بسم الله الرحمن الرحيم
امریکہ ازبکستان کو اپنے بین الاقوامی جیوپولیٹیکل اہداف کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے
(ترجمہ)
دنیا نیوز ایجنسی کے نمائندے کے مطابق، یہودی وجود کے بااثر میڈیا کے ادارے، ازبکستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے فروغ میں مسلسل گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ خاص طور پر معروف ویب پورٹل "Bhol.co.il" نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جس میں ایک یہودی تاجر کے تجربے کو بیان کیا گیا ہے جس نے نمنگان کے علاقے میں ایک سرمایہ کاری منصوبے کو کامیابی سے عملی جامہ پہنایا۔
نمنگان کے صوبے میں ٹیکسٹائل صنعت میں سرمایہ کاری کا یہ منصوبہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ غاصب یہودی وجود، ازبکستان میں گرمجوشی سے کاروبار کر رہا ہے، جبکہ وہ غزہ میں اپنے نہ ختم ہونے والی جنگی جرائم کی مہم بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ سرمایہ کار ابرہام حاییم کے مطابق، اس نے یہ منصوبہ ازبک عوام کی طرف سے دیے گئے امن، تحفظ اور ان کے مخلص رویے سے متاثر ہو کر شروع کیا۔ وہ "Meleh Tex" کمپنی کا سربراہ ہے جس کا ہدف ہر سال 2 کروڑ ڈالر مالیت کی مصنوعات تیار کرنا ہے، اور اس مقصد کے لیے نمنگان کے متعدد ٹیکسٹائل کارخانوں میں سینکڑوں مقامی مزدوروں کو ملازمت دی جا رہی ہے۔
رپورٹ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس طرح کے منصوبے دو طرفہ تجارت کے حجم میں اضافہ کریں گے اور وسطی ایشیا کی منڈی میں داخل ہونے کے لیے دیگر یہودی تاجروں کے لیے ایک نمونہ ثابت ہوں گے۔ اس کے علاوہ، حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں، خاتیرتچی کے ضلعی گورنر اومیدجون ادیزوف نے بیرونِ ملک مقیم بخاری یہودیوں کو باضابطہ طور پر خوش آمدید کہا، اور بارہا اس بات پر زور دیا کہ ان کے لیے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں اور وہ ہمیشہ قدردانی کے مستحق رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں سیاحت اور معیشت جیسے شعبوں میں کام کے بڑے مواقع دیے جائیں گے۔
ایسے سفارتی بیانات نہ صرف یہودی وجود کے ساتھ بکھرے ہوئے یہودیوں کے روابط کو فروغ دیتے ہیں بلکہ یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ سرکاری پالیسی مقامی سطح پر متفق اور مربوط ہے، کیونکہ ریاستوں، اضلاع اور شہروں کے حکام درحقیقت صدارتی انتظامیہ کے ذریعے مقرر کیے جاتے ہیں، اور وہ صدر کی پالیسیوں اور احکامات کو اپنے علاقوں میں نافذ کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ازبکستان کی حکومت سیاحت کے فروغ اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے پردے میں، عملی طور پر غاصب یہودی وجود کی جانب سے غزہ میں کیے جانے والے جرائم کی حمایت کر رہی ہے، خواہ وہ زبانی طور پر اس کی مذمت ہی کیوں نہ کرتی ہو۔
علاوہ ازیں، اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ازبکستان کی 96 سے 97 فیصد آبادی مسلمان ہے، یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ازبک حکومت کو اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ غزہ میں نسل کشی اور قتل عام کے باوجود یہودی وجود کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے سے عوامی سطح پر شدید غم و غصہ پیدا ہو سکتا ہے۔
یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہودی وجود اپنی اقتصادی رسائی کو وسعت دینے اور اور ایسی مالی بنیاد حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے جو غزہ کے تنازع سے دور ممالک پر قائم ہو۔ امریکہ ازبکستان کو آذربائیجان کے ذریعے اپنے بین الاقوامی جیوپولیٹیکل مفادات کے لیے ایک نئے محاذ میں تبدیل کر رہا ہے، کیونکہ ازبکستان اپنی سرزمین پر یہودیوں کو سیاحتی اور اقتصادی مراعات فراہم کر رہا ہے اور اس کی آذربائیجان کے ساتھ مضبوط اور بڑھتی ہوئی دوستی بھی اس سلسلے میں معاون ہے۔ یہ بات معروف ہے کہ آذربائیجان خطے میں یہودی وجود کا ایک قریبی اسٹریٹیجک اتحادی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان عسکری تکنیکی تعاون، انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ، اور توانائی کے شعبے میں وسیع تعلقات موجود ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، ٹرمپ انتظامیہ جنوبی قفقاز اور وسطی ایشیا کی حکومتوں کو ابراہیمی معاہدات کے تحت یہودی وجود کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ترغیب دیتی رہی ہے۔ اگرچہ ازبکستان نے ابھی تک باضابطہ طور پر ان معاہدات پر دستخط نہیں کیے، لیکن یہ امکان موجود ہے کہ وہ آذربائیجان کے ذریعے ایک اتحاد کا حصہ بن جائے گا۔
18 فروری 2025 کو آذربائیجان کے صدارتی معاون حکمت حاجیف اور یہودی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان یروشلم میں ایک ملاقات ہوئی، جس میں اسٹریٹیجک تعلقات کو وسعت دینے اور ابراہیمی معاہدے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ایک اعلیٰ سطحی یہودی اہلکار نے یروشلم پوسٹ کو بتایا: "آذربائیجان گزشتہ تین دہائیوں سے (اسرائیل) کا اسلامی دنیا میں سب سے قابلِ اعتماد شراکت دار رہا ہے"، اور مزید کہا: "اسے علاقائی سلامتی کے ڈھانچے میں اس کی اسٹریٹجک اہمیت کے مطابق اہمیت دی جانی چاہیے۔"۔
اسی دوران، بیگن-سادات اسٹریٹیجک اسٹڈیز سینٹر نے ایک خصوصی تجزیاتی رپورٹ شائع کی، جس کا عنوان تھا: "آذربائیجان کو مؤثر طور پر ٹرمپ کی علاقائی منصوبہ بندی اور (اسرائیل) کے مفادات میں کیسے شامل کیا جائے: عملی سفارشات" رپورٹ میں کہا گیا: "ایسی باضابطہ رکاوٹوں کو دور کیا جانا چاہیے جو امریکہ اور (اسرائیل) کو آذربائیجان کی صلاحیتوں سے مکمل فائدہ اٹھانے سے روکتی ہیں، تاکہ 'گریٹر مڈل ایسٹ' کی نئی ساخت میں ان سے استفادہ کیا جا سکے"۔
بعد ازاں، یہودی وجود میں تعینات آذربائیجان کے سفیر مختار مامادوف نے کنیسٹ میں ابراہیمی معاہدات کے پارلیمانی گروپ کے شریک صدور سے ملاقات کی۔ کنیسٹ کے اجلاس کے دوران، یہودی ارکانِ پارلیمان نے ابراہیمی معاہدات کے دائرے کو آذربائیجان تک وسعت دینے اور اس ملک کو امریکہ کے قریب لانے کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ اس مرحلے پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ، وسطی ایشیا کے نظام ہائے حکومت کو، ترکی کی قیادت میں "ترک زبان بولنے والے ممالک کی تنظیم" کے دائرے میں توانائی، دفاع اور دیگر اہم شعبوں میں جمع کر کے، آذربائیجان، ازبکستان اور قازقستان کو اپنی اور یہودی وجود کی خدمت میں لانے کے لیے فعال کوششیں کر رہا ہے۔
اسلامی دنیا میں موجود ان غلام حکومتوں نے امریکہ جیسے کافر استعمار کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رکھا ہے، اور وہ غزہ، کشمیر اور ترکستان شرقیہ کے مسلمانوں کے خون، جانوں اور اموال کو کاروبار کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ یہ درحقیقت ایک عظیم ترین خیانت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ القِيَامَةِ، يُرْفَعُ لَهُ بِقَدْرِ غَدْرِهِ، أَلَا وَلَا غَادِرَ أَعْظَمُ غَدْراً مِنْ أَمِيرِ عَامَّةٍ»
"ہر غدار کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا، جو اس کی غداری کے درجے کے مطابق بلند کیا جائے گا۔ یاد رکھو! سب سے بڑی غداری کتنے والا مسلمانوں کا امیرِ عام ہوتا ہے" (صحیح مسلم)
تحریر: استاد عبد العزیز الاوزبکي