، تاکہ وہ مکہ سے اپنی قوم کے درمیان سے نکل جائیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے، ایسے وقت میں جس میں آپ ﷺ عام طور پر نہیں آیا کرتے تھے۔ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نہیں آتے، ضرور کوئی اہم معاملہ درپیش آیا ہے“۔ جب آپ ﷺ گھر میں داخل ہوئے، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا بستر آپ ﷺ کے لئے خالی کر دیا، پس رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے، اور اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ گھر میں صرف میں اور میری بہن اسماء بنت ابی بکر تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:» أَخْرِجْ عَنِّي مَنْ عِنْدَكَ« ’’ان لوگوں کو میرے پاس سے ہٹا دو جو تمہارے ساتھ ہیں“۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ ﷺ! یہ میری دونوں بیٹیاں ہیں۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا معاملہ ہے؟“ آپ ﷺ نے فرمایا:» إِنَّ اللهَ قَدْ أَذِنَ لِي فِي الْخُرُوجِ وَالْهِجْرَةِ «’’اللہ تعالیٰ نے مجھے( مکہ سے) نکلنے اور ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ہے“۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)، کیا میں (آپ کی) رفاقت میں ہوں گا؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: »الصُّحْبَةَ« ’’(ہاں،) تمہاری رفاقت میں“۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’اللہ کی قسم! اس دن سے پہلے میں نے کبھی کسی کو خوشی میں روتے نہیں دیکھا تھا، یہاں تک کہ میں نے ابو بکر کو اس دن خوشی سے روتے ہوئے دیکھا“۔ (حوالہ: البداية والنهاية، ابن كثير)
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال، جو کہ اسماء بنت ابی بکرؓ کے بیان کے مطابق پانچ یا چھ ہزار تھا، لے لیا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غارِ ثور کی طرف روانہ ہو گئے۔ انہوں نے اپنا مال اور جان، دونوں رسول اللہ ﷺ کے لئے قربان کر دیے، اور پوری احتیاط کے ساتھ اس بات کا خیال رکھا کہ رسول اللہ ﷺ کو کوئی تکلیف یا مصیبت نہ پہنچے۔
محمد بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں چند لوگ ایسے گفتگو کر رہے تھے گویا وہ عمر رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ پر فوقیت دے رہے ہوں۔ جب یہ بات عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچی، تو انہوں نے کہا: ’’اللہ کی قسم! ابوبکر کی ایک رات آلِ عمر سے بہتر ہے، اور ابوبکر کا ایک دن آلِ عمر سے بہتر ہے۔ رسول اللہ ﷺ (ہجرت کے وقت) غار ثور کی طرف روانہ ہوئے اور ابوبکر ان کے ہمراہ تھے۔ ابوبکر کبھی رسول اللہ ﷺ کے آگے چلتے اور کبھی پیچھے چلنے لگتے، یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے یہ دیکھا تو ان سے پوچھا: «يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا لَكَ تَمْشِي سَاعَةً بَيْنَ يَدَيَّ، وَسَاعَةً خَلْفِي؟» ’’اے ابوبکر! کیا بات ہے کہ تم کبھی میرے آگے اور کبھی میرے پیچھے چلتے ہو؟“ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! جب مجھے دشمن کے تعاقب کا خیال آتا ہے تو آپ کے پیچھے چلتا ہوں (تاکہ آپ پر حملہ نہ ہو)، اور جب مجھے تاک میں بیٹھنے والوں (یعنی گھات لگانے والوں) کا خطرہ یاد آتا ہے تو آپ کے آگے چلتا ہوں (تاکہ آپ کو بچا سکوں) “۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «يَا أَبَا بَكْرٍ، لَوْ كَانَ شَيْءٌ لَأَحْبَبْتَ أَنْ يَكُونَ بِكَ دُونِي؟» ’’اے ابوبکر! اگر کوئی مصیبت واقع ہونی ہو تو کیا تم چاہتے ہوکہ وہ تم پر آئے اور مجھ پر نہ آئے؟“، ابوبکرؓ نے کہا: ’’جی ہاں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کوئی بھی تکلیف پہنچے، بلکہ چاہتا ہوں کہ وہ مصیبت مجھ پر آ جائے اور آپ محفوظ رہیں“۔ جب وہ دونوں غار کے پاس پہنچے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! یہاں ٹھہر جائیں یہاں تک کہ میں غار کو صاف کر لوں“۔ چنانچہ وہ اندر داخل ہوئے اور غار کو صاف کیا، اور جب اوپر پہنچے تو انہیں یاد آیا کہ انہوں نے ایک کونے کو صاف نہیں کیا۔ تو وہ کہنے لگے: ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! ابھی یہاں ٹھہر جائیں، میں اس کونے کو بھی صاف کرلوں“۔ پھر وہ دوبارہ داخل ہوئے، صفائی کی، اور پھر کہا: ’’اب آ جائیے، اے اللہ کے رسول ﷺ“۔ تو نبی کریم ﷺ اندر تشریف لائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ رات آلِ عمر سے بہتر تھی“۔ (صحیح حدیث)
مشرکین نے نبی اکرم ﷺ کے قدموں کے نشانات کا پیچھا کیا یہاں تک کہ وہ جبلِ ثور تک پہنچ گئے اور غار تک جا پہنچے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور مدد سے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت ہوئی اور وہ ناکام ونامراد ہو کر واپس لوٹ گئے۔
ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں، ’’جب ہم غار میں تھے تو میں نے نبی اکرم ﷺ سے کہا، ’’اگر ان میں سے کوئی نیچے اپنے قدموں کی طرف ہی دیکھ لے تو وہ ہمیں دیکھ لے گا“۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا، «مَا ظَنُّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ بِاثْنَيْنِ اللهُ ثَالِثُهُمَا؟» ’’اے ابو بکر! تمہارا ان دو افراد کے بارے میں کیا خیال ہےجن کا تیسرا ساتھی (خود) اللہ ہے؟“ (بخاری)۔
اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے بارے میں قرآنِ مجید میں وحی نازل فرمائی، جو روزِ قیامت تک تلاوت کی جاتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾
’’اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد نہ کرو گے تو اللہ ان کی مدد فرما چکا ہےجب کافروں نے انہیں ان کے (وطن سے) نکال دیا تھا، جبکہ یہ دو میں سے دوسرے تھے، جب وه دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے کہ غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، تو اللہ نے اس پر اپنی تسکین نازل فرمائی، اور ان لشکروں کے ساتھ اس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے، اور اس نے کافروں کی بات کو نیچے کر دیا اور اللہ کا کلمہ ہی بلند و بالا ہے، اور اللہ غالب حکمت والا ہے“۔ (التوبہ؛ 9:40)
رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ تین راتوں تک غار میں مقیم رہے، پھر جب ان کی تلاش کا زور کم ہوا تو وہ روانہ ہو گئے یہاں تک کہ مدینہ پہنچ گئے۔
رسول اللہ ﷺ کے ساتھی، آپ ﷺ کے معاون وزیر اور رسول اللہ ﷺ کے ترکش کا ایک تیر:
ابو بکر صدیقؓ نبی اکرم ﷺ کے سفر و حضر میں ہمیشہ ساتھ رہنے والے ساتھی تھے۔ وہ آپ ﷺ کے وزیر، مشیر، رفیق اور لوگوں میں آپ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کبھی کوئی ایک بھی غزوہ نہیں چھوڑا۔ غزوہ تبوک کے موقع پر انہوں نے اپنا سارا مال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئےخرچ کر دیا اور اپنے اہل و عیال کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑا۔ ابو بکرؓ نے اللہ بزرگ و برتر کی رضا کی طلب میں خود کو بیچ دیا تھا۔ وہ نیکی کے کاموں میں سبقت لے جانے میں اس قدر آگے ہوتے تھےکہ ان کے ساتھی تھک جاتے اور یہ مان لیتے کہ وہ ان سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
ابو بکرؓ ان لوگوں میں سے تھے جو نبی اکرم ﷺ سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ ﷺ کو سب سے بہتر جانتے تھے۔
بخاری اور مسلم نے ابو سعید خدریؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا:
«إنَّ عَبْداً خَيَّرَهُ اللهُ بيْنَ أنْ يُؤْتِيَهُ مِن زَهْرَةِ الدُّنْيا ما شاءَ، وبيْنَ ما عِنْدَهُ، فاخْتارَ ما عِنْدَهُ»
’’اپنے ایک نیک بندے کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ دنیا کی نعمتوں میں سے جو وہ چاہے اسے اپنے لیے پسند کر لے یا جو اللہ تعالیٰ کے یہاں ہے (آخرت میں) اسے پسند کر لے۔ اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے پاس ملنے والی چیز کو پسند کر لیا“۔ یہ سن کر ابو بکرؓ رونے لگے اور کہنے لگے: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں!‘‘ ہم لوگ ان کے رونے پر حیران ہوئے، اور لوگوں نے کہا: ’’اس بزرگ آدمی کو دیکھو! رسول اللہ ﷺ تو ہمیں ایک بندے کے بارے میں بتا رہے ہیں جسے دنیا کی نعمتوں اور اللہ کے پاس موجود چیزوں میں سے انتخاب دیا گیا، اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں!‘ “، ابو سعیدؓ مزید فرماتے ہیں: ’’دراصل رسول اللہ ﷺ خود وہ بندے تھے جنہیں یہ اختیار دیا گیا تھا، اور ابو بکرؓ ہم سب میں سب سے بہتر طور پر اس بات کا مفہوم سمجھنے والے تھے“۔ (بخاری و مسلم)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إنَّ مِن أمَنِّ النَّاسِ عَلَيَّ في صُحْبَتِهِ ومالِهِ أبا بَكْرٍ، ولو كُنْتُ مُتَّخِذاً خَلِيلاً مِن أُمَّتي لاتَّخَذْتُ أبا بَكْرٍ، إلَّا خُلَّةَ الإسلام، لا يَبْقَيَنَّ في المَسْجِدِ خَوْخَةٌ إلَّا خَوْخَةُ أبِي بَكْرٍ»
’’لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ مجھ پر احسان کرنے والے ابوبکر ہیں۔ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو اپنا خلیل بنا سکتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔ ہمارا باہمی رشتہ اسلامی بھائی چارے کا ہے۔ مسجدالنبوی میں کوئی خوخہ (دروازہ) اب کھلا ہوا باقی نہ رکھا جائے سوائے ابوبکر کے گھر کی طرف کھلنے والے دروازے کے“۔ (صحیح بخاری)۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ’’الخوخة“ ایک چھوٹا دروازہ یا کھڑکی نما راستہ ہوتا ہے جو دو گھروں کے درمیان بنایا جاتا ہے اور اس پر دروازہ نصب ہوتا ہے۔
ابو بکر صدیقؓ مشکل صورتحال اور فیصلہ کن لمحات میں مردِ مؤمن تھے :
یہ ان کی زندگی کے کئی مواقع پر ظاہر ہوا، جن میں سب سے اہم موقع رسول اللہ ﷺ کے وصال کا تھا، جب انہوں نے انتہائی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح مرتدین اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کے خلاف قتال کرنے پر ان کا اٹل فیصلہ بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میں اسلامی ریاست کا تحفظ ممکن ہوا اور دین اسلام اور اس کے شرعی احکام کی حفاظت ہوئی۔
رسول اللہ ﷺ کا وصال:
رسول اللہ ﷺ کے وصال کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بہت گہرا اثر ہوا، وہ شدید صدمے، حیرت اور اضطراب کی حالت میں تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے جو کچھ کہنے کی بھی ہمت نہ کر پا رہے تھے، کچھ ساکت ہو کر گر گئے اور اٹھنے کی ہمت نہ کر سکے، اور بعض تو رسول اللہ ﷺ کے انتقال کو ماننے پر ہی تیار نہ تھے۔ جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کے وصال کی خبر ملی اور وہ اس وقت وہاں موجود نہ تھے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے: ’’رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو چکی تھی اور ابوبکرؓ سُنح کے علاقے میں تھے“۔ اس دوران عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے: ’’اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کا انتقال نہیں ہوا!'، پھر عمر نے کہا، ' اللہ کی قسم! مجھے اس کے سوا کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اللہ ضرور انہیں دوبارہ اٹھائے گا، اور وہ بعض لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیں گے“۔
پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور نبی کریم ﷺ کے چہرۂ مبارک سے کپڑا ہٹایا، پھر انہیں بوسہ دیا اور کہا: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ زندگی میں بھی بہترین تھے اور موت میں بھی بہترین ہیں۔ اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی دوبارہ موت کا ذائقہ نہیں چکھائے گا“۔ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ باہر آئے اور کہا: ’’اے قسم کھانے والو! جلدی نہ کرو“۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بات شروع کی تو عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ’’جس نے محمد ﷺ کی عبادت کی ہو، تو وہ جان لے کہ محمد ﷺ وفات پا چکے ہیں، اور جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہو، تو وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ حي القیوم ہے اور اسےکبھی موت نہیں آ سکتی“۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی:
﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ﴾
’’یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مر جانے والے ہیں“ (سورۃ الزمر:30)
اور یہ آیت بھی پڑھی:
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىَ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللهَ شَيْئاً وَسَيَجْزِي اللهُ الشَّاكِرِينَ﴾
’’اور محمد (ﷺ) صرف ایک رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں، توکیا اگر وہ وصال کر جائیں یا یہ شہید ہو جائیں، تو تم الٹے پاؤں پلٹ جاؤ گے؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھر جائے تو ہرگز اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا، اور عنقریب اللہ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا“ (آل عمران؛ 3:144)، تو (یہ سن کر) لوگ زاروقطار رونے لگے۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں بیعت :
جونہی لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کے وصال کی خبر ملی، تو انصار اکٹھے ہوئے تاکہ سعد بن عبادہؓ کو رسول اللہ ﷺ کے جانشین کے طور پر بیعت کریں۔ ابوبکرؓ، عمر بن خطابؓ اور ابو عبیدہؓ کو انصار کے اس اجتماع کی خبر ملی، تو وہ سقیفہ بنی ساعدہ گئے تاکہ انصار کے فیصلے کو روکا جا سکے۔ انہوں نے انصار کے سامنے مہاجرینِ قریش اور ابو بکرؓ کی خلافت کے حق میں دلائل پیش کیے۔ چنانچہ سقیفہ میں موجود لوگوں نے ابو بکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی، اور ابو بکرؓ نے مسلمانوں کا خلیفہ بننے پر حامی بھر لی تاکہ مسلمانوں کو متحد اور ان کے امور کو یکجا کیا جا سکے۔
ابو بکرؓ نے خلافت قبول کرتے وقت عاجزی کے ساتھ ایک خطبہ دیا اور فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں کسی بھی دن یا رات امارت کا خواہشمند نہ تھا، نہ ہی میں کبھی اس کا طالب رہا، اور نہ ہی میں نے کبھی خفیہ یا اعلانیہ اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کیا۔ بلکہ میں تو اس آزمائش سے خوفزدہ تھا، میرے لیے اس امارت میں کوئی راحت نہیں ہے، بلکہ مجھ پر ایک عظیم ذمہ داری ڈال دی گئی ہے جس کے لئے میرے پاس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قوت کے سوا کوئی طاقت یا قوت نہیں ہے۔ میں ترجیح دیتا کہ لوگوں میں سے کوئی اور شخص، جو مجھ سے زیادہ قوی ہو، یہ منصبِ خلافت سنبھالے“۔ (اسے حاکم نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دی گئی بیعت دراصل رسول اللہ ﷺ کے بعد خلافت کے قیام کا اعلان تھی، اور اسی کے ساتھ خلیفہ کے تقرر کے طریقہ کار یعنی بیعتِ انعقاد اور یہ بیعت رسول اللہ ﷺ کے بعد مسلمانوں کے لئےایک سیاسی نظام یعنی خلافتِ راشدہ کے استحکام کا ذریعہ بنی۔ ابو بکر صدیقؓ نے بطور پہلے خلیفہ، اس ذمہ داری کو بڑی صلاحیت اور مہارت کے ساتھ نبھایا۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ، خليفة للمسلمين :
ابو بکرؓ کی خلافت دو سال اور تین ماہ پر محیط رہی۔ اگرچہ یہ مدت مختصر تھی، مگر یہ عظیم کارناموں اور اہم کاموں سے بھرپور تھی، جیسے کہ نظام حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنا، ارتداد اور بغاوت کا خاتمہ کرنا، اور فارس و روم کی سرزمینوں میں اسلامی دعوت کو پھیلانے کےلئے کام کرنا۔ یہ تمام کام ایک ہی وقت میں انجام دیے گئے، جن میں فتوحات اور اسلامی دعوت کی ترویج شامل تھی۔
منصبِ خلافت سنبھالتے وقت ابو بکر صدیقؓ کا خطبہ:
منصبِ خلافت سنبھالتے وقت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے دیا گیا پہلا خطبہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد داخلی پالیسی اور رعایا و حکمران کے باہمی تعلق کو واضح کرتا ہے۔ اس خطبہ میں خلیفہ کا رعایا پر حق اور رعایا کا خلیفہ پر حق بیان کیا گیا، اور خارجہ پالیسی کا بھی تعین کیا گیا جو جہاد کے ذریعے دعوت اسلام کے فروغ پر مبنی تھی۔ اگرچہ یہ خطبہ مختصر تھا، لیکن اس نے اسلامی ریاست کی بنیادوں اور اس کے طریقہ کار کو واضح انداز میں بیان کر دیا تھا۔
ابو بکرؓ نے فرمایا: ’’أما بعد ! اے لوگو! مجھے تم پر خلیفہ مقرر کیا گیا ہے، حالانکہ میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں درست عمل کروں تو میری مدد کرو، اور اگر میں غلطی کروں تو میری اصلاح کرو۔ حق ایک امانت ہے اور جھوٹ دغاہے۔ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے، یہاں تک کہ میں اس کا حق اسے واپس دلا دوں، إن شاء الله۔ اور تم میں جو قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے، یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق واپس لے لوں، إن شاء الله۔ جو قوم اللہ کے راستے میں جہاد کو چھوڑ دیتی ہے، اللہ اس پر ذلت مسلط کر دیتا ہے۔ اور جس قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے، اللہ انہیں مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتا رہوں، میری اطاعت کرو۔ لیکن اگر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت کرنا فرض نہیں۔ اپنی نمازوں کے لئے کھڑے ہو جاؤ، اللہ تم پر رحم فرمائے“۔ (ابن الأثير نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)۔
ریاست کے امور کا انتظام:
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ریاست کے امور کو بے مثال مہارت، پیشہ ورانہ صلاحیت اور بصیرت انگیزی کے ساتھ سنبھالا۔ وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ والیوں کو نہ ہٹایا جائے۔ انہوں نے حکومتی ڈھانچے کو اسی حالت میں برقرار رکھا جیسا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں تھا۔ انہوں نے اسامہ بن زیدؓ کی قیادت میں عسکری مہم کو مکمل کرنے پر اصرار کیا، حالانکہ اس وقت ریاست کو سنگین خطرات لاحق تھے۔ انہوں نے زکوٰۃ کا انکار کرنے والوں اور مرتدین کی بغاوتوں کا سامنا کرتے ہوئے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، جبکہ فوجیوں کی قلت کے باوجود، منفرد سیاسی حکمت عملی کے ذریعے ایک عظیم مدبر کا کردار ادا کیا۔
اسامہ بن زیدؓ کی فوج اور ارتداد کی جنگیں:
جب صحابہؓ نے ابو بکرؓ کو خلیفہ منتخب کیا تو ان کی حکومت کو کئی شدید چیلنجز کا سامنا تھا۔ مشکل ترین حالات کے باوجود، وہ اسلامی امت کی وحدت کو برقرار رکھنے اور ریاست کو مضبوط کرنے میں کامیاب رہے۔
ارتداد کی جنگیں :
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد، کچھ عرب علاقوں میں بعض لوگ اسلام سے مرتد ہو گئے۔ تاہم، ابوبکر صدیقؓ نے اس ارتداد کے خلاف مضبوط موقف اختیار کیا اور مرتدین سے قتال کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ جنگ نہایت جراتمندانہ اور فیصلہ کن تھی، اور اس میں ابوبکرؓ نے دینِ الٰہی اور رسول اللہ ﷺ سے اپنی سچی وفاداری کا عملی ثبوت دیا۔
اس کے علاوہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو روانہ کرنے کا حکم بھی دیا، جسے رسول اللہ ﷺ نے رومیوں کے خلاف بھیجنے کے لئے تیار کر رکھا تھا۔ انہوں نے حکم دیا: ’’مدینہ میں اسامہؓ کے لشکر کا کوئی بھی سپاہی نہ رکے، بلکہ سب جرفکےمقام پر لشکر گاہ میں پہنچیں“۔ (البداية والنهاية)۔ بعض کُبّارصحابۂ کرامؓ نے ابوبکرؓ سے اس لشکر کی روانگی پر اعتراض کیا اور اس کی بجائے اس لشکر کو ارتداد اور بغاوت سے نمٹنے کے لئے کہا۔ انہوں نے عرض کیا: ’’یہ لوگ مسلمانوں کی اکثریت ہیں، اور جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، عرب کے قبائل آپ کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہیں، لہٰذا آپ کے لئےمناسب نہیں کہ آپ مسلمانوں کی جماعت کو تقسیم کر دیں“۔ (البداية والنهاية)
اس پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں ابو بکر کی جان ہے، اگر مجھے یہ گمان بھی ہوتا کہ درندے مجھے دبوچ لے جائیں گے، تب بھی میں بالکل ویسے ہی اسامہ کا لشکر ضرور روانہ کرتا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا تھا۔ اور اگر تمام بستیوں میں میرے سوا کوئی نہ بچتا، تب بھی میں اسے ضرور روانہ کرتا!“ (تاریخ الطبری)
ابوبکرؓ نے لشکر کو روانہ کیا اور اس کو ہدایات دیں۔ وہ لشکر رومیوں کی سرزمین تک پہنچا اور عظیم فتوحات حاصل کیں، جنہوں نے اسلامی ریاست کے وقار کو مضبوط کیا۔ ایسے نازک حالات میں فوج کی روانگی نے اسلامی ریاست میں موجود مرتدین اور بغاوت کرنے والوں کے دلوں میں رعب اور خوف پیدا کر دیا۔
ابوبکرؓ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سمیت ان جید صحابۂ کرام ؓ کے اس اعتراض کو رَد کر دیا، کہ اُن لوگوں سے جنگ نہ کی جائے جو زکوٰۃ کو فرض مانتے تھے لیکن ریاست کو ادا کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ ابوبکرؓ ایک صاحبِ بصیرت اور وسعتِ فکر رکھنے والے شخص تھے، اس لئے انہوں نے منکرینِ زکوٰۃ کو ریاست کے خلاف بغاوت، نافرمانی اور دین کو کمزور کرنے کا ذریعہ سمجھا۔ انہوں نے اپنا مشہور قول ارشاد فرمایا: ’’کیا دین میں نقص آ جائے گا جبکہ میں ابھی زندہ ہوں؟!“، ابوبکرؓ نے یہ بھی فرمایا:
«وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا»
’’اللہ کی قسم! میں ضرور اُن لوگوں سے جنگ کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ زکوٰۃ مال میں سے شریعت کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر وہ مجھے بکری کا ایک بچہ (عَنَاق) بھی دینے سے انکار کریں، جو وہ رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے، تو میں ان سے اس پر بھی جنگ کروں گا“ (بخاری)۔
ایک اور روایت میں ابوبکرؓ نے فرمایا:
«وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالاً كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ»
’’اللہ کی قسم ! اگر وہ ایک اونٹ کی رسی (عِقَال) بھی روک لیں، جو وہ رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے، تو میں اُس پر بھی اُن سے قتال کروں گا“۔ جب عمرؓ نے یہ عزم دیکھا توفرمایا : ’’اللہ کی قسم! جب میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کا سینہ قتال کے لئے کھول دیا ہے، تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہی حق ہے“۔ (صحیح مسلم)
ابو بکر صدیقؓ مرتدین سے خود لڑنے کا ارادہ رکھتے تھے اور فوج کی قیادت کے لئے باہر نکلے۔ صحابہ کرامؓ نے اُن سے عرض کیا کہ وہ مدینہ میں ہی رہیں تاکہ ریاست کے انتظامی امور کی نگرانی کریں، اور کسی اور کو لشکر کی قیادت سونپ دیں۔ چنانچہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور آپ کی سواری کی لگام پکڑ لی، اور عرض کیا: ’’اے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ، آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ میں آپ کو وہ بات کہوں جو رسول اللہ ﷺ نے اُحد کے روز فرمایا تھا: « شم سيفك ولا تفجعنا بنفسك » ’’اپنی تلوار کے ساتھ پیش قدمی کرو، لیکن ہمیں اپنی ذات کی جدائی کا دکھ نہ دو“، اللہ کی قسم! اگر ہمیں اس وقت آپ کا صدمہ جھیلنا پڑا تو آپ کے بعد اسلام کا نظام کبھی قائم نہیں رہ سکے گا!“، چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ واپس لوٹ آئے۔ (البداية والنهاية، ابن كثير)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ ارتداد میں فتح عطا فرمائی، اگرچہ ان جنگوں میں بڑی تعداد میں صحابہ کرامؓ شہید ہوگئے تھے۔ ان شہداء میں وہ صحابہؓ بھی شامل تھے جو وحی کے کاتب تھے، جنہوں نے قرآنِ مجید کو حفظ کر رکھا تھا اور اس کی کئی آیات اور سورتیں لکھ رکھی تھیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس اہم معاملے کو ابو بکرؓ کے دل میں ڈال دیا، تو انہوں نے زید بن ثابتؓ کو حکم دیا کہ وہ قرآنِ مجید کو جمع کریں، یعنی اس کے وہ حصے جو لکھے جا چکے تھے اور وہ بھی جو صحابہؓ نے حفظ کر رکھے تھے۔ زید بن ثابتؓ نے ابو بکرؓ کی زندگی میں ہی قرآنِ مجید کو ایک مصحف میں جمع کر لیا، جو ان کے نیک اعمال کا ایک بہت بڑا اجر تھا۔
قرآن مجید کا جمع کیا جانا :
ابو بکر صدیقؓ ان اولین افراد میں سے تھے جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد قرآنِ مجید کو جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں خدشہ تھا کہ جنگوں میں ان حفاظِ قرآن کی شہادت کے باعث کہیں قرآن کے کچھ حصے ضائع نہ ہو جائیں۔ چنانچہ ابو بکرؓ اور عمرؓ نے قرآنِ کریم کو ایک جلد میں جمع کر کے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو آئندہ نسلوں کے لئےمحفوظ رکھنے کی بنیاد رکھ دی۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک ایسے وقت میں ایمان، قربانی اور صداقت کی مثال تھے جب آزمائشیں پہلے سے کہیں زیادہ تھیں۔ انہوں نے وہ بلند کردار اور عظیم اقدام پیش کیے جن کی بدولت وہ امت کی تاریخ میں عظیم ترین خلیفہ قرار دئیے گئے، اور ان عظیم شخصیات میں سے ایک نمایاں شخصیت ہیں جن کا نام تاریخ میں عزت و شجاعت کے ساتھ درج ہوا ہے۔ ابو بکرؓ ایک ایسے صحابی کی روشن مثال تھے جو اسلام کی خاطر اپنی جان، مال اور وقت قربان کرنے میں ذرہ بھر بھی تردد نہیں کرتے تھے۔
شام اور عراق کی جانب افواج کی روانگی :
ابو بکر صدیقؓ نے اس موقعے کو جانچ لیا کہ فارس اور روم باہمی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں، تو انہوں نے بیک وقت مشرق اور مغرب کی طرف فتوحات کے لئے لشکر روانہ کیے۔ انہوں نے خالد بن ولیدؓ اور مثنیٰ بن حارثہؓ کو فارس کی طرف روانہ کیا، جہاں انہوں نے فتح حاصل کی اور عراق کے کئی شہروں کو فتح کیا، جن میں انبار، دومۃ الجندل اور الفِراض شامل ہیں اور پھر الحِیرہ کو بھی فتح کر لیا۔ اسی طرح ابو بکرؓ نے روم کے علاقے یعنی شام کی طرف بھی لشکر بھیجے، جن کی قیادت یزید بن ابی سفیان، عمرو بن العاص، اور شرحبیل بن حسنہ رضوان اللہ علیہم نے کی۔ مزید کمک کے طور پر ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بھی بھیجا گیا۔ ان افواج کا ہدف اردن، فلسطین، دمشق اور حمص جیسے علاقے تھے۔ یَرموک کی مشہور جنگ، مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان پیش آئی، اور اس موقع پر خالد بن ولیدؓ نے بھی مسلمانوں کی مدد کے لئے شمولیت اختیار کی۔ اسی جنگ کے دوران مسلمانوں کو خلیفۂ اول ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر ملی، اور پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
خلافت کے لئے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نام :
ابو بکر صدیقؓ نے اسلامی ریاست کو لاحق خطرے کو بھانپ لیا کیونکہ وہ بیک وقت دو بڑی طاقتوں، فارس اور روم کے خلاف جنگیں لڑ رہی تھی۔ اس شدید آزمائش کے وقت مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہونے سے روکنے کے لئے، اور صحابہ کرامؓ سے مشورے کے بعد، انہوں نے عمر بن خطابؓ کو اپنے بعد خلافت کے لئے تجویز فرمایا تاکہ ان کی وفات کے بعد مسلمان انہیں اطاعت کی بیعت دیں۔ انہوں نے اس فیصلے کے بارے میں ایک تحریری فرمان بھی جاری کیا اور اسے لوگوں کو پڑھ کر سنایا، تاکہ وہ اس نازک مرحلے میں ریاست کے بارے میں اپنی فکر کا اظہار کر سکیں۔
عمر رضی اللہ عنہ کو تجویز کئے جانے پر صحابہ کرامؓ کی تشویش:
ابن الاثیرؒ نے روایت کیا ہے کہ بعض صحابہؓ کو عمرؓ کی خلافت کے حوالے سے کچھ اندیشے لاحق تھے۔ جب طلحہ بن عبیداللہؓ کو علم ہوا کہ ابو بکرؓ نے عمرؓ کو اپنے بعد خلیفہ تجویز کیا ہے، تو وہ ابو بکرؓ کے پاس آئے اور کہا: ’’آپ نے اپنے بعد لوگوں پر عمرؓ کو مقرر کرنے کا انتخاب کیا ہے، حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ جب وہ آپ کے ساتھ ہوتے ہیں، تب بھی وہ لوگوں سے کیسے معاملہ کرتے ہیں، تو پھر وہ ان کے ساتھ کیسے معاملہ کریں گے جبکہ وہ اکیلے ہوں گے اور آپ اپنے رب سے جا ملیں گے، اور وہ آپ سے آپ کی امت کے بارے میں سوال کرے گا؟“ یہ سن کر ابو بکرؓ اٹھ کھڑے ہوئے، طلحہؓ کے کندھے کو پکڑا، زور سے جھنجھوڑا اور کہا: ’’میرے پاس بیٹھو!“ چنانچہ وہ بیٹھ گئے۔ ابو بکرؓ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں میرے بارے میں اللہ سے ڈر ہے؟!“ یعنی، کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم مجھ سے زیادہ پرہیزگار ہو، جو میرے لئے اللہ سے خوف محسوس کرتے ہو؟، پھر ابو بکرؓ نے فرمایا: ’’جب میں اپنے رب سے ملوں گا اور وہ مجھ سے سوال کرے گا، تو میں کہوں گا: ’’میں نے آپ کے بندوں پر، آپ کے بندوں میں سے سب سے بہتر کو خلیفہ مقرر کرنے کا انتخاب کیا تھا“۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے تقویٰ کے باعث نہایت پرہیزگار اور محتاط تھے، یہاں تک کہ انہوں نے خلافت کے عہدے سے کسی قسم کا دنیوی فائدہ حاصل کرنا بھی گوارا نہ کیا، خواہ وہ صرف ایک درہم ہو یا معمولی سامان۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ ابو بکرؓ نے فرمایا: ’’جب سے میں نے امیر بننے کی ذمہ داری سنبھالی ہے، تو دیکھ لو کہ میرے مال میں اگر کچھ بھی اضافہ ہوا ہو تو وہ چیز میرے بعد آنے والے خلیفہ کو بھجوا دو“۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ ان کے پاس صرف ایک حبشی غلام تھا جو خوداپنے ہی بچوں کی دیکھ بھال کیا کرتا تھا، اور ایک اونٹ تھا جسے باغ کو پانی دینے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ ہم نے یہ دونوں چیزیں عمر رضی اللہ عنہ کو بھجوا دیں۔ عمرؓ یہ دیکھ کر رو پڑے اور فرمایا: ’’اللہ ابو بکرؓ پر رحمتیں فرمائے، بے شک انہوں نے اپنے بعد آنے والوں کو سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے (یعنی اپنے تقویٰ و زہد کے باعث ان کے لئے معیار بہت بلند کر دیا)“۔ یہ واقعہ ابن الجوزی اور دیگر علماء نے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات :
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ابو بکر صدیقؓ ایک سرد رات کو غسل کرنے کے بعد بیمار ہو گئے جس سے انہیں بخار ہو گیا جس کی وجہ سے وہ پندرہ دن تک نماز کی ادائیگی کے لئے باہر نہ جا سکے۔ اس دوران انہوں نے عمر بن خطابؓ کو اپنی جگہ جماعت کی امامت کی ہدایت کی۔ یہاں تک کہ وہ پیر اور منگل کی درمیانی شب، 22 جمادی الآخر، 13 ہجری بمطابق 23 اگست 634 عیسوی کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے (الإصابة في تمييز الصحابة، ابن حجر العسقلاني)۔ ان کی وفات سے قبل ان کے آخری الفاظ یہ تھے: ’’اے اللہ! مجھے مسلمان کی حیثیت سے موت عطا فرما، اور مجھے صالحین کے ساتھ ملا دے“۔ یہ کہتے ہی انہوں نے اپنی جان اللہ کے سپرد کر دی۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان سے راضی ہو۔ آمین !
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سن کر مدینہ کی فضا سوگ میں ڈوب گئی۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سے مدینہ نے کبھی ایسا دن نہیں دیکھا جس میں اتنے لوگ، مرد وعورت، اس قدر روتے ہوں جتنا اس شام روئے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم حضرت ابو بکرؓ کے فراق پر شدید غمگین تھے۔ اسی حالت میں علی بن ابی طالبؓ جلدی سے، روتے ہوئے اور اللہ کو یاد کرتے ہوئے آئے، وہ اُس گھر کے سامنے کھڑے ہو گئے جہاں ابو بکرؓ کا جسدِ خاکی تھا، اور فرمایا: ’’اللہ ابو بکرؓ پر رحم فرمائے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے رفیق اور بااعتبار دوست تھے۔ وہ آپ کو اپنی باتوں کا امین بناتے اور اپنے معاملات میں مشورہ لیتے تھے“۔ پھر انہوں نے کہا: ’’اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کے بعد امتِ مسلمہ آپ جیسا شخص کبھی نہیں پائے گی۔ آپ دین کے لیے عزت، حفاظت اور پناہ کا ذریعہ تھے۔ اللہ عزوجل آپ کو اپنے نبی محمد ﷺ کے ساتھ ملا دے، اور ہمیں آپ کے بعد آپ کے اجر سے محروم نہ کرے، اور آپ کے بعد ہمیں گمراہی سے بچائے“۔ جب تک علی رضی اللہ عنہ خاموش نہ ہوگئے تو مجمع پر سناٹا چھایا رہا، پھر اچانک لوگ زاروقطار رونے لگے، یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، اور سب نے کہا: ’’آپ نے بالکل سچ فرمایا ہے“۔ (التبصرة لابن الجوزي)
Latest from
- پوری انسانیت کی موت کے اعلان کا وقت آن پہنچا ہے
- قرآنِ کریم کے ساتھ اخلاصِ کامل
- خلافت کے انہدام کے 104ویں سالانہ موقع پر حزب التحریر کی عالمی سرگرمیوں پر ایک نظر
- آخر یہ کیسے ہو گیا کہ کمیونزم نے تو اپنی ریاست قائم کر لی، جبکہ امت مسلمہ اپنی ریاست قائم نہیں کر سکی ؟!
- شامی حکومت، سیکولرازم کی شکست، تبدیلی کے عمل کی تکمیل اور خلافت راشدہ کی بحالی