الأحد، 20 جمادى الثانية 1446| 2024/12/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

تفسیر سورۃ البقرۃ: آیت 189

 

فقیہ اور مدبر سیاست دان ،امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرشتہ کی کتاب  تیسیر فی اصول التفسیرسے اقتباس

 

(يَسْأَلُونَكَ عَنْ الأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)

"لوگ آپ سے نئے مہینوں کے چاند وں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ انہیں بتادیجئے کہ یہ لوگوں کے( مختلف معاملات کے) اور حج کے اوقات متعین کرنے کے لیے ہیں۔ اورنیکی یہ نہیں کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہو ۔ نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی پرہیزگاری اختیار کرے۔ پس تم اپنے گھروں میں دروازے سے ہی آیا کرو، اور اللہ سے ڈروتاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو جائے" (البقرۃ: 189)

 

اس آیتِ کریمہ سے واضح ہے کہ:

 

1۔ مذکورہ بالا آیت شریفہ سے پہلے کی آیات میں اللہ تعالیٰ جل شانہ ٗ نے روزہ اور اس کے احکامات کا ذکر کیا ہے،  اور بعد والی آیات میں جہاد ، حرمت کا مہینہ، حج اورحج کے متعین مہینوں کا ذکر کیا ہے،اور روزے،شہرِ ِحرام اور حج کی آیات بیان کی ہیں۔ مذکورہ بالا آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے چاند کے متعدد منزلیں متعین کرنے کی حکمت بتائی ہے کہ وہ بالکل باریک ہلال کی صورت میں طلوع ہوکر آہستہ آہستہ ماہِ تمام بن جاتا ہے ، پھر واپسی کی راہ لیتے ہوئے اپنی پہلی شکل  میں ڈھل جاتا ہے۔   چاند کے حجم میں ان تبدیلیوں کی حکمت اس طرح بیان فرمائی کہ یہ چاند لوگوں کے لیے وقت معلوم کرلینے کا ایک ذریعہ ہے،ان میں سے روزے کا وقت بھی ہے، جیسا کہ فرمان نبوی ﷺ ہے:((صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته)) "چاند کے دِکھ جانے پرروزہ رکھو اور چاند کے دِکھ جانے پر روزے ختم کرو"(رواہ بخاری)۔ یہ حج کے اوقات معلوم کرنے کا ذریعہ بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے  :(الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ) "حج کے چند متعین مہینے ہیں"( البقرۃ:197)۔ نیز چاند کے ذریعے سال کے مہینوں کی گنتی معلوم کی جاتی ہے،حدیث رسول ﷺ میں ہے : ((السَّنَةُ اثنا عشر شهرا منذ خلق السموات والأرض منها أربعة حرم: ثلاثة سرد: ذو القعدة وذو الحجة والمحرم، وواحد فرد: رجب))" جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا تب سے سال  بارہ مہینوں کا ہے،ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں، پھر ان میں سے تین پے درپے آتے ہیں؛ ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم،ایک  مہینہ اکیلا ہے، (یعنی) رجب ( رواہ بخاری و مسلم و ابوداؤد)۔ نیز چاند ہی کے ذریعے دیگر شرعی احکامات کی مدت معلوم کی جاسکتی ہے، مثلاً زکوٰۃ جوکہ ایک سال مکمل ہونے پر ادا کرنا فرض ہوجاتا ہے، عورتوں کے لیے طلاق اور وفات  کی عدت وغیرہ ۔

 

نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا:(( جعل الله الأهلة مواقيت للناس فصوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته فإن غمّ عليكم فعدوا ثلاثين يوما))" اللہ تعالیٰ نے ان ہلالوں کو لوگوں کے لیے اوقات معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا ہے، پس چاند کے دِ کھ جانے پرروزہ رکھو اور چاندکے دِکھ جانے پرروزوں کا اختتام کرو ،پس اگر بادل کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو پھر تیس دن پورے کرلو" ( رواہ احمد)۔

پس اس آیت کو نازل کرکے اللہ تعالیٰ نے ہلالوں کے بارے میں پوچھنے والوں کے سوال کا جواب دیا کہ یہ لوگوں کے لیے اوقات معلوم کرنے کے ذرائع ہیں، یعنی  انہی کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے کہ کس وقت میں کونسا شرعی حکم  ادا کرنا ہے۔

 

(اَلاَھِلَّۃُ)یہ ہلال  کی جمع ہے،اس کی اصل' اِھلال' ہے جس کے معنی ہیں، آواز اُٹھانا، عرب لوگ جب چاند دیکھتے تو  گویا نئے مہینے کی آمد کی خوشی میں تکبیر وغیرہ کہہ کر نعرہ لگاتے تھے،بالخصوص  روزہ اور حج جیسی عبادات  پر مشتمل مہینوں کی آمد کے موقع پر۔  اسی مناسبت سے عرب کہتے ہیں : اَھَلَّ القومُ بالحجِ، یہ اس وقت کہتے تھے، جب لوگ حج کا تلبیہ بلند آواز میں پڑھتے،نوزائیدہ بچہ اپنی  ولادت کے وقت بلند آواز میں روتا ہے اس وقت عرب کہتے ہیں : اِستَھَلَّ الصَبیُّ "بچہ رویا" ۔ پس اھلالچاند دِکھنے کے وقت آواز  بلند کرنے کو کہتے ہیں، اس لیے کہا جاتا ہے اُھِلَّ الھِلالُ اسی طرح اِستَھَلَّ بھی کہتے ہیں۔ ھَلَّ نہیں کہتے ہیں کیونکہ ہلال دکھنے کے وقت آواز بلندکی جاتی ہے، یہ نہیں کہ چاند سے کوئی آواز آتی ہے۔(جس کے لیے ھَلَّ بولایا جاتا ہے)۔

 

2- جب اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ ہلال عام احکام اور بالخصوص حج کے اوقات جاننے کا ذرائع ہے،(هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ) تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے امورِ حج میں سے ایک ایسے امر کا ذکر فرمایا جو زمانۂ جاہلیت میں رائج تھا اورجس کو اہل ِجاہلیت نیکی کی علامت خیال کرتے تھے۔ وہ لوگ جب حج کا احرام باندھ لیتے تھے اور اپنے گھر ،خیمے یا باغ وغیرہ میں جانا پڑتا تو اس کے دروازہ  سے داخل ہونے کی بجائے پشت کی جانب سےدیوار پھلانگ کر آتے تھے، اور اِس کو نیکی شمار کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں آگاہ فرمایا کہ جس امر کو وہ نیکی خیال کرتے ہیں،ہرگزنیکی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نےگھروں میں دروازو ں سے داخل  ہونے کو مباح قرار دیا ہے، بغیر کسی دلیل و برھان کے اس کو تبدیل کرکے پشت کی طرف سے دیوار پھلانگ کرآنا کیسے نیکی ہوسکتی ہے،بلکہ نیکی تو اللہ تعالیٰ کے تقویٰ و خشیت اور اس کی شریعت کی پابندی کرنے میں ہے۔ لہٰذا گھروں میں پشت کی جانب سے آنے کا یہ انداز چھوڑ کر  دروازوں سے داخل ہوجایا کرو، اور وہ کام کرو جس کا حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے،اور اس کے حرام کردہ امور سے بچتے رہو،ایسا کرکے تم فلاح پاسکتے ہو۔

 

اور چونکہ آیت کا موضوع وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا ،جیسا کہ بخاری ؒ نے البراءؓ سے یہ قول روایت کیا ہے: " جاہلیت میں وہ لوگ جب احرام باندھ لیتے تھے، تو گھروں میں پشت کی جانب سے آتے تھے،اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اُتاری(( وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا))" نیکی یہ نہیں کہ گھروں میں پشت کی  طرف سے آؤ۔" چنانچہ اَولیٰ یہی ہے کہ ان الفاظ کو اپنے صریح معنوں میں استعمال کیا جائے،جن کے لیے الفاظ کو وضع کیا گیا ہے،یعنی  گھروں کے حقیقی دروازے اور ان کی حقیقی پشت۔

 

مگر یہاں کنایۃ کا معنی لینا بھی ممنوع نہیں،پس گھروں میں دروازوں سے آنا اور پشت کی جانب سے نہ آنا یہ تو ہے آیت کا حقیقی اور صریحی معنی جس کو موضوع لہٗ کہتے ہیں، مگر آیت کی دلالت سے معلوم ہوتا ہےکہ تمام کام اس انداز سے کیے جائیں جیسے کرنے چاہئیں ،الٹ کام نہ کیے جائیں۔ کام کو درست  انداز سے کرنے کی بجائے الٹ کام کرنااصل رستے سے ہٹنا  اور حیلہ بازی کرنا ہے۔

 

عربوں کے ہاں جہاں لفظ میں گنجائش ہو تو وہ صریح اور کنایہ کے طور پر لفظ کا استعمال جائز سمجھتے ہیں، مثلا وہ کہتے ہیں( نَؤُمُ الضُّحیٰ) اس کو کبھی صریح معنوں میں استعمال کرتے ہوئے یہ معنی لیتے ہیں کہ چاشت  تک سوتا رہنے والا، کیونکہ وہ مخدوم ہے ،کوئی اس سے کسی کام کا مطالبہ کرنے والا نہیں، اور کبھی انہی الفاظ کوسسُتی اور کا م کی طاقت نہ ہونے کے لیے کنایۃً استعمال کرتے ہیں۔

 

اس  آیت (وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا) سے اس کے صریحی معنی بھی لیے جاسکتے ہیں کہ انہیں گھروں میں دروازوں سے آنا چاہیے پشت کی طرف سے نہیں،اور یہی اس آیت کے نزول کا موضوع ہے، اور اس کے ساتھ کنایہ کا معنی بھی لیا جاسکتا ہے، کہ تمام کام درست طریقے سے کیے جائیں ،الٹ طریقے سے نہیں۔

 

(وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا) اس  آیت میں(البرُّ )کو رفع(پیش) کے ساتھ پڑھا گیا ہے،تمام متواتر قرائتوں میں ایسا ہے۔ اور اس آیت میں لَیسَ کی خبر بھی متعین ہے،یعنی( أن تأتو البیوت)  جو کہ مصدر مؤول ہے، کیونکہ باء  ( جو کہ حرف جر زائد ہے) وہ لیس کے اسم پر داخل نہیں ہوتی ، بلکہ اس کی خبر پر داخل ہوتی ہے۔ 

 

جبکہ سابقہ آیت شریفہ (لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ)میں (البرُّ)کو نصب(زبر)اور رفع(پیش) دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے، اور یہ دونوں قرائتیں رسول اللہ ﷺ سے متواتر آئی ہیں۔ رفع والی قرآت کے مطابق البرُّ مرفوع ہے اور یہ لیس کا اسم ہے، اور اس کی خبر تَولِیۃٌہے جو  (أَن تُوَلُّوا ) مصدر مؤول سے لیا گیا ہے،اور (أَن تُوَلُّوا) لیس کی خبر واقع ہونے کی وجہ سے نصب کے مقام پرہے۔ نصب والی قرائت میں (یعنی جب البرَّ پر زبر پڑھا جائے) البرَّلیس کے لیے خبر مقدم ہے، اور مصدر مؤول رفع کے محل میں لَیسَکا اسمِ مؤخر ہے۔    

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک