بسم الله الرحمن الرحيم
شام میں نئی حکومت کی تشکیل: اہلِ شام کی امنگوں اور امریکہ و مغرب کے مفادات کی کشمکش
(ترجمہ)
استاد ناصر شیخ عبدالحئی کی تحریر
29 مارچ 2025 کو شام میں نئی حکومت کا اعلان دمشق کے پیپلز پیلس میں کیا گیا۔ اس حکومت میں ایک خاتون سمیت 23 وزراء شامل ہیں۔ شامی صدر احمد الشعراء نے کہا کہ نئی حکومت کا اعلان ایک نئی ریاست کی تعمیر کے لیے ہماری مشترکہ خواہش کا اظہار ہے۔ نئی حکومت کے اعلان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شام کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے اتحاد و یکجہتی ضروری ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ نئی حکومت کی اولین ترجیح کرپشن کا خاتمہ ہے، اور یہ حکومت ریاستی اداروں کی ازسرنو تعمیر، احتساب اور شفافیت کی بنیاد پر کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کی ترجیحات میں ایک "قومی فوج" کی تشکیل شامل ہے تاکہ شام کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
نئی حکومت کی تشکیل پر ردعمل مختلف رہا—خوش آمدید کہنے سے لے کر احتیاط اور تنقید تک۔ اگرچہ نئی شامی حکومت کو جزوی اور محتاط خیرمقدم ملا، لیکن اس کے گرد ابہام اور غیر یقینی صورتحال غالب ہے۔ اس دوران، رائٹرز نے ایک فہرست شائع کی جس میں ان شرائط کا ذکر کیا گیا ہے جو ناتاشا فرانسیسچی، نائب معاون سیکرٹری برائے لیوانٹ و شام (امورِ مشرقِ قریب) نے شامی وزیر خارجہ اسعد الشبانی کو پیش کیں، تاکہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی کی جا سکے۔ یہ ملاقات 18 مارچ کو برسلز میں منعقدہ "شام ڈونرز کانفرنس" کے موقع پر بالمشافہ ہوئی۔ ان شرائط میں سرِفہرست "دہشت گردی کے خلاف تعاون"، حکومت کے ڈھانچے میں کسی غیر ملکی کو اعلیٰ عہدے پر نہ رکھنا، اور کیمیاوی ہتھیاروں کے باقی ذخائر کی مکمل تباہی زیر بحث تھی۔ 25 مارچ کی رائٹرز رپورٹ کے مطابق، امریکی حکام نے بتایا کہ اگر دمشق ان تمام شرائط کو پورا کرتا ہے تو امریکہ پابندیوں میں مزید نرمی، نئی چھوٹ کے اجراء، اور سابق صدر جو بائیڈن کے دور کی جاری چھوٹ میں توسیع کا وعدہ کرتا ہے۔
شامی صدر احمد الشعراء کو نئی حکومت کے قیام کے اعلان پر کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کی تنظیم (OPCW ) کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے مبارکباد کا ٹیلیگرام موصول ہوا۔ جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے حکومت کی تشکیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ نہایت ضروری ہے کہ انتہاپسند گروہوں کو قابو میں لایا جائے اور جرائم کے مرتکبین کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے،‘‘ اور مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ’’اپنی صفوں میں شامل گروہوں کے افعال پر کنٹرول رکھے اور ذمہ داروں کا احتساب کرے۔‘‘
ہم حکومت کی اُس ساخت پر زیادہ گفتگو نہیں کریں گے، جس میں مسلمان اور غیر مسلم، سنی، علوی، دروز، کرد اور عیسائی سب شامل تھے۔ ان میں کچھ نئے افراد، کچھ سابقہ اسد حکومت میں کردار ادا کرنے والے، کچھ سابقہ اتحادوں یا سیاسی فورمز میں تجربہ رکھنے والے، اور کچھ ایسے افراد بھی شامل تھے جن کی موجودگی ریاست کی جانب سے مطلوبہ "فرقہ وارانہ تنوع" کے پیش نظر رکھی گئی۔ تاہم، ہم یہاں چند نکات کی وضاحت کے لیے ضرور توقف کریں گے:
اوّل: معاملہ صرف یہ نہیں کہ کون حکومت کرے گا، بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ کس طریقے سے حکومت کرے گا۔ اگر—محض بحث کی خاطر فرض کر لیا جائے—کہ وزراء نہایت پرہیزگار، باصلاحیت اور مخلص ہوں، تو اصل اہمیت اس آئین کی ہے جو وہ نافذ کریں گے۔ کیونکہ یہی حکومت اس آئین کو عملی طور پر نافذ کرے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ قوانین کا مجموعہ کیا ہے جو عوام اور ریاست کے معاملات کو، داخلی و خارجی سطح پر، منظم کرے گا۔ عمرؓ کا عدل صرف اس وقت ممکن ہوا جب انہوں نے اسلامی نظام، اس کے شرعی احکام، اور اس کی قانون سازی کو نافذ کیا۔ وہ آئین جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو راضی کرتا ہے، اور اس کے بندوں کو بھی خوشنودی بخشتا ہے، وہی ہے جس کی بنیاد صرف اسلامی عقیدہ پر استوار ہے۔ یہی وہ آئین ہے جو اہلِ شام اور ان کے انقلابیوں کی امنگوں کا حقیقی ترجمان ہے—وہ انقلابی جنہوں نے چودہ سالہ جدوجہد میں تقریباً بیس لاکھ شہداء کی قربانی دی، تاکہ ان کی یہ قربانیاں اسلام کے نظام، اس کی ریاست، اس کے آئین اور اس کی شریعت کی حکمرانی پر منتج ہوں۔ اسلام کو ایک مکمل، انقلابی اور ہمہ جہت نظام کے طور پر نافذ کیا جائے، جو حکومت، سیاست، معیشت، بین الاقوامی تعلقات اور زندگی کے دیگر تمام شعبوں کا احاطہ کرتا ہو۔ اس نفاذ کی بنیاد صرف اسلامی عقیدہ ہو، اور قانون سازی کا اختیار صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہو، نہ کہ کسی اور کا جو سیکولر، انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرنے پر مصر ہو، اور انہیں عوام پر بزورِ طاقت مسلط کرے۔
شریعت کے نفاذ ہی سے ہم تمام سازشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں—نہ کہ تدریج، فریب، سیاست یا قومی مفاد کے نام پر کفریہ ممالک کو خوش کر کے! سیاست کو شریعت کے احکامات کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نہ کہ انسانی عقل کی خواہشات اور وقتی قومی مفادات پر۔
دوم: ہم ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ ایک طرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا، جس نے ہمیں اسلام نافذ کرنے کا حکم دیا ہے، اور دوسری طرف امریکہ کی رضا، جو "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے بہانے اسلام سے برسرِ پیکار ہے—یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد اور باہم متصادم ہیں۔ لہٰذا، ہمیں مشرق و مغرب کے ان ممالک کی خوشنودی اور قبولیت حاصل کرنے کی فکر نہیں کرنی چاہیے، جو ہم پر پابندیاں ہٹانے کے مسئلے پر بلیک میلنگ کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس، ہمیں نظریاتی مؤقف اپنانا چاہیے جو ہمارے ربّ عزّ و جلّ کو راضی کرے، کیونکہ یہی مؤقف زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہمارے مسائل کا واحد انقلابی اور اصولی حل ہے۔ یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ملک کی پالیسی اور عوام کے امور کی نگرانی شریعت اسلامی کے احکامات کے مطابق ہو، نہ کہ مغربی قوانین کے مطابق جو ہمارے دین، امت، شناخت، ثقافت اور تہذیب سے بیگانہ ہیں۔ نہ ہی ہمیں مغربی دباؤ، احکامات اور اسلام دشمن رجحانات کے تابع ہونا چاہیے، جو ان سب کو ریاستی طاقت کے ذریعے ہم پر مسلط کرتے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے غافل نہیں کہ جرمن وزیر خارجہ نے دمشق کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یورپ نہ صرف اسلامی اداروں کی مالی معاونت سے گریز کرے گا، بلکہ طاغوت کے زوال کے بعد اسلامی حکومت کے قیام کی بھی مخالفت کرے گا۔ ہم اس بات سے بھی غافل نہیں کہ امریکہ نے شامی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے کھلی اور چھپی شرائط عائد کر رکھی ہیں۔ یہی امریکہ ہے جو زور دے رہا ہے کہ شام کا نظام سیکولر ہو، جس میں اسلام اور اس کے احکامات کا کوئی کردار نہ ہو، بلکہ اسلام کو مکمل طور پر حکومت اور ریاست سے باہر نکال دیا جائے۔ یہی امریکہ ہے جو چاہتا ہے کہ اس کے لوگ اور اس کے آلہ کار نئی حکومت میں شامل ہوں تاکہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو دوبارہ قائم کر سکے۔ اسی کے ساتھ وہ اپنے پالتو، یہودی وجود، کی سلامتی کے لیے فکرمند ہے، اور وہ فرقہ وارانہ گروہوں کی مظلومیت کا رونا رو کر انہیں اقتدار میں حصہ دلوانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ شام کو بدبودار قوم پرستی اور علاقائی تعصبات میں قید رکھا جائے تاکہ اسلامی سرزمینوں پر مغرب کی بالادستی کو مضبوط اور دائمی بنایا جا سکے۔
طاغوت کے زوال کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو اہلِ شام کی امنگوں کی ترجمان اور ان کی جدوجہد کے اصولوں کی عملی تعبیر ہونا چاہیے۔—وہ جدوجہد جو خون سے سینچی گئی۔ مغرب کو ہم پر کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں بتائے کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ یہی مغرب ہے جو اہلِ شام پر اپنا اثر و رسوخ ثابت کرنے کے لیے اقلیتوں کے مسئلے کو استعمال کر رہا ہے، اور انہیں اپنے مفادات کے لیے—نہ کہ ان کے مفادات کے لیے—اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سوم: بلاشبہ، انقلاب کا عوامی پلیٹ فارم اپنی افادیت اور اعتماد کے قابل ہونے کو ثابت کر چکا ہے۔ یہی وہ پلیٹ فارم ہے جو ہر بحران میں انقلاب، اس کے اصولوں اور اس کے لوگوں کی امنگوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یہی اصل ضرب کاری قوت ہے، اور یہی وہ فطری پشت پناہی ہے جس پر بھروسہ کیا جانا چاہیے—ان حکومتوں اور ریاستوں پر انحصار کے بارے میں سوچے بغیر، جو ہمارے گرد گھات لگائے بیٹھی ہیں۔ غزہ اور شام میں یہودی وجود کی درندگی—جو امریکہ کی مکمل سرپرستی اور اس کی رضامندی کے ساتھ ہو رہی ہے—ہم سے کوئی دور نہیں۔
آخر میں: یہ یاد رکھا جائے کہ جو عظیم قربانیاں دی گئیں، اور جو پاکیزہ خون شام کی سرزمین پر بہایا گیا، اس کا حقیقی صلہ صرف اسی وقت ملے گا جب اسلام کو ایک باعزت، مضبوط اور طاقتور ریاست میں نافذ کیا جائے—ایسی ریاست جو اسلام کا پرچم (رایۃ) بلند کیے ہو، اور جس کی قیادت اسلامی رجال کے ہاتھ میں ہو۔ اہلِ شام کی حقیقی نمائندگی وہی لوگ کرتے ہیں جو رسولِ اکرم ﷺ کے پرچم، اپنی اسلامی شناخت، تہذیب، اور دین کی عزت کا علم بلند رکھتے ہیں۔ انہی کی نمائندگی وہ لوگ کرتے ہیں جو ہر خوشنودی پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کو ترجیح دیتے ہیں، اور اس کی شریعت کے نفاذ کو اپنی مستقل اور اولین ترجیح بناتے ہیں۔ اہلِ شام نے اپنے سب سے قیمتی بیٹے اسی مقصد کے لیے قربان کر چکی ہے۔ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں—جس نے ہمیں طاغوتی اسد حکومت کو گرانے کی مدد دے کر ایک عارضی فتح عطا فرمائی—کہ وہ ہم پر اپنی نعمت مکمل فرمائے، اور ہمیں اسلامی ریاست کے تحت شریعتِ اسلام کے نفاذ کی نعمت عطا فرمائے، جس کی بشارت ہمارے نبی ﷺ نے دی تھی کہ:
ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ
"پھر خلافت ہوگی جو نبوت کے طریقے پر قائم ہوگی" [احمد]۔
ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن
Latest from
- ٹرمپ کے طرف سے لگائے گئے ٹیرف...
- بے بس انسان سے بھی کمزور شخص وہ ہے، جو کسی ایسے فرض سے بھاگنے کے لیے بے بسی کا ڈھونگ رچائے جس سے وہ ڈرتا ہو،...
- غزہ کی حمایت میں مسلم افواج کی پیش قدمی کو یقینی بنانے کے لیے آخر ہم رسک کیوں لیں؟
- اداریہ: مصر اور یہودی وجود کے درمیان تعلقات کی حقیقت
- الوعی شمارہ 462 - 464: اداریہ: منفرد پیش رفت