بسم الله الرحمن الرحيم
اداریہ: مصر اور یہودی وجود کے درمیان تعلقات کی حقیقت
(ترجمہ)
تحریر: سعيد فضل
غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر قابض یہودی وجود کی جارحیت کے تناظر میں حالیہ دنوں میں مصری حکومت اور یہودی وجود کے درمیان میڈیا اور سیاسی کشیدگی کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ لفظی جنگ دراصل اس پس منظر میں جاری ہے جسے عبرانی میڈیا نے "کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر مصر کی چھیڑ چھاڑ" کا نام دیا ہے۔ عبرانی اخبار یدیعوت آحارونوت (Yedioth Ahronoth) نے صہیونی فوجی حلقوں میں اس بڑھتی ہوئی تشویش پر مبنی رپورٹس شائع کی ہیں، جس میں مصری فوج کی سیناء میں عسکری تنصیبات قائم کرنے کو امن معاہدے کے سیکیورٹی ضمیمے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
یہاں تک کہ صہیونی وزیر دفاع، یسرائیل کاٹز، نے امریکہ سے باضابطہ مطالبہ کیا کہ وہ قاہرہ پر دباؤ ڈالے تاکہ وہاں موجود عسکری تنصیبات کو ختم کیا جائے۔ اس دعوے کو نام نہاد 'Multinational Force and Observers (MFO )' کی رپورٹوں کی آڑ میں تقویت دی گئی ہے۔ یہودی، کسی شرم یا ہچکچاہٹ کے بغیر، نہ صرف مصر کی جاسوسی کرتے ہیں بلکہ دشمنانہ رویے اپناتے ہوئے اس کی فوج اور خودمختاری کی توہین کرنے سے بھی باز نہیں آتے!
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سیناء کا علاقہ عملاً ایک غیر فوجی زون میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں مصری فوج کو اپنی فورسز کی تعیناتی کے لیے یہودی وجود کے ساتھ ہم آہنگی اور امریکی نگرانی کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں کیا واقعی یہ قابلِ یقین ہے کہ وہی حکومت، جو نیل کے پانی، تیران اور صنافیر جیسے اہم اثاثے دشمنوں کے سپرد کر چکی ہو، اچانک امریکہ اور صہیونی وجود کی مرضی کے خلاف کھڑی ہونے کی جرأت کر دے؟
عبرانی ذرائع ابلاغ کی جانب سے جاری کردہ یہ بیانات اور "مصری چھیڑ چھاڑ" کے الزامات درحقیقت محض سودے بازی کے حربے ہیں، جو یا تو دشمن کے لیے مزید رعایتیں حاصل کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں یا پھر عوامی رائے کو مزید اطاعت اور غلامی کے لیے تیار کرنے کی ایک منصوبہ بندی ہیں۔
سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ مصر کی موجودہ حکومت ان توہین آمیز اشاروں اور صریح بے عزتیوں کے جواب میں ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے کوئی وقار بھرا مؤقف اختیار کرنے کے بجائے، مسلسل ذلت آمیز خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ وہ دانستہ طور پر اپنے عوام کے جذبات کو نظرانداز کر رہی ہے—ان عوام کے، جن کے دلوں سے وہ واقعہ ابھی تک محو نہیں ہوا جب قابض یہودی فوج نے سرحد پر مصری سپاہیوں کو شہید کر دیا تھا، اور پھر ڈھٹائی سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ سب "غلطی سے" ہوا ہے!
یہ صورتِ حال نہ صرف ناقابلِ برداشت ہے، بلکہ اسے کسی صورت جاری نہیں رہنا چاہیے۔ بالخصوص ان اہلِ ایمان کے لیے جو اپنے دل میں اسلام کی غیرت، جہاد کے عقیدے، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے وفاداری رکھتے ہیں۔ یہود سے ہماری جنگ کسی قومی سرحد یا علاقائی تنازع کی جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ بقا کی جنگ ہے۔ ان کے منصوبوں کا نشانہ صرف فلسطین نہیں بلکہ ہر وہ سیاسی وجود ہے جو مغربی بالادستی سے حقیقی آزادی (تحریر) کا خواب دیکھتا ہے۔
لہٰذا، جو بھی تبدیلی لائی جائے وہ محض سطحی یا وقتی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ وہ انقلابی ہونی چاہیے۔ ایسی جو غلامی کی جڑیں کاٹ دے، امت کی چھینی گئی آزادی کو واپس لے آئے، اور اسے مکمل آزادی کے راستے پر ڈال دے—ایسی آزادی جو صرف اور صرف خلافت راشدہ علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کے ذریعے ممکن ہے؛ وہ خلافت جو امت کو ایک کرے، اس کی قوتوں کو مجتمع کرے، اور اس کی افواج کو حرکت دے تاکہ وہ مبارک سرزمین کی آزادی کے لیے نکلیں، نہ کہ ان ذلت آمیز معاہدوں کی غلام رہیں جو یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے نام پر مسلط کیے جا رہے ہیں۔
جو کوئی بھی ذلت کا خاتمہ چاہتا ہے، فلسطین کو بچانا چاہتا ہے، اور مصر کی عظمت و وقار کو بحال کرنا چاہتا ہے، تو اُسے اُن لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے جو خلافت راشدہ علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ خلافت جو فیصلہ سازی میں خود مختار ہوگی، افواج کی نظریاتی بنیاد پر تربیت کرے گی، ان غدارانہ معاہدوں کو ختم کرے گی، اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے افواج کو متحرک کرے گی۔
کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ اس ابلتے ہوئے غصے کو حقیقی تبدیلی کی سمت موڑ دیا جائے؟ کیا یہ وقت صرف غم و غصہ ظاہر کرنے یا شکایات تک محدود رہنے کا ہے، یا یہ وہ وقت ہے جب امت کو اپنی تلخ حقیقت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے؟ کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ وہ خوف کی زنجیروں کو توڑ دے، جو اسے دہائیوں سے جکڑے ہوئے ہیں؟ آج جب لوگ روزانہ غزہ میں بہنے والا خون دیکھتے ہیں، معصوموں کی لاشیں اٹھاتے ہیں، اور اپنی آنکھوں سے ان حکومتوں کی بے حسی بلکہ دشمن سے گٹھ جوڑ کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حکمرانوں پر بھروسہ کرنا امانت میں خیانت بن چکا ہے۔ شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ منظم عوامی تحریک اٹھے—مساجد سے، چوراہوں سے، یونیورسٹیوں سے—اور وہ فوجی چھاؤنیوں کے دروازے کھٹکھٹائے، افواج سے مطالبہ کرے کہ وہ فوراً حرکت میں آئیں، مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اقدام کریں، اور غزہ کا محاصرہ توڑ دیں۔
یہاں سب سے اہم سوال کھڑا ہوتا ہے: کیا مصری سپاہی اب بھی اُن احکامات کا غلام بنا رہے گا جو ایسے حکمران دے رہے ہیں جو نہ صرف اپنی شرعی حیثیت کھو چکے ہیں، بلکہ دشمن کی گود میں جا گرے ہیں؟ یا پھر اس کا ایمانی غیرت، شرعی فرض، اور اسلامی حمیت اسے اس بات پر آمادہ کرے گی کہ وہ اس محاصرے کو توڑے، اور غزہ کے اُن مظلوم بھائیوں کی نصرۃ کرے جو ملبے کے نیچے دبے چیخ رہے ہیں، اور اُن لوگوں کو پکار رہے ہیں جن کے دلوں میں آج بھی مردانگی اور مجاہدانہ روح زندہ ہے؟ اب مزید تاخیر کی گنجائش باقی نہیں! شہداء کا خون پکار رہا ہے، القدس مدد کے لیے دہائی دے رہا ہے، جبکہ حقیقی مجرم یہودی، جو نہ فوجیوں کو بخشتے ہیں، نہ بچوں کو، نہ مصری میں فرق کرتے ہیں نہ فلسطینی میں۔ تو اے مصر کے بیٹو! اے اہلِ کنانہ! تم کہاں کھڑے ہو اس حکمِ رسول ﷺ کے مقابل، جس میں فرمایا گیا:
«فُكُّوا الْعَانِيَ، وَأَطْعِمُوا الْجَائِعَ، وَعُودُوا الْمَرِيضَ»
“قیدی کو آزاد کرو، بھوکے کو کھانا دو، اور مریض کی عیادت کرو” [بخاری]۔
یہودی وجود کی جانب سے مصر کے خلاف بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی صرف کوئی سیاسی چھیڑ چھاڑ یا میڈیا کی چال نہیں ہے، بلکہ یہ امت کے صبر، شعور، اور اُس کی بیداری کا حقیقی امتحان ہے۔ یہ امتحان ہے اس بات کا کہ آیا امت ان خوف و غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے تیار ہے جو دہائیوں سے ان کے اوپر آلہ کار حکومتوں نے مسلط کر رکھی ہیں۔ یہ عزت و شناخت کا امتحان ہے، یہ اس شعور کا امتحان ہے کہ امت ایک بیرونی دشمن، جو قتل و جارحیت کرتا ہے، اور ایک داخلی حکومت، جو سرحدوں کی نگہبانی کے نام پر عوامی غضب کو دبا دیتی ہے، کے درمیان فرق کر سکے۔ اب یا تو امت اپنی غفلت کی نیند سے بیدار ہو کر، شعور سے بھرپور ریلیوں اور تحریکوں کے ذریعے فوجی چھاؤنیوں کا رُخ کرے، اور افواج سے مطالبہ کرے کہ وہ محکومی کے چکر سے نکلیں اور آزادی (تحریر) کی جنگ میں شامل ہوں؛ یا پھر یہ زوال و سستی کا عمل جاری رہے گا، جو محض جغرافیائی حدود تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ اپنے مفہوم اور مقصد میں بھی مٹتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ حاکمیت صرف نام کی رہ جائے گی، ریاستیں صرف خول بن کر رہ جائیں گی، اور عزت محض ماضی کی ایک یاد بن جائے گی۔
اے مصرِ کنانہ کے سپاہیو! تم محض کسی عسکری نظام کے فرد نہیں، بلکہ محمد ﷺ کی امت کا حصہ ہو۔ تم وہ پیش رو ہو جسے اُٹھنا ہے، وہ تلوار ہو جسے بے نیام ہونا ہے، وہ سہارا ہو جسے غزہ اور پورے فلسطین کے مظلوموں کی پشت پر کھڑا ہونا ہے۔ تمہارے بھائی وہاں قتل کیے جا رہے ہیں، محصور ہیں، مٹائے جا رہے ہیں۔ تم ان کے قریب ترین ہو، اور اگر چاہو تو ان رکاوٹوں کو توڑنے کے سب سے زیادہ اہل ہو۔ پس ان احکامات کے فریب میں نہ آؤ جو تمہارے ہاتھوں کو باندھ دیتے ہیں، اور اُس بے روح عسکری 'نظریے' سے بھی ہوشیار رہو جو صرف نظام کی بقا کے لیے جنگ کرتا ہے۔جنگ کا حقیقی نظریہ وہی ہے جو قرآنِ کریم نے واضح فرمایا ہے، اور اللہ کا حکم تمہیں ان الفاظ میں مخاطب کرتا ہے:
﴿وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ﴾
"اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزوروں کے لیے قتال نہیں کرتے؟" (سورۃ النساء: 75)
اسلام میں افواج کا مقصد نہ تو حکومتوں کی حفاظت تھا، نہ رسوائی کے معاہدوں کی نگرانی۔ بلکہ ان کا مقصد امت کا دفاع، اسلام کے پیغام کو دنیا تک پہنچانا، اور دشمنانِ اسلام کے دلوں میں ہیبت بٹھانا ہے۔
تمہارا نمونہ عمل وہ جرنیل نہ ہوں جو فوجی بغاوتوں یا کیمپ ڈیوڈ جیسے معاہدوں کے معمار تھے، بلکہ تمہارا نمونہ سعد بن ابی وقاصؓ اور خالد بن ولیدؓ ہوں، جو اللہ کی تلواریں تھے۔ تمہارے ہتھیار تمہارے ذمے وہ امانت ہوں، جو صرف اللہ کے دشمنوں اور امت کے دشمنوں کے مقابل استعمال ہوں۔
غزہ تمہیں پکار رہا ہے... کیا کوئی ہے جو جواب دے؟
القدس تم سے مدد مانگ رہا ہے... کیا کوئی ہے جو لبیک کہے؟
اللہ سبحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾
"اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہو، جب وہ تمہیں اُس چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی بخشتی ہے۔" (سورۃ الأنفال: 24)
ولایہ مصر میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن
Latest from
- ٹرمپ کے طرف سے لگائے گئے ٹیرف...
- بے بس انسان سے بھی کمزور شخص وہ ہے، جو کسی ایسے فرض سے بھاگنے کے لیے بے بسی کا ڈھونگ رچائے جس سے وہ ڈرتا ہو،...
- غزہ کی حمایت میں مسلم افواج کی پیش قدمی کو یقینی بنانے کے لیے آخر ہم رسک کیوں لیں؟
- شام میں نئی حکومت کی تشکیل: ...
- الوعی شمارہ 462 - 464: اداریہ: منفرد پیش رفت