حزب التحریر کا دائرہ عمل
- Published in حزب التحریر
- Written by Arshad
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- الموافق
حزب التحریر کا دائرہ عمل
حزب التحریر کا دائرہ عمل
حزب التحریر کا کام
حزب التحریر کی رکنیت
حزب التحریر کا ہدف
Its aim is to resume the Islamic way of life and to convey the Islamic da’wah to the world. This objective means bringing the Muslims back to living an Islamic way of life in Dar al-Islam and in an Islamic society such that all of life’s affairs in society are administered according to the Shari’ah rules, and the viewpoint in it is the halal and the haram under the shade of the Islamic State, which is the Khilafah State. That state is the one in which Muslims appoint a Khaleefah and give him the bay’ah to listen and obey on condition that he rules according to the Book of Allah (swt) and the Sunnah of the Messenger of Allah (saw) and on condition that he conveys Islam as a message to the world through da’wah and jihad.
The Party, as well, aims at the correct revival of the Ummah through enlightened thought. It also strives to bring her back to her previous might and glory such that she wrests the reins of initiative away from other states and nations, and returns to her rightful place as the first state in the world, as she was in the past, when she governs the world according to the laws of Islam.
It also aims to bring back the Islamic guidance for mankind and to lead the Ummah into a struggle with Kufr, its systems and its thoughts so that Islam encapsulates the world.
اقوامِ متحدہ کے لئے سعودی سفیر عادل الجبیر نے جمعرات کی صبح 26 مارچ 2015 کو یمن کے حوثیوں کے خلاف عسکری آپریشن کا اعلان کردیا ۔ اس آپریشن کے دوران فضائی کاروائیوں میں حصہ لینے والا اتحاد دس ممالک پر مشتمل ہے، جس میں عمان کے سواء باقی تمام خلیجی ممالک شامل ہیں ۔ سعودی سفیر نے واضح کیا کہ سعودی عرب نے حوثیوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے قبل امریکہ سے مشاورت کی تھی۔ مصر کے وزیر خارجہ نے اس آپریشن میں شرکت کا اعلان کیااور بتایا کہ چار مصری بحری جہاز خلیجِ عدن کی طرف روانہ ہوچکے ہیں۔ جبکہ سوڈانی مسلح افواج کے ترجمان نے اعلان کیا کہ"اپنی اسلامی ذمہ داری کی بنیاد پر سوڈان اس(حملے) میں شرکت کرے گا۔ہم ایسی صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے جبکہ مسلمانوں کے قبلہ اور وحی کے نزول کی سر زمین پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہوں"۔
یوں بجائے یہ کہ حکمرانوں کے طیارے اور جنگی بحری جہازیہود یوں سے لڑنےکے لیے حرکت میں آتے وہ یمن پر بم برسانے کے لئے حرکت میں آئےحالانکہ سبا(یمن )کی سرزمین کی بنسبت یہودی وجود ان کے زیادہ قریب واقع ہے!اس کاروائی کے لیے جو جواز پیش کیے گئے ہیں ان میں سے بد ترین جوازیہ ہے کہ یہ حملہ مسلمانوں کے قبلہ کےتحفظ کی خاطر ہے، حالانکہ حرم شریف پر تو حملہ ہوا بھی نہیں جبکہ مسلمانوں کا قبلہ اول جس پر یہودی حملہ کر کے قبضہ کر چکے ہیں اور وہ کئی دہائیوں سے یہودیوں کے قبضے میں ہے ، اورپکار پکار کر اِن حکمرانوں سے مدد کے لئے فریاد کرتا آرہا ہے،اس کی خاطریہ حکمران حرکت میں نہیں آتے!ان کے طیارے یمن کی طرف اس لئے پرواز کرتے ہیں تاکہ استعماری کفار کے منصوبوں کو مکمل کیا جائے، یہ طیارے فلسطین کی ارضِ مقدس کو چھڑوانے کے لئےکبھی نہیں اُڑتے جس پرمسلمانوں کے شدید ترین دشمن قابض بنے بیٹھے ہیں!
ہر صاحب بصیرت شخص جانتا ہے کہ یمن میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ امریکہ اور اس کے حوثی حواریوں اور ان کے ہمنوا ؤں اوردوسری طرف برطانیہ اور اس کے حواریوں ہادی،عبد اللہ صالح اور ان کے ہمنواؤں کی باہمی کشمکش ہے ،جیسا کہ ہم نے اس معاملے کے متعلق سابقہ دستاویزات میں لوگوں پر یہ واضح کیا تھا کہ"حقیقت یہ ہے کہ یمن میں جاری جنگ دوفریقوں کے درمیان ہورہی ہے: فریق اول امریکہ ،اس کے حواری اور ایجنٹ اورفریقِ ثانی برطانیہ ، اس کے حواری اور ایجنٹ ۔ دونوں فریق اپنے اپنے وسائل اور اسالیب استعمال کررہے ہیں .... امریکہ یمن میں حوثیوں کی مادی قوت ، جنوبی علاقوں میں جاری تحریک اور ایران کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھارہا ہے اور مذاکرات کے میدان میں یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی مشیرجمال بن عمرکو استعمال کر تا ہے۔جبکہ برطانیہ اپنی سیاسی مکاری کو بروئے کار لاتا ہے اورامریکی دباؤ کے خلاف مزاحمت کے طور پر ہادی اور اس کی صدارت کو استعمال کررہا ہے اور اس بات کو یقینی بنارہاہے کہ کوئی امریکی حواری طاقت کے اہم مراکز میں سے کسی پربھی قابض نہ ہوسکے ۔ساتھ ہی ساتھ برطانیہ نے بذاتِ خود علی صالح اور اس کے آدمیوں کو حوثیوں کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت دی تا کہ اگر ہادی اپنے مقصد میں ناکام ہوجائے اور حوثی اقتدار پر قابض ہو جائیں تب بھی برطانیہ علی صالح کے ذریعے اقتدار کے کچھ حصے پر قابض رہ سکے ۔یہ ہے یمن کی صورتِ حال کی حقیقت ۔چونکہ برطانیہ اب پہلے کی طرح یمن پر اپنی بالادستی قائم رکھنےکے قابل نہیں رہا ،جبکہ دوسری طرف وہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کا عسکری طور پر مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے وہ اپنے ایجنٹ ہادی اور علی صالح کے ذریعے سیاسی مکاری پر ہی بھروسہ کرتا ہے،جنہوں نے اپنا کردار بخوبی ادا کیاہے "(یکم اکتوبر 2014) ۔
امریکہ نے ایران کے ذریعے حوثیوں کو انواع واقسام کا اسلحہ اور سامان ِجنگ فراہم کرکے ان کی مدد کی تاکہ وہ طاقت کے بل بوتے پر یمن پر تسلط حاصل کرلیں ۔ امریکہ یہ جانتا ہے کہ سیاسی میدان میں زیادہ تر برطانیہ کے پروردہ سیاست دان چھائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا امریکہ نے حوثیوں کے ذریعے طاقت کے بل بوتے پریمن پر تسلط جمانے کی راہ اختیار کی ۔حوثیوں نے صدر کا محاصرہ کر لیااور اس پر زور ڈالا کے وہ ان کی مرضی کے قوانین منظور کرے۔ یمن کا صدر ہادی ان قوانین کے نفاذ پرحوثیوں کے ساتھ اتفاق کرلیتا اور پھر اِن معاہدوں اور قوانین کو عملی جامہ پہنانے میں ٹال مٹول کرنے لگتا تھا ، یہ کھیل جاری رہا اور پھر وہ وقت آگیا جب حوثیوں نے صدر کو اس کے گھر میں قید کردیا لیکن وہ کسی طرح فرار ہو کر عدن پہنچ گیا۔ حوثیوں نے عدن تک اس کا پیچھا کیا، مگر وہ دوبارہ ان کے ہاتھوں بچ نکلا۔ یوں یہ کشمکش طویل ہوتی چلی گئی اور حوثیوں کی طاقت کسی ایک مرکز پر جمع نہ رہ سکی بلکہ پورے ملک کے اندر پھیل جانے سے کمزور ہوگئی اور حوثی وہ کچھ حاصل نہ کرسکے جو وہ چاہتے تھے سوائے اس کے کہ علی صالح اور اس کے حواریان کے ساتھ شامل ہوگئے تا کہ اگر حوثی ، صدر ہادی کے خلاف کامیاب ہو جاتے ہیں تو حاصل ہونے والے انعام میں سے وہ بھی اپنا حصہ وصول کرسکیں ۔ اور اگر حوثی ناکام ہو جاتے ہیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے۔ برطانوی ایجنٹوں کی اس حکمتِ عملی کے ابتدائی آثار دکھائی دے رہے ہیں ۔ پس عوامی نیشنل کانگریس ، جس کی سربراہی سابق یمنی صدر علی عبد اللہ صالح کررہا ہے، نے اعلان کیا کہ "حوثی ملیشیا کی تحریک ، حوثیوں کی جانب سے جنوبی صوبوں پر قبضہ کرنے کی کوشش اور ملک کی قانونی اتھارٹی کے خلاف بغاوت کرنے کے عمل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے "۔ عوامی کانگریس پارٹی کے پولیٹیکل آفس کی جنرل کمیٹی کی طرف سے بیان دیا گیا کہ "یمن میں جو کچھ ہورہا ہے، یہ بعض دھڑوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش ہے، اور نیشنل کانگریس کا اس سے دور ونزدیک کا کوئی واسطہ نہیں"(العربیۃ26 مارچ 2015)۔ عوامی نیشنل کانگریس کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا حالانکہ کل تک وہ اس صلح یاجنگ میں حوثیوں کی حلیف تھی! اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی کہ اگرمستقبل میں حوثیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے تو عوامی کانگریس دوبارہ حوثیوں کی اتحادی بن جائے۔ اِن ایجنٹوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ ضرورت کے لحاظ سے اپنے آقا کے تیار کردہ کردار کے مطابق اپنےرنگ بدل لیتے ہیں!کیا ہی برا اُن کا یہ چلن ہے...!
جب امریکہ نے دیکھا کہ ان کے حوثی حواری مخمصے کا شکار ہیں ، انہوں نے اپنی قوت کو پورے یمن میں پھیلا دیا ہے جس کے باعث نہ تو وہ مکمل طور پر اپنی بالادستی کو قائم کر پارہے ہیں اور نہ ہی وہ شمال میں اپنے مرکزکی طرف واپس جاسکتے ہیں،تو امریکہ نے محدود فوجی آپریشن کے ذریعے انہیں اس صورتحال سے نکالنے کا فیصلہ کیاکہ ایک تیر سے دو شکار ہوجائیں۔ پہلا :لوگ حوثیوں کو ایک جابر کی نظر سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں یہ فوجی حملے ان کے مظلوم ہونے کا تاثر قائم کریں گے اور دوسرا یہ کہ بحران کے بڑھنے سے ہنگامی مذاکرات کے لئے ماحول بن سکے گا اور کوئی مصالحتی حل سامنے آئے گا۔ ہر اس معاملے میں جہاں امریکہ تنہا کوئی مفاد حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ یہی روش اختیار کرتا ہے۔
جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اور جو کچھ اب ہورہا ہے اس نے صورتحال کو واضح کردیا ہے۔ سعودی عرب نے عسکری کاروائی سے قبل امریکہ سے مشاورت کی ، اورامریکہ کے ایجنٹ ہی اس آپریشن میں پیش پیش ہیں یعنی سعودی عرب کا شاہ سلمان اورمصر کا جنرل سیسی ۔ جہاں تک باقی خلیجی ریاستوں اور اُردن ومراکش کا تعلق ہے تو ان کا کردار زیادہ تر سیاسی ہے ، ان کا رویہ برطانیہ جیسا ہے، کہ برطانیہ امریکہ کا ساتھ دیتا ہے ، تا کہ یہ نظر آئے کہ وہ بھی متحرک ہے اور عنقریب ہونے والے مذاکرات میں اس کا بھی کچھ نہ کچھ کردار ہو اور اس طرح جو بھی حل سامنے آئے اس کے نتیجے میں طاقت کے مراکز میں اس کا بھی اثرو رسوخ موجود رہے۔اگر چہ فوجی کاروائی کو مسلط کرنا بسا اوقات مذاکرات کا سلسلہ شروع کرانے میں کا میاب رہتا ہے ، مگر کبھی یہ حربہ ناکام بھی ہو جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں یمن کی صورتحال مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہے اور اسے جنگ کی آگ میں دھکیل سکتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یمن مستحکم اور خوشحال تھا جب اس کی پاک مٹی پر ایجنٹوں اور استعماری کفار کے ناپاک قدم نہیں پڑے تھے۔
اے مسلمانو! یہ ہیں ہمارے حکمران ۔ یہ حکمران ہی وہ سب سے بڑی مصیبت ہیں کہ جس سےآج ہم دوچار ہیں۔ اگر ہم نے اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ان کے ظلم وستم سے نجات کے لیے کوشش نہیں کی تو یہ ہمارے لئے مزید تباہی و بربادی کا باعث بن جائیں گے۔ ہمارے ذخائر لوٹے گئے ،ہمارا خون بہایا گیا ،جبکہ ہم نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کےاس قول کواپنے سامنے نہیں رکھا کہ :
﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾،
" ڈرو اس فتنے سے جس کا شکار صرف وہ لوگ نہیں ہوں گے جو تم میں سے ظالم ہیں ، اور جان لو کہ اللہ کا عذاب شدید ہے"
اور آپ ﷺ کے اس ارشاد کو بھی کہ
«إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا ظَالِمًا، فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ»
"بے شک جب لوگ کسی کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ روکیں ، تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب میں گھیر لے"(ترمذی)۔
یہ ہیں ہمارے حکمران ۔ کہ اسراء ومعراج کی سرزمینِ فلسطین اور قبلۂ اول فریاد کررہےہیں ،مگر وہ اس کی فریاد پر کان نہیں دھرتے ،وہ ان سے مددطلب کررہے ہیں ، مگر وہ مدد کے لئے آگے نہیں بڑھتے گویا ان کے کانوں اور آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں...لیکن جب بات ہوتی ہے کفر یہ استعماری ریاستوں کے مفادات کی تکمیل اور نفاذ کی تو یہ ذلیل بن کر دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور اپنے آقاؤں کی خدمت گزاری کواپنے لیے فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے طیارے ،ٹینک اور جنگی کشتیاں اسلام کی ترویج اور دشمنانِ اسلام کے مقابلے کے لئے حرکت میں نہیں آتے بلکہ بیرکوں میں پڑے رہتے ہیں ۔ لیکن جب وہ مغربی استعماری طاقتیں کہ جنہیں ایمان والوں سے نفرت ہے،صرف اشارہ ہی کرتی ہیں تویہ حکمران اس وقت اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور شیر کی طرح دھاڑنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ حکمران اہل وطن کے سامنے توبڑے تکبر سے آتے ہیں ،مگر دشمنوں کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں ، اللہ ان کو غارت کرے۔
اے مسلمانو! امریکہ یا برطانیہ کی حمایت کر کے یا ان کے ایجنٹوں میں سے کسی ایک کی حمایت کر کےیمن کو تباہ کن صورتحال سے نہیں نکالا جاسکتا بلکہ یمن کو اس کے عوام اس صورت بچا سکتے ہیں اگر وہ بھر پور قوت کے ساتھ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کے رسول ﷺ کے لئے متحرک ہوجائیں ، دونوں جانب کے جابروں کو ہٹا دیں، ملک کو ان کی خیانتوں سے محفوظ بنائیں اور یمن کو اس کی اصل کی طرف لوٹا دیں یعنی اسے دوبارا ایمان وحکمت کی سرزمین بنا دیں ، جو عقاب کے جھنڈے کو بلند کرے، جو اللہ کے رسول ﷺ کا جھنڈ ا ہے ، اور نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافت کی موجودگی میں اللہ کی شریعت کے ذریعے فیصلے کیے جائیں
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾،
"اوراس روز مومن خوش ہوجائیں گے ،اللہ کی مدد سے ،وہ جسے چاہتاہے مدد دیتاہے اوروہ غالب اورمہربان ہے " (الروم : 4-5)
اے مسلمانو! اے یمن والو!حزب التحریر اخلاص اور صدق کے ساتھ آپ سے مخاطب ہے کہ آپ کو امریکہ کے تکبراور ان کے حواریوں کے غرور سے ہرگزخائف نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی برطانوی خباثت اور اس کے حواریوں کی فریب کاریوں سے دھوکہ کھانا ہے۔ یہی دشمن ہیں لہٰذا ان سے محتاط رہو! اور تم اللہ کے دین کی مدد کرو، اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا۔
(إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ)
"یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو یا جو حاضر دماغ بن کر کان دَھرے"(ق:37)
مسلم علاقوں پر امریکی طیاروں اور جنگی بیڑوں سے بموں اور میزائلوں کی بارش کا سلسلہ جاری ہے، جس کی ابتدا 8 اگست 2014ءکو عراق پر حملے سے ہوئی تھی ۔ اب 23 ستمبر 2014ء سے یہ حملے ملکِ شام تک پھیلادیئے گئے ہیں۔ساتھ ہی خطے کے غدار حکمرانوں کو بھی اس کام کے لیے بھرتی کر لیا گیا ہے۔پھرامریکہ کے اتحادیوں اور پیروکاروں نے بھی اس عمل کی پیروی کی، چنانچہ فرانس 19ستمبر 2014ء کو جبکہ برطانیہ26ستمبر 2014ء کو پارلیمنٹ کی طرف سے حمایت کے بعد اس میں شامل ہو چکا ہے۔ ان کے علاوہ کچھ اور ممالک بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، جو اسلام اور مسلمانوں سے بغض کی وجہ سے امریکہ کے شریکِ کار ہیں اور تھوڑے بہت حصے کے لیے امریکہ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں!یوں فرانس کے ہوائی جہاز امریکہ کی مانند بمباری کر رہے ہیں اور برطانیہ بھی اس میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ یہ سب ایسے بے سروپا بہانے تراش رہے ہیں کہ یہ اتحاد ایک تنظیم اور دہشت گردی کے خلاف ہے،جب کہ درحقیقت اس اتحاد کا مقصد امت کی دولت اور وسائل کو تباہ کرنا، مسلم سرزمین کے باشندوں کو قتل کرنا اورخطے پر استعماری کفار کے غلبے کو مسلط کرنا ہے!
صلیبی اور انہی کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے تاتاری پہلے بھی مسلم علاقوں پر یلغار کر چکے ہیں لیکن امت اللہ کی راہ میں مجاہد بن کر بھر پور قوت سے ان کے سامنے ڈٹ گئی اور ان کی جڑ کاٹ دی اور ان کے جال کو تار تار کر دیا ، پھر ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا اور یہ خطہ اہل شرک اور اہلِ نفاق سے پاک صاف ہو کر دوبارہ چمکنے لگا، صلیبیوں کو زوال کا سامنا ہوا اور تاتاری بھی اسی انجام سے دوچار ہوئے اور مومنین اللہ کی مدد سے خوش ہوئے ﴿يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾ "وہی اللہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے وہی زبردست رحم والا ہے" (الروم:5)۔ آج اوباما اور نئے صلیبی مسلم علاقوں کے خلاف اپنی ریشہ دوانیوں کو دوہرا رہے ہیں اور اُن کا ایسا کرنا کوئی عجیب یا انہونی بات نہیں : ﴿هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾" یہی تمہارے دشمن ہیں ان سے ہو شیار رہو اللہ ان کو ہلاک کرے کہاں بھٹکے جارہے ہیں" (المنافقون:4)۔ رہی بات مسلم علاقوں میں موجود حکمرانوں کی جانب سے صلیبیوں کی صفوں میں شامل ہو نے اور مسلمانوں اور ان کی املاک پر بم برسانے کے لیے اپنے جنگی جہازوں کو روانہ کرنے کی تو یہ جنگی جہاز فلسطین کو غصب کرنے والے یہودیوں کے خلاف توحرکت میں نہیں آتے!!! کل ہی کی بات ہے کہ یہود نے غزہ پر وحشیانہ حملہ کیا اور آج بھی زمین میں فساد بر پا کر رہے ہیں مگریہ طیارے یہود کے خلاف متحرک نہیں ہوئے جبکہ یہ استعماری کفار کی صفوں میں بڑی پُھرتی سے شامل ہو گئے، جو کہ یقینا بہت بڑا جرم ہے !
اے مسلمانو: تمہارا ہی یہ مقام ہے کہ تم زبردست امت ہو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تمہاری ذمہ داری ہے اورتم اللہ پر ایمان رکھتے ہو پھر تم ان وحشیانہ اور مجرمانہ حملوں پر کیسے خاموش رہ سکتے ہو جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں نے مسلمانوں اور ان کی املاک کے خلاف کیا ہے ؟ تم کیوں مسلح افواج میں موجود اپنے فرزندوں کو ساتھ ملا کر مسلم دنیا کے حکمرانوں کو ہٹانے کے لیے بھر پور جد وجہد نہیں کرتے کہ جو استعماری کفار کے وفادار بنے ہوئے ہیں۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہیں اوار تمہارے فرزندوں کو دنیا اور آخرت میں شرف و عزت حاصل ہو گا۔تم کیوں اپنے پائلٹ بیٹوں کو قائل کرنے کی پوری کوشش نہیں کرتے کہ وہ اپنے حملوں کا رخ فلسطین کو غصب کرنے والوں کی طرف کریں؟ کیوں تم اپنے پائلٹ بیٹوں کو اس چیز سے منع کرنے کی بھرپور کوشش نہیں کرتے کہ وہ امت کی دولت اور وسائل پر اور امت کے پہاڑوں اور میدانوں پر بم برسانے سے باز آجائیں، جن کو تمہارے آباؤ اجداد نے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے فتح کیا تھا اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس زمین کا بالشت بھر ٹکڑا بھی کسی شہید کے خون یا کسی مجاہد کے گھوڑے کے غبار سے خالی نہیں ؟ تم اپنے بیٹوں کومنع کرنے کے لیے کیوں جدو جہد نہیں کرتے کہ وہ اوباما، اس کے ہمنواؤں، حلیفوں اور ایجنٹوں کی دنیا کی خاطراپنی آخرت مت بیچیں ؟
اے جہازوں کے پائلٹ مسلمانو! آخر کیوں تم اپنے بھائیوں کو قتل کرنے کے لیے جہاز اڑا رہے ہو جبکہ اسراء و معراج کی سرزمین کو غصب کرنے والے دشمن کے خلاف جہاز نہیں اڑاتے جس نے الاقصیٰ کی زمین کویرغمال بنا رکھا ہے اور جو مسلمانوں کو اس بابرکت سر زمین پر نماز کی ادائیگی سے بھی روکتا ہے؟ کیا تم میں کوئی ایسا ہدایت یافتہ شخص نہیں جو اپنے طیارے کا رخ استعماری کفار اور یہود کی طرف موڑ دے؟ شام میں یا عراق میں اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کرنا اللہ کے نزدیک گناہ عظیم ہے جس کا ارتکاب کرنے والا آخرت میں بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا اور دنیا میں بھی اس کے لیے رسوائی ہے۔ اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کا قتل دنیا کے ختم ہو جانے سے بھی بڑی بات ہے، ترمذی نے عبد اللہ بن عمرو سے روایت کیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : «لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ» "دنیا کا ختم ہو جانا اللہ کے نزدیک کسی مسلمان کے قتل سے کمتر ہے"۔
اے شام اور عراق میں لڑنے والے گروہو! داعش تنظیم کے راہ ِراست سے انحراف کا یہ حل نہیں کہ تم امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے مدد مانگو ۔ ان کفار کے لیے کسی تنظیم کی کوئی اہمیت نہیں۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کے لیے تو بس اُن کے مفادات اور خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا اہم ہے، یہ تمہیں اتنا ہی وزن دیں گے جتنا تم ان کے مفادات کے لیے ان کی خدمت کرو گے۔ اُن کو خطے کے غدار حکمرانوں کی طرح کے غلام چاہییں اور اس بات کو اب وہ چھپا بھی نہیں رہے بلکہ سرعام کہہ رہے ہیں۔ وہ شام کے سرکش حکمران بشار الاسدکے خلاف لڑنے کے لیے تمہیں ٹریننگ نہیں دے رہے بلکہ آپس میں لڑوانے کے لیے تمہیں تربیت دے رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ داعش مسلمانوں کو ہی قتل اور گرفتار کررہی ہے اور حزب التحریر کے شباب بھی اس ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ کیل کانٹوں سے لیس ہو کر داعش کو ختم کرنے کے لیے نہیں آیا بلکہ خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے اور عراق اور شام میں استعماری نظام حکومت قائم کرنے کے لیے آیا ہے۔ تاکہ پھر یہ دونوں حکومتیں اس استعمار کو مزید وسعت دینے کی راہ ہموار کریں ۔ اگر یہ اپنے اس شر انگیز منصوبے میں کامیاب ہوگئے تو یہ اس پورے خطے کے لیے ایک نیا خطرہ ہوگا۔ فی الحال وہ تمہیں آپس کی لڑائی میں مشغول رکھنا چاہتے ہیں تا کہ امریکہ اس دوران متبادل قیادت کی تیاری کر سکے اور اس کے بعد اگر تم نے امریکہ کی خدمت میں کوتاہی کی تو وہ تمہیں بھی اٹھا کر سڑک کے کسی کنارےپھینک دے گا جیسا کہ وہ ان غدار اور خائن حکمرانوں کے ساتھ کر تا ہے جو سالہاسال اس کی خدمت کرتے ہیں مگر جب ان کا کردار ختم ہو جاتا ہے تو ان کو عبرت ناک انجام کے ساتھ کسی کھائی میں پھینک دیتا ہے۔ اوبا ما کی اسٹریٹجی پر غور کرو گے تو تم جان لو گے کہ یہ ایک لمبے عرصے کا پلان ہے، یہاں تک کہ نیا ایجنٹ پرانے ایجنٹ کی جگہ لے لے۔ اوباما کے اس منصوبے میں عراق اور اہل عراق ، شام اور اہل شام کے لیے کوئی خیر نہیں اور خیر ہو بھی نہیں سکتی: ﴿لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ﴾ "یہ لوگ کسی مومن کے بارے میں رشتہ داری یا قربت کا لحاظ بھی نہیں کرتے اور یہی لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں" (التوبۃ:8)۔ یہ منصوبہ پورے خطے پر پنجے مکمل طور پر گاڑنے کا منصوبہ ہے جس کے بعد یہ خطہ آزاد نہیں ہوگا بلکہ اس کا حال اس ضرب المثل کی مانند ہو گا: (خَلا لكِ الجوُّ فبيضي واصْفُري) "تیرے لیے میدان خالی ہو گیا، اب انڈے دے اور چہچہا"۔
اے مسلمانو، اے ہوابازو، اے انقلابیو، اے بریگیڈ اور بٹالین والو! داعش کے انحراف کا حل تمہارے ہاتھ اور عقل کے ذریعے ہوگا نہ کہ استعماری کفار سے مدد مانگ کر یا آپس میں لڑنے سے۔ امریکہ اور اس کے اتحاد یوں کی جانب سے خطے اور اس کے لوگوں پر تسلط حاصل کرلینا داعش تنظیم کے شر سے ہزار گنا زیادہ شدید ہے۔ شر کا علاج اس سے بھی بڑے اور بھاری شر سے نہیں ہو سکتا بلکہ شرکا علاج خیر سے ہو سکتا ہے، انحراف کا علاج استقامت ہے اور بدی کا علاج نیکی ہے.....اس سب کا بیان تمہارے عظیم الشان دین میں ہے اور اللہ کا وعدہ تمہارے ہاتھوں پورا ہو سکتا ہے : ﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ "اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے جوایمان لائے اورانہوں نے نیک اعمال کیے کہ ان کو ضرور زمین میں اس طرح خلافت دے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو دی تھی اور ضرور ان کے لیے ان کے اس دین کو زمین پر غالب کر دے گا جسے اُس نے اُن کے لیے پسند کیا ہے اور اس کے بعد اُن کے خوف کو امن سے بدل دے گا ، وہ میری عبادت کریں گے اور کسی کو میراشریک نہیں بنائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو وہی لوگ فاسق ہیں" (النور:55)۔ اللہ تمہیں رسول اللہﷺ کی بشارت کو پورا کرنے کا شرف بھی بخش دے گا «ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ» "پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی" تب روئے زمین خلافت سے دوبارہ چمک اٹھے گی اور نئے صلیبیوں کواسی انجام سے دوچار کرے گی جو پچھلے صلیبیوں کا ہوا تھا اور ان کفار کے ہاتھ شکست اور مغلوبیت کے سوا کچھ نہیں آئے گا: ﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ " اللہ اپنے فیصلے کو پورا کرنے پرکامل قدرت رکھتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے" (یوسف:21)۔
اے مسلمانو، اے ہوابازو، اے انقلابیو، بریگیڈ اور بٹالین والو ! حزب التحریر تمہیں پکار رہی ہے کیا تم ہماری پکار پر لبیک کہو گے ؟ حزب التحریر تمہیں نصیحت کرتی ہے کیا تم ہماری نصیحت سے فائدہ اٹھاؤ گے؟حزب التحریر تمہیں اپنی تاریخ پر نظر ڈالنے کی دعوت دیتی ہے کیا کوئی ایسا کرنے والا اور عبرت حاصل کرنے والا ہے؟ حزب التحریر تمہاری آنکھیں کھول رہی ہے، اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو ۔ (إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ) "یقینا اس میں عبادت گزار لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے" (انبیاء:106)۔