الثلاثاء، 22 جمادى الثانية 1446| 2024/12/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
بڑی ریاستوں  کے زیر اثر ممالک کے درمیان اختلافات کی حقیقت

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

بڑی ریاستوں  کے زیر اثر ممالک کے درمیان اختلافات کی حقیقت

سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ،

کیا بڑی ریاستوں کے ماتحت ممالک یا جو ان کے مدار میں گردش کرتے ہیں،ان ممالک کے درمیان رسہ کشی ہوتی ہے؟اگر یہ ممکن ہے تو پھر ہم اس کو کیسے بیان کریں جب یہ ایک ہی ریاست کی پیروی کرتے ہوں ؟  کیا اس کشمکش کا اس غالب ریاست کے مفادات پر اثر نہیں ہو گا جس کی یہ پیروی کرتے ہیں؟اور اگر ایسی کشمکش نہیں ہوتی  تو پھر ہم عراق اور ترکی یا ایران اور سعودیہ  یا ایران اور ترکی کے درمیان جو کچھ ہو رہا ہے  اس کی کیا توجیہ کریں گے؟ شکریہ۔

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ،

اس موضوع پر اہم نکتے مندرجہ ذیل ہیں:

1 ۔ اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ  زیر اثر ممالک  کچھ ایسے اقدامات کریں  جن کا مقصد بڑی ریاست کو نقصان پہنچا نا ہو۔زیر اثر ہونے کا یہ معنی ہے کہ وہ ان خطوط پر گامزن ہوتی ہیں جو بڑی ریاست  ان کے لیے کھینچتی ہے یا وہ پالیسی جس کونافذ کرتی ہے اس سے ذرا بھی انحراف نہیں کر تے۔ اس کے خارجہ امور  بڑی ریاست کے   ارادے کے مطابق ہوتے ہیں اور بڑی ریاست سے مشاورت کے بغیر کسی قسم کا عمل اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا اوروہ اسی کے حکم پر چلتی ہیں جیسا کہ اردن اور برطانیہ کا معاملہ ہے۔اس کے حکمران  اسی کے احکام کو نافذ کرتے ہیں اور خارجہ پالیسی میں  بڑی ریاست کو آگاہ کرنے سے پہلے کوئی قدم نہیں اٹھاتے،  سوائے اس کے کہ پالیسی پہلے سے معلوم ہو اور اس پر عملدرآمد ہو رہا ہو یا اس کے ضمن میں کوئی  اقدام ہو، مثال کے طور پر اردن قطر سے رابطہ کرے جو کہ برطانیہ کا تابع ہے  اور کوئی قدم اٹھائے جو برطانیہ کے مفاد میں ہو۔

2 ۔ جہاں تک سٹلائٹ اسٹیٹ (بڑی ریاست کی مدار میں چلنے والی ریاست) کی بات ہے اس کا بڑی ریاست سے تعلق مفاد کا ہو تا ہے پیروی کا نہیں۔  اس لیے وہ خارجہ پالیسی کی بعض جزئیات میں  اس کے مدار سے نکل سکتا ہے  کیونکہ  وہ بڑی ریاست کے مدار میں گردش کرتی ہوئی  اپنے مفاد کو ڈھونڈ رہی ہو تی ہے۔ مدار میں گردش کرنے والے ملک کا خروج کس حد تک ہوسکتا ہے اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ بڑی ریاست اس ملک کے حکمرانوں کو اقتدار تک پہنچانے میں کس حد تک اثر انداز ہوسکتی ہے جیسا کہ 30 جولائی2013 کے سوال و جواب میں ہے: "بڑی ریاست کے مدار میں گردش کرنے والے ملک پر اثرانداز ہونے کے عوامل کو دیکھنا ضروری ہے  کہ مدار میں گردش کرنے والے ملک میں حکمران طبقہ کو  اقتدار تک پہنچانے میں اس کا اثر اور دباو کس قدر ہے، اگر بڑی ریاست کا اثر زیادہ ہو  تو گردش کرنے والے ملک کے لیے  کسی بھی جزو سے الگ ہونا انتہائی مشکل ہو گا،   بڑی ریاست کا اثر جتنا کم ہوگا گردش کرنے والے ملک کے لیے بڑی ریاست کی خارجہ پالیسی کے کسی جزو یا اس سے زیادہ سے الگ ہو نا ممکن ہو گا"۔مثلاً:  کنیڈا جس طرح برطانیہ کے مدار میں گردش کر تا ہے اسی طرح امریکہ کے مدار میں بھی اپنے مفاد کے مطابق  گردش کر تا ہے، مگر کنیڈا نے29 ستمبر2015 کو اعلان کیا کہ  ایران دہشت گردی کی پرورش کرنے والا ملک ہے اور اس کے سفارت خانے کو بھی بند کر دیا،بلکہ  کہا کہ " ایران  آج عالمی امن و سلامتی  کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے"جیسا کہ اس کے وزیر خارجہ جون بیرڈ نے کہا۔ یہ  اس ایٹمی معاہدے کے بعد تھا جس کو امریکہ نے تیار کیا تھا اور جس کا مقصد ایران کو خطے میں امن کے حصول کے نام پر کھلم کھلا اپنا شریک کار بنانا تھا۔ امریکہ کے مدار میں گردش کرنے والے کنیڈا کا یہ قدم  جزوی طور پرامریکہ مخالف تھا، اس کی پالیسی کی  حمایت نہیں تھی۔ امریکہ کا مفاد یہ تھا کہ کنیڈا ایران کو امن کی کوشش کرنے والے ملک کے طور پر قبول کرے نہ کہ   اس کے ساتھ تعلقات کومنقطع کر کے اس کو دہشت گرد ریاست قرار دے جو امن کے لیے خطرہ ہے۔  یوں مدار میں گردش کرنے والے ملک کے لیے جزوی طور پر بڑی ریاست  کی مخالفت ممکن ہے بشرطیکہ گردش کرنے والے ملک کے حکمرانوں کو اقتدار تک پہنچانے میں بڑی ریاست کا بڑا عمل دخل نہ ہو۔

   جہاں تک ترکی کا تعلق ہے30 جولائی2013 کے سوال جواب میں یہ کہا گیا ہےکہ:" حکمران طبقے کو اقتدار تک پہنچانے میں امریکہ کا  عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ اردوگان کو اس بات کا احساس ہے کہ  وہ امریکہ کی مدد سے اقتدار تک پہنچا اور داخلی استحکام حاصل کر سکا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا انجام امریکہ سے مربوط ہے  جس کا ترکی  پربڑا اثرو رسوخ ہے۔ حکومت،حکمران،عدلیہ،معیشت،فوج اور سیکورٹی اداروں پر امریکہ کا کنٹرول ہے۔۔۔اس لیے ترکی میں حکومت پر امریکہ کا اثر گہرا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ ترکی کے لیے  امریکی خارجہ پالیسی کے کسی بھی جزو سے  نکلنا بڑا مشکل ہے"۔ سوال کے جواب کا اختتام یہ کہہ کر ہوا تھا کہ " یعنی ترکی اس وقت امریکی مدار میں گھومتا ہے، ترکی کے معاملات پر امریکی اثر مضبوط ہے،  اگر  ترکی کا امریکہ کے ساتھ ربط اسی طرح مضبوط رہا تو  ترکی  امریکہ کے مکمل زیر اثر آئے گا اور مدار میں اس کی گردش بھی سوالیہ نشان بن جائے گی!" اس لیے ترکی کنیڈا کے سطح پر نہیں، اس پر امریکہ کا اثر اس قدر زیادہ ہے کہ  ترکی کسی جزوی معاملے میں بھی امریکہ سے الگ نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے ربط کو مضبوط کر رہا ہے  اور چھوٹی بڑی چیز میں  اس کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے، چنانچہ جب  ترکی نے اپنے معاون وزیر خارجہ فریدون سنیرلی اوغلو کے زبانی11 اگست2015 کو امریکی ٹی وی سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا:" دونوں ممالک(ترکی اور امریکہ) نے نو وار زون (غیر جنگی علاقہ)  بنانے پر اتفاق کیا ہے   جس کی لمبائی 100 کلو میٹر اور چوڑائی تقریبا 50 کلومیٹر ہوگی"۔ ترک وزارت خارجہ نے اپنے اس بیان میں یہ بھی کہا کہ " اس علاقے پر شامی اپوزیشن  کا کنٹرول ہو گا اور امریکہ اور ترکی مل کر اس کو فضائی  دفاع فراہم کریں گے"۔  امریکہ نے اس کو مسترد کر دیا اور  اپنے دفترخارجہ کے ترجمان  مارک ٹونر کی زبانی 12 اگست2015 کو کہا:"  نووار زون علاقے پر کوئی اتفاق نہیں ہوا۔۔۔اس کو ترکی کے بیان کا علم نہیں  ایسا کچھ بھی نہیں"۔ اور کہا :" ہم نے اسی اسٹیج پر اور کئی دوسرے مواقعوں پر واضح کیا ہے کہ  کوئی نووار زون نہیں۔۔۔" ۔  یوں ترکی اس جزوی معاملے میں بھی  امریکہ سے الگ نہیں ہو سکا،  جب نو وار زون قائم کرنا چاہا تو یہ کہا کہ  امریکہ کے ساتھ اتفاق ہو چکا ہے، یعنی  وہ امریکہ کی جانب سے حامی بھرے بغیر خارجہ پالیسی میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا ہے  جس کام کے لیے امریکہ حامی نہ بھرے وہ کام نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر معتدل  اپوزیشن کو تربیت دینے کا  کام  جو امریکہ نے ایک سال پہلے شروع کیا تھا  ترکی نے بغیر کسی اعتراض کے اس کی حمایت کی۔  اسی طرح ترکی میں امریکی اڈہ بنانے کا معاملہ جو کہ صرف امریکہ کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے29 جولائی2015 کو شام  پر فضائی حملوں کے لیے انجر لیک کا ہوائی اڈہ امریکی فضائیہ کے حوالے کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دیے۔ ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں۔ اسی لیے یہ تصور کرنا بھی ممکن نہیں کہ ترکی اردوگان کے دور میں  جزوی طور پر بھی امریکہ کی مخالفت کرے گا، وہ امریکی خارجہ پالیسی  پر ایسے عمل پیرا ہے گویا کہ وہ اس کے ماتحت ہے۔ اردوگان کے اقتدار  میں آنے کے بعد گزشتہ 13 سالوں میں  اس نے امریکہ کی کوئی مخالفت نہیں کی۔ حال ہی میں اردوگان نے سعودیہ کا دورہ کیا جس کا بادشاہ سلمان امریکہ کا ماتحت ہے اور دونوں ملکوں نے 30 دسمبر2015 کو  دوطرفہ تعلقات کی توثیق کے لیے تزویراتی کمیٹی کی بنیاد رکھنے کا اعلان کر دیا۔  ترکی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے سعودیہ کی جانب سے قائم کیے جانے والے اتحاد کی حمایت کی  جیسا کہ سعودی ولی عہد دوئم محمد بن شاہ سلمان نے اعلان کیا ہے۔

3 ۔ رہی بات ایران کی  تو وہ امریکی مدار میں ہی گردش کر تا ہے اور جزوی طور پر بھی اس سے باہر نہیں۔ یہ مکمل زیر اثر ملک بننے کے قریب  ہے خاص کر موجودہ صدر حسن روحانی   کے دور میں اور وزارت خارجہ میں ان کے گروپ  سربراہ کو تو امریکہ کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے۔شام کے موضوع پر ترکی کے ساتھ سودے بازی کر لی ہے چنانچہ  ترک وزارت خارجہ  کے ترجمان  لیفنت جمرکجیی نے28 نومبر2013 کو  دونوں ملکوں کے درمیان" دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے بارے میں مکمل ہم آہنگی کی موجود گی" کا  اعتراف کیا اور " شام کے حوالے سے مثبت بات چیت " کا بھی اقرار کیا اور یہ بھی کہا کہ " شام میں خون ریزی روکنے اور بحران کو حل کرنے کے بارے میں دونوں ملکوں کے درمیان مکمل تعاون موجود ہے"۔ اردوگان نے 7 اپریل2015 کو دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ایران کا دورہ کیا،  یعنی دونوں کے درمیان فکری اختلاف  کی موجود گی خارجہ سیاست میں سودا بازی  اور امریکی خطوط پر چلنے کی راہ میں روکاوٹ نہیں بنتی ۔ ایٹمی مذاکرات کے موضوع پر  ترکی نے ایران کی حمایت کی۔۔۔

4 ۔ ایک ہی بڑی ریاست کے زیر اثر ملکوں یا اس کے مدار میں گردش کرنے والے ملکوں کے درمیان  حقیقی چپقلش کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ درحقیقت بڑی ریاست ہی ان کی خارجہ پالیسی کو عمومی مرتب کرتی ہے، عام طور پر اسی پالیسی  کے دائرے میں ہی  چپقلش  ہوتی ہے۔۔۔ یہ تو چپقلش کے لحاط سے ہے۔ جہاں تک کسی چپقلش کے بغیر  اختلاف کا تعلق ہے  تویہ مدار میں گردش کرنے والے ممالک میں زیادہ واضح ہو تا ہے  اوراس کا امکان تین حالتوں میں ہو تا ہے:

پہلی حالت: بڑی ریاست کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے کردار کی تقسیم  کے ضمن میں۔

دوسری حالت: اس وقت جب اختلاف اندرونی ہو، کوئی خارجی محرک ایسا نہ ہو جو بڑی ریاست کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتا ہو  جس پر وہ ممالک مدار میں گردش کرتے ہیں۔

تیسری حالت: دونوں میں سے ایک ایجنٹ  کی پشت پنا ہی کے ذریعے ماحول کو گرمانا مقصود ہو"اگر ماحول ٹھنڈا" ہے،  پھر  پشت پناہی کا مقصد پورا ہونے پر ماحول کو ٹھنڈا کر نے کی طرف لوٹنا مقصود ہو۔

پہلی حالت کی مثال:

    ترکی اور ایران دونوں عراقی کردستان میں  امریکی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مختلف کردار نبھاتے ہیں جس میں بظاہر تضاد ہے  مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔  دونوں کا کر دار  امریکی مفاد کو پورا کرنے کے لیے ہے:

۔ ایران اس علاقے میں  امریکی ایجنٹوں کی حمایت کر تا ہے،  جہاں مسعود البرزانی برطانوی ایجنٹ ہے ، اس لیے ایران یہاں اس کے مخالفین کی حمایت کر تا ہے ۔  جن میں غوران تحریک ہے جو کہ کردستان صوبے میں ایک سیکولر سیاسی تحریک ہے جس کی بنیاد 2009 میں نوشیرواں مصطفی نا می کرد سیاست دان نے رکھی ہے جس نے  امریکی وفادار کردستان قومی اتحاد سے استعفی دیا تھا کیونکہ یہ پارٹی کردستان میں اس وقت سے کمزور ہوئی تھی  جب اس کے بانی اور سربراہ جلال طلبانی  عراق کے صدر بن گئے۔یہ پارٹی  البرزانی کی پارٹی کی طرح  کرپشن میں ملوث ہوئی،  اس وجہ سے امریکہ کو  نئی شکل کے ساتھ نئی پارٹی بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس لیے غوران کی تحریک منظر عام پر آگئی  اور اس نے کرپشن کے خلاف  آواز بلند کی  اور برزانی کے خلاف اپوزیشن میں متحرک ہوئی اس کو گرانے یا کمزور کرنے کا مطالبہ کیا ۔ چنانچہ  عوامی انتخابات کی بجائے  صوبائی اسمبلی کے ذریعے صوبے کے لیے صدارتی انتخابات کا مطالبہ کیا، صدر سے اختیارات چھین کر  پارلیمنٹ کو دینے کا مطالبہ کیا۔ صوبے میں ہونے والے 2013 کے انتخابات میں حصہ لیا  اور 111 میں سے  24 نشستیں حاصل کی، یوں یہ برزانی کی پارٹی  جس نے 38 نشستیں لیں تھی کے بعد دوسری بڑی پارٹی بن گئی ۔ طلبانی کی پارٹی 18 نشستیں لے کر تیسرے نمبر پر چلی گئی۔

۔ جہاں تک ترکی کا تعلق ہے  وہ برزانی  کواپنے زیر اثر رکھنے اور اس کو امریکی مفادات کے لیے رام کرنے کا کام کرتا ہے،  اس لیے وہ صوبے میں کئی معاشی منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ ساتھ ہی  اس پر دباو  جاری رکھتا ہے  کہ وہ انگریز کے ایجنٹوں کے ساتھ تعلقات منقطع کریں جو کردستان لیبر پارٹی  کی شکل میں  شمالی عراق کے قندیل  پہاڑیوں میں ڈیرہ ڈال کر ترکی کے خلاف مسلح کاروائی کر رہے ہیں۔ترک ہوائی جہاز  ان علاقوں میں ان کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ برزانی  اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کر پاتا کیونکہ وہ ترکی کا محتاج ہو چکا ہے اور ترکی بھی ریاست کے صدر کے طور پر اس کا استقبال کرتی ہے  اور ترکی نے اس کے علاقے میں قونصل خانہ کھولا ہوا ہے اور اس سے تیل خرید رہا ہے۔

یوں یہ دونوں  بظا ہر متصادم نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں امریکی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

دوسری حالت کی مثال:

۔  نمر کو پھانسی دینے پر سعودیہ اور ایران کے درمیان پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی۔ نمر کو سزائے موت ایک سال سے زیادہ عرصہ پہلے16 اکتوبر2014 میں  سابق شاہ عبد اللہ کے عہد میں سنائی گئی تھی جو برطانوی ایجنٹ تھے،اور سزائے موت پر عملدر آمد کرنے سے پہلے وہ مرگیا ۔۔۔ یہ شیخ  قطیف اور احساء کو الگ کر کے بحرین کے ساتھ ملا کر  ایک  ہی مستقل  صوبہ تشکیل دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ایران  یہ دعوی کرتا ہے کہ بحرین  اس کا حصہ اور چودھواں صوبہ ہے۔  اس لیے اس کو سزائے موت نہ دینا  موجودہ امریکی ایجنٹ شاہ سلمان کے لیے  سردردی کا باعث ہو سکتا تھا۔ اس وجہ سے اس کے ساتھ 46 دوسرے افراد کو پھانسی دی جن میں 43 کے بارے میں حکومت نے کہا کہ تکفیری،خوارج اور دہشت گرد گروپوں سے تعلق  رکھنے والے تھے۔

یہ تو سعودیہ کے حوالے سے تھا، جہاں تک ایران کا تعلق ہے  اس کی مذہبی اور فرقہ وارانہ  حقیقت اس کو اس سزاپر احتجاج کرنے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ  اس کی داخلی صورتحال مسلکیت اور فرقہ واریت سے بھر پور ہے۔۔۔

   مگر یہ کشیدگی  دونوں کو امریکی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے نہیں روکے گی۔امریکہ نے اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے  ڈوریاں ہلانا شروع کی ہے چنانچہ امریکہ وزیر خارجہ جان کیری نے کہا: "ہم سمجھتے ہیں کہ  سفارتی  گفت وشنید اور براہ راست بات چیت  اختلافات کو ختم کرنے  کے بنیادی ذرائع ہیں اور  ہم عنقریب  خطے کی قیادت کو کشید گی میں کمی کے اقدامات کرنے  کی ترغیب دیں گے "( القدس 4 جنوری2016 )۔  اس کے بعد جان کیر ی نے اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریفی  سے رابطہ کر کے  صورت حال کا جائزہ لیا،اور یہ بیان دیا کہ:"ہم کشید گی کو کم کر کے ان کے درمیان  بات چیت شروع کرنا چاہتے ہیں تا کہ ان کے درمیان پرامن سفارتی حل تک پہنچ سکیں" ( سی این این4 جنوری2016 )۔۔۔اس کے بعد سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے 4 جنوری2016 کو کہا"  تہران کو حقیقی ریاست کی طرح اقدامات کرنے چاہیے تاکہ منقطع سفارتی تعلقات کو بحال کیا جا سکے"۔ اقوام متحدہ میں سعودی مندوب عبد اللہ المعلمی نے کہا:" ایران کے ساتھ بحران کا شام اور یمن میں امن کو ششوں پر اثر نہیں ہو گا ۔  ہم اقوام متحدہ کی نگرانی میں 25 جنوری کو جنیوا میں شام کے بارے میں ہونے والے   پہلے سے طے شدہ مذاکرات میں شریک ہو ں گے "۔۔۔ شام کے لیے بین الاقوامی نمائندہ ڈی میسٹورا نے سعودیہ کے دورے اور وزیر خارجہ جبیر سے ملاقات کے بعد کہا:"سعودیہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایران کے ساتھ کشیدگی اسی مہینے شامی مسئلے کے سیاسی حل کے حوالے سے جنیوا میں مقررہ  مذاکرات پر اثر انداز نہیں ہو گی"( الجزیرہ 5 جنوری2016 ) ۔یعنی  دونوں ملکوں کے درمیان یہ کشید گی  داخلی موضوع ہے  یہ شام کی تحریک کو ختم کرنے ، اس کے اسلامی منصوبے کونا کام بنانے  اور شام کی مجرم سیکولر حکومت کو بچانے کےامریکی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے  پر اثر انداز نہیں ہو گی۔۔۔

یو ں داخلی محرکات  کبھی وقتی طور پر  اختلاف کو نمایا ں  کرتے ہیں  مگر یہ ان محرکات  کے زائل ہونے یا کم ہونے تک ہوتا ہے،  مگر یہ اختلاف  قابو میں ہوتا ہے اور امریکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچاتے۔

تیسر ی حالت کی مثال:

۔ ترک فورسز کی موجودگی پر عبادی کے اعتراض کا موضوع۔ یہ اپنے اور اپنی حکومت کے موقف  کو سہارا دینے کے لیے ہے جو کہ  زوال پذیر ہے اور اپنا اعتماد کھو چکا ہے۔  اس لیے امریکہ نے اپنے ایجنٹ  عبادی اور اس کی حکومت  کے صورت کو بہتر بنانے کے لیے سرخی پوڈر لگانے کے لیے اس موضوع کو چھیڑا  جس کا مقصد یہ ظاہر کرکے کہ یہ ملک کا محافظ ہے اس کو اخلاقی سہارا دینا ہے!۔ ترکی نے اس کو جواب دیا کہ یہ فورسز  ایک سال قبل اسی کے مطالبے پر  اس کی فورسز کو تربیت دینے کے لیے وہاں گئی تھیں۔ اس کے باوجود تر کی نے  اس کے جواب میں  اپنی فورسز کو جزوی طور پر واپس بلالیا۔  اس کے بعد عرب لیگ نے ایک بیان جاری کر کے عبادی کی حمایت کی اور ترکی سے فوج واپس بلانے کا مطالبہ کیا۔  یہ سب جانتے ہیں کہ اس لیگ کو امریکہ چلا تا ہے۔ اس لیے یہ معاملہ بغیر کسی کشمکش کے ختم ہوا!

     یاد رہے کہ امریکہ عبادی کی صرف  اخلاقی حمایت نہیں کر تا بلکہ بات اس سے بہت آگے ہے۔ وہ ان حالات میں یہ نہیں چاہتا کہ عبادی کی حکومت  گر جائے،  خاص کر عبادی  رمادی کو آزاد کرانے کا دعوی کرنے کے بعد اس میں ناکامی پر ہل چکا ہے اور اس کو امریکی مدد کے گھونٹ کی ضرورت ہے۔ اس لیےاس نے رمادی پر پے درپے 630  فضائی حملے کروائے  جیسا کہ30 دسمبر2015 کو وائٹ ہاوس نے ایک بیان میں کہا  اور اس کے بعد عراقی فوج کی جانب سے  رمادی میں حکومتی کمپلکس پر قبضے کا اعلان کیا گیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ بعید از امکان ہے کہ دو زیر اثر ممالک یا  ایک ہی بڑی ریاست کے مدار میں گردش کرنے والے ممالک کے درمیان  حقیقی چپقلش  ہو،  ہاں کرداروں کی تقسیم کے لحاظ سے یا داخلی  عوامل کی وجہ سے  یا کسی ایک ایجنٹ کی حمایت کی وجہ سے  محدود اختلاف رونما ہو سکتا ہے، لیکن تمام حالات میں  اس سے بڑی ریاست کے مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے۔

 2 ربیع الثانی 1437 ہجری

بمطابق 12 جنوری2016 

Last modified onہفتہ, 15 اکتوبر 2016 20:11

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک