بسم الله الرحمن الرحيم
امریکی اقتصادی بالادستی کا زوال : خلافت کے ذریعے ایک الہی اور منصفانہ نظام کی دعوت
جب دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی تو دنیا تباہ حالی کا شکار تھی، شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے تھے، معیشتیں بکھر چکی تھیں، اور کروڑوں زندگیاں متاثر ہو چکی تھیں۔ اس تباہی کے درمیان ایک نئی عالمی طاقت ابھری، لیکن یہ غلبہ فوجی فتح کے ذریعے نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے اقتصادی اور اسٹریٹجک تسلط کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ امریکہ، جو یورپ اور ایشیا میں پھیلی تباہی سے محفوظ رہا، دنیا کی سب سے بڑی قوت بن کر ابھرا۔ یہ ایک نئے عہد کا آغاز تھاـایسا عہد جو روایتی استعماری نظام کے بجائے معاشی، سیاسی، اور سفارتی اثر و رسوخ کے ذریعے عالمی کنٹرول پر مبنی تھا۔
اس طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے، امریکہ نے 1947 میں مارشل پلان کا آغاز کیا اور یورپ کی تعمیرِ نو کے لیے اربوں ڈالر فراہم کیے—لیکن یہ محض امداد نہیں تھی، بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا تاکہ اتحادیوں کو اپنے ساتھ جوڑا جا سکے اور امریکہ پر انحصار کو یقینی بنایا جا سکے۔ فرانس، جرمنی اور اٹلی نے امریکی سرمائے کی مدد سے اپنی صنعتیں بحال کیں اور یوں وہ امریکی منڈیوں، ٹیکنالوجی، اور پالیسیوں سے جُڑ گئے۔ اسی طرح کا بدلاؤ ایشیا میں بھی آیا، جہاں جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان امریکی اثر و رسوخ کے زیر اثر صنعتی طاقتیں بن کر ابھریں۔ ان کی معیشتیں امریکی تجارت، تحفظ، اور سیاسی ہم آہنگی کے تحت بحال ہوئیں، جس سے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ وہ زور پکڑتی سرد جنگ کے عالمی نظام میں امریکہ کے کلیدی اتحادی رہیں۔
چین کے معاشی عروج نے ایک مختلف راستہ اختیار کیا۔ ابتدا میں، ماؤ زے تنگ کے دور میں چین عالمی سطح پر تنہا رہا، لیکن 1970 کی دہائی کے آخر میں دنگ ژیاؤپنگ کی قیادت میں اس نے برآمدات پر مبنی ماڈل کو اپنایا تاکہ اپنی صنعتی ترقی کو فروغ دے سکے۔ امریکہ نے سوویت اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے چین کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا اور اسے مغربی منڈیوں، ٹیکنالوجی، اور سرمایہ کاری تک رسائی فراہم کی۔ کیسنجر نے امریکہ کوچین کے قریب لا کر روس اور چین کے درمیان دراڑ پیدا کی ۔ (دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ کا امریکہ اب "ریورس کیسنجر" کی پالیسی اپنا رہا ہےـیعنی روسکے قریب ہو کر، ایک مضبوط چینی-روسی بلاک کو روکا جا سکے۔) چین میں کارخانوں کی تعداد تیزی سے بڑھی اور وہ عالمی سطح پر ایک صنعتی مرکز بن گیا، تاہم اس کی تیز رفتار صنعتی ترقی کے باوجود، سب سے زیادہ منافع بخش شعبے—تحقیق، جدت، اور مالیات—اب بھی مغربی طاقتوں کے کنٹرول میں رہے، تاکہ چین کا عروج ایک ایسے اقتصادی نظام سے جڑا رہے جو بنیادی طور پر امریکی اور مغربی مفادات کے تابع ہو۔ اب جبکہ چین کچھ معاشی رکاوٹوں سے آزاد ہو چکا ہے، ٹرمپ کا امریکہ مکمل طور پر اس کے خلاف حکمتِ عملی تیار کرنے پر مرکوز ہو چکا ہے۔
سرد جنگ کے دوران، امریکہ نے عالمی اقتصادی نظام کو مزید اپنے مفادات کے مطابق ڈھال کر اپنی بالادستی کو مستحکم کیا۔ تجارتی نیٹ ورکس، مالیاتی ادارے، اور تکنیکی ترقی اس انداز میں ترتیب دیے گئے کہ مغربی برتری کو یقینی بنایا جا سکے۔ روایتی استعماری حکمرانی کے برعکس، اس نئے نظام کو زمینوں پر قبضے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ سرمائے، علم، اور اثر و رسوخ کے بہاؤ پر کنٹرول کے ذریعے طاقت حاصل کی گئی۔ امریکی ڈالر کی بالادستی نے مالیاتی حکمرانی کو مضبوط کیا، جبکہ پیٹنٹس، فکری ملکیت (intellectual property)، اور اعلیٰ درجے کی تکنیکی اختراعات پر امریکی کنٹرول نے اسے عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کا رہنما بنا دیا۔
عالمگیریت (globalization)کا ظہور ابتدا میں ایک زیادہ باہمی طور پر منسلک دنیا کا وعدہ کرتا نظر آیاـایسی دنیا جہاں تجارت اور سرمایہ کاری سب کے لیے اقتصادی مواقع پیدا کریں گی۔ کارخانے ان ممالک میں منتقل کیے گئے جہاں مزدوری سستی تھی، جس سے کارپوریشنز کو زیادہ منافع کمانے اور مغربی صارفین کے لیے اشیاء کو مزید سستا بنانے کا موقع ملا۔ لیکن اس وعدے کے پیچھے ایک تلخ حقیقت چھپی تھی: عالمگیریت کا مقصد ترقی پذیر معیشتوں کو مضبوط کرنا نہیں تھا، بلکہ طاقت اور کنٹرول کو برقرار رکھنا تھا۔
چین آؤٹ سورس کی گئی صنعتوں کا سب سے بڑا مرکز بن گیا، خاص طور پر مینوفیکچرنگ، الیکٹرانکس، اور صارفین کی اشیاء کے شعبے میں۔ مغربی ممالک نے چین کو عالمی سپلائی چین میں ضم کیا، لیکن ایسی شرائط پر جو اسے غیر ملکی منڈیوں اور سرمائے پر انحصار کرتے ہوئے جکڑے رکھیں۔ چین نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی صنعتی بنیاد کو وسعت دی، مگر دیگر اقوام کم قیمت والی اشیاء کے شعبوں تک ہی محدود رہیں۔ ویتنام اور ملیشیا نے الیکٹرانکس اور ٹیکسٹائل کی پیداوار میں آگے بڑھے، جبکہ پاکستان اور بنگلہ دیش صرف ملبوسات کی صنعت تک محدود رہےـایسے شعبے جہاں سے حتمی منافع بالآخر امیر ممالک کو منتقل ہوتا رہا، جس کے نتیجے میں ترقی پزیر ممالک کی معیشتوں کو غیر مستحکم اور مغرب پر ان کے انحصار کو جاری رکھا گیا ۔
اگرچہ مینوفیکچرنگ بیرون ملک (مغری دنیا سے باہر) منتقل ہو گئی، لیکن امریکا نے طاقت کے سب سے اہم ستونوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ پیداوار کم لاگت والے علاقوں میں چلی گئی، مگر امریکی کارپوریشنز نے پیٹنٹس، تحقیق، اور اعلیٰ سطحی اختراعات کی ملکیت برقرار رکھی۔ امریکی ڈالر عالمی تجارت کی ریڑھ کی ہڈی بنا رہا، جس نے مالیاتی پالیسیوں اور سرمایہ کاری کے بہاؤ کو امریکی مفادات کے تابع رکھا۔ برطانیہ اور فرانس جیسی سابق استعماری طاقتیں بھی اس نظام سے مستفید ہوئیں۔ امریکا کے ساتھ صف بندی کر کے، ان ممالک نے اپنی کارپوریشنز اور مالیاتی نیٹ ورکس کو مستحکم رکھا، یوں ایک ایسا عالمی نظام مضبوط ہوا جہاں دولت اور طاقت مغرب میں ہی مرکوز رہی۔
اگر چہ مغرب کےاقتصادی اثر و رسوخ میں توسیع ہوئی، لیکن مالیاتی غلبہ اپنی نوعیت کی ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا تھا۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل، عالمی تجارت سونے اور چاندی کے معیار پر منحصر تھی، جو بین الاقوامی لین دین میں استحکام کو یقینی بناتا تھا۔ تاہم، جنگ نے اس نظام کو درہم برہم کر دیا، جس کے باعث ممالک کو اپنے فوجی اخراجات پورے کرنے کے لیے سونے پر مبنی کرنسی کے نظام کو معطل کرنا پڑا۔ 1920 کی دہائی میں سونے کے معیار کو بحال کرنے کی کوششیں ناکام رہیں، اور بالآخر 1933 میں صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے امریکا میں نجی ملکیت میں موجود تمام سونے کو قومی ملکیت میں لینے کا سخت قدم اٹھایا۔ یہ قدم مالیاتی کنٹرول کو حکومتی ہاتھوں میں مرکوز کرنے کا سبب بنا اور عالمی مالیاتی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد، 1944 میں بریٹن ووڈز نظام قائم کیا گیا تاکہ کرنسیوں کو مستحکم کیا جا سکے اور جنگ زدہ معیشتوں کی بحالی ممکن ہو۔ امریکی ڈالر کو سونے کے ساتھ ایک مقررہ شرح، 35 ڈالر فی اونس، پر منسلک کر دیا گیا، جس نے اسے عالمی مالیاتی نظام کا مرکز بنا دیا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) اور ورلڈ بینک جیسے ادارے تخلیق کیے گئے تاکہ امریکی اقتصادی اثر و رسوخ کو مزید مستحکم کیا جا سکے اور عالمی مالیاتی بہاؤ کو مغربی کنٹرول میں رکھا جا سکے۔
تاہم، 1960 کی دہائی تک امریکی معاشی نظام شدید دباؤ کا شکار ہونے لگا۔ امریکہ مسلسل تجارتی اور مالی خسارے میں مبتلا تھا، فوجی مہمات اور اندرونی ترقیاتی منصوبوں کے لیے مزید ڈالر چھاپ کر اخراجات پورے کر رہا تھا۔ ڈالر کے سونے پر مبنی نظام پر اعتماد متزلزل ہونے لگا، اور فرانس جیسے ممالک، خصوصاً صدر چارلس ڈی گال کی قیادت میں، امریکہ سےاپنے ڈالر ذخائر کے بدلے سونے کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگے، جس سے امریکی سونے کے ذخائر مزید کم ہوگئے۔ آخرکار، 1971 میں صدر رچرڈ نکسن نے ایک تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے ڈالر کی سونے سے وابستگی ختم کر دی اور بریٹن ووڈز نظام کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا۔ اس کے بعد دنیا ایک "فیٹ کرنسی" (Fiat Currency) نظام میں داخل ہو گئی، جہاں کرنسی کی قدر کسی مادی شے کے بجائے حکومت کی اتھارٹی پر منحصر ہوگئی۔
صرف دو سال بعد، ایک جغرافیائی سیاسی بحران نے عالمی مالیاتی نظام کو ایک بار پھر تبدیل کر دیا۔ 1973 کی عرب-"اسرائیل" جنگ کے نتیجے میں اوپیک نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر تیل کی پابندی عائد کر دی، جس کے باعث تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور مغرب شدید اقتصادی بحران کا شکار ہو گیا۔ اس صورتحال کے ردعمل میں، امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ ایک نہایت اہم معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت، سعودی عرب نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ وہ تیل کی قیمتوں کا تعین صرف امریکی ڈالر میں کرے گا اور اپنی اضافی دولت کو امریکی مالیاتی منڈیوں میں لگائے گا۔ جواباً، امریکہ نے سعودی عرب کو فوجی تحفظ اور سیاسی حمایت فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ معاہدہ "پیٹرو ڈالر سسٹم" کی بنیاد بنا، جس نے امریکی ڈالر کو دنیا کی ریزرو کرنسی کے طور پر مستحکم کر دیا۔
پیٹرو ڈالر نظام نے امریکہ کو اس قابل کیا کہ وہ اپنی معیشت کو نقصان پہنچائے بغیر بڑے مالی اور تجارتی خسارے چلاتا رہے ، جو دیگر ممالک کے لیے ممکن نہ تھا۔ اس نظام کے ذریعے امریکہ نے اپنی فوجی توسیع کو مالی وسائل فراہم کیے، ملکی سطح پر مہنگائی کو کم رکھا، اور مشرق وسطیٰ سے حاصل ہونے والے اضافی تیل کے منافع کو دوبارہ امریکی منڈیوں میں منتقل کیا۔ تیل کو ڈالر سے منسلک کر کے، امریکہ نے مؤثر طور پر سونے کی جگہ تیل کو اپنی عالمی مالیاتی بالادستی کی بنیاد بنا دیا۔
تیل سے مالا مال ممالکـخصوصاً اسلامی دنیا میںـکے لیے یہ نظام مغرب پر اقتصادی انحصار کو مزید مستحکم کرنے کا سبب بنا۔ سعودی عرب، کویت، اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک ڈالر پر مبنی مالیاتی نظام پر شدید انحصار کرنے لگے، جس کے نتیجے میں ان کی دولت حقیقی اقتصادی خودمختاری پیدا کرنے کے بجائے مغربی معیشتوں میں گردش کرنے لگی۔ دوسری جانب، تیل درآمد کرنے والے ممالک بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی کا شکار ہوئے، جس نے عالمی اقتصادی عدم مساوات کو مزید گہرا کر دیا۔
جیسے جیسے عالمی طاقتوں کے توازن میں تبدیلی آ رہی ہے، وہ بین الاقوامی نظام جس نے طویل عرصے تک امریکی غلبے کو یقینی بنایا تھا، اب دراڑوں کا شکار ہو رہا ہے۔ نئے اقتصادی کھلاڑی، متبادل مالیاتی ڈھانچے، اور بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی اتحاد، واشنگٹن کے عالمی اثر و رسوخ کی مضبوطی کو آزما رہے ہیں۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ موجودہ نظام برقرار رہے گا یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ یہ ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے مقابلے میں کب تک اپنا وجود قائم رکھ سکے گا۔
وہی معاشی ڈھانچہ، جسے امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد نہایت باریک بینی سے تشکیل دیا تھا، اب غیر متوقع چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، جو اس کی طویل مدتی عالمی بالادستی کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتاہے۔ ایک وقت میں بلا شرکتِ غیرے عالمی قیادت کا حامل امریکہ، اب بڑھتے ہوئے معاشی خطرات میں گھرا ہوا ہے، جس میں چین کا تیزی سے عروج مزید شدت پیدا کر رہا ہے۔ واشنگٹن اب بھی ٹیکنالوجی، تحقیق، اور عسکری صلاحیتوں میں فیصلہ کن برتری رکھتا ہے، مگر بیجنگ برق رفتاری سے اس فرق کو کم کر رہا ہے۔ چین کی 5G، مصنوعی ذہانت، عسکری ساز و سامان، سیمی کنڈکٹرز، اور جدید مینوفیکچرنگ میں پیش رفت محض ایک مسابقت نہیں بلکہ عالمی طاقت کے توازن میں ایک بنیادی تبدیلی کی علامت ہے۔ اگرچہ اوباما کی "Pivot to Asia" پالیسی، ٹرمپ کی تجارتی جنگ، اور بائیڈن کی معاشی پابندیاں اس ابھرتے ہوئے چیلنج کو روکنے کی کوششیں رہی ہیں، مگر چین ہر رکاوٹ کو عبور کر کے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ "Deep Seek AI" کی کامیابی، جو کم وسائل کے باوجود توقعات سے کہیں زیادہ بہتر کارکردگی دکھا رہی ہے، اس اہم حقیقت کو اجاگر کرتی ہے: چین محض امریکہ کے برابر نہیں آ رہا، بلکہ نئی تکنیکی معیارات بھی قائم کر رہا ہے۔
مالیاتی دباؤ طویل عرصے سے امریکہ کا سب سے طاقتور ہتھیار رہا ہے، جس میں ڈالر پر مبنی SWIFT نظام نے اسے عالمی معاشی اثر و رسوخ قائم رکھنے کی صلاحیت دی۔ اسی نظام کے ذریعے ایران اور روس جیسے ممالک پر تباہ کن پابندیاں عائد کی گئیں، مگر دنیا اب اس تسلط کو چیلنج کر رہی ہے۔ ممالک متبادل مالیاتی نیٹ ورکس تلاش کر رہے ہیں، ڈالر پر انحصار کم کر رہے ہیں، اور BRICS جیسے اقتصادی اتحادوں کو مستحکم کر رہے ہیں۔ جیسے جیسے متوازی ادائیگی کے نظام قائم کرنے کی کوششیں زور پکڑ رہی ہیں، ویسے ویسے واشنگٹن کی عالمی مالیاتی شرائط مسلط کرنے کی صلاحیت شدید خطرے میں پڑ رہی ہے۔ اگر امریکہ کی بین الاقوامی مالیاتی گرفت کمزور ہوتی ہے تو وہ معاشی بنیاد بھی ہل سکتی ہے، جس نے کئی دہائیوں تک اس کے عالمی اثر و رسوخ کو برقرار رکھا ہے۔
معاشی اعداد و شمار ان بڑھتے ہوئے خدشات کو مزید واضح کرتے ہیں۔ 2024 میں، امریکہ کا تجارتی خسارہ بڑھ کر 1.2 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا، جو اس کے غیر ملکی مصنوعات پر بڑھتے ہوئے انحصار اور ملکی پیداوار کی مشکلات کو ظاہر کرتا ہے۔ صرف چین کے ساتھ تجارتی عدم توازن 295.4 ارب ڈالر تک جا پہنچا، جبکہ یورپی یونین، میکسیکو، جاپان اور کینیڈا کے ساتھ خسارے نے اس تشویشناک رجحان کو مزید نمایاں کر دیا۔ یہ صرف ایک اقتصادی عدم توازن نہیں، بلکہ امریکہ کی صنعتی اور تجارتی پالیسیوں میں گہری سٹرکچرل کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک ایسا ملک جو کبھی صنعت اور جدت طرازی میں اپنی برتری کے لیے جانا جاتا تھا، اب درآمدات پر انحصار کر رہا ہے، جس سے اس کا صنعتی ڈھانچہ تیزی سے کھوکھلا ہو رہا ہے۔
ان معاشی چیلنجز کو مزید پیچیدہ بنانے والا عنصر طویل فوجی مداخلتوں کے نتیجے میں پیدا ہونے وال دیرپا مالی بوجھ ہے۔ افغانستان اور عراق کی جنگوں پر کھربوں ڈالر خرچ ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں امریکہ کا قومی قرضہ 2024 میں بڑھ کر 33 ٹریلین(33000 ارب) ڈالر تک پہنچ گیا۔ اگرچہ ڈالر اب بھی عالمی ریزرو کرنسی ہے، لیکن عالمی ذخائر میں ہونے والی تبدیلیاں بڑھتے ہوئے عدم استحکام کی نشاندہی کرتی ہیں۔ مختلف ممالک اپنے اثاثے متنوع بنا رہے ہیں، سونے کے ذخائر میں اضافہ کر رہے ہیں اور 'یوان'(چینی کرنسی) جیسے متبادل پر غور کر رہے ہیں۔ اگر ڈالر پر عالمی اعتماد نمایاں طور پر متزلزل ہوا تو امریکی مالیاتی نظام کے لیے اس کے شدید نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
انتباہی نشانیاں واضح ہیں: بڑھتا ہوا قرض، گہرا ہوتا تجارتی خسارہ، صنعتی زوال، اور چین سے شدید مقابلہ۔ امریکہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر ان بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے طویل مدتی نتائج انتہائی گہرے ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ امریکی لچک اور موافقت کی صلاحیت اب بھی مضبوط ہے، لیکن آنے والے چیلنجز ایک نئی حکمت عملی کے متقاضی ہیںـایک ایسی حکمت عملی جو یہ طے کرے گی کہ آیا امریکہ اپنی قیادت برقرار رکھتا ہے یا اپنی عالمی پوزیشن کے بتدریج زوال کا مشاہدہ کرتا ہے۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ آج امریکہ خود انہی اصولوں سے متصادم نظر آتا ہے جن کا وہ کبھی سب سے بڑا داعی تھاـآزاد تجارت، کثیرالجہتی تعاون، اور وہ عالمی معاشی نظام جسے اس نے خود ترتیب دیا تھا۔ اپنی گھٹتی ہوئی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے، واشنگٹن یکطرفہ اقدامات کا سہارا لے رہا ہے، جیسے کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کے اصولوں کے برخلاف محصولات عائد کرنا، اقتصادی پابندیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنا، بین الاقوامی امداد میں کمی کرنا، اہم تجارتی معاہدوں سے دستبردار ہونا، اور اتحادیوں پر معاشی و عسکری دباؤ ڈالنا۔ یہ اقدامات ایک بدلتی ہوئی حکمت عملی کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی امریکی عالمی قیادت کے اندرونی تضادات کو بھی آشکار کرتے ہیں، جس سے اس کے اثر و رسوخ کے طویل مدتی استحکام پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
مایوسی نے واشنگٹن کی اقتصادی حکمتِ عملی کو شکل دی ہے، لیکن شاید اس انداز میں نہیں جس کا عام تاثر دیا جاتا ہے۔ کینیڈا، میکسیکو، چین اور یورپی یونین پر حالیہ محصولات محض تحفظاتی اقدامات نہیں، بلکہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد تجارتی خسارے کو کم کرنا، اسٹریٹجک مراعات حاصل کرنا، اور ملکی صنعت کو بحال کرنا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے بڑے پیمانے پر صنعتی سرمایہ کاری کے پیکجز، ٹیکس مراعات، اور سبسڈیز واضح کرتے ہیں کہ امریکہ دوبارہ صنعتی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی (TSMC) کی امریکی سرمایہ کاری، سعودی عرب کی جانب سے چار سال میں ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ، اور اسی نوعیت کے دیگر اسٹریٹجک معاہدے ظاہر کرتے ہیں کہ واشنگٹن اپنی اقتصادی برتری بحال کرنے کے لیے متحرک ہے۔ یہ اقدامات زوال کی علامت نہیں، بلکہ ایک محتاط حکمت عملی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا، ملکی سپلائی چین کو مضبوط بنانا، اور طویل مدتی اقتصادی قیادت کو برقرار رکھنا ہے۔
دوسری جانب، ریپبلکن قیادت میں بجٹ میں کٹوتیاںـجس میں USAID کی فنڈنگ میں کمی اور بیوروکریٹک ڈھانچے میں تبدیلیاں شامل ہیںـپسپائی نہیں بلکہ اسٹریٹجک ترجیحات کی ازسرِنو ترتیب کا حصہ ہیں۔ امریکہ اپنے اتحادیوں پر فوجی اخراجات بڑھانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے، یوکرین کے نایاب معدنی وسائل کو حاصل کر رہا ہے، گرین لینڈ اور پاناما کینال جیسے اہم جغرافیائی اثاثوں پر کنٹرول کو مستحکم کر رہا ہے، اور یوکرین کی جنگ کے بعد س کی تعمیرِ نو میں بڑا حصہ لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ اقدامات محض مالیاتی نظم و ضبط کے لیے نہیں، بلکہ ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد اقتصادی اور عسکری برتری کو برقرار رکھنا، چین کو محدود کرنا، اور یورپ کے امریکی قیادت پر انحصار کے سلسلے کو جاری رکھنا ہے۔ واشنگٹن کی بدلتی ہوئی پالیسیز سلطنت کے زوال کی علامت نہیں، بلکہ ایک ایسی موافق سلطنت (Adaptive Empire) کی نشاندہی کرتی ہیں جو عالمی نظام میں اپنی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کو ازسرِنو تشکیل دے رہی ہے۔
امریکی قیادت میں قائم عالمی اقتصادی اور مالیاتی نظام اپنی اصل میں استعماری ہے، جو انسانی، قدرتی اور مقامی وسائل کا استحصال کرتا ہے اور ترقی پذیر معیشتوں کو کمزور، محتاج اور محکوم رکھتا ہے۔ بالخصوص مسلم دنیا کو اس نظام کے تحت جنگوں، نسل کشی اور بے رحم جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ جدید غلامی کا ایسا جال ہے جو دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز رکھتا ہے جبکہ اربوں انسان غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اگرچہ دنیا میں مجموعی دولت میں اضافہ ہوا ہے، مگر سرمایہ دارانہ مالیاتی ڈھانچے نے غربت کو ایک وبا میں بدل دیا ہے اور دولت کی انتہا درجے کی غیر مساوی تقسیم کو جنم دیا ہے، جہاں ورلڈ ان ایکویلیٹی رپورٹ 2022 کے مطابق دنیا کے محض 0.1فیصد امیر ترین افراد کی دولت میں اتنا ہی اضافہ ہوا جتنا کہ نچلے 50فیصد عوام کی مجموعی دولت میں۔ جدت اور ٹیکنالوجی، جو انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال ہونی چاہیے تھی، کو کارپوریٹ اور جغرافیائی سیاسی غلبے کے لیے ایک ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ دنیا اس جابرانہ نظام میں گھٹ رہی ہے، اذیت میں تڑپ رہی ہے، اور شدت سے ایک متبادل اور منصفانہ نظام کی متلاشی ہے۔ یہ انتشار درحقیقت اسی لمحے شروع ہوا جب انسان نے الہامی ہدایت سے روگردانی کی اور ناقص انسانی عقل کو مکمل حکمرانی کا پیمانہ بنا لیا۔ جب انسان وحی سے کٹ جاتا ہے تو اخلاقی گراوٹ میں ایسا ڈوبتا ہے کہ درندگی میں درندوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اس ظالمانہ نظام کو ایک ایسے منصفانہ نظام سے بدلا جائے جو تمام انسانوں کی عزت و وقار کو برقرار رکھے اور حقیقی عدل کا قیام ممکن بنائے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے، خلافت راشدہ کا عنقریب قیام ایک ایسے اقتصادی اور مالیاتی نظام پر مبنی ہوگا جو وحی الٰہی، شرعی احکام اور اسلامی معاشرے کی مخصوص ضروریات سے ہم آہنگ ہوگا۔ امت مسلمہ ایک منفرد عقیدہ رکھتی ہے جو اسے تمام دیگر اقوام سے ممتاز کرتا ہے۔ اسی عقیدے کی بنیاد پر خلافت اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے دیگر اقوام کو اسلام کی دعوت دے گی اور اپنی اقتصادی پالیسیاں، تجارتی تعلقات اور مالیاتی نظام مکمل طور پر شریعت کے احکام کے مطابق ترتیب دے گی۔
خلافت کا اقتصادی نظام اس طرح ترتیب دیا جائے گا کہ وہ اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کی ضمانت دے، ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے، افراد کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے خوشحالی حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرے، اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے۔ اسی کے ساتھ، خلافت کی مالیاتی آمدنی کے ذرائع شریعت میں متعین کردہ اصولوں کے مطابق ہوں گے، تاکہ ریاست مؤثر حکمرانی کر سکے اور معاشرے میں عدل و انصاف کو برقرار رکھے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا:
﴿ وَلَن يَجْعَلَ ٱللَّهُ لِلْكَـٰفِرِينَ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًۭا ﴾
"اور اللہ کبھی کافروں کو مؤمنوں پر غلبہ نہیں دے گا۔" (سورة ٱلنساء،4:141)
خلافت کا معاشی ڈھانچہ درآمدی انحصار یا برآمدی پالیسیوں پر مبنی نہیں ہوگا جو غیر ملکی مفادات کی خدمت کریں۔ نہ ہی خلافت آزاد تجارت، تحفظاتی معیشت یا قوم پرست اقتصادی پالیسیوں جیسے تصورات کو اپنائے گی، کیونکہ یہ سب اسلام سے متصادم ہیں۔ یہ استعماری مالیاتی اداروں کی مداخلت اور ان کے احکامات کو مسترد کرے گی اور استحصالی غیر ملکی تجارتی معاہدوں کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرے گی۔ ایسا کر کے، خلافت عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو ختم کر دے گی اور کفار کے مسلم امور پر غلبے کا خاتمہ کرے گی۔
خلافت پیٹرو ڈالر نظام کا خاتمہ کرے گی، کفار کی مالی برتری کو توڑے گی اور ملکی و بین الاقوامی تجارت کے لیے سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی نظام قائم کرے گی۔ تیل، گیس اور معدنیات جیسے عوامی وسائل کو غیر ملکی کارپوریشنز کے بجائے امت کے فائدے کے لیے ریاستی نگرانی میں رکھا جائے گا۔ خلافت سودی مالیاتی نظام (ربا) کا مکمل خاتمہ کرے گی اور تجارت کو اسلامی اصولوں کے مطابق استوار کرے گی، تاکہ معیشت کو استعماری اداروں کی گرفت سے آزاد کیا جا سکے۔ غیر ملکی سودی قرضوں اور امداد پر انحصار کرنے کے بجائے، ریاستی آمدنی زکوٰۃ، جزیہ، خراج اور ریاستی اثاثوں پر انحصار کیا جائے گا۔ اپنے سونے اور چاندی سے مستحکم مالیاتی نظام کے ذریعے، خلافت معاشی استحکام، خودمختاری اور آزادی کو یقینی بنائے گی، تاکہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو پورا کیا جا سکے کہ کوئی کافر مسلمانوں پر اختیار نہ رکھے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا:
﴿ وَأَعِدُّوا۟ لَهُم مَّا ٱسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍۢ وَمِن رِّبَاطِ ٱلْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِۦ عَدُوَّ ٱللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَءَاخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ ٱللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِن شَىْءٍۢ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ﴾
"اور ان کے مقابلے کے لیے تم جتنی طاقت اور جنگی گھوڑوں کی جتنی صف بندی کر سکو، تیار رکھو، تاکہ اس کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن اور ان کے علاوہ دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ کر سکو، جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے، وہ تمہیں پورا دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔" (سورة الانفال، 8:60)
اسلام میں عسکری تیاری کی فرضیت محض روایتی ہتھیاروں تک محدود نہیں، بلکہ دشمنوں کو باز رکھنے کے لیے ہر قسم کی طاقت حاصل کرنا شامل ہے، جیسا کہ اس آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ آج کے دور میں اس کا اطلاق مصنوعی ذہانت (AI) سے تقویت یافتہ فوجی ٹیکنالوجی، جدید فضائی دفاعی نظام، سائبر جنگی صلاحیتوں اور ہائپرسونک ہتھیاروں پر ہوتا ہے۔ خلافت جنگی بنیادوں پر فوجی و دفاعی صنعتوں کو قائم کرے گی، اسلحہ سازی میں خودکفالت کو یقینی بنائے گی، غیر ملکی سپلائرز پر انحصار کو ختم کرے گی اور ان تمام کمزوریوں کا ازالہ کرے گی جنہیں دشمن ریاستیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کر سکتی ہیں۔
اس مقصد کے حصول کے لیے خلافت ایک صنعتی پالیسی کو ترجیح دے گی جو فوجی تحقیق و ترقی (R&D) کو جدید ترین روبوٹکس، مصنوعی ذہانت سے چلنے والے جنگی نظام، اسٹیلتھ طیاروں، ڈرون جنگی ٹیکنالوجی اور بحری برتری کے ساتھ مربوط کرے گی۔ اس کے ساتھ ایک حکمتِ عملی پر مبنی خلائی پروگرام بھی ترتیب دیا جائے گا، جس کے ذریعے سیٹلائٹ پر مبنی انٹیلی جنس، نگرانی، اور میزائل دفاعی نظام تیار کیے جائیں گے، تاکہ جدید جنگ میں مکمل برتری کو یقینی بنایا جا سکے۔
خلافت اپنے پورے عسکری صنعتی ڈھانچے کی مالک اور نگران ہوگی، ایک خودمختار جنگی معیشت قائم کرے گی جو جدت اور استحکام کو فروغ دے گی۔ بھاری صنعتوں کو جدید ترین اسلحہ، اعلیٰ ٹیکنالوجی پر مبنی دفاعی نظام، اور خودکفیل سپلائی چینز کی تیاری کے لیے مخصوص کیا جائے گا، تاکہ مسلم امت عسکری طور پر ناقابلِ تسخیر رہے۔
عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
"خبردار! تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ حاکم (امام) نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے..."
بین الاقوامی تجارت ریاست کے دیگر اقوام کے ساتھ تعلقات کا ایک اہم پہلو ہے اور اسے اسلامی اقتصادی خودمختاری کے تحفظ کے لیے منظم کیا جانا چاہیے۔ خلافت ان اسٹریٹیجک اجناس کی برآمد کو روکے گی جو دشمنوں کو تقویت پہنچا سکتی ہیں اور معاہدہ کرنے والے اور متحارب ریاستوں کے ساتھ تجارت کو اسی کے مطابق منظم کرے گی۔ اگرچہ افراد کو اسلامی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے آزادانہ تجارت کی اجازت ہوگی، لیکن ریاست تمام بین الاقوامی تجارت کی نگرانی کرے گی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔ یہ نگرانی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کوئی بھی اقتصادی سرگرمی امت کی قوت پر سمجھوتہ نہ کرے، اور خلافت عوام کے امور کی حفاظت میں اپنی اتھارٹی کو برقرار رکھے۔
اسلامی امت بے پناہ قوتوں کی حامل ہے، جن میں سب سے نمایاں اس کا الہامی اسلامی نظریہ ہے، ساتھ ہی بے شمار دریافت شدہ اور غیر دریافت شدہ معدنی وسائل، زرخیز زرعی زمینیں، عظیم انسانی سرمایہ، باصلاحیت افراد کی وسیع تعداد، اسٹریٹیجک جغرافیہ اور شاندار تاریخی ورثہ بھی اس کے امتیازی اوصاف میں شامل ہیں۔ تاہم، اپنی اصل حیثیت، یعنی "انسانیت کے لیے بہترین امت" کے مقام کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے، اسے خلافت کو طریقۂ نبوت پر دوبارہ قائم کرنا ہوگا۔ ایسا کرنے سے، یہ ایک ایسی دنیا کے لیے ہدایت کا مینار بنے گی جو اندھیروں، ظلم اور نہ ختم ہونے والی مصیبتوں میں ڈوبی ہوئی ہے، اور استحصالی و ظالمانہ نظاموں کے مقابلے میں ایک عادلانہ اور باوقار متبادل پیش کرے گی۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا:
﴿ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ﴾
"تم بہترین امت ہو، جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔"
(سورة آل عمران 3:110)
تحریر: محمد عفان، ولایہ پاکستان
Latest from
- ٹرمپ کے طرف سے لگائے گئے ٹیرف...
- بے بس انسان سے بھی کمزور شخص وہ ہے، جو کسی ایسے فرض سے بھاگنے کے لیے بے بسی کا ڈھونگ رچائے جس سے وہ ڈرتا ہو،...
- غزہ کی حمایت میں مسلم افواج کی پیش قدمی کو یقینی بنانے کے لیے آخر ہم رسک کیوں لیں؟
- اداریہ: مصر اور یہودی وجود کے درمیان تعلقات کی حقیقت
- شام میں نئی حکومت کی تشکیل: ...