بسم الله الرحمن الرحيم
لبنان کو واپس بلادِ شام کا حصہ قرار دینے سے متعلق توم بَرّاک کے بیانات!
(عربی سے ترجمہ)
تحریر: انجینئر مجدی علی
12 جولائی 2025ء کو، روزنامہ عرب نیوز کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں توم بَرّاك نے انکشاف کیا کہ امریکہ نے لبنان اور غاصب یہودی وجود کے درمیان خفیہ مذاکرات کی راہ ہموار کی ہے۔ اُس نے کہا: "امریکہ نے پردے کے پیچھے، لبنان (اور اسرائیل) کے مابین مذاکرات کو آسان بنایا ہے، اور معاملات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں!" اس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ شام میں نئی حکومت کا یہودیوں سے رابطہ قائم ہے، اور کہا:"میں نے دیکھا کہ شام بجلی کی سی تیزی سے اُس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے جو پابندیوں کے خاتمے سے پیدا ہوا ہے... اور اس نے اپنے پڑوسی ممالک سے سفارتی روابط استوار کرنا شروع کر دیے ہیں!"
بَرّاك نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر لبنان امریکی حل کی جانب نہیں بڑھتا تو وہ واپس بلادِ شام کا حصہ بن جائے گا: "ٹرمپ بہادر تھا کہ اُس نے شام کو ایک موقع دیا، اور مغرب کی مداخلت اور سائیکس پیکو کے بعد جو کچھ ہوا، وہ اچھا نہیں تھا" اور "اگر لبنان نے حرکت نہ کی تو وہ واپس بلادِ شام کا حصہ بن جائے گا!"
یہ سب کچھ اس امریکی جلد بازی کی عکاسی کرتا ہے جس کے ذریعے وہ لبنان اور شام کو کسی نہ کسی صورت اُس "ابراہام معاہدے" کی تشکیل میں شامل کرنا چاہتا ہے، جو ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت 2017ء تا 2021ء میں طے پائے۔ امریکہ اس معاہدے کے ذریعے یہودی وجود کو خطے میں ضم کرنے کی جلدی میں ہے، تاکہ اسے ایک قدرتی وجود کے طور پر پیش کیا جا سکے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ان حکمرانوں کی شکل میں نالائق اور غدار قیادت موجود ہے، جو اپنے اقتدار کے برسوں کو طول دینے، اور اُمت کی دولت کو مزید لوٹنے اور ہڑپ کرنے کی امیدیں باندھے بیٹھے ہیں، بالخصوص اس کے بعد کہ بحیرۂ روم کے ساحلوں پر گیس کے ذخائر ظاہر ہو چکے ہیں۔ اسی تناظر میں باراک نے کہا: "اگر لبنان نے جلد شمولیت اختیار نہ کی، تو سب اُسے پیچھے چھوڑ دیں گے۔"
لیکن امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ لبنان کی پیچیدہ ساخت اور صورتِ حال تیز رفتار پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ امریکہ لبنان کے معاملے میں ایک ایسی سائیکل پر سوار ہے جسے وہ چلا تو رہا ہے، لیکن اُس کے پہیے اور تاریں کیچڑ اور کیلوں سے بھرے ہوئے ہیں، یعنی مختلف و منتشر فرقے، اور ایسے سیاست دان جو ملک کو اپنے طریقے سے، ایک چراگاہ کے طور پر چلاتے ہیں جہاں سے وہ اور ان کے مصاحبین منافع سمیٹتے ہیں۔ بَرّاك نے اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کیا اور "ریاستی اداروں کی زبوں حالی، مرکزی بینک کی معطلی، بینکاری شعبے کی تنظیمِ نو کےقانون کا جمود کا شکار ہونے، اور پارلیمان کی مکمل مفلوجی پر افسوس کا اظہار کیا"
ٹرمپ کے دور میں امریکی سیاست کے بڑے کھلاڑی جائیداد کے سوداگر اور تاجر مزاج لوگ ہیں، جو اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرتے ہیں اور ان سب کا سربراہ ٹرمپ ہے، جس کا اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے بےباک تجارتی انداز پوری دنیا دیکھ چکی ہے۔ ٹوم بَراك بھی انہی میں سے ایک ہے، جو لبنانی نژاد ہے، خطے کی تاریخ سے واقف ہے، اور اُن باتوں کو خوب جانتا ہے جو یہاں اشتعال پیدا کرتی ہیں۔ چنانچہ اُس کے بیانات گویا ایک "ڈراوا" ہیں، جو وہ ہر سست روی برتنے والے کے منہ پر مارنا چاہتا ہے۔ گویا یا تو تم مفاہمت اور تعلقات کو معمول پہ لانے کے اس تیز رفتار قافلے کا ساتھ دو، یا ہم تمہیں ان لوگوں کے ساتھ باندھ دیں گے، یا ایسے لوگوں کے ساتھ ضم کر دیں گے جو یہ کر سکتے ہیں۔ یہ وہی تمہارے پڑوسی ہیں جو تم سے پہلے ہی یہودی وجود سے روابط قائم کر چکے ہیں، حالانکہ ان کے پاس تم جیسا کچھ بھی نہیں۔
گویا وہ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ رہا ہے: کہ اگر تم نے تعلقات کو معمول پر لانے کے اس قافلے میں سوار ہونے میں دیر کی، تو اس کا براہِ راست خطرہ یہ ہو گا کہ لبنان تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا، لبنان پر تمہاری خودمختاری ختم ہو جائے گی اور لبنان اپنی اصل—یعنی بلادِ شام—کی طرف لوٹ جائے گا، اور جب ایسا ہو جائے گا تو ہمارے ساتھ تم بھی اس نئی صورتحال میں کہیں جگہ نہیں پا سکو گے۔ لہٰذا کام تیز کرو!
اس کے یہ کلمات دراصل "تنبیہ" ہیں، نہ کہ "دھمکی"، بالخصوص جب اُس نے بعد میں اپنی باتوں کو ٹویٹس کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش بھی کی۔تاہم "بلادِ الشام" جیسے الفاظ کا استعمال خود دخوف اور دھمکی کے اظہار کی دلیل ہے۔ اُس نے اپنی ایک ٹویٹ میں امیر معاویہ بن ابی سفیانؓ کا قول بھی نقل کیا: "میں اپنی تلوار اُس وقت تک نہیں نکالتا جب تک میرا کوڑا کافی ہو، اور اپنا کوڑا نہیں اٹھاتا جب تک زبان کام دے، اور اگر میرے اور لوگوں کے درمیان ایک بال بھی ہو تو میں اسے کبھی نہ ٹوڑوں"
یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ حالات کو تیز رفتاری سے آگے بڑھانا چاہتا ہے، بلکہ خود لبنان کے مختلف گروہوں بھی دوبارہ "بلادِ شام" یا "خلافت" کی چھاؤں میں آ جانے کو منفی رنگ دے کر اب اس معاملے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو یہودی وجود سے معمول کے تعلقات قائم کرنے، سرِتسلیم خم کر دینے کو قبول کرنے اور مغرب کی غلامی میں حکمران بنے رہنے کو اُس "اصل" کی طرف واپسی سے بہتر سمجھتا ہے۔
اگر توم بَرّاك کے بیانات ملک کو دھکیل کر یہود کو تسلیم کرنے کی راہ پر لانے کی کوشش نہیں ہیں، تو یہ امریکی حکمتِ عملی اور اُس کی حکومتوں کی عمومی روش سے متصادم ہوگا—جو ہمیشہ امت کے مابین بچی کھچی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور اُس کی دولت کو لوٹنے میں مصروف رہتی ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب دنیا گیس اور اسٹریٹیجک معدنیات کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہے، اور امریکہ کا چین سے معاشی مقابلہ عروج پر ہے۔
درحقیقت، ان بیانات کے پسِ پشت جو رعونت اور دھمکی ہے، وہ اس بنیادی حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ اسلامی منصوبہ، جو امت کو یکجا کرنے کی کوشش کر رہا ہے—یعنی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ—وہ اب واشنگٹن کی پالیسی ساز حلقوں کو بے چین کرنے لگا ہے۔ یہی وہ منصوبہ ہے جو امریکہ کے مفادات اور اس کے اثرورسوخ کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خود یہودی وجود نے، نتن یاہو کی زبان سے، اپنی پریشانی کا اظہار کیا ہے کہ خلافت بحرِ روم کے ساحلوں پر قائم ہو سکتی ہے ل، اور بات کا اظہار بھی کیا ہے خلافت کہیں بھی قائم ہو جائے وہ اسے کسی بھی مقام پر ضرب لگانے کے لیے تیار ہیں۔
اس تمام تناظر کو سمیٹنے کے لیے حزب التحریر، ولایہ لبنان، نے اپنی 15 جولائی 2025ء کی اشاعت کے اختتام پر جو کچھ لکھا، وہی سب سے جامع اور برمحل کلمہ ہے، جو اس ساری صورت حال کی اصل ترجمانی کرتا ہے، کیونکہ لفظ "بلاد الشام" خطے کے لوگوں کے دلوں میں پہلے بھی امید اور آرزو کا منبع تھا اور آج بھی ہے وہ لکھتے ہیں: "اے مسلمانو! ہم تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ تم خود اپنے مستقبل کے معمار بنو، نہ کہ مغرب کے ہاتھوں، نہ سازشی کانفرنسوں کے ذریعے، نہ سفیروں اور ایلچیوں کے بیانات اور دھمکیوں کے تحت؛ تم وہ امت بنو جیسی اللہ نے تمہیں بنایا—نہ مشرقی، نہ مغربی، بلکہ ایک امت، جو قیادت کرے، نہ کہ تابع بنے، جو اسلام کے مطابق حکمرانی کرے، نہ کہ سائیکس پیکو کے نظاموں کے ذریعے۔ تمہارے ہی ہاتھوں سے لبنان اپنے اصل کی طرف لوٹے گا یعنی بلادِ شام کا حصہ، بلکہ بلادِ اسلام کا جزو بن کے!" اور "یہ بیانات ایک ضمنی اعتراف ہیں کہ اسلامی سیاسی منصوبہ یعنی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ، ہی امریکہ کے منصوبے کا واحد حقیقی حریف ہے، اور اصل خوف واشنگٹن اور یہودی وجود کو اسی خلافت کی واپسی سے ہے، جو امت کو یکجا کرے گی اور مغرب کی غلامی کا خاتمہ کرے گی!"
Latest from
- حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس میں شعبہ خواتین نے ایک بین الاقوامی مہم کا آغاز کیا:
- رمسیس سنٹرل کی آگ — شہری ریاست کے انہدام کی ایک اور تصویر
- اے وزیرِ خارجہ، جو غزہ پر روٹی بند کرے، وہ دیانت کی بات نہ کرے!...
- امریکہ ازبکستان کو اپنے بین الاقوامی جیوپولیٹیکل اہداف کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے
- پاکستان میں نئی سیکیورٹی فورس کا قیام