بسم الله الرحمن الرحيم
رمسیس سنٹرل کی آگ — شہری ریاست کے انہدام کی ایک اور تصویر
(عربی سے ترجمہ)
تحریر: استاد سعید فضل
ایک ہی لمحے میں، ہزاروں رابطے منقطع ہو گئے، انٹرنیٹ کا جال ٹوٹ گیا، اور لاکھوں مصریوں کی زندگی مفلوج ہو گئی۔ رمسیس سنٹرل کی دیواروں کے پیچھے چھپی سچائیاں یکایک عوام کی نظروں کے سامنے آ گئیں۔ مگر یہ محض آتش زدگی کا ایک واقعہ نہیں تھا، بلکہ ایک مکمل نظام کی بدعنوانی، موجودہ ریاست کی ناکامی، اور اداروں کی رگوں میں پیوست غفلت کا ناقابل تردید ثبوت تھا۔ یہ آگ بلا کسی شبہے کے ظاہر کرتی ہے کہ موجودہ نظام عوام کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں، بلکہ بدعنوانی، بے پروائی اور بار بار ہونے والے انہدام کا زرخیز میدان ہے۔
رمسیس سنٹرل میں جو کچھ ہوا، وہ اس حقیقت کی تازہ ترین تصدیق ہے جسے حالات بارہا ثابت کر چکے ہیں، یعنی یہ کہ مصری نظام کوئی عوام کی دیکھ بھال پر مبنی نظام نہیں، بلکہ بحرانوں کا نظام ہے۔ سنٹرل کی آگ کوئی اچانک پیش آنے والا واقعہ نہ تھا، بلکہ بدعنوانی، ناقص انتظام، فنی رپورٹوں اور بار بار دی گئی وارننگز کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ تھا۔ صحافتی رپورٹس نے انکشاف کیا ہے کہ سنٹرل کا اندرونی انفرااسٹرکچر برسوں سے خستہ حال تھا۔ نہ وہاں کوئی مؤثر خودکار فائر فائٹنگ سسٹم موجود تھا، نہ ہی حفاظتی مرمت کا کوئی پیشگی نظام۔ مصری ٹیلی کام کے ایک سابق فنی ماہر نے بتایا: "ہم نے 2022 سے 2024 کے درمیان متعدد سرکاری رپورٹیں ارسال کیں جن میں سنٹرل کے اندر پرانی تاروں کے خستہ حال ہونے، اور بالائی منزلوں میں فائر سپرنکلر سسٹم کی عدم موجودگی کی نشان دہی کی گئی، مگر کمپنی کی انتظامیہ نے کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا۔" (المنصہ، 11 جولائی 2025)
یہ دستاویزی غفلت کوئی اتفاقی واقعہ نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی عکاسی ہے جو دانستہ چشم پوشی اور کوتاہی پر قائم ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حساس سہولیات کو بھی مالی یا بیوروکریٹک ترجیحات کی نذر کر دیا جاتا ہے، یوں کہ خود نظام ہی عوامی مفادات کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔
لوگوں نے افسوس اور حیرت کے ساتھ یہ سوال اٹھایا: ایسی اہم عمارت میں مکمل حفاظتی نظام کیوں موجود نہ تھا؟ نگرانی کرنے والے ادارے کہاں تھے؟ جب سب کو معلوم تھا کہ آلات ناقابلِ استعمال ہو چکے ہیں، تو انہیں کیوں نہ بدلا گیا؟ ان سوالات کا اصل جواب کسی فنی تحقیق یا انتظامی رپورٹ میں نہیں، بلکہ خود اس نظام کی فطرت میں مضمر ہیں، جس کے نزدیک نہ تو انسان کی کوئی قدر ہے، اور نہ ہی یہ نگہبانی کو کوئی ذمے داری سمجھتا ہے، بلکہ یہ نظام ہر چیز کو سرمایہ کاری، نفع اندوزی یا سیکیورٹی کنٹرول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔
احتساب کے فقدان اور اس کے تسلسل کا نہ ہونا نظام کے فساد کی سب سے نمایاں علامت ہے۔ یہاں ناکامی یا غفلت کی بنیاد پر کسی ذمے دار کو مواخذے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، بلکہ سزا اسے ملتی ہے جو سوال اٹھانے یا احتجاج کی جسارت کرے! یہی وہ الٹی انصاف پسندی ہے جو سرمایہ دارانہ شہری ریاست پیدا کرتی ہے — ایک ایسی ریاست جو نگہبانی صرف اسی حد تک کرتی ہے جہاں تک وہ نظام اور اس کے سیکیورٹی اداروں کے مفاد سے مطابقت رکھتی ہو۔
سنٹرل کی آگ محض ایک تکنیکی حادثہ نہ تھا، بلکہ اس نے معیشت اور خدمات کی جڑ پر وار کیا۔ انٹرنیٹ سروسز اور بینکاری رابطے معطل ہو گئے، جس سے مالیاتی لین دین رک گیا، تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئیں، اور تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی۔ اسپتال، بینک، اور سروس سینٹرز سب متاثر ہوئے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ بغیر کسی متبادل منصوبہ بندی کے، ایک ہی مرکزی ادارے پر انحصار کس قدر نازک ہے۔ حالانکہ متبادل موجود تھے، لیکن یہ سرمایہ دارانہ نظام، اپنی سیکیورٹی پرست اور منافع خور نگاہ سے، ایسے اہم اداروں کو بھی صرف اس پیمانے سے دیکھتا ہے کہ اس میں سے گزرنے والی معلومات سے کس حد تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
مصر میں رائج نظام، دیگر مسلم ممالک کے نظاموں کی طرح، سرمایہ دارانہ مفاد پر مبنی ہے۔ یہ نظام عوام کی دیکھ بھال کو شرعی ذمہ داری نہیں سمجھتا، بلکہ ہر سہولت کو نفع کا ذریعہ یا رشوت و بدعنوانی کا دروازہ سمجھتا ہے۔ اس لیے تعجب کی بات نہیں کہ جب آگ سے متعلق تنبیہی رپورٹس آئیں تو انہیں نظر انداز کر دیا گیا، کیونکہ اصلاحِ احوال، سرمایہ دارانہ بجٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں، اور نہ ہی فوری آمدنی کا ذریعہ بنتی ہے۔
اور یہ جاننے کے لیے کہ نظام کی بدعنوانی کتنی گہری ہے، صرف اتنا دیکھ لینا کافی ہے کہ حادثے کے بعد ریاست نے بنیادی اصلاحات اور ذمے داروں کے احتساب پر توجہ دینے کے بجائے علامتی معاوضوں کی تقسیم شروع کر دی۔ جیسے کہ وہ متاثرین کی خاموشی، ’انٹرنیٹ پیکجز‘ اور ’مفت جی بی‘ کے عوض خریدنا چاہتی ہو، اور وہ یہ بھول گئی کہ اصل مسئلہ اس سے کہیں زیادہ سنگین اور گہرا ہے!
رمسیس سنٹرل سے لے کر پلوں کے انہدام، ریل حادثوں، سڑکوں کی تباہی، کشتیوں کے غرق ہونے اور اسپتالوں میں لگنے والی آگ تک — حادثات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے، جیسے یہ سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہوں! ہر بار حقائق کو دبا دیا جاتا ہے، غلطیوں کو جواز فراہم کیا جاتا ہے، اور وہی چہرے ناکامی کی باگ ڈور تھامے واپس لوٹ آتے ہیں۔
ان پے در پے حادثات کے باوجود، کوئی بنیادی اصلاح نہ ہونا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ جس "ترقی پسند جدید شہری ریاست" کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، وہ حقیقت میں اخلاقیات سے عاری ایک کھوکھلا ڈھانچہ ہے، اور ایسا نظام ہے جو عوام کی دیکھ بھال کو لازم نہیں سمجھتا۔
امتِ مسلمہ کو آج یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مصر اور دیگر مسلم ممالک میں جو نظام رائج ہے، وہ ایک بدعنوان عالمی نظام کا حصہ ہے، ایک ایسا عالمی نظام جو چاہتا ہے کہ امت پستی، پسماندگی اور ذلت میں مبتلا رہے، اور اس پر ایسے کارندے مسلط ہوں جو عوام کی پروا نہ کرتے ہوں بلکہ صرف مغرب کے مفادات کے محافظ ہوں، خواہ اس کے لیے اپنی ہی قوم کو روندنا پڑے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ امت ان نظاموں کو مسترد کرے، اور اس ریاست کے قیام کے لیے سنجیدگی سے کام کرے جو دین کو نافذ کرے، عوامی امور کی دیکھ بھال کرے، کرپشن کا سدباب کرے، اور ہر سہولت کو خدمت بنائے نہ کہ تجارت، ایک امانت بنائے نہ کہ اختیار۔
یہ ریاست نبوت کے نقش قدم پر قائم دوسری خلافتِ راشدہ ہے، جو کسی اہم ادارے کو بغیر حفاظتی نظام یا نگرانی کے ہرگز نہ چھوڑے گی۔ دیکھ بھال کا تقاضا یہ ہے کہ عوامی سہولیات کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے، ان کی مسلسل نگرانی اور مرمت کی جائے، کیونکہ کیونکہ انہی میں لوگوں کی روزی، زندگی اور تحفظ پوشیدہ ہے۔
پس اے مسلمانو! اٹھو، اور اس ریاست کے قیام کے لیے ہمارے ساتھ کام کرو۔
﴿إِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ﴾
"بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں" (سورۃ الرعد: آیت 11)
ولایہ مصر میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن
Latest from
- اے وزیرِ خارجہ، جو غزہ پر روٹی بند کرے، وہ دیانت کی بات نہ کرے!...
- امریکہ ازبکستان کو اپنے بین الاقوامی جیوپولیٹیکل اہداف کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے
- پاکستان میں نئی سیکیورٹی فورس کا قیام
- الازہر کی خاموشی اور قتلِ عام کی صدائیں: ...
- اسلام آباد کانفرنس: حکمرانوں کی ایک اور خیانت اور غزہ کی مدد کے لئے ایک پکار!