السبت، 21 شوال 1446| 2025/04/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

 

غزہ کی حمایت میں مسلم افواج کی پیش قدمی کو یقینی بنانے کے لیے آخر ہم رسک کیوں لیں؟

 

آہ! موجودہ خوف اور دھمکیوں کے ماحول میں یہ واقعی ایک مشکل سوال ہے، مگر اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں۔۔

 

ایک چھوٹی سی مثال سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ میں واقعی ہماری بہن ابتہال سے بہت متاثر ہوں، جنہوں نے حال ہی میں مائیکروسافٹ کے خلاف غزہ میں نسل کشی کی حمایت پر آواز بلند کی۔ وہ جرات، بہادری، بے باکی اور بلا کسی خوف و تردد کے اپنے سی ای او کے سامنے کھڑی ہوئیں۔ میں خود تین بیٹیوں کا خوش نصیب باپ اور پانچ بھانجیوں کا ماموں ہوں، اس لیے اس کے اس قدم نے میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔ شاید ان مردوں اس احساس کی شدت سمجھنا مشکل ہو جنہیں یہ انمول نعمتیں نصیب نہیں ہوئیں۔ یہ ایک بیٹی کا خطرہ مول لے کر حق بولنے کا حوصلہ ہے، جبکہ ایک باپ کے لیے تو اپنی بیٹی کی معمولی تکلیف بھی ناقابلِ برداشت ہوتی ہے، اور وہ اس کی حفاظت کے لیے اپنی جان نچھاور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

 

ابتہال نے ہم سب کو متاثر کیا—چاہے ہم بیٹی کے والد ہوں یا نہ ہوں—کیونکہ اُن کا بولنا اُس شیرنی کی یاد دلاتا ہے جو اپنے بچوں کو درندوں سے بچانے کے لیے تنِ تنہا میدان میں اُترتی ہے، جبکہ کوئی شیر اُن کی حفاظت کے لیے قریب بھی نہیں ہوتا۔ ایسا حوصلہ کہاں سے آتا ہے؟ ماسوائے اللہ ﷻ سے محبت سے، جنت کی چاہت سے، اور شاید کچھ حد تک جہنم کے خوف سے۔ یہی جذبہ ہمیں اللہ ﷻ کی حدود کے اندر رکھتا ہے۔ ہم روزے رکھتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں۔ ہم شراب سے بچتے ہیں، زنا سے دور رہتے ہیں، اور سود سے اجتناب کرتے ہیں۔

 

تو اگر ہماری بیٹیاں ایسی ہونی چاہئیں، جن کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہے، تو ہم جیسے باپ کیسے ہونے چاہئیں؟ اگر شیرنیاں ایسی ہوں، تو شیر کیسے ہونے چاہئیں؟ اگر عام شہری ایسے ہوں، تو ان کے حکمران کیسے ہونے چاہئیں؟ اگر عوام ایسے ہوں، تو ان کے فوجی افسران کیسے ہونے چاہئیں؟ کیا یہ حکمران اور افسران جہنم میں داخل ہونے کے خطرے سے بے خبر ہیں، چاہے وہ مختصر مدت کے لیے ہی کیوں نہ ہو؟ کیا وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ کسی شرعی فرض کی غفلت، یا کسی حرام عمل میں مبتلا ہونے کا انجام جہنم کی آگ ہے؟ یہاں تک کہ کچھ جنتی بھی جہنم کے اثرات اپنے جسموں پر لے کر جنت میں داخل ہوں گے!!!

 

بس یہی بنیاد ہے ہمارے اعمال کی، ہمارے قول و فعل کی، ہم مسلمان جو کرتے ہیں، وہ خالصتاً اسی لیے ہی کرتے ہیں۔ ہم اللہ ﷻ کے غضب سے بچتے ہیں، اور اس کی رضا کے لیے محنت کرتے ہیں، جدوجہد کرتے ہیں، اور اگر وہ چاہے، تو اپنی رحمت سے ہمیں جنت عطا فرمائے۔ اے اللہ! ہم پر رحم فرما، اور ہم پر اپنا کرم فرما۔ آمین۔

 

ہم یہ نہیں سمجھتے کہ بخشش کوئی طے شدہ بات ہے۔ ہاں، ہم اللہ ﷻ کی رحمت پر ہی جنت میں داخل ہونے کے لیے بھروسہ رکھتے ہیں، اور جہنم کی آگ کے ایک لمحے سے بھی بچنے کے طلب گار ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم شراب نوشی کریں، گناہوں میں لگے رہیں، منکر پر خاموش رہیں اور زنا جیسے کبیرہ گناہوں میں پڑے رہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ کچھ نیک اعمال کسی طرح اللہ ﷻ کو ہماری مغفرت پر مجبور کر دیں گے۔ ایک عمرہ، ایک صدقہ یا کسی یتیم کو کھانا کھلانا، ممکن ہے ہمارے کسی فرض کی کوتاہی یا گناہ کے ارتکاب کا کفارہ بن جائے — اور یہ بھی ممکن ہے، کہ نہ بنے۔ یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر کسی انسان کے اعمال میں ایک ذرہ برابر بھی شر کا عنصر ہوا، تو وہ اسے جہنم میں لے جا سکتا ہے۔

 

میں اب اپنی پچاس کی دہائی میں ہوں، اس لیے مجھے محمد علی کے کئی خوبصورت واقعات یاد ہیں — وہ باکسر، جو دنیا کا چیمپئن تھا اور اسلام کا نمائندہ بھی۔ ان کی ایک عادت مجھے سب سے زیادہ پسند ہے: وہ ہمیشہ اپنے ساتھ ایک ماچس رکھتے تھے، اور جب کبھی کسی فتنہ یا گناہ کی طرف مائل ہوتے، تو وہ ماچس کی تیلی جلا کر اپنے ہاتھ کے قریب کرتے تاکہ جہنم کی آگ کو یاد رکھیں اور گناہ سے بچ سکیں۔

 

اللہ ﷻ سے رحمت کی امید اور اس کے غضب کا خوف — بظاہر یہ دونوں متضاد کیفیات ہیں، مگر ایک مومن کے دل میں اکٹھے بستے ہیں۔

 

اللہ ﷻ نے فرمایا:

 

﴿اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَ اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ 

"جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے، اور یہ کہ اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے" [سورۃ المائدہ: 98]۔

 

حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک نوجوان کے پاس تشریف لے گئے جو وفات کے قریب تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: «كَيْفَ تَجِدُكَ ؟« "تم کیسا محسوس کر رہے ہو؟" نوجوان نے جواب دیا: )أَرْجُو اللَّهَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَخَافُ ذُنُوبِي( " اے اللہ کے رسول، میں اللہ سے امید رکھتا ہوں لیکن اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں"۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لاَ يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلاَّ أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ« "یہ دونوں چیزیں، امید اور خوف، جب کسی شخص کے دل میں ایسی حالت میں جمع ہوتی ہیں، تو اللہ ﷻ اسے وہ عطا کرتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہے، اور اسے اس چیز سے بچا لیتا ہے جس سے وہ ڈرتا ہے"۔ یہ بابرکت حدیث امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے، اور حافظ منذری نے اس کی سند کو "حسن" قرار دیا ہے۔

 

مجھے یاد ہے کہ میری محترم والدہ، جب میں انگلینڈ میں دس سال کا بچہ تھا، سردیوں کی صبحوں میں فجر کے وقت اگر میں سونے کے غرض سے "پانچ منٹ اور" مانگتا، تو وہ بڑے سے جگ میں برف جیسا ٹھنڈا پانی لے کر خوش دلی سے، مسکراتے ہوئے، مجھ پر انڈیل دیتیں۔ فرماتیں: "یہ ٹھنڈا پانی جہنم کی آگ بجھا رہا ہے، اب اٹھ جا میرے بیٹے!" ایک نماز چھوڑنے پر جہنم کی آگ کا تصور دل میں بٹھانے کے لیے وہ یہ سرد غسل دیا کرتیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک میں جلد سونے اور صبح سویرے جاگنے کا عادی ہوں، اور فجر کے وقت بے حد متحرک ہوتا ہوں — جیسا کہ میری صابر اور وفاشعار بیوی، جو گزشتہ تیس برس سے میرا ساتھ نبھا رہی ہیں، پورے یقین سے گواہی دیں گی۔

 

میری والدہ، جو ایک پشتون ماں کی بیٹی ہیں، مجھے پشتونوں کی عظمت کی یاد دلاتی ہیں — بلکہ پوری امت کی بھلائی کی، جو اپنی مختلف رنگتوں اور نسلوں کے باوجود خوبصورت ہے۔ اللہ ﷻ میری والدہ کو اپنی اطاعت میں طویل عمر عطا فرمائے۔ آمین۔

 

اور میرے والد؟ میرے والد، جن پر اللہ ﷻ بے پناہ رحمت نازل فرمائے، صرف گیس کا چولہا جلایا کرتے اور مجھ سے پوچھتے: "تم اپنا ہاتھ اس آگ کے کتنے قریب لا سکتے ہو؟" آج کل اسے 'اصولوں پر مبنی پرانی طرز کی پرورش' کہا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ شریعت کے مطابق تربیت ہے — چاہے ہم اسے شریعت نہ بھی سمجھیں۔ ایک باپ اپنے بیٹے کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے سختی کرتا ہے، چاہے بیٹا اس سے ناراض ہو جائے۔ باپ کی محبت کا یہی تقاضا ہے، جو اپنے بچے کے لیے ہر تکلیف برداشت کرتا ہے، تاکہ وہ آخرت میں کامیاب ہو سکے۔

 

میرے والد کے خاندان کا تعلق لکھنؤ سے ہے، جو کہ اب ہندوستان میں ہے، ہجرت سے پہلے، جب وہ کراچی، پاکستان آئے۔ وہ "ریشمی رومال" تحریک کے مجاہدین میں شامل تھے، جو انگریزوں کے قبضے کے خلاف لڑ رہے تھے۔ جب انگریز استعماری قوتیں انہیں اجتماعی سزا کے طور پر محاصرے میں ڈالتی تھیں، تو ان کی خواتین درختوں کے پتے توڑ کر پکاتی اور انگریزوں کو للکارتیں۔ آج بھی، میں وہی للکار، وہ سخت موقف، اور وہ غیرت اپنی بہن اور دیگر خواتین رشتہ داروں میں دیکھتا ہوں۔

 

شیرنیاں، شیر سے کم نہیں ہوتیں — جیسا کہ بہن ابتہال نے مجھے حال ہی میں یاد دلایا۔

 

میری ماں اب کمزور ہو چکی ہیں، ہاتھ کانپتے ہیں، لیکن اس کمزوری میں بھی وہ ایک بڑا جگ بھر کر کسی بھی رینک کے فوجی افسر — پر انڈیلنے کو تیار ہوں گی، صرف یہ یاد دلانے کے لیے کہ وہ نیند سے بیدار ہونے کے لیے "پانچ منٹ اور" مانگنے کی جرأت نہ کریں۔ آخر اٹھارہ ماہ ہو چکے ہیں اور افواج غزہ کے لیے ابھی تک متحرک نہیں ہوئی۔

 

میرے والد اب اپنے رب کی بے پناہ رحمت کی طرف لوٹ چکے ہیں۔ اللہ ﷻ انہیں نبی ﷺ کی ابدی رفاقت عطا فرمائے۔ لیکن وہ دہکتا ہوا چولہا، جس کے ذریعے وہ میری تربیت کرتے، بجھ چکا ہے، مگر اس کے شعلے آج بھی میرے ذہن میں دہکتے رہتے ہیں... لیکن اگر وہ آج زندہ ہوتے، تو ضرور اپنے کسی بیٹے کے ہاتھ کو — جو پاکستان آرمی میں ہو — پکڑ کر اس چولہے پر رکھ دیتے، چاہے وہ افسر ان سے ناراض ہی کیوں نہ ہو جاتا۔ آج اسی سخت محبت کی ضرورت ہے۔

 

جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ — جس کا عکس اُس چولہے کی لپٹوں میں جھلکتا ہے — اُس کے بیٹے کے دل و دماغ کو جھنجھوڑتا ہے، پکار پکار کر یاد دلاتا ہے کہ خاموشی اب جرم ہے! اسے بولنا ہو گا، اٹھنا ہو گا، قدم بڑھانا ہو گا — چاہے زمین لرز اٹھے، چاہے راہ میں انگارے اور خاردار زنجیریں ہوں۔ اب وقت ہے کہ وہ خوف کو کچل دے، یا کم از کم، اسے اپنی مٹھی میں قید کر لے۔ جو وہ غزہ کے لیے کر رہا ہے، وہ شاید اس کی زندگی کو مشکلات میں ڈال دے — آزمائشوں کی بھٹی میں جھونک دے۔ مگر یہ خطرہ ہی وہ سیڑھی ہے جس کے ایک سِرے پر انعام رکھا ہے — اور اسی انعام کی لذت اس کی تکلیف اور مشکلات کو قابل برداشت بنا دیتی ہے۔

 

پھر، اس کے پاس ایک ماں ہے جو اس کے لیے دعا کرتی ہے، اور شاید اس کے مریضوں کی کچھ مائیں بھی اس کے لیے دعائیں کرتی ہوں۔ مزید یہ کہ وہ شدت سے چاہتا ہے کہ اپنی بیٹیوں اور بھتیجیوں کے لیے ایک اچھی میراث چھوڑے — امت کے لیے ایک بہتر حالت، اُس کربناک صورتحال سے بہتر، جو وہ ساری زندگی دیکھتا آیا ہے، یہاں تک کہ غزہ کا انتہائی دردناک المیہ۔

 

اور ان سب باتوں سے بڑھ کر، اللہ ﷻ نے فرمایا:

 

﴿قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا ۚ هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

"کہو! ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہو۔ وہی ہمارا مولیٰ ہے، اور مؤمنوں کو تو صرف اللہ پر بھروسا رکھنا چاہیے" [سورۃ التوبہ: 51]۔

 

اور اللہ ﷻ کے اس کلام کے ساتھ، مجھے رسول اللہ ﷺ کی وہ حدیث یاد آتی ہے: «الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ، احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجِزْ، فَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ: لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ: قَدَّرَ اللَّهُ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ» "طاقتور مؤمن کمزور مؤمن سے بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے، اگرچہ دونوں میں خیر ہے۔ جو چیز تمہیں نفع دے اس کے لیے کوشش کرو، اللہ سے مدد مانگو، اور کمزوری مت دکھاؤ۔ اگر تمہیں کچھ پیش آ جائے تو یہ مت کہو کہ اگر میں ایسا کرتا تو ویسا ہوتا، بلکہ کہو: اللہ نے تقدیر لکھی اور جو چاہا وہی کیا۔ بے شک 'اگر' کہنا شیطان کے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے" [ابن ماجہ]۔

 

بزدل اپنے رزق اور اجل ختم ہونے سے پہلے ہزار بار مرتا ہے، حالانکہ رزق اور اجل اللہ ﷻ کی طرف سے طے شدہ ہیں، چاہے انسان کچھ بھی کر لے۔ اللہ ﷻ نے ہمیں اس کی کچھ جھلک پوری دنیا میں دکھا دی، جب ہم نے بہن ابتہال کی جرات مندی دیکھی۔

 

یہی سب کچھ میرے دل میں ابھرا، جب میں نے ہماری شیرنی، بہن ابتہال کو ڈٹ کر کھڑا ہوتے دیکھا۔

 

بلاشبہ، اہلِ غزہ کی جرات، اور ان کی محافظ شیرنی، یعنی امت مسلمہ کی حمایت، اللہ ﷻ، اس کے رسول ﷺ اور مؤمنین سے گہری محبت، جنت کی امید، اور ہاں، جہنم کے خوف سے سرشار ہے۔

 

غزہ کے مسلمانوں نے اپنا شرعی فرض ادا کر دیا ہے۔ اب امت اور اس کی افواج کی باری ہے کہ وہ بھی اپنا فرض ادا کریں، اور جو بھی ان کے راستے میں آئے، اسے ہٹا دیں — بالکل ایسے جیسے ایک شیرنی اپنے بچوں کو درندوں کے بیچ میں، بغیر کسی شیر کے سائے کے، بے خوفی سے بچاتی ہے۔

 

اے مسلم افواج کے افسران! امت جاگ چکی ہے اور تمہیں پکار رہی ہے۔ محمد ﷺ کی امت کے فخر بنو، اور اللہ ﷻ کی خاطر ان ظالم درندوں کو چیر پھاڑ دو! اور تم میں سے کوئی بھی ہرگز یہ جرات نہ کرے کہ “پانچ منٹ اور” مانگے، کیونکہ امت کی مائیں آج بھی وہ بڑے ٹھنڈے جگ لیے بیٹھی ہیں، تاکہ تمہیں یاد دلا سکیں، اگر تم بھول چکے ہو، یا جان بوجھ کر بھولنے کا بہانہ کر رہے ہو۔

 

 

مصعب عمیر، ولایہ پاکستان

 

Last modified onمنگل, 15 اپریل 2025 18:24

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک