الإثنين، 21 جمادى الثانية 1446| 2024/12/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم


سوال کا جواب

کیا تدرج کے قائل لوگوں کے پاس کوئی دلیل یا شبہ دلیل ہے؟

ہشام باسبوس کو

سوال:

 السلام علیکم

   آپ کی عظیم جدوجہد میں اللہ برکت دے اور ہم آپ سے مندرجہ ذیل  سوال کے جواب کی امید کرتے ہیں:

کیا تدرج کے قائل لوگوں کے پاس کوئی دلیل یا شبہ دلیل ہے۔  تدرج کے قائل لوگ کہتے ہیں کہ: یہ اختلافی مسئلہ ہے اس لیے ایک دوسرے کو غلط قرار دینا درست نہیں، لہٰذا  ہم تمہیں برا نہ کہیں اور تم ہمیں برا مت کہو۔ یہ لوگ بعض دلائل سے استدلال کرتے ہیں جیسا کہ : شراب کے بارے میں عائشہ رضی اللہ عنھا کا قول، عمر بن عبد العزیز کا قول اپنے بیٹے سے، عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں قحط پر چوری کی حد معطل کرنا، عمر بن عبد العزیز کا قصہ اپنے بیٹے کے ساتھ، اسی طرح  عبد المالک بن عمر بن عبد العزیز کا اپنے بیٹے کے ساتھ قصہ۔۔روایت ہے کہ آپ کے بیٹے عبد المالک نے آپ سے کہا: اے ابو جان آپ امور کو نافذ کیوں نہیں کرتے؟ اللہ کی قسم  حق میں اگر مجھے اور آپ کو دیگ میں بھی پکایا جائے تومجھے کوئی پرواہ نہیں! عمر بن عبد العزیز نے ان سے کہا کہ:" بیٹے جلد بازی مت کرو اللہ نے شراب کی قرآن میں دوبار مذمت کی پھر تیسری بار اس کو حرام قرار دیا، میں لوگوں پر حق کا اتنا بوجھ ڈالتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ وہ اس کو ادا کرتے ہوئے کسی فتنے کا شکا نہ ہو"(العقد الفرید 30/1،الموافقت94/2)۔ اسی طرح سنت سے دوسری دلیل یہ دیتے ہیں:وہب سے روایت کہ کہہ وہ کہتے ہیں میں نے جابر بن عبد اللہ سے ثقیف کے حوالے سے سوال کیا کہ جب انہوں  نے بیعت دی تواس نے  کہا: ا نہوں نے نبی ﷺ کے سامنے یہ شرط رکھی کہ ان پر کوئی زکوۃ نہیں ہو گی نہ ہی کوئی جہاد  اور انہوں نے نبی ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ : جب اسلام قبول کریں گے تو زکوۃ دیں گے اور جہاد کریں گے( صحیح حدیث) ۔

 

یوں سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ:" کیا تدرج کا مسئلہ قطعی ہے"یعنی قطعی حرام ہے" یا یہ اجتہادی اور اختلافی مسئلہ ہے؟؟ اللہ  برکت دے طوالت پر معذرت خواہ ہو۔ختم شد۔

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

شاید آپ کے علم میں نہیں کہ ہم نے پہلے اسلام کے نفاذ میں تدرج کا تفصیلی جواب11 فروری2006 کو دیا ہے جو کہ فیس بک کے پیج بنانے سے پہلے تھا۔۔۔بہر حال آپ کے سوال میں کچھ نئے مسائل ہیں جن کا احاطہ سابقہ جواب میں نہیں کیا گیا تھا  اوراس جواب میں ہم ان پر سیر حاصل بحث کریں گے ،اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے:

 

اول:اسلامی احکام کے نفاذ میں تدرج کی بات کرنا بڑی خطرناک بات ہے۔ تدرج کے قائلین جس معنی کا پرچار کرتے ہیں  وہ یہ کہ اسلامی احکامات کو یکمشت نافذ نہیں کیا جاسکتا اس لیے تھوڑا تھوڑا کر کے نافذ کرنا ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں بعض مسائل میں کفر کو نافذ کیے رکھنا اور بعض مسائل میں اسلام نافذ کرنا۔۔۔! ظاہری بات ہے کہ اس میں عظیم گناہ اور بڑا فساد ہے۔۔۔

 

دوم:تدرج کے قائلین جن دلائل سے استدلال کرتے ہیں ان میں سے بیشتر کا تدرج کے موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ انہوں نے شرعی دلائل کی تدریس سے یہ استنباط نہیں کیا ہے کہ تدرج جائز ہے بلکہ ان کے استدلال کی کیفیت سے ہی یہ واضح ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ تدرج ضروری ہے پھر اس کے جواز کے لیے دلائل ڈھونڈنے لگے اور بغیر تحقیق کے ان کو جمع کرکے اس مسئلے کی حقیقت پر چسپاں کردیا جس پر استدلال کر رہے ہیں۔۔۔یہ استنباط کی اس صحیح کیفیت کے ہی خلاف ہے جو کہ یہ ہے:

1۔ کسی مسئلے کے حکم شرعی کے استنباط کے وقت اس کی حقیقت کی اچھی طرح تدریس کی جائے گی پھر  اس حقیقت سے متعلق دلائل کو جمع کیا جائے گا اور ان دلائل کی اصولی تدریس کی جائے گی تا کہ حکمِ شرعی کا استنباط کیا جاسکے۔

2۔پہلے تمام دلائل جمع کرنے(کسی کو مسترد کیے بغیر) کی بھر پور کوشش کی جائے گی کیونکہ تمام دلائل پر عمل کرنا کسی ایک کو ترک کرنے سے بہتر ہے۔

3۔اگر جمع کرنا ممکن نہ ہو تو  اپنے اس اصول کے مطابق ترجیح کی طرف رجوع کیا جائے گا جس پر کاربند ہو: چنانچہ  محکم کومتشابہ پر ترجیح دی جائے گی اور قطعی کو ظنی پر ترجیح دی جائے گی۔ اگر  دونوں ظنی ہوں تو  سند اور عموم کے لحاظ سے دلیل کی قوت کی تحقیق کی جائے گی۔۔۔ چنانچہ قوی سند والی کو کم سند کے لحاظ سے کم قوی پر ترجیح دی جائے گی، خاص کو عام پر ترجیح دی جائے گی، مقید کو مطلق پر ترجیح دی جائے گی،  منطوق کو مفہوم پر ترجیح دی جائے گی۔۔۔الخ جس کی تفصیل اپنی جگہ پر موجود ہے۔

 

سوم:شرعیہ دلائل کی تحقیق سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کے نفاذ میں تدرج  یعنی کچھ کو نافذ کرنا اور کچھ کو موخر کرنا جائز نہیں۔۔۔اس کی دلائل قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہیں جن میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں:

1۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :( وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّهُ إِلَيْكَ)"اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے ذریعےحکومت کیجئے اور ان کی خواہشات کی پیروی مت کیجئے اور ان سے ہوشیار رہیے کہ یہ اللہ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں تمہیں فتنے میں نہ ڈالیں"(المائدہ:49)۔ یہ اللہ کی جانب سے اپنے رسول ﷺ اورآپ ﷺ کے بعد  مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے  امر جازم ہے  کہ اللہ کے نازل کر دہ تمام احکامات کے ذریعے حکومت کرنا فرض ہے، چاہے وہ امر ہو یا نہی کیونکہ لفظ(ما) جو آیت میں ہے وہ عموم کے صیغوں میں سے ہے، اس لیے تمام نازل شدہ احکام اس میں شامل ہیں۔ اللہ نے اپنے رسول ﷺ اور آپ ﷺ کے بعد مسلمانوں کے حکمرانوں کو لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرنے اور ان کی رغبتوں کے سامنے جھکنے سے منع کیا، اور اسی لیے فرمایا"ان کی خواہشات کی پیروی مت کیجئے"۔۔۔اسی طرح اللہ نے اپنے رسول ﷺ اور آپ ﷺ کے بعد مسلمانوں کے حکمرانوں کو تنبیہ کی کہ کہیں لوگ انہیں آزمائش میں مبتلا نہ کریں،  اللہ کے نازل کردہ بعض احکامات کے نفاذ سے آپ کی توجہ ہٹا نہ دیں، بلکہ اللہ کے نازل کردہ تمام احکامات کو نافذ کرنا فرض ہے، چاہے وہ اوا مر ہوں یا نواہی،  لوگوں کی چاہت کی پرواہ نہ کریں۔ اس لیے فرمایا کہ " خبردار  رہیں کہ کہیں یہ اللہ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں آپ کو فتنے میں مبتلا نہ کریں"۔

2۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : (وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ) "اور جس نے اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکومت نہیں کی وہی لوگ کافرہیں"(المائدہ:44) دوسری آیت میں فرمایا:" وہی لوگ ظالم ہیں"، اور تیسری آیت میں فرمایا کہ : " وہی لوگ فاسق ہیں"۔  اب تین آیات میں اللہ تعالیٰ نے اللہ کے تمام نازل کردہ چاہے وہ اوامر ہوں یا نواہی کے ذریعے حکومت نہ کرنے والوں کو کافر قرار دیا اگر وہ اس کے منکر ہوں، اگر منکر نہ ہوں مگر اس کے ذریعے حکومت بھی نہ کرتے ہوں تو ان کو فاسق قرار دیا۔۔۔یہ اس وجہ سے کہ لفظ"ما" جو تینوں آیتوں میں ہے عموم کے صیغوں میں سے ہے،  اس لیےوہ تمام احکام شرعیہ  اس میں شامل ہیں جن کو اللہ نے نازل کیا ہے، چاہے وہ اوامر ہیں یا نواہی۔

3۔ مفتوحہ علاقوں میں خلفائے راشدین  اسلام کے نفاذ میں اسی پر کاربند تھے جو کہ کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی جانب سے اسلامی احکام  کے نفاذ کو سب سے بہترطریقے سے سمجھنے والے لوگ تھے۔ اللہ ان سے راضی ہو انہوں نے یکمشت اسلام کو نافذ کیا جس میں کوئی تاخیر،  آہستگی یا تدرج کا مظاہرہ نہیں کیا۔ چنانچہ اسلام میں داخل ہونے والے کسی شخص کو شراب پینے یا زنا کرنے کی اجازت یا کچھ وقت کے لیے مہلت نہیں دیتے تھے۔۔۔بلکہ احکام کو مکمل طور پر نافذ کرتے تھے۔ مفتوحہ علاقوں میں اسلام کے نفاذ کے حوالے سے یہ متواتر اور معلوم ہے۔

 

چہارم: اس لیے کوئی ظنی دلیل اس حکم کو متاثر نہیں کرے گی،لہٰذا  تدرج کی حرمت اور اسلامی احکام کے نفاذ کی فرضیت قطعی دلائل سے ثابت ہے۔اس کا یہ مطلب ہے کہ ایسی کوئی بھی ظنی دلیل جس میں قطعی دلیل کے برعکس کوئی شبہ ہو تو اس کے لیے فیصلہ کن قطعی دلیل ہے یعنی ظنی دلیل کو اس طریقے سے سمجھا جائے گا کہ قطعی سے متصادم نہ ہو، دوسرے معنی میں اگر ممکن ہو تو دونوں ظنی دلیل پر ایسا عمل کیا جائے گا جو قطعی سے متعارض نہ ہو، ورنہ ظنی کو ترک کرکے قطعی کو اخذ کرنے کو ترجیح دی جائے گی۔

پنجم:اب اس طرف آتے ہیں کہ کیا دونوں دلیلوں پر عمل ممکن ہے، یعنی اسلامی احکام کے نفاذ کے حوالے سے تدرج کے مسئلے میں کیا ظنی کو اس طریقے سے سمجھنا ممکن ہے  جو قطعی سے متصادم نہ ہو؟

ہم سوال میں آنے والی دلائل  کی چھان بین کرتے ہیں:

1۔ شراب کے بارے میں عائشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث:

بخاری نے اپنے صحیح میں یوسف بن ماھک سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ: میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس تھا کہ ایک عراقی شخص آگیا اور کہا: کونسا کفن بہتر ہے؟فرمایا: تیرا ستیاناس تجھے کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا: اے ام المومنین اپنا مصحف(قرآن) مجھے دکھائیں گی؟فرمایا: کیوں؟ اس نے کہا: تاکہ میں قرآن کو اس کے مطابق مرتب کروں کیونکہ اس کو بغیر ترتیب کے پڑھا جاتا ہے، فرمایا: تمہیں کیا تکلیف ہے کہ کیا پہلے پڑھا جاتا ہے اور کیا بعد میں؟ قرآن میں سے سب سے پہلے مفصل سورتیں نازل ہوئیں جن میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے، یہاں تک کہ جب لوگوں نے اسلام قبول کیا تو حلال اور حرام کے احکام نازل ہوئے، اگر شروع میں ہی یہ نازل ہو تا کہ : شراب مت پیو تو لوگ کہتے: ہم شراب کبھی نہیں چھوڑیں گے، اگر یہ نازل ہو تا کہ : زنا مت کرو، تو لوگ کہتے  ہم زنا نہیں چھوڑ سکتے، مکہ میں جب میں کھیلنے والی چھوٹی بچی تھی محمد ﷺ پر یہ نازل ہوا (بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ)" بلکہ اس سے وعدہ قیامت کا ہے اور قیامت سخت اور کڑوی ہے"(القمر:46)، سورہ بقرۃ اور سورہ نساء جب نازل ہو رہی تھی میں آپ ﷺ کے ساتھ تھی۔ اس (راوی یوسف) نے کہا: ام المومنین نے مصحف نکالی اور سورتوں کا املا کیا(پڑھ کر سنائی)۔

 

پس عائشہ رضی اللہ عنھا کے اس قول میں اسلامی احکام کے نفاذ میں تدرج کی بات کہاں ہے؟!عائشہ رضی اللہ عنھا نے عراقی سائل کو بتا یا کہ قرآن میں  پہلے وہ سورتیں نازل ہوئیں جن میں اسلامی عقائد کا ذکر ہے  یہاں تک کہ لوگ ایمان لے آئے۔ اور  جب لوگ ایمان لے آئے تب وہ سورتیں نازل ہوئیں  جن میں حرام اور حلال کی بات ہے یعنی احکام شرعیہ کی۔ اس میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ حلال اور حرام کے احکام کے نفاذ میں تدرج سے کام لیا گیا بلکہ اس کے برعکس  یہ تو حلال اور حرام کے احکام کے نفاذ پر دلالت کرتا ہے۔۔۔اس میں صرف یہ بات کی گئی ہے کہ  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حلال اور حرام کے احکامات کو پہلے نازل نہیں کیا تا کہ پہلے لوگ اسلام پر ایمان لائیں۔ جب وہ ایمان لے آئےتو  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے احکام کی آیات کو نازل کیا تا کہ لوگ اس کو نافذ کریں۔۔۔ فتح الباری میں اس حدیث کی تشریح میں یہ ہے کہ :"یہ کہا کہ  لوگوں نے پہلے توحید کو قبول کیا  اس کے بعد پھر حرام اور حلال کے احکام نازل ہوئے۔ اس میں نزول کی ترتیب میں حکمت الٰہیہ کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن میں پہلے جو کچھ نازل ہوا اس میں توحید کی دعوت دی گئی اور اطاعت گزار مومنوں کو جنت کی بشارت دی گئی اور نافرمان کافر کو جہنم سے ڈرا یا گیا جب اس کے حوالے سے اطمینان ہو گیا تب احکام نازل ہوئے۔۔۔"ختم شد۔

 

یوں یہ ترتیب سورتوں کے نزول کے بارے میں ہے عقیدہ کی سورتیں پہلے اور احکام پر مشتمل سورتیں بعدمیں نازل ہوئیں۔  یہی حقیقت ہے کہ جو لوگ اللہ، اس کے رسول ﷺاور قیامت کے دن پر ایمان ہی نہیں رکھتے وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اوامر کی پابندی نہیں کریں گے، اس لیے ان کو پہلے ایمان اور توحید کی دعوت دینے کی ضرورت تھی، اس کو قبول کرنے کے بعد ان کو احکام کا مکلف بنا یا جا سکتا ہے۔۔۔اس کا  اسلامی دنیا میں مسلمانوں پر احکام شرعیہ کے نفاذ میں تدرج سے کیا تعلق ہے؟!

 

2۔ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں چوری کے حد کو معطل کرنے کا موضوع:

عمر رضی اللہ عنہ نے چوری کی حد کو نافذ کرنے کے حوالے سے تدرج والا کوئی کام نہیں کیا۔ چوری  کی حد نبی ﷺ کے زمانے میں نازل ہوتے ہی براہ راست   نافذ کی گئی۔ اسی طرح ابو بکر، عمر اور تمام خلفاء کے زمانے میں یہ حد نافذ کی گئی۔۔۔ عمر رضی اللہ عنہ نےجو کچھ کیا وہ یہ کہ حکمِ شرعی کو ایسے ہی نافذ کیا جیسا کہ اسلام میں ہے یعنی  حکم کے نفاذ کو لٹکایا نہیں بلکہ  ایسا ہی کیا جیسا ہو نا چاہیے۔ چنانچہ کچھ ایسے حالات ہیں جن میں ہاتھ کاٹنا جائز نہیں،  ان میں سے بھوک(قحط) کی حالت ہے جس میں ہاتھ کاٹنا جائز نہیں۔  قحط کی حالت میں ہاتھ کاٹے جانے کے جائز نہ ہونے کے بارے میں بعض دلائل کا ذکر کیے دیتا ہوں:

سرخسی نے المبسوط میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مکحول رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ( لا قطع فی مجاعۃ مضطرٍ) "ہنگامی قحط میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا"۔

 سرخسی کے المبسوط ہی میں یہ بھی آیا ہے کہ  الحسن نے ایک آدمی سے نقل کرتے ہوئے کہا: میں نے دو آدمیوں کو ہاتھ باندھے دیکھا جن کے پاس گوشت بھی تھا اور میں بھی ان کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا۔ گوشت کے مالک نے کہا کہ ہماری ایک اونٹنی تھی جس کے حمل کے دس مہینے ہو گئے تھے  ہم اس کا اس طرح انتظار کر رہے تھے جیسے بہار کا انتظار کیا جاتا ہے پھر ہم نے ان دو آدمیوں کو اس کو ذبح کرتے ہوئے دھر لیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " کیا تم اپنے اونٹنی کے بدلے دو ایسی اونٹنیاں قبول کرتے ہو جن کے حمل کے دس مہینے ہو چکے ہوں؟  کیونکہ ہم  مجبوری میں ہاتھ نہیں کاٹتے اور نہ ہی خشک سالی میں"۔ العشراء وہ اونٹنی ہے جس کے حمل کے دس مہینے ہو چکے ہوں اور ولادت کے قریب ہو ایسی اونٹنی اپنے مالک  کے لیے زیادہ اہم ہوتی ہے  کیونکہ وہ اس کے دودھ کی وجہ سے فارغ البالی اور خوشحالی کی آس لگائے ہوئے ہوتے ہیں، جیسا کہ بہار کے بارے میں امید کی جاتی ہے۔ آپ کا یہ فرمانا کہ :  ہم عذق میں ہاتھ نہیں کاٹتے بعض نے اس کو عرق بھی کہا ہے جو گوشت کے معنی میں ہے مگر زیادہ مشہور عذق ہی ہے جس کے معنی ہیں ضرورت اور مجبوری کے سال ہم ہاتھ نہیں کاٹتے۔ یعنی قحط سالی اور خشک سالی میں۔

ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں معمر سے نقل کرتے ہو ئے کہا ہے کہ : یحیی بن ابی کثیر نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " خشک سالی اور قحط میں ہاتھ نہیں کا ٹا جاتا"۔

یہی وجہ ہے کہ خشک سالی میں چوری کے حد کو نافذ کرنے سے اجتناب خود حکمِ شرعی ہے ۔۔۔یعنی عمر رضی اللہ عنہ نے قحط سالی میں چوری کرنے والے پر حد جاری نہ کر کے صرف حکمِ شرعی پر عمل کیا اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔۔۔کیونکہ ایسی حالت میں یہی حکم شرعی ہے۔۔۔

پس اس میں احکام شرعیہ کے نفاذ میں تدرج کہاں ہے؟

 

3۔ عمر بن عبد العزیز کا اپنے بیٹے کے ساتھ کا واقعہ:

یہ بات سب جانتے ہیں کہ اموی ریاست خلافت اسلامیہ تھی اور اس میں کوئی بھی غیر اسلامی چیز نافذ نہیں ہوتی تھی مگر   بعض خلفاء اور گورنروں کی جانب سے بعض  خلاف ورزیاں اور مظالم ہوئے۔ عمر بن عبد العزیز نے خلیفہ بنتے ہی  اسلام کو  لوگوں پر مکمل اور احسن طریقے سے نافذ کیا  اور  لوگوں پر احکام شرعیہ کو نافذ کرنے میں کسی قسم کے تدرج سے کام نہیں لیا  کہ کچھ کو نافذ کرکیا اور کچھ کو چھوڑ دیا۔۔۔ مگر عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے مظالم  کو ختم کرنے اور لوگوں کو ان کے حقوق دلانے کی بھر پور کوشش کی، جس کا تعلق آپ سے قبل کے  بنو امیہ کے خلفاء کے ساتھ تھا، جس کے لیے تحقیق چھان بین اور بڑی محنت کی ضرورت تھی،کیونکہ بعض ملکیتیں(جائیدادیں) جن پر بعض خلفاء کے رشتہ داروں نے قبضہ کر رکھا تھا  وہ کئی ہاتھوں سے گزر گئی تھیں، بعض اموال خرچ کیےجاچکے تھے  یا  تجارت اور خریدو فروخت سے دوسروں کی ملکیت بن گئے تھے اور کتنے صاحب حق ایسے تھے جو وفات پا گئے تھے یا دنیا کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے تھے۔۔۔یہ  بڑی جدو جہد ،مشقت، چھان بین، تحقیق اور معاملات کو منظم کرنے کا تقاضا کرتے تھے۔۔۔عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ خلفاء کے بیٹوں، رشتہ داروں اور  قرابت والوں کے حوالے سے یہ چاہتے تھے کہ  ان کو کسی مشکل میں ڈالے بغیر اور تنگ کیے بغیر حق واپس لیا جائے۔۔۔اسی لیے  مظالم کو ختم کرنے اور حق داروں کو حق دلانے کے لیے ان سے مطالبے سے ابتدا کی،  یقیناً اس کے لیے وقت اور کوشش درکارتھی۔۔۔ جب عبد المالک اپنے والد کے پاس آئے تو  جوانی کی ہمت اور جوش میں کہا کہ اس امر کو جلدی نمٹائیں جس پر عمر  نے وہی جواب دیا جس کا ذکر اس مسئلے کے حوالے سے مصادر میں کیا گیا ہے۔۔۔ اس میں کسی بھی طرح تدرج کا کوئی شبہ نہیں، بلکہ حکم   کومظالم کو سمجھنے میں تحقیق اور چھان بین کے بعد نافذ کرنے کی بات ہے تاکہ ہر ایک کو اس کا حق ملے۔  اس کی وضاحت کے لیے اس مسئلے کو اس کے مصادر کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔

 یہ بات قابل ذکر ہے کہ تاریخی روایات اور حکایات( جو حکایت کی گئی ہے کے صیغے سے بیان کی گئی ہیں۔۔۔) کے موضوع پر احادیث موجود نہ ہوں تو اس میں غور وفکر کیا جائے گا اور اگر  کوئی حدیث ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا۔۔۔یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ نے سوال میں عبد المالک کے اپنے والد عمر بن عبد العزیز  رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس قصے تاریخی  روایات اور حکایات کا ذکر کیا ہے جس میں  شراب کا موضوع ہے جبکہ اس حوالے سے احادیث کی جو روایت ہے  جس میں عمر کے اپنے بیٹے کا ساتھ قصے کا ذکر ہے اس میں شراب کا موضوع ہی نہیں،  اسی لیے حدیث میں جو کچھ ہے اسی کو لیا جائے گا اور تاریخی روایات اور حکایات کو ترک کیا جائے گا۔۔۔

 

ذیل میں ان احادیث میں سے بعض کو پیش کیا جاتا ہے  جن میں عمر بن عبد العزیز کے اپنے بیٹے کے ساتھ قصے کا ذکر ہے:

ابو نعیم کے حلیۃ الاولیاء  وطبقات الاصفیاء  میں احمد بن عبد اللہ بن اسحاق بن موسی بن مہران الاصبھانی(المتوفی 430 ہجری) نے روایت کیا ہے کہ ہمیں عبد اللہ بن محمد بن جعفر نے بتایا کہ  ان  کو احمدبن الحسین الحذاء نے بتایا اور ان کو احمد بن ابراہیم نے ان کو منصور نے اور ان کو شعیب نے کہ مجھے ایک محدث نے بتا یا کہ   عبد المالک بن عمر بن عبد العزیز،   عمر  کے پاس آئے  اور کہا: اے امیر المومنین، آپ سے میرا ایک کام ہے اکیلے میں ملنا چاہتا ہوں۔ آپ کے پاس مسلمہ بن عبد المالک تھے عمر نے ان سے کہا: اپنے چاچا سے بھی کوئی راز کی بات ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں،  مسلمہ کھڑے ہوئے اور چلے گئے، اورپھر وہ آپ کے سامنے بیٹھ گئے اور کہا: اے امیر المومنین کل اگر آپ کا رب آپ سے پوچھے تو آپ اس کو کیا جواب دیں گے، آپ نے فرمایا: کیا تم نے کوئی بدعت دیکھی ہے جس کی سرکوبی نہیں کی گئی یا کوئی سنت جس کو زندہ نہیں کیا گیا ہے؟ ان سے کہا: اے بیٹے  کیا رعایا نے  میرے لیے کوئی ذمہ داری تمہارے اوپر ڈالی ہے یا تم خود اپنی طرف سے مجھے کوئی رائے دے رہے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں اللہ کی قسم میری اپنی رائے ہے، میں نے سوچا کہ آپ جوابدہ ہیں  آپ کیا کہیں گے؟ آپ کے والد نے آپ سے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے  اور آپ کو جزائے خیر دے، اللہ کی قسم میں چاہتا ہوں کہ آپ خیر میں میرے معاون ہوں، اے بیٹے تمہاری قوم نے اس کو گرہ گرہ باندھا ہے اور جس وقت میں  ان کے ہاتھوں سے یہ چھین لینا چاہتا ہوں تو مجھے ڈر ہے کہ  مجھ سے الجھ پڑیں جس میں بہت خون خرابہ ہو سکتا ہے، اللہ کی قسم ساری دنیا کا ختم ہونا میرے لیے اس سے آسان ہے کہ میری وجہ سے خون کا کوئی قطرہ گرے، کیا تم اس بات سے خوش نہیں کہ  تمہارے باپ پر  دنیا میں ایسا دن آئے کہ  وہ بدعتوں کی سرکوبی کر لے اور سنت کا احیا کر لے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے؟

 

ہمیں  الحسن بن محمد بن کیسان نے بتا یا ان کو اسماعیل بن اسحاق القاضی نے ان کو محمد بن ابی بکر نے ان کو سعید بن عامر نے کہ جویریۃ بن اسماء  نے روایت کرتے ہو کہا کہ: عبد المالک بن عمر بن عبد العزیز نے اپنے باپ عمر سے کہا: اس معاملے میں اپنی رائے نافذ کرنے میں کیا چیز آپ کے لیے مانع ہے، اللہ کی قسم مجھے اس بات کی فکر  نہیں ہے کہ  اس امر کے نفاذ کی وجہ سےمجھے اور آپ کو دیگوں میں ڈال کر پکایا جائے گا۔ عمر نے فرمایا : "میں لوگوں کو مشکلات کے باغ میں لے جا رہا ہوں  اگر اللہ نے مجھے زندہ رکھا تو میں اپنی رائے کو عملی جامہ پہناوں گا اگر موت نے جلدی گھیر لیا تو اللہ کو میری نیت کا علم ہے،  مجھے ڈر ہے کہ لوگ اس میں جلدی کریں گے جو تم کہہ رہے ہو کہ وہ مجھے تلوار اٹھانے پر مجبور کریں گے، اس خیر میں کوئی خیر نہیں جو تلوار کے ذریعے ہو" ختم شد

 

الامر بالمعروف والنھی عن المنکرخلال ابو بکر احمد بن محمد بن ھارون بن یزید الخلال البغدادی الحنبلی(المتوفی 311 ہجری): مجھے عبد المالک المیمونی نے بتایا  ان کو احمد بن حنبل نے ان کو معتمر بن سلیمان نے کہ فرات بن سلیمان نے میمون بن مہران سے انہوں نے عبد المالک بن عمر بن عبد العزیز سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے کہا:اے ابا جان جو عدل آپ چاہ رہے ہیں اس پر عمل سے آپ کو کیا چیز روکتی ہے؟  اللہ کی قسم مجھے اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ اس کی وجہ سے ہمیں دیگ میں ڈال کر پکا یا جائے، فرمایا: " بیٹے  میں لوگوں کو مشکلات کے باغ میں داخل کر رہاہوں  میں چاہتا ہوں کہ  عدل سے اس امر کو زندہ کروں ،میں اس کو اس وقت تک موخر کرتا ہوں کہ  دنیا کی لالچ نکلے اور لوگ اِس باغ سے نکل کر اُس باغ میں رہائش اختیار کریں"۔

واضح بات ہے کہ معاملہ  لوگوں پر اسلام کے نفاذ اور اس میں تدرج کا نہیں بلکہ  لوگوں کو ان کے حقوق واپس دلانے کا  اور عمر بن عبد العزیز سے پہلے خلفاء کے عہد میں ہونے والے مظالم کے تدارک کا ہے۔۔۔اس کا اسلام کے نفاذ میں تدرج سے کوئی تعلق ہی نہیں جس میں کفر اور اسلام کو خلط ملط کیا جاتا ہے؟!

یوں عمر بن عبد العزیز اور آپ کے بیٹے کے قصے سے تدرج  کے موضوع کے لیے استدلال  ساقط ہے۔

 

4۔ ثقیف کے وفد کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی احادیث:

ا۔عثمان بن ابی العاص سے روایت ہے کہ ثقیف کا وفد جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ان کو اس لیے مسجد میں بٹھایا کہ ان کے دل نرم ہوں۔ ان لوگوں نے شرط رکھی کہ ان کو جمع نہ کیا جائے، ان سے ٹیکس نہیں لیا جائے اور رکوع پر مجبور نہ کیا جائے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لَكُمْ أَنْ لَا تُحْشَرُوا، وَلَا تُعْشَرُوا، وَلَا خَيْرَ فِي دِينٍ لَيْسَ فِيهِ رُكُوعٌ» "تمہیں جمع نہیں کیا جائے گا اور نہ ٹیکس لیا جائے گا مگر اس دین میں کوئی خیر ہی نہیں جس میں رکوع نہیں"، یہ ابو داود کے الفاظ ہیں۔ لا یجبّوا تجبیۃ سے ہے یعنی رکوع اور یہ مجاز نماز کے لیے کہا جاتا ہے۔

 

ب۔ابوداود ہی میں ایک اور روایت وھب کی ہے کہ: میں نے جابر سے ثقیف کے وفد کی بیعت کے لیے آنے کے حوالے سے پوچھا؟ انہوں نے کہا: انہوں نے نبی ﷺ کے سامنے یہ شرط رکھ دی کہ ان پر صدقہ اور جہاد نہ ہو ، انہوں نے نبی ﷺ کو  یہ فرماتے ہوئے سنا کہ" جب اسلام قبول کریں گے تو صدقہ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے"۔

پہلی حدیث جو عثمان بن العاص کی ہے اس کو اخذ کیا جاتا ہے اگر چہ  اس کے حوالے سے المنذری نے کہا ہے کہ ( یہ کہا گیا ہے کہ الحسن البصری نے عثمان بن العاص سے  حدیث سنی ہی نہیں) مگر یہ بات مجہول کے صیغے کے ساتھ ہے اس لیے اس سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ دوسری حدیث جو وھب سے مروی ہے صحیح حدیث ہے۔

ان دونوں حدیثوں سے تدرج کا جواز سمجھنا درست نہیں کہ احکامات کے بعض اجزا کو نافذ کر کے بعض کو ترک کرنا جائز ہے کیونکہ اسلامی احکام کے نفاذ میں تدرج کی حرمت قطعی دلائل سے ثابت ہے۔

اس لیے ان دونوں حدیثوں کو یا تو  اس طریقے سے سمجھا  جائے گا جو قطعی دلائل سے متصادم نہ ہو یعنی دونوں دلیلوں پر عمل کیا جائے گا،  ورنہ دونوں  دلیلیوں کو جمع کرنا ممکن نہ ہو تو قطعی دلیل  پر عمل کیا جائے گا اور ظنی دلیل کو ترک کیا جائے گا۔  یعنی دلیلوں کو جمع کرنے کی کوشش کی جائے گی اگر ممکن نہ ہو تو ترجیح پر عمل کیا جائے گا اور یہ سب جانتے ہیں کہ قطعی  ظنی پر غالب آتا ہے۔

 

عثمان بن ابی العاص کی حدیث  جس میں رسول اللہ ﷺ نے ثقیف کے وفد کی جانب سے  (حشر عشر  اور کسی اور کو عامل نہ بنانےکی شرط قبول کی )مگر ان کی طرف سے ترک صلاۃ کی شرط قبول نہیں کی۔جہاں تک ان کےاپنے کسی آدمی کے علاوہ کسی  اورکو ان پر والی مقرر نہ کرنے  کی شرط کو قبول کرنا ہےتو  اس میں کوئی برائی نہیں، یہ شروع میں جائز ہے اگر ان میں سے کوئی اس قابل ہو، مگر(ان لا تحشروا ولا تعشروا) کا کیا معنی ہے؟ اللسان میں لا یحشرون کے معنی کے بارے میں کہا ہے کہ :" وہ غزوات کی نمائندگی  اور مہم میں وفود بھیجنے کے پابند نہیں ہوں گے۔۔۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ  وہ زکوۃ کی وصولی کے لیے عامل زکوۃ کے پاس جمع نہیں کیے جائیں گے"۔ اسی طرح اللسان میں لا یعشرون کے معنی کے بارے میں ہے:"یعنی ان کے اموال پر عشر نہیں لیا جائے گا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ واجب صدقہ نہیں لیا جائے گا"۔ اس لیے اس حدیث سے یہ سمجھنا ممکن ہے کہ (لا یحشروا) کا معنی یہ ہے کہ  وہ اپنی اپنی جگہ زکوۃ ادا کریں گے، اس کو ادا کرنے کے لیے زکوۃ اکھٹے کرنے والے کے پاس جمع نہیں کیے جائیں گے بلکہ عامل زکوۃ ان کے پاس جا کر ان سے زکوۃ وصول کرے گا"، یہ (یحشرون) کا ایک معنی ہے۔ اسی طرح (ان لا یعشرون) کا معنی ہے کہ ان کے اموال میں سے عشر(ٹیکس) نہیں لیا جائے گا۔

یوں یہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے یہ شرط رکھی ہو کہ وہ اپنی اپنی جگہ زکوۃادا کریں گے جس کو رسول اللہ ﷺ نے قبول فرمایا  اور اسی طرح یہ شرط کہ صرف زکوۃ ادا کریں گے اس کے علاوہ ٹیکس نہیں جسے قبول فرمایا۔  جو شخص اسلام قبول کرنے کا ارادہ کرے اس کے لیے اپنی جگہ اپنی زکوۃ ادا کرنے کی شرط رکھنا جائز ہے،  یہ بھی کہ وہ صرف زکوۃ دے گا کوئی اور ٹیکس نہیں،  یہ جائز ہے اس میں کوئی غلط بات نہیں۔  یوں اس حدیث اور قطعی دلائل کو جمع کرنا ممکن ہے۔

 

رہی بات ابو داود کی دوسری روایت کی جو وھب سے مروی ہے: کہا: میں نے جابر سے بیعت کرنے والے ثقیف کے وفد کے بارے میں پوچھا؟ انہوں نے کہا: انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے شرط رکھی کہ ان پر صدقہ(زکوۃ) اور جہاد نہیں ہو گا، اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: «سَيَتَصَدَّقُونَ، وَيُجَاهِدُونَ إِذَا أَسْلَمُوا» "جب اسلام لائیں گے تو زکوۃ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے"۔جس سے اس بات کو ترجیح ملتی ہے کہ لا یحشرون یعنی لا یندبون للمغازی کا معنی(لا یجاھدون)"جہاد نہیں کریں گے" ہے اور لا یعشرون کا معنی زکوۃ نہیں دیں گے ۔ اس حالت میں  یہ حدیث ثقیف کے وفد کے ساتھ خاص ہو گی، ان کی طرف سے جہاد نہ کرنے اور زکوۃ نہ دینے کو قبول کرنا صرف ان کے لیے خاص نص ہو گی جو دوسروں کے لیے نہیں، کیونکہ خاص حکم کسی اور کے لیے نہیں ہوتا۔ خاص حکم کے لیے  قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہاں قرینہ رسول اللہ ﷺ کی جانب سے یہ خبر دینا ہے کہ یہ لوگ اسلام قبول کریں گے تو زکوۃ بھی ادا کریں گے اور جہاد بھی کریں گے، اس لیے اس شرط کی کوئی حقیقت نہیں۔  رسول کے علاوہ کوئی اور غیب کے علم کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا اور یہی اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ مخصوص حکم ہے۔ اسی قسم کے خاص احکام اور بھی موجود ہیں جیسے رسول اللہ ﷺ نے خزیمۃ کی گواہی کو دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دیا جو کہ ان کے ساتھ خاص ہے اور یہ کسی اور کے لیے نہیں۔ اسی طرح ابو بردہ کی جانب سے بکری کے اس بچے کی قربانی کو قبول کرنا جس کی عمر چھ مہینے سے کم تھی ان کے ساتھ خاص ہے کسی اور کے لیے نہیں، کیونکہ بکری کے بچے کی قربانی ایک سال سے کم عمر میں جائز نہیں۔

یوں دونوں دلیلوں پر عمل ممکن ہے: احکام کے نفاذ میں تدرج حرام ہے اور یہ قطعی دلائل سے ثابت ہے، جبکہ زکوۃ اور جہاد میں تدرج ثقیف کے وفد کے ساتھ خاص ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو علم تھا کہ یہ جب اسلام لائیں گے تو زکوۃ دیں گے اور جہاد کریں گے۔

 

ششم: خلاصہ:

٭قطعی دلائل کی وجہ سے احکام کے نفاذ میں تدرج حرام ہے کہ بعض کو نافذ کیا جائے اور بعض کو ترک۔

٭عائشہ کی حدیث میں احکام شرعیہ کے نفاذ میں  تدرج کے حوالے سے کچھ بھی نہیں  بلکہ اس میں صرف یہ بتا یا گیا ہے کہ قرآن کی سورتوں  کے نزول میں عقیدہ احکام پر مقدم ہے۔

٭عمر بن الخطاب نے چور کے ہاتھ کاٹنے کو موخر نہیں کیا اور حکم کے نفاذ میں کسی قسم کے تدرج سے کام نہیں لیا بلکہ عین حکم شرعی پر عمل کیاکہ قحط میں ہاتھ کاٹا ہی نہیں جاتا۔

٭ عمر بن عبد العزیز نے بھی احکام شرعیہ کے نفاذ میں کسی تدرج سے کام نہیں لیا کیونکہ اموی ریاست میں شریعت ہی نافذ تھی اور ریاست میں کوئی بھی غیر اسلامی حکم نافذ نہیں تھا، مذکورہ روایت صرف مظالم کو رفع کرنے اور لوگوں کو ان کے حقوق دلانے کے حوالے سے ہے۔

ابو داود کی حدیث جس میں رسول اللہ ﷺ نے نماز ترک کرنے کی شرط قبول نہیں کی  جبکہ جہاد اور زکوۃ کے بارے میں شرط قبول کی یہ اس وفد کے لیے خاص حکم ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو وحی کے ذریعے معلوم ہو گیا تھا  کہ ان کی شرط کی کوئی حقیقت نہیں یہ اسلام لاتے ہی جہاد کریں گے اورزکوۃ دیں گے۔ یعنی دونوں حدیثوں میں سے کسی کو رد نہیں کیا جائے گا بلکہ دونوں کو اور اسلام کے نفاذ میں تدرج کے حرام ہونے کے بارے میں  قطعی دلائل کو جمع کیا جائے گا جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔

 

٭یوں ان تمام دلائل کی چھان بین سے جو اسلام کے نفاذ کے حوالے سے تدرج کے قائل لوگ پیش کرتےیہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تدرج پر دلالت ہی نہیں کرتے بلکہ دوسری ایسی  چیزوں پر دلالت کرتے ہیں جن کا تدرج سے کوئی تعلق نہیں یا وہ خاص حالت کے خاص دلائل ہیں۔۔۔اس لیے یہ ممکن نہیں کہ یہ اسلام کے نفاذ میں تدرج کے حرام ہونے کے حوالے سے مفصل قطعی دلائل سے متصادم ہوں۔۔۔

لہذا تدرج کے قائل لوگوں کے پاس کسی قسم کی کوئی دلیل یا شبہ دلیل بھی نہیں جو اسلام کے ایک جزو کے نفاذ اور کفر کے ایک جزو کے ذریعے حکومت کے جواز پر دلالت کریں۔ یہ عظیم منکر ہے جو کہ قطعی دلائل کے خلاف ہے جو اسلام کے تمام احکام کو نافذ کرنے کے فرض ہونے کی دلائل ہیں، الحمد للہ رب اللعالمین۔

 

آپ کا بھائی  عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

 

19 رمضان 1437ہجری

24 جون 2016

Last modified onبدھ, 14 ستمبر 2016 20:38

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک